اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

امام ہادی علیہ السلام کے چند فضائل و کمالات

امام علیہ السلام معتمد عباسی پر بہت گراں گذر رہے تھے چونکہ امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام ؑ(ع) کے فضائل شائع ہوئے تو اس کو امام ؑسے حسد ہو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوں اور دین سے اُن کی والہانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تو وہ اور جلتا آخر کار اُس نے امام علیہ السلام کو زہر ہلاہل دیدیا۔

از قلم: افتخار علی جعفری

امام ہادی علیہ السلام کے چند فضائل و کمالات

امام علی نقی علیہ السلام ائمہ ہدیٰ کی دسویں کڑی ہیں آپ محافظ اسلام اور تقوی وایمان کے ستاروں میں سے ہیں ،آپ نے طاغوتی عباسی حکمرانوں کے سامنے حق کی آوازبلندکی،اورآپ نے اپنی زندگی کے ایک لمحہ میں بھی ایسی چیز قبول نہیں کی جس کاحق سے اتصال نہ ہو،آپ نے ہرچیزمیں اللہ کی اطاعت کی نشاندہی کرائی۔۔۔ہم ذیل میں آپ کے چند فضائل و کمالات کی طرف مختصر طورپراشارہ کر تے ہیں:
آپ کاجود و کرم
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اورسب سے نیکی و احسان کرنے والے تھے۔آپ کے جودوکرم کے بعض واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
۱۔اسحاق جلّاب سے روایت ہے:میں نے یوم الترویہ (۸ ذی الحجہ)امام علی نقی علیہ السلام کے لئے بہت زیادہ گوسفندخریدے جن کوآپ نے تمام دوستوں واحباب (۱) میں تقسیم فرمادیا۔شیعوں کے بزرگ افراد کی جماعت کاایک وفدآپ ؑ کے پاس پہنچاجس میں ابوعمروعثمان بن سعید، احمد بن اسحاق اشعری اور علی بن جعفر ہمدانی تھے ،احمد بن اسحق نے آپ سے اپنے مقروض ہونے کے متعلق عرض کیا توآپ ؑ نے اپنے وکیل عمروسے فرمایا:''ان کواورعلی بن جعفر کوتین تین ہزاردیناردیدو‘‘،آپ کے وکیل نے یہ مبلغ ان دونوں کوعطاکردی۔
ابن شہرآشوب نے اس علوی کرامت بیان پر یہ حاشیہ لگایا:(یہ وہ معجزہ ہے جس پر بادشاہوں کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ہوسکتا اور ہم نے اس طرح کی عطا وبخشش کے مثل کسی سے نہیں سنا ہے ۔(۲)
امام ؑ نے ان بزرگ افراد پر اس طرح کی بہت زیادہ جودوبخشش کی اور انہیں عیش وعشرت میں رکھااور یہ فطری بات ہے کہ بہترین بخشش کسی نعمت کا باقی رکھناہے ۔
۲۔ابوہاشم نے امام ؑ سے اپنی روزی کی تنگی کا شکوہ کیا اور امام ؑ نے آپ پر گذرنے والے فاقوں کا مشاہدہ فرمایاتوآپ نے اس کے رنج وغم کودورکرنے کیلئے اس سے فرمایا!''اے ابوہاشم! تم خودپر خدا کی کس نعمت کاشکریہ اداکرناچاہتے ہو؟اللہ نے تجھے ایمان کارزق دیااوراس کے ذریعہ تیرے بدن کوجہنم کی آگ پرحرام قراردیا،اس نے تجھے عافیت کارزق عطاکیاجس نے اللہ کی اطاعت کرنے پرتیری مددکی اور تجھے قناعت کارزق عطاکیاجس نے تجھے اصراف سے بچایا‘‘۔
پھر آپ ؑ نے اس کو سو درہم دینے کا حکم صادر فرمایا۔(۳)
امام علی نقی ؑ نے لوگوں کو جو نعمتیں دی ہیںیہ وہ بہت بڑی نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کوعطا کی ہیں ۔
امام ؑ کا اپنے مزرعہ (زراعت کرنے کی جگہ )میں کام کرنا
امام ؑ اپنے اہل و عیال کی معیشت کیلئے مزرعہ میں کام کر تے تھے ،علی بن حمزہ سے روایت ہے :
میں نے امام علی نقی ؑ کو مزرعہ میں کام کرتے دیکھا جبکہ آپ ؑ کے قدموں پر پسینہ آرہا تھا ۔میں نے آپ ؑ کی خدمت با برکت میں عرض کیا :میری جان آپ ؑ پر فدا ہو! کام کرنے والے کہاں ہیں ؟
امام ؑ نے بڑے ہی فخر سے اس کے اعتراض کی تنقید کر تے ہوئے یوں فرمایا: ''زمین پربیلچہ سے کام ان لوگوں نے بھی کیاجو مجھ سے اور میرے باپ سے بہتر تھے ؟‘‘۔
وہ کون تھے ؟
''رسول اللہ(ص) ،امیر المو منین اور میرے آباء سب نے اپنے ہاتھوں سے کام کیا ،یہ انبیاء مرسلین ،اوصیاء اور صالحین کا عمل ہے ‘‘۔(۴)
ہم نے یہ واقعہ اپنی کتاب ''العمل و حقوق العامل فی الاسلام ‘‘میں ذکر کیا ہے ۔اسی طرح ہم نے کام کی اہمیت پر دلالت کرنے والے دوسرے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ انبیاء اور صالحین کی سیرت ہے ۔
آپ ؑ کا زہد
حضرت امام علی نقی ؑ نے اپنی پوری زند گی میں زہد اختیار کیا ،اور دنیا کی کسی چیز کو کو ئی اہمیت نہیں دی مگر یہ کہ اس چیز کا حق سے رابطہ ہو ،آپ ؑ نے ہر چیز پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ راویوں کا کہنا ہے کہ مدینہ اور سامراء میں آپ ؑ کے مکان میں کو ئی چیز نہیں تھی ،متوکل کی پولس نے آپ ؑ کے مکان پر چھاپا مارا اور بہت ہی دقیق طور پر تلاشی لی لیکن ان کو دنیا کی زند گی کی طرف ما ئل کر نے والی کو ئی چیز نہیں ملی ،امام ؑ ایک کھلے ہوئے گھر میں بالوں کی ایک ردا پہنے ہوئے تھے ،اور آپ ؑ زمین پر بغیر فرش کے ریت اور کنکریوں پر تشریف فرما تھے ۔
سبط احمد جوزی کا کہنا ہے : بیشک امام علی نقی ؑ دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے ، آپ ؑ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ہوں ،جب آپ ؑ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعاؤں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا ۔
حضرت امام علی نقی ؑ اپنے جد امیرالمو منین ؑ کی طرح زندگی بسر کر تے تھے جو دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ،انھوں نے دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع نہیں کیا جاتا ہے ،اپنی خلافت کے دوران انھوں نے مال غنیمت میں سے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ نہیں لیا ،آپ ؑ کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے شکم پر پتھر باندھتے تھے،وہ اپنے ہاتھ سے لیف خرما کی بنا ئی ہو ئی نعلین پہنتے تھے، اسی طرح آپ ؑ کا حزام ''تسمہ ‘‘ بھی لیف خرما کاتھا ،اسی طریقہ پر امام علی نقی ؑ اور دوسرے ائمہ علیہم السلام گامزن رہے انھوں نے غریبوں کے ساتھ زندگی کی سختی اور سخت لباس پہننے میں مواسات فرما ئی ۔
آپ کا علم
حضرت امام علی نقی ؑ علمی میدان میں دنیا کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتے تھے ،آپ ؑ تمام قسم کے علوم و معارف سے آگاہ تھے ،آپ ؑ نے حقائق کے اسرار اور مخفی امور کو واضح کیا ،تمام علماء و فقہاء شریعت اسلامیہ کے پیچیدہ اور پوشیدہ مسا ئل میں آپ ؑ ہی کے روشن و منور نظریے کی طرف رجوع کرتے تھے ،آپ ؑ اور آپ ؑ کے آباء و اجداد کا سخت دشمن متوکل بھی جس مسئلہ میں فقہا میں اختلاف پاتا تھا اس میں آپ ؑ ہی کی طرف رجوع کر تا تھا اور سب کے نظریات پر آپ ؑ کے نظریہ کو مقدم رکھتا تھاہم ذیل میں وہ مسائل پیش کررہے ہیں جن میں متوکل نے امام ؑ کی طرف رجوع کیا ہے :
۱۔متوکل کا ایک نصرا نی کاتب تھا جس کی بات کو وہ بہت زیادہ مانتا تھا ،اس سے خالص محبت کرتا تھا ،اس کا نام لیکر نہیں پکارتا تھا بلکہ اس کو ابو نوح کی کنیت سے آواز دیا کر تاتھا، فقہا ء کی ایک جماعت نے اس کو ابو نوح کی کنیت دینے سے منع کرتے ہوئے کہا :کسی کافر کومسلمان کی کنیت دینا جا ئز نہیں ہے ، دوسرے ایک گروہ نے اس کو کنیت دینا جا ئز قرار دیدیا،تو اس سلسلہ میں متوکل نے امام ؑ سے استفتا کیا۔امام ؑ نے اس کے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعدیہ آیت تحریر فرما ئی :(تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ )،(۵) ''ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیں اور وہ ہلاک ہو جا ئے ‘‘۔امام علی نقی ؑ نے آیت کے ذریعہ کافرکی کنیت کے جواز پردلیل پیش فرما ئی اور متوکل نے امام ؑ کی رائے تسلیم کر لی ۔(۶)
۲۔متوکل نے بیماری کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نذر کی کہ اگر میں اچھا ہو گیا تو درہم کثیرصدقہ دونگا ،جب وہ اچھا ہو گیا تو اُس نے فقہا ء کو جمع کر کے اُ ن سے صدقہ کی مقدار کے سلسلہ میں سوال کیا فقہاء میں صدقہ دینے کی مقدار کے متعلق اختلاف ہو گیا ،متوکل نے اس سلسلہ میں امام ؑ سے فتویٰ طلب کیا تو امام ؑ نے جواب میں ۸۳دینار صدقہ دینے کے لئے فرمایا ،فقہا ء نے اس فتوے سے تعجب کا اظہار کیا ، انھوں نے متوکل سے کہا کہ وہ امام ؑ سے اس فتوے کا مدرک معلوم کرے تو امام ؑ نے اُن کے جواب میں فرمایا : خداوند عالم فرماتا ہے :( لَقَدْ نَصَرَکُمْ اﷲُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَۃٍ )، (۷)''بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے ‘‘اور ہمارے سب راویوں نے روایت کی ہے کہ سرایا کی تعداد ۸۳ تھی ۔(۸)
امام ؑ نے جواب کے آخر میں مزید فرمایا :''حب کبھی امیر المو منین ؑ اچھے نیک کام میں اضافہ فرماتے تھے تو وہ اُن سب کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ منفعت آور ہوتا تھا ‘‘۔(۹)
۳۔اور جن مسا ئل میں متوکل نے امام ؑ کی طرف رجوع کیا اُن میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ متوکل کے پاس ایک ایسے نصرانی شخص کو لایا گیا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا ،جب متوکل نے اُس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ مسلمان ہو گیا ،یحییٰ بن اکثم نے کہا :اس کے ایمان کے ذریعہ اُ س کا شرک اور فعل نابودہو گیا ،بعض فقہا ء نے اُس پر تین طرح کی حد جاری کرنے کا فتویٰ دیا ،بعض فقہا ء نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ،تو متوکل نے یہ مسئلہ امام علی نقی ؑ کی خدمت میں پیش کیا،آپ ؑ نے جواب میں فرمایا کہ اس کو اتنا مارا جائے کہ وہ مرجائے ،یحییٰ اور بقیہ فقہاء نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا :ایسا کتاب و سنت میں نہیں آیا ہے ۔ متوکل نے ایک خط امام ؑ کی خدمت میں تحریر کیا جس میں لکھا : مسلمان فقہا اس کا انکار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خدا اور سنتِ رسول میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا آپ ؑ ہمارے لئے یہ بیان فرما دیجئے کہ آپ ؑ نے یہ فتویٰ کیوں دیا ہے کہ اس کو اتنا مارا جائے جس سے وہ مرجائے ؟
امام ؑ نے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ آیت تحریر فر ما ئی :
(فَلَمَّاجَاءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوابِمَا عِنْدَہُمْ مِنْ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَاکَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِءُون فَلَمَّارَأَوْا بَأْسَنَا قَالُواآمَنَّا بِاﷲِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَابِمَاکُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ )۔(۱۰)
''پھر جب اُن کے پاس رسول معجزات لیکر آئے تواپنے علم پر ناز کرنے لگے ،اور نتیجہ میں جس بات کا مذاق اڑارہے تھے اسی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے ۔پھر جب انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررہے ہیں ‘‘۔
اور متوکل نے امام ؑ کا نظریہ تسلیم کر لیا۔(۱۱)
امام ؑ کے امتحان کے لئے متوکل کا ابن سکیت کو بلانا
متوکل نے ایک بہت بڑے عالم دین یعقوب بن اسحاق جو ابن سکیت کے نام سے مشہور تھے کو امام علی نقی ؑ سے ایسے مشکل مسائل پوچھنے کی غرض سے بلایا جن کو امام ؑ حل نہ کر سکیں اور اُ ن کے ذریعہ سے امام ؑ کی تشہیر کی جا سکے ۔ابن سکیت امام علی نقی ؑ کا امتحان لینے کیلئے مشکل سے مشکل مسائل تلاش کرنے لگا کچھ مدت کے بعد وہ امام ؑ سے سوالات کرنے کیلئے تیار ہو گیا تو متوکل نے اپنے قصر (محل )میں ایک اجلاس بلایاتو ابن سکیت نے امام علی نقی ؑ سے یوں سوال کیا :
اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ کو عصا اور ید بیضا دے کر کیوں مبعوث کیا ،حضرت عیسیٰ کو اندھوں ، برص کے مریض اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے کیوں مبعوث کیا، اور حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو قرآن اور تلوار دے کر کیوں مبعوث کیا ؟
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں یوں فرمایا :''اللہ نے حضرت مو سیٰ ؑ کو عصا اور ید بیضا دے کر اس لئے بھیجا کہ ان کے زمانہ میں جادو گروں کا بہت زیادہ غلبہ تھا ،جن کے ذریعہ ان کے جادو کومغلوب کردے، وہ حیرا ن رہ جا ئیں اور ان کے لئے حجت ثابت ہو جا ئے ،حضرت عیسیٰ ؑ کواندھوں اور مبروص کوصحیح کرنے اور اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے کیلئے مبعوث کیا کیونکہ ان کے زمانہ میں طبابت اور حکمت کا زور تھا، خدا وند عالم نے آپ ؑ کو یہ چیزیں اس لئے عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ اُن کو مغلوب کردیں اور وہ حیران رہ جا ئیں ،اور حضرت محمد ؐ کوقرآن اور تلوار دے کر اس لئے مبعوث کیا کیونکہ آپ ؐ کے زمانہ میں تلوار اور شعر کا بہت زیادہ زور تھااور وہ نورانی قرآن کے ذریعہ ان کے اشعار پر غالب آگئے اور زبردست تلوار کے ذریعہ ان کی تلواروں کو چکا چوندکردیا اور ان پر حجت تمام فرما دی ۔۔۔‘‘۔
امام ؑ نے اپنے حکیمانہ جواب کے ذریعہ ان معجزوں کے ذریعہ انبیاء کی تائید فرما ئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ہی مناسب تھے، اللہ نے اپنے رسول حضرت مو سیٰ ؑ کی عصا دے کر تائید فرما ئی جو ایک خطرناک اژدھا بن کر جادو گر وں کی اژدھے کی شکل میں بنا ئی ہوئی رسیوں اور لکڑیوں کو نگل گیاتو وہ مو سیٰ ؑ کی طرح کی طرح معجزہ لانے سے عاجز آگئے اور وہ علی الاعلان موسیٰ ؑ کی نبوت پر ایمان لے آئے ،اسی طرح اللہ نے آپ ؑ کو ید بیضاء عطا کیا تھاجونور اورروشنی میں سورج کے مثل تھااور یہ معجزہ آپ ؑ کی سچا ئی کی ایک نشانی تھا۔
لیکن پروردگار عالم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اندھوں کو بینائی ،مبروص کو شفااور مردوں کو زندہ کرنے کی تائید فرما ئی کیونکہ آپ ؑ کے زمانہ میں طب کا زور اوج کمال پر تھالہٰذا اطباء آپ ؑ کا مثل لانے سے عاجز آگئے ۔
پروردگار عالم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی قرآن کریم کے جاودانہ فصیح و بلیغ معجزہ کے ذریعہ تا ئید فرما ئی جس میں انسان کی کرامت اور اس کی امن دار حیات کو منظم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ بلغائے عرب اس کے ہم بحث اور اس کا مثل نہ لا سکے ۔۔۔جیسا کہ اللہ نے امیر المو منین علی ؑ کی کاٹنے والی تلواردے کر تا ئید فرما ئی تھی جو عرب کے سر کشوں کے مشرکین کے سروں کو کا ٹتی جاتی تھی ،اور بڑے بڑے بہادر اس کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے ہوئے کہا کرتے تھے :علی ؑ کی تلوار کے علاوہ جنگ سے فرار کرنا ننگ ہے وہ اس کو ندتی ہو ئی بجلی کے مانند تھی جومشرکین اور ملحدین کے ستونوں کوتباہ و برباد کر دیتی تھی ۔
بہر حال ابن سکیت نے امام ؑ سے سوال کیا کہ حجت کسے کہتے ہیں ؟آپ ؑ نے فرمایا :''العقل یُعرفُ بہ الکاذبَ علی اللّٰہ فیُکذَّبُ‘‘۔
ابن سکیت امام ؑ کے ساتھ مناظرہ کرنے سے عاجز رہ گیایحییٰ بن اکثم نے اس کو پکارا تو اس نے جواب دیا:ابن سکیت اور اس کے مناظروں کو کیا ہو گیا ہے یہ صاحبِ نحو ،شعر اور لغت تھا۔(۱۲ )
امام ؑ اپنے زمانہ میں صرف شریعت کے احکام میں ہی اعلم نہیں تھے بلکہ آپ ؑ تمام علوم و معارف میں اعلم تھے اور ہم نے اُن بحثوں کو اپنی کتاب ''حیاۃالامام علی نقی ؑ ‘‘میں تحریر کیاہے۔
عبادت
ائمہ ہدی علیہم السلام کی ایک صفت خدا وند عالم سے تو بہ کرنا ہے کیونکہ خدا سے محبت ان کے اعضا و جوارح میں مجذوب ہوگئی ہے ،وہ اکثر ایام میں روزہ رکھتے ہیں راتوں میں نمازیں پڑھتے ہیں،اللہ سے مناجات کرتے ہیں اور اس کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے ،شاعر ابوفراس حمدانی نے ائمہ ہدیٰ اور ان کے دشمن عبا سیوں کے درمیان موازنہ کیا ہے ۔
تُمْسی الِّتلاوۃُ فی اییاتھم أَبدا
وفی بیوتکم الاوتارُوَالنُّغَمُ
''ان کے گھروں میں ہمیشہ رات کو تلاوت کی جا تی ہے جبکہ تمہارے گھروں میں ساز و گانا بجایاجاتا ہے ‘‘۔
حضرت امام علی نقی کے مانند عباد ت تقوی ٰاور دین کے معاملہ میں اتنا پا بند انسان کوئی دکھا ئی نہیں دیتا، راویوں کا کہنا ہے :امام ؑ نے کبھی بھی کوئی بھی نافلہ نماز ترک نہیں کی آپ مغرب کی نافلہ نماز کی تیسری رکعت میں سورۂ الحمد اور سورۂ حدید اس آیت :(وعلیم بذات الصدور ) (۱۳)تک پڑھتے تھے اور چوتھی رکعت میں سورۂ الحمد اور سورۂ حجرات کی آخری آیات کی تلاوت کرتے تھے، امام سے دورکعت نماز نافلہ منسوب کی گئی ہے جس کی پہلی رکعت میں آپ سورۂ فاتحہ اور سورۂ یس کی تلاوت کرتے تھے اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ رحمن پڑھتے تھے۔
امام ؑ کے گھر پر حملہ
متوکل نے چند سپاہیوں کو رات میں امام ؑ کے گھر پر حملہ اور آپ ؑ کو گر فتار کرنے کا حکم دیا ، سپاہی اچانک امام ؑ کے گھر میں داخل ہو گئے اور انھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ امام ؑ بالوں کا کُرتا پہنے اور اُون کی چا در اوڑھے ہوئے تنہا ریگ اور سنگریزوں(۱۴) کے فرش پر رو بقبلہ بیٹھے ہوئے قرآن کی اس آیت کی تلاوت فرمارہے ہیں :
(أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّءَاتِ أَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ )۔(۱۵)
''کیا برائی اختیار کرلینے والوں نے یہ اختیار کرلیا ہے کہ ہم انھیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرار دیدیں گے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو یہ اُن لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے ‘‘۔
سپاہیوں نے اسی انبیاء کے مانند روحا نی حالت میں امام ؑ کو متوکل کے سامنے پیش کیامتوکل اس وقت ہاتھ میں شراب کا جام لئے ہوئے دستر خوان پر بیٹھا شراب پی رہا تھا جیسے ہی اُ س نے امام ؑ کو دیکھا تو وہ امام ؑ کی مذمت میں شراب کا جام امام ؑ کو پیش کرنے لگا امام ؑ نے اس کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :''خدا کی قسم میرا گو شت اورخون کبھی شراب سے آلودہ نہیں ہوا ‘‘۔
متوکل نے امام ؑ سے کہا :میرے لئے اشعار پڑھ دیجئے ؟
امام ؑ نے فرمایا:''میں بہت کم اشعار پڑھتا ہوں‘‘ ۔
متوکل نہ مانا اور اُس نے اصرار کرتے ہوئے کہا ضرور پڑھئے ۔امام علی نقی ؑ نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جن کو سُن کر حزن و غم طاری ہو گیا اور وہ گریہ کرنے لگا :
''باتُواعلیٰ قُلَلِ الأَجْبَالِ تَحْرُسُھُمْ
غُلْبُ الرِّجَالِ فَما أَغْنَتْھُمُ الْقُلَلُ
وَاسْتُنْزِلُوا بَعْدَ عِزٍّ عَنْ مَرَاتِبِھِمْ

فَاُوْدِعُوا حُفَراً یَابِءْسَ مانَزَلُوا
ناداھُم صارِخُ مِنْ بَعْدِ مَاقُبِرُوا

أَیْنَ الأَسِرَّۃُ وَالتَّیْجَانُ وَالْحِلَلُ؟
أَیْنَ الوُجُوْہُ الَّتِیْ کانَتْ مُنَعّمَۃً

مِنْ دُوْنِھَا تُضْرَ بُ الاَسْتَارُ وَالْکِلَلُ؟
فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْھُمْ حِیْنَ سَأَلَھُمْ

تِلْکَ الْوُجُوْہُ عَلَیْھَا الدُّوْدُ یَقْتَتِلُ
قدْطَالما أَکَلُوْا دَھْراً وَمَا شَرِبُوْا

فأَصْبَحُوْا بَعْدَ طُوْلِ الأَکْلِ قَدْ أُکِلُوْا‘‘
'' زمانہ کے رؤسا ء و سلاطین جنھوں نے پہاڑوں کی بلندیوں پرپہروں کے اندر زندگی گزاری تھی ۔
ایک دن وہ آگیا جب اپنے بلند ترین مراکز سے نکال کر قبر کے گڈھے میں گرا دئے گئے جو اُن کی بد ترین منزل ہے ۔
اُن کے دفن کے بعد منادی غیب کی آواز آئی کہ وہ تخت و تاج و خلعت کہاں ہے اور وہ نرم و نازک چہرے کہاں ہیں جن کے سامنے بیش قیمت پردے ڈالے جاتے تھے ؟
تو بعد میں قبر نے زبانِ حال سے پکار کر کہاکہ آج اُن چہروں پر کیڑے رینگ رہے ہیں۔
ایک مدت تک مال دنیا کھاتے رہے اور اب انھیں کیڑے کھا رہے ہیں ‘‘۔
متوکل جھومنے لگا ،اس کا نشہ اُتر گیا،اُس کی عقل نے کام کر نا چھوڑ دیا،وہ زار و قطار رونے لگا،اس نے اپنے پاس سے شراب اٹھوادی ،بہت ہی انکساری کے ساتھ امام ؑ سے یوں گویا ہوا :اے ابوالحسن کیا آپ ؑ مقروض ہیں ؟
امام ؑ نے جواب میں فرمایا:''ہاں ،میں چار ہزار درہم کا مقروض ہوں‘‘ ۔
متوکل نے امام ؑ کو چار ہزار درہم دینے کا حکم دیااورامام ؑ آپ ؑ کے بیت الشرف پر پہنچا دیا ۔ (۱۶)
یہ واقعہ خدا وند عالم کے حرام کردہ تمام گناہوں کا ار تکاب کرنے والے سر کشوں سے امام ؑ کے جہاد کرنے کی عکا سی کرتا ہے ،امام ؑ نے اس کے ملک اور سلطنت کی کو ئی پروا نہ کرتے ہوئے اس کو نصیحت فر ما ئی اللہ کے عذاب سے ڈرایا ،دنیا سے مفارقت کے بعد کے حالات کا تعارف کرایا،اس کا لشکر ،سلطنت اور تمام لذتیں قیامت کے دن اس سے اس کے افسوس کرنے کو دفع نہیں کر سکتیں ،اسی طرح آپ نے اس کو یہ بھی بتایا کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کے دقیق بدن کا کیا حال ہوگا ،یہ حشرات الارض کا لقمہ ہو جائے گا ۔
متوکل نے کبھی اس طرح کا مو عظہ سُنا ہی نہیں تھا بلکہ اُ س کے کا نوں میں تو گانے بجانے کی آوازیں گونجاکر تی تھیں ،اس کو اس حال میں مو ت آگئی کہ گانے بجانے والے اس کے ارد گرد جمع تھے ،اُ س نے تو اپنی زند گی میں کبھی خدا سے کئے ہوئے عہد کو یاد کیا ہی نہیں تھا ۔
امام ؑ پراقتصادی پا بندی
متوکل نے امام ؑ پر بہت سخت اقتصا دی پا بندی عائد کی ،شیعوں میں سے جو شخص بھی امام ؑ کو حقوق شرعیہ یا دوسری رقومات ادا کرے گا اس کو بے انتہاسخت سزا دینا معین کر دیا ،امام ؑ اور تمام علوی افراد متوکل کے دور میں اقتصادی لحاظ سے تنگ رہے ،مو منین حکومت کے خوف سے آپ ؑ تک حقوق نہیں پہنچا پاتے تھے ، مومنین اپنے حقوق شرعیہ ایک روغن فروش کے پاس پہنچا دیتے تھے اور وہ اُن کو آپ ؑ کے لئے بھیج دیا کرتا تھا اور حکومت کو اس کی کو ئی خبر نہیں تھی ،اسی وجہ سے امام ؑ کے بعض اصحاب کو دہا نین(روغن فروش ) کے لقب سے یاد کیاگیا ہے ۔(۱۷)
امام ؑ کو نظر بند کرنا
متوکل نے امام ؑ کو نظر بند کرنے اور قید خانہ میں ڈالنے کا حکم دیدیا ،جب آپ ؑ کچھ مدت قید خانہ میں رہے تو صقر بن ابی دلف آپ ؑ سے ملاقات کیلئے قید خانہ میںآیا ،نگہبان نے اُس کا استقبال کیا اور تعظیم کی ، دربان جانتا تھا کہ یہ شیعہ ہے تو اُ س نے کہا :آپ ؑ کا کیا حال ہے اور آپ ؑ یہاں کیوں آئے ہیں ؟
خیر کی نیت سے آیاہوں ۔۔۔
شاید آپ ؑ اپنے مولا کی خبر گیری کے لئے آئے ہیں ؟
میرے مو لا امیر المو منین ،یعنی متوکل ۔
دربان نے مسکراتے ہوئے کہا :خا موش رہئے ،آپ ؑ کے حقیقی اور حق دار مو لا (یعنی امام علی نقی ؑ )، مت گھبراؤ میں بھی شیعہ ہی ہوں ۔
الحمد للّٰہ ۔
کیا آپ امام ؑ کا دیدار کرنا چا ہتے ہیں ؟
ہاں ۔۔۔
ڈاکیہ کے چلے جانے تک تشریف رکھئے ۔۔۔
جب ڈاکیہ چلا گیا تو دربان نے اپنے غلام سے کہا :صقر کا ہاتھ پکڑ کر اُ س کمرہ میں لے جاؤ جہاں پر علوی قید ہیں اور اِن دونوں کو تنہا چھوڑ دینا ،غلام اُن کا ہاتھ پکڑ کر امام ؑ کے پاس لے گیا ،امام ؑ ایک چٹا ئی پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہیں پر آپ ؑ کے پاس قبر کھدی ہو ئی تھی متوکل نے اس سے امام ؑ کوڈرانے کا حکم دیا، امام ؑ نے صقر سے فرمایا:اے صقر کیسے آنا ہوا ؟
صقر :میں آپ ؑ کی خبر گیری کے لئے آیا ہوں ۔
صقر امام ؑ کے خوف سے گریہ کرنے لگے تو امام ؑ نے ان سے فرمایا :''اے صقر مت گھبراؤ وہ ہم کو کو ئی گزند نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔‘‘۔
صقر نے ہمت با ندھی ،خدا کی حمد و ثنا کی ،اس کے بعد امام ؑ سے کچھ شرعی مسا ئل دریافت کئے اور امام ؑ نے ان کے جوابات بیان فرمائے اور صقر امام ؑ کو خدا حافظ کرکے چلے آئے ۔(۱۸)
امام ؑ کا متوکل کے لئے بد دعا کرنا
امام ؑ علی نقی ؑ متوکل کی سختیوں سے تنگ آگئے ، اُس نے اپنی سنگد لی کی بنا پر امام ؑ پر ہر طرح سے سختیاں کیں اُ س وقت امام ؑ نے اللہ کی پناہ ما نگی اور ائمہ اہل بیت ؑ کی سب سے اجلّ و اشرف دعا کی جس کو مظلوم کی ظالم پر بد دعا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ دعاؤں کے خزانہ میں سے ہے ،اس دعا کو ہم اپنی کتاب حیاۃ الامام علی نقی ؑ میں ذکر کر چکے ہیں ۔ائمہ طا ہرین کی اس مختصر سوانح حیات میں اس کو بیان کرنے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔
امام ؑ کا متوکل کے ہلاک ہونے کی خبر دینا
متوکل نے مجمع عام میں امام علی نقی ؑ کی شان و منزلت کم کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ، اُ س نے اپنی رعایا کے تمام افراد کو امام ؑ کے پاس چلنے کا حکم دیا ،انھوں نے ایسا ہی کیا ،گر می کا وقت تھا ،گر می کی شدت کی وجہ سے امام ؑ اُن کے سامنے پسینہ میں شرابور ہوگئے ،متوکل کے دربان نے جب امام ؑ کو دیکھا تو فوراً آپ ؑ کو دہلیز میں لا کر بٹھایا رومال سے امام ؑ کا پسینہ صاف کر نے لگا اور یہ کہہ کر حزن و غم دور کرنے لگا:ابن عمک لم یقصدک بھذ ا دون غیرک ۔۔۔تیرے چچا زاد بھائی کا اس سے تیرے علاوہ اور کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔
امام ؑ نے اس سے فرمایا :''ایھا عنک ‘‘،اُس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی : ( َ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ذَلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوب)۔(۱۹)
''اپنے گھروں میں تین دن تک اور آرام کرو کہ یہ وعدۂ الٰہی ہے جو غلط نہیں ہو سکتا ہے ‘‘ ۔
زراقہ کا کہنا ہے کہ میرا ایک شیعہ دوست تھا جس سے بہت زیادہ ہنسی مذاق کیا کرتا تھا، جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں نے اس کو بلا بھیجا جب وہ آیا تو میں نے امام ؑ سے سنی ہو ئی خبر اس تک پہنچا ئی تو اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور اس نے مجھ سے کہا :دیکھو جو کچھ تمہارا خزانہ ہے اس کو اپنے قبضہ میں لے لو ،چونکہ متوکل کو تین دن کے بعد موت آجا ئے گی یا وہ قتل ہو جا ئے گا ، اور امام ؑ نے شہادت کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے ،معلم کی بات زراقہ کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے کہا : میرے لئے اس بات پر یقین کرنے میں کو ئی ضرر نہیں ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو میں نے یقین کر ہی لیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس میں میرا کوئی نقصان نہیں ہے ۔میں متوکل کے گھر پہنچا ،اور وہاں سے اپنا سارا مال لے کر اپنے جاننے والے ایک شخص کے پاس رکھ دیا ،اور تین دن نہیں گذرے تھے کہ متوکل ہلاک ہوگیا ،یہ سبقت زراقہ کی راہنما ئی اور اس سے امامت سے سخت لگاؤ کا سبب بن گئی ۔(۲۰)
امام پر قاتلانہ حملہ
امام ؑ ،معتمد عباسی پر بہت گراں گذر رہے تھے ،امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام ؑ کے فضائل شائع ہوئے تو اس کو امام ؑ سے حسد ہو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوں اور دین سے اُن کی والہانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تو وہ اور جلتا اُس نے امام ؑ کو زہر ہلاہل دیدیا ، جب امام ؑ نے زہر پیا تو آپ ؑ کا پورا بدن مسموم ہو گیا اور آپ ؑ کے لئے بستر پر لیٹنا لازم ہوگیا(یعنی آپ ؑ مریض ہو گئے )آپ ؑ کی عیادت کے لئے لوگوں کی بھیڑ اُمڈ پڑی ،منجملہ اُن میں سے ابوہاشم جعفری نے آپ ؑ کی عیادت کی جب اُ نھوں نے امام ؑ کو زہر کے درد میں مبتلا دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ،اور مندرجہ ذیل اشعار پر مشتمل قصیدہ نظم کیا :
مَا دتِ الدنیا فُؤادي العلیلِ

