انسان کا ظاہر اس کے باطن کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں لوگوں کے ظاہر کے اعتبار سے ان کے ساتھ برتاو کرتے ہیں۔ ہم کسی کے باطن سے تو آگاہ نہیں ہوتے۔ فارسی زبان کا محاورہ ہے'' از کوزہ ھمان برون تراود کہ در آن است‘‘ کوزے سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں ہے۔
انسان ہر برائی کرتا رہے برے کام انجام دیتا رہے اس کے بعد کہے کہ ''دل کا پاک ہونا کافی ہے ‘‘ یہ بہت ہی نامعقول اور جاہلانہ بات ہے۔ اگر ہم تھوڑا غور و فکر کریں تو یہ سمجھ میں آئے گا کہ پاک دل وہ ہوتا ہے جس سے اللہ کی کوئی نافرمانی سرزد نہ ہو، جو اللہ کے احکام کی اطاعت کرے۔ اللہ کی اطاعت کے بعد انسان کا دل پاک ہو سکتا ہے اس لیے کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو ایک سیاہ دھبہ اس کے دل پر پڑ جاتا ہے اور جب وہ گناہوں میں اصرار کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی رہتی ہے یہاں تک کہ انسان کو پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور یہ سیاہی اور آلودگی اس کے دل کو ناپاک کر دیتی ہے۔ اس کا دل اللہ کا نہیں بلکہ شیطان کا گھر بن جاتا ہے اس صورت میں وہ گناہ کر کے بھی شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ جرات کے ساتھ کہتے ہیں گناہ کرنے سے ہمارے دل پر کوئی اثر نہیں پڑتا برائی سے ہماری صحت خراب نہیں ہوتی حالانکہ وہ پہلے سے کینسر کے مریض ہوتے ہیں ان دلوں کو سرطان کی بیماری لاحق ہو چکی ہوتی ہے، لہذا ایک انسان بے حجابی کر کے اللہ کی نافرمانی کرے سماج کو آلودہ کرے دوسروں کو گمراہ کرے اس کے بعد کہے کہ ہمارا دل پاک ہے۔ یہ چیز اس کی انتہائی ہٹ دھرمی کی دلیل ہے۔
source : www.abna.ir