اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

سيرت پيغمبر(ص) اور سجدہ

سيرت پيغمبر(ص)  اور سجدہ

متعدّد روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) بھى زمين پر سجدہ كرتے تھے، كپڑے يا قالين و غيرہ پر سجدہ نہيں كرتے تھے-

ابوہريرہ كى ايك حديث ميں يوں نقل ہوا ہے وہ كہتا ہے '' سجد رسول الله (ص) فى يوم مطير حتى أنّى لانظر الى أثر ذلك فى جبہتہ و ارنبتہ'' ميں نے رسولخدا(ص) كو ايك بارانى دن زمين پر سجدہ كرتے ہوئے ديكھا - سجدہ كے آثار آپ كى پيشانى اور ناك پر نماياں تھے-(1)

اگر سجدہ كپڑے يا درى و غيرہ پر جائز ہوتا تو ضرورت نہيں تھى كہ آنحضرت(ص) بارش كے دن بھى زمين پر سجدہ كريں-

حضرت عائشہ نيز فرماتى ہيں '' ما رأيتُ رسول الله متقياً وجہہ بشيئ''ميں نے كبھى نہيں ديكھا كہ آنحضرت(ص) ( سجدہ كے وقت ) اپنى پيشانى كسى چيز سے ڈھانپ ليتے ہوں'' (2)

ابن حجر اسى حديث كي تشريح ميں كہتے ہيں: كہ يہ حديث اس بات كي طرف اشارہ ہے كہ سجدہ ميں اصل يہ ہے كہ پيشانى زمين پر لگے ليكن اگر قدرت نہ ہو تو پھر يہ واجب نہيں ہے-(3)

ايك دوسرى روايت ميں جناب ميمونہ ( رسول اكرم(ص) كى ايك دوسرى زوجہ) سے يوں نقل ہوا ہے كہ ''و رسول الله يصّلى على الخُمرة فيسجد'' پيغمبر اكرم حصير (چٹائي) پر نماز پڑھتے اور اس پرسجدہ كرتے تھے-

اہلسنت كى معروف كتب ميں متعدّد روايات نقل ہوئي ہيں كہ پيغمبر اكرم(ص) '' خمرہ'' پر نماز پڑھتے تھے ( خُمرہ اس چھوٹے سے مصلى يا حصير كو كہتے ہيں جو كجھور كے پتوں سے بنايا جاتا تھا)تعجب يہ ہے كہ اگر شيعہ اسى طرح عمل كريں اور نماز پڑھتے وقت كوئي مصلى بچھا ليں تو ان پر بعض متعصب لوگوں كى طرف سے بدعت كى تہمت لگائي جاتى ہے- اور غصے كے ساتھ انہيں ديكھا جاتا ہے-

حالانكہ يہ احاديث بتاتى ہيں كہ يہ كام پيغمبر اكرم(ص) كى سنت ہے-

كتنے افسوس كا مقام ہے كہ سنّت كو بدعت شمار كيا جائے

مجھے نہيں بھولتا كہ ايك مرتبہ حج كے موقع پر مدينہ ميں، ميں مسجد نبوي(ص) ميں ايك چھوٹى سى چٹائي پر نماز پڑھنا چاہتا تھا تو ايك متعصّب وہابى عالم دين آيا اور اس نے بڑے غصّے كے ساتھ چٹائي اٹھا كر كونے ميں پھينك دى گويا وہ بھى اس سنت كو بدعت سمجھتا تھا-

 

حوالہ جات :

1) مجمع الزوائد، جلد 2، ص 126-

2) مصنف ابن ابى شيبہ ، جلد 1 ، ص 397-

3) فتح البارى ، جلد1، ص 404-

 

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment