اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

خاندانی نفسیات کے اصول صحت کی تمہید

اس مقالہ میں صحیح سالم فیملی میں بیوی اور شوہرکی خصوصیتوں اور خاندان کے سالم معیار زندگی کے مختلف پہلووں کومد نظر رکھتے ہوئے جیسے عاطفی ،سماجی ، شناختی ، اخلاقی موضوعات کو بیان کیاجائیگا۔اس میں ان موضوعات سے بھی بحث کی جا ئیگی جیسے محبت ،خوش وخرمی ،عاطفی پہلو میں خاندان کی نفسیاتی صحت کے انفرادی فرق کا کردار ، خانوادے کے سماجی پہلو ،خاندان میں محکم روابط کا ایجادکرنا اور اس کا سماج میں مقبول ہو نا وغیرہ۔ شناختی حصے میں سالم خاندان میں پرورش پانے والے بچے کی ذہنی نشوونما کے کردار کو پہچنوایا جا ئیگا ،اس کے بعد جنسی تربیت،اقتصاد کی وسعت اوور اخلاقی صفات کاجائزہ لیا جائیگا۔

 

مقدمہ :

خاندانی زندگی میں استبداد اور تشدد کے ساتھ مرد کی حاکمیت اس طرزتفکرکے سبب کہ مرد عورت پر برتری رکھتاہے ایک طر ف،اور جدید مغربی دنیا کے طرزتفکر سے مرعوب ماڈرن خانوادہ کی بدلتی حالتوں کے نتائج دوسری طرف ،ان دونواں نے ملکر خاندان کی نفسیاتی صحت کو خطرے میں ڈال دیا ہے فرد گرائی، فیمنسٹی مکتب کے افکا ر ،خدا کے بغیر انسانی اصالت کی فکر، سماجی تغیّر وتحوّل کے ساتھ لیبرالسٹی افکار ،مشینی زندگی،شہر نشینی ،ایک ثقافتی قالب میں پوری دنیا کی یکسانیت،واحد اقتصاد کا ہونا اور ایک ہی اقدار کی وسعت نے سماج کے بدلتے ہوئے حالات کو اتنی تیزی بخش دی ہے کہ اسکی کم سے کم قیمت خاندان کے افراد کی ایک دوسرے سے جدائی قرار پاتی ہے۔اسی وجہ سے خاندان کی بنیا دسماج کی اصلی ترین بنیاد ہو تے ہوئے بھی اپنی حداقل کا ر کردگی کے ساتھ جیسے اسکا پہلی اور اساسی درسگا کاہونا اقتصادی ضرورتوں کا پوراکرنا ،جنسی آسودگی ،عاطفی ضرورتوں کی برآوری ،نسل کا بڑھا نا ،حمایت اور حفاظت کر نا ،سماج کو قبول کرنا ،دینی اقدار کو دوسروں تک منتقل کرنا متزلزل ہوتی نظرآرہی ہیں۔ دوسری طرف یہ کہ بعض سماج میںکہ جیسے افغانستان کہ جس میں کئی دہائیوں سے جنگ کے سبب ناگہانی طور سے خاندان کے کسی کسی فرد کا مفقود ہو جا نا اور اس کے بعد بہت سی مشکلات اور مصیبتوں کا آنا ،اقتصادی فکریں،نا امنی کا احساس ،بیکاری ،خاندانی تشدد،ازدواجی مہارتوںپر عدم توجہی ا ور اولاد کی تربیت کی کیفیت سے نا آگاہی ،روایتی اور جدیداقدار کا ٹکراوٴاور بہت سے مسائل اور کرداروں سے لا علمی ،سبب ہوئے ہیں کہ خاندان کی ایک چھوٹی سی دنیاکی مشکلات میں دو چندان اضافہ کردیں۔اب سوال یہ ہے کہ صحیح وسالم فیملی کی کیا خصوصیتیں ہو نا چا ہیے ؟کس طریقہ سے فیملی کی نفسیا تی صحت میں مدد کی جا سکتی ہے ؟

اجتماعی زندگی کی اکائی اورپہلا عنصر اور معاشرے کا بنیادی حصہ ہے۔یہ خانوادہ ایک یا چند عورتوں سے کہ جو ایک مرد یاچند مردوں کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں تشکیل پاتاہے ممکن ہے اس میں بچے بھی پائے جا تے ہوں۔معاشرے میں قبول شدہ ازدواجی تعلقات اور اشخاص کے وظائف، خانوادہ کی خصوصیات میں شما ر کئے جا تے ہیں (۱)

سلامت :سلامتی ،یاسلامتی کا پایا جا نایہ ہے کہ ”رنج وبیماری کے نا ہونے کے سا تھ جسمی ،ذہنی اور سماجی آسائیشوں سے پوری طرح بہرہ مند ہونا (۲)اسی وجہ سے سلامتی کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ بیما ری ،رنج وغم ،گناہوں کا احساس ،احساس کمتری ،سستی وکسالت ،یا دوسری جسمی اورنفسیاتی بیماریوں سے محفو ظ ہو ں بلکہ سلامتی یہ ہے کہ انسان عقلی ،سماجی جسمی کارکردگی پر پور ی طرح قدرت رکھتا ہو۔

 

نفسیاتی حفظان صحت کے اصول :

عالمی حفظان صحت کے ادارہ نے نفسیاتی صحت کی اس طرح تعریف کی ہے۔”نفسیاتی صحت، حفظان صحت کے اصول کے مصادیق میں سے نہیں ہے، بلکہ صحت یہ ہے کہ انسان جسمی ،روحی اور سماجی رول کو کامل طریقے سے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتاہو ،لہٰذاصحت وسلامتی فقط بیما ری کا عدم وجو د یاپچھڑا پن نہیں ہے (۳)

صحیح وسالم خانوادہ کی خصوصیت :صحیح وسالم خانوادہ بہت سی خصوصیتوں کا حامل ہو تا ہے اِس کی بہت سے نظریا ت کی بنیا د پرمختلف تعریف کرسکتے ہیں، اجمالی طور سے یہ کہ سکتے ہیں  ،صحیح وسالم خانوادہ کا نمونہ یہ ہے کہ وہ جسمی اور روحی سلامتی کے باوجود،زندگی کے اصلی رول کے ادا کرنے میں کا میاب ہو۔

 

خاندانی زندگی کی صحت کے بنیادی اصول :

خانوادہ کے اصول صحت میں سے ایک یہ ہے کہ شریک حیات کا انتخاب کر نے میں توجہ سے کا م لیا جائے۔

 

شریک حیا ت کا انتخاب :

شریک حیات کا انتخاب کر نے میں ضروری ہے مد مقابل کے خاندان کی جسمی ،روحی ، اخلاقی ، تربیتی اور خود اس کی ذاتی سلامتی کومد نظر رکھا جا ئے۔بہت سے جسمی صفات جیسے ظاہری شکل وصورت ،شخصیتی صفات جیسے شجاعت ،ذہنی صفات جیسے سمجھ بوجھ کی مقدار یہ سب خاندانی وراثت سے تعلق رکھتی ہیں (۴)

صحیح وسالم خاندان کے تربیتی اور فضائی اسباب کی طرف توجہ رکھنے کے علاوہ اس کے مورثی اسباب کی طرف بھی توجہ رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام ایسی شریک حیا ت کی تلاش میں تھے کہ جس سے ایک شجاع فرزند معرض وجود میں آئے لہٰذا آپ نے جناب فاطمہ (ام البنین) سلام اللہ علیہا سے شادی کرنے سے پہلے اپنے بھا ئی سے مشورہ کیا اور انہوں نے قبائل عرب میں سے ام البنین  کو اس بنیا د پر چُنا کہ ان کا خاندان شجاعت میں اپنی نظیرآپ تھا اور اس مشورہ کو حضرت علی  -نے بھی قبول کیا،لہٰذا کہاجا سکتا ہے کہ ایک صحیح وسالم خانوادہ کی تشکیل میں صحیح وسالم شریک حیا ت کا ہو نا بہت ضروری ہے۔ جبری اور مصلحتی شادیوں کا خاندان کے نفسیات پر بُرا اثر ڈالنے میں بہت بڑا کردار ہو تا ہے۔

 

خانوادہ کی سلامتی کاعا طفی معیار  :

۱۔محبت :انسان بدن کی بنیادی ضرورتوں جیسے آب وہوا ،غذا اور مکان کے علاوہ روحی ،عاطفی اور امنیتی ضرورتوں کابھی محتاج ہے۔انہیں ضرورتوں میں سے ایک محبت اور چاہت بھی ہے ،اس کو خانوادہ کی تشکیل میں بنیادی عنصر قرار دیاجاسکتا ہے۔دوسری طرف یہ بھی کہ اسی محبت اور چاہت کو خانوادہ کی مضبوطی اور دوام کا سبب بھی شما ر کیا جا تاہے اسی وجہ سے قرآن مجید نے کھلے الفاظ میں اعلان کیا ہے < ومن آیاتہ اٴن خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی ذالک لآیا ت لقوم یتفکرون>(۵)اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس  نے خود تم میں سے  ہی تمہاری ازواج کو پیدا کیا تاکہ ان کے پاس تم سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت او رمہربا نی کو قرار دیا ، ان (آیات) میں غور فکر کرنے والو ں کے لیے عبرتیں ہیں۔

عورت اور مرد کاایک دوسرے کی طرف ما یل ہو نے کی وجوہاتمیں سے ایک وجہیہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ذریعہ اپنی کمیوں اور ضرورتوں کو پوراکرسکتے اور کمال کی منزلوں کو طے کرسکتے ہیں (۶)اگر انسان کی طبیعی محبت کی ضرورت کو شریک حیات پوری نہ کر سکے تو بہت ممکن ہے کہ اس  کے بہت برے نتائج سامنے آئیں جیسے نفسیا تی جمود ،شخصیتی خلل ،کمتری اور کم اہمیتی کا احساس ،دوستی کے قابل نہ ہو نے کا اضطراب وغیرہ۔

محبت کرنا اس چیز کے علاوہ کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہے خانوادہ کی مضبوطی ،چاہت بے تکلفی اور محکم روابط کو پیدا کرنے میں موٴثر ہوتا ہے لہٰذا اس طرح  خانوادہ تنہائی سے نکلنے کا ایک معقو ل راستے کا تجربہ کرسکتا ہے اور دائمی روابط کو ایجاد کرنے میں ایک آسان راستہ ڈھونڈ سکتاہے ، بعبارت دیگر تنہا ئی اور گوشہ نشینی کی زندگی کے احساسات کو ختم کرسکتا ہے۔

عاطفی اور صمیمی فضا کے ہموار کرنے میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ پہلے ہم خود دوسروں کی طرف سے  برے خیالات کوذہن سے نکال دےں،  دوسرے کے دل دکھانے کو اپنے اچھے افکا ر کی برابر وسعت نہ دیں، اگر پہلے کبھی کسی کی نفرت ہمارے دل میں گھر بھی کر گئی تھی  تواس کوباہر کر دیں۔

 

محبت اور اولاد :

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس کی زندگی کے ابتدائی ایام میں ماں کا وجود اس کی حیات کا ضامن ہو تا ہے ماں اس کے وزن بڑھا نے ، کم رونے ،زیادہ ہنسنے کے وسائل فراہم کرتی ہے۔نو نہال بھی باپ کی جسمانی حرکا ت کو دیکھ کر لذت محسوس کر تا ہے وہ افراد جو بچپنے میں خانوادہ کی محبت سے محروم رہتے ہیں ان میں رنج وغم کا زیادہ احساس ہو تاہے۔ اننچاس ۴۹/ مختلف کلچر ورںمیں اور قیدیوں کے اوپر تحقیق کرنے سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ گود میں کھلا نے اور بدن سے چمٹانے کی محرومیت ، بیگانگی ، اجنبیت ،حواس باختگی تند مزاجی یہا ں تک کے الکحلی مواد کے استعمال کرنے میں بنیا دی سبب بناہے اسی وجہ سے والدین کا بچوں سے جسمانی نوازشوںسے دریغ کرنا سبب بنتا ہے کہ ایسے فرزندوں کو سماج کے سپرد کریں کہ جو دوسروں کے ساتھ میل جو ل کر نے سے عاجز ہو ں اور ہمیشہ بدسلوکی اور ضرب وجرح جیسے کا موں پر تلے رہیں۔ زندگی کے پہلے سالوں اور طویل عرصہ میں عشق محبت کافقدان بر ے نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ (۷)

اگر زندگی میں ما ںباپ کی مشغولیات یا دونوں میں سے کسی ایک  کا تربیت پر مہارت نہ رکھنے کی وجہ سے ہم میں سے کو ئی ان کی محبت سے محروم رہا ہے تو ہم کو اس کی فکر کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو صحیح طرح سمجھنا چاہیے۔

لہٰذا اگر ہم سفر کا ارادہ رکھتے ہو ں تو اپنی اولا د کو لپٹائیں ،گود میںلیں اور اپنی چاہت سے ان کی محبت کی پیا س بجھائیں اس طریقے سے ہم با اعتما د، محبت کرنے والے اور نفسیا تی لحاظ سے صحیح وسالم بچوں کو معاشرے کے سپرد کرسکتے ہیں۔

 

۲خانوادہ میں خوشی وخرمی :

خوشی وخرمی کا وجود خاندان میں محبت کی لہر ایجا د کر تا ہے اورہمیشہ ،توانائی ،اعتماد نفس اور عزت نفس کو بڑھاوادیتا ہے ، خاندان کے جوان افراد جوانی کی عجیب غریب امنگوں اور توانائیوں کی وجہ سے بہت زیادہ جوشیلے ،خوش وخرم اور شاداب ہوتے ہیں ، لیکن خوشی فقط نوجوانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اہل خانہ یہا ں تک کے بوڑھے بھی اپنی پرمعنیٰ زندگی کے علاوہ ، اپنی زندگی کے نور نظروں کو پر وان چڑھتے دیکھ کر لذت،شادابی اور رضایت کا احساس کرتے ہیں۔ہم کو یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ زندگی کے ہر موڑپر خوشی ،شادابی اور رضایت کے کسی مو قعہ کو ہا تھ سے نہ جا نے دیں۔

خوشی وخرمی اور شادابی کا احساس اس کے باوجود کہ وہ انسان کو ہدف اور مقصد کی طرف حرکت دینے میں موٴثر ہو تا ہے،منفی احساس جیسے سستی ،خوف اضطراب ،غصّہ، نفرت اور غموں کو بھی دور کرتا ہے۔ اسی لئے نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں ،خوش کرنے والے قصے اچھے نتائج کے حامل ہو تے ہیں جیسے کسی کام میں کامیا بی حاصل کر نا ،دوسروں کے احترام کو جلب کر نا دوسروں کے نزدیک  محبت اور چاہت کی نظر سے دیکھے جا نا، لذت بخش احساسات کا تجربہ کرنا وغیرہ۔پر واضح ہے کہ خانوادہ میںخوشی کا احساس انسان کو مصیبتوں، مشکلوںاور زندگی کے حوادث کے ساتھ مقابلہ کرنے میںتونائی بخشتا ہے ، بعبارت دیگر خوشی اور شادابی کے آثا ر، محبت کا احساس، سماجی اور معاشرتی میل جول کو بہتر بنانے ،لوگوں کی نسبت حسن نیت رکھنے اور مثبت فکر کرنے میں اضافہ کرتے ہےں، زندگی کے نا کا م تجر با ت ، ناامیدی اور منفی عاطفہ کو تعادل عطاکرتے ہیں۔ خوشی کا احساس دلاتے ہیں اور اس حد تک مدد کرتے ہیں کہ انسان زندگی کے ناگوار واقعات میں بھی اپنے ہو ش ہواس کو برقرار رکھتاہے۔گویا یہ ایک راہ ہے جو غم انگیز حوادث کے اثرات کو ناکام بنانے میں مدد گار ثابت ہو تی ہے یہ اسی طرح سے ہے کہ جیسے ماں باپ روٹھے ہوئے بچے کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح کی آوازیں نکا لتے اور انکے سامنے اچھے برے منہ بناتے ہیں (۸)اسی لئے معمولی اور مسلم خانوادوں میں ہمیشہ احساس نشاط اور شادابی کو ایجاد کرنے کے اسباب فراہم ہو تے ہیں نشاط اور شادابی کو پیدا کرنے والے اسبا ب یہ ہیں:

۱۔با مقصد زندگی ہو نا۔

۲۔ جسمی ،روحی اور ذہنی توانا ئی پر مثبت نظریہ۔

۳۔فردی اور جنسیتی فرق پر توجہ :

ہر چند کہ تمام انسان گوہر ہستی میں مشترک ہیں لیکن شخصی صلاحیتیں اور توانائیا ں ہر ایک کی جداجدا ہیں نیز تربیتی اصول بھی مختلف ہیں۔لہٰذا فردی امتیازات سبب ہوتے ہیں کہ مختلف انسان مختلف سلیقوں ،چاہتوں ،امیدوں اور اعمال ورفتار کی شکل میں ظاہر ہوں دوسری طرف سے یہ کہ اشخاص کی مختلف توانائیاں اور ان کی محدودیتیں سبب بنتی ہیں کہ انسان دوسروں کی امیدوں اور چاہتوں پر پورا نہ اتر سکے۔نتیجہً ممکن ہے کہ یہ چےزیں اعضاء خانوادہ کے درمیان اختلاف اور رنجش کا سبب بن جا ئیں اسی لیئے ضروری ہے کہ اشخاص کے فردی، جنسیتی او رتربیتی فرقوں کو مد نظر رکھاجا ئے اور معقول امیدیں ان سے وابستہ کی جا ئیں۔

 

 ۴۔   خاندان میں محکم روابط کا ایجا  دکرنا :

آج ہمارا معاشرہ بہت مہم اور غم انگیز حقیقت سے دچار ہے نسلوں کے شگاف کے نام  پراکثر والدین قبول کرتے ہیںکہ وہ اپنی اولاد کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکے ہیں والدین اور اولاد کے روابط اجنبیوں کے روابط کی طرح ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ والدین ان کے بچپنے میں تو ان سے بہت زیادہ نزدیک ہیں لیکن نو جوانی اور جوانی کے مراحل میںآہستہ آہستہ دور ہو تے چلے گئے ہیں بہت سے والدین سوچتے ہیں کہ اپنی اولا د کے لیے مناسب روٹی کپڑے اور مکان کو  فراہم کر دیں اور بس۔گو یا انہوں نے ان کی خوشبختی اور  امنیت کا ساما ن مہیا کر دیا ہے۔ لیکن ا س مسئلے کی طرف بہت کم توجہ کر تے ہیں کہ اولاد کی مادی او ر آسا ئشی ضرورت کو پورا کرنا ان کی روحی ،روانی اور ہیجا نی ضرورت کے لئے کا فی نہیں ہے۔ان کی روحی اور نفسیا تی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا پہلا قدم یہ ہو نا چاہئے کہ کہ ان کے ساتھ روابط کو استوار کریں۔ دو طرفہ روابط کو استوار کرنا اس طرح ہو نا چاہئے کہ جب بچے نوجوانی کے مرحل میں پہنچے تو ان کے سا تھ تحکما نہ سلوک کی بجائے مدارات کریں اور نوجوانوں کی فکری قدرت اور ان کی نوجوانی کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ اپنائیت، صمیمیت اور دوستوں کی طرح پیش آئیں، ان کی شخصیت، ان کے افکا ر کا احترام کریں اور ہمدلی اور انہیں کی زبان میں ان کی ضرورتوںکا  جواب دیں اگر ظاہراََ ان کے افکارخاندانی اقدار سے میل نہ کھاتے ہوں تو قہرو خشونت کے ساتھ ان کے اوپر بے دینی کی مہر نہ لگائیں بلکہ شناختی طریقے سے ان کی شخصیت یابی میں ان کی مدد کریں کہ وہ رشد کے اس مرحلے سے گذر جا ئیں۔ اس کام کو عجولانہ انجا م نہ دیںبلکہ روز مرہ کی زندگی میں، کھاناکھاتے وقت ،جب ایک ساتھ مل کر کوئی کا م کررہے ہیں تو بات کریں۔ اور یہ کوشش کرنا چاہئے کہ ہماری باتو ں میں آمرانہ ا ورنصیحت آمیز پہلو نہ ہو بلکہ ہما را انداز بطو ر مشاورہ ہونا چاہئے۔اس طریقے کے روابط کو ایجا د کر نا علاوہ اس کے کہ خاندانی روابط کو استوار کرتا ہے خاندان کی نفسیا تی سلامتی کو بھی کمک پہنچاتا ہے اور سماجی ،خاندانی اور دینی اقدار کو منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس طریقے سے ہم اپنی اولاد کے لئے بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔

 

۲۔سماج کو قبول کرنا۔

حال حاضرکی سماجی زندگی ،پیچیدہ ر وابط، مختلف نظریات، متفاو ت تربیتی حالات اور معاشرے میںبعض اقدارکے ٹکراوٴکی وجہ سے لوگ ماڈرن زمانے کی مشکلات کے ہو تے ہوئے سماج کے ساتھ نہیںچل سکتے اسی لئے انسان کے اجتماع کو قبول کرنے میں خانوادہ کا ایک بہت بڑا کردار ہوتا ہے آج بہت سے نفسیات کے ماہرین سماج کے ساتھ قدم بڑھانے کو انسان کے نفسیاتی معیار کا سالم ہو نا جا نتے ہیں (۹) لہٰذا اگر کوئی سماج کے ساتھ چلنے میں نا کا م رہ جا تا ہے تو اس کو نا ساز گا ر سمجھتے ہیں مثلا دینی سماج کی اقدار میں سے ایک قدر پردہ ہے اگر کو ئی خاتون اس معیار  پر پوری نہ اتر سکے تو اجتماع کی اکثریت کی نظر میں اس کی یہ روش ناہنجاری سمجھی جا ئیگی یاا گر کوئی شخص ڈرائیوری کر تے وقت ٹریفک کے قوانین کی رعایت نہ کرے تو اس کی یہ حرکت اجتماعی نا ہنجا ری شمار ہو گی۔خاندان وہ پہلی درس گاہ اور بنیادی مکتب ہے کہ جو بچے کو دینی اور اجتماعی اقدارکو سکھا سکتا ہے تاکہ لوگوں کی تنبیہ اور ضمیر کے خورد ہو نے سے دچار نہ ہو سکے۔اور ایک ناساز گا راور الگ تھلگ رہنے والا فرد نہ بن سکے ( ۱۰) لہٰذا خانواد ہ کافریضہ ہے کہ بچوں کے لئے سماجی تر بیت کی رو سے ایک منا سب مقام حاصل کرنے کا زمینہ فراہم کرے اور اس میں خو د اعتمادی صلاحیتوں کو فعلیت تک پہنچانے اور پھلنے پھولنے کے احساسات کو بیدار کرے اور اس کے مناسب شغل کو انتخاب کرنے میں اس کی کمک کرے تا کہ وہ سماج میں ایک منا سب مقام حاصل کر سکے۔


source : www.taqrib.info/urdu
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پوری دنیا میں ظلم کا شکار شیعہ مسلمانوں کو عالمی ...
کشمیر کی تحریک آزادی میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق ...
دہشت گردی کے واقعات استحکام پاکستان کے خلاف گہری ...
یمن پر تھونپی گئی چار سالہ تباہ کن جنگ میں سعودی ...
جنوبی افریقہ؛ ڈربن میں ایک رات قرآن کے ساتھ
پاکستان میں اہدافی دہشتگردی کا ایک اور سانحہ، ...
صاحبزادہ حامد رضا: کشمیر جل رہا ہے اور عالمی ...
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کی جارحیت جاری، مزید 2 ...
پاراچنار کے متاثرین عوام نے نواز شریف کی امداد ...
صحیح بخاری پر ایک اجمالی نظر

 
user comment