وَاعْتَرَتْنِیْ مَوَارِدُ اللأْواءِ
حِینَ قِیْلَ الْاِمَامُ نِضُوْ عَلِیْل

قُلْتُ نَفْسِیْ فَدَتْہُ کُلَّ الفِدَاءِ
مَرِضَ الدِّیْنُ لَاعْتِلَالِکَ وَاعْتَدْ لَ

وَغَارَتْ نُجُوْمُ السَّمَاءِ
عَجَباً اِنْ مُنِیْتَ بِالدَّاءِ وَالسُّقْمِ

وَأَنْتَ الاِمَامُ حَسْمُ الدَّاءِ
أَنْتَ أَسِیْ الأَدْوَاءَ فِي الدِّیْنِ والدُّنْیَا

وَمُحْیي الأَمْوَاتِ وَالْأَحَیَاءِ (۲۱)
'' دنیا نے میرے بیمار قلب کو ہلا کر رکھ دیا اور مجھے وا دی ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔
جب مجھ سے کہا گیا امام ؑ کی حالت نہایت نازک ہے تو میں نے کہا میری جان اُن پر ہر طرح قربان ہے ۔
آپ ؑ کے بیمار ہونے کی وجہ سے دین میں کمزوری پیدا ہو گئی اور ستارے ڈوب گئے۔
تعجب کی بات ہے کہ آپ بیمار پڑگئے جبکہ آپ ؑ کے ذریعہ بیماریوں کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
آپ ؑ دین و دنیا میں بہترین دوا اور مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں ‘‘۔
آپ کی روح پاک ملائکۂ رحمن کے سایہ میں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئی ،آپ ؑ کی آمد سے آخرت روشن و منور ہو گئی ،اور آپ ؑ کے فقدان سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ،کمزوروں اور محروموں کے حقوق سے دفاع کرنے والے قائد ور ہبر نے انتقال کیا ۔
تجہیز و تکفین
آپ ؑ کے فرزند ارجمند کی امام حسن عسکری ؑ نے آپ ؑ کی تجہیز و تکفین کی ،آپ ؑ کے جسد طاہر کو غسل دیا،کفن پہنایا،نماز میت ادا فر ما ئی ،جبکہ آپ کی نکھوں سے آنسو رواں تھے آپ ؑ کا جگر اپنے والد بزرگوار کی وفات حسرت آیات پر ٹکڑے ٹکڑے ہوا جا رہا تھا ۔
تشییع جنازہ
سامرا ء میں ہر طبقہ کے افراد آپ ؑ کی تشییع جنازہ کیلئے دوڑ کر آئے ،آپ کی تشییع جنازہ میں آگے آگے وزراء ،علماء ،قضات اور سر براہان لشکر تھے ، وہ مصیبت کا احسا س کر رہے تھے اور وہ اس خسارہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے جس سے عالم اسلام دو چار ہوا اور اس کا کو ئی بدلہ نہیں تھا ، سامراء میں ایسا اجتماع بے نظیر تھا ،یہ ایسا بے نظیر اجتماع تھا جس میں حکومتی پیمانہ پر ادارے اور تجارت گاہیں وغیرہ بند کر دی گئی تھیں ۔
ابدی آرام گاہ
امام علی نقی ؑ کا جسم اقدس تکبیر اور تعظیم کے ساتھ آپ ؑ کی ابدی آرامگاہ تک لایا گیاآپ ؑ کوخود آپ ؑ کے گھرمیں دفن کیا گیاجو آپ ؑ کے خاندان والوں کے لئے مقبرہ شمار کیا جاتا تھا ،انھوں نے انسانی اقدار اور مُثُل علیا کو زمین میں چھپا دیا ۔
آپ ؑ کی عمر چا لیس سال تھی آپ ؑ نے ۲۵ جما دی الثانی ۲۵۴ ؁ ھ میں پیر کے دن وفات پا ئی اسی پر ہمارے امام علی نقی ؑ کے سلسلہ میں گفتگو کا اختتام ہوتا ہے ۔

آپ ؑ کے اقوال زرّیں
امام علی نقی ؑ نے کچھ نورانی کلمات کا مجموعہ بیان فرمایا ہے جس میں مختلف تربیتی اور فطری اسباب بیان فرمائے ہیں جو عالم اسلام میں تفکر کی سب سے بہترین دولت شمار کئے جاتے ہیں :
۱۔امام علی نقی ؑ کا فرمان ہے: ''خیر (اچھا ئی )سے بہتر خود اس کا انجام دینے والا ہے ،جمیل سے صاحب جمال خود اس کا کہنے والا ہے ،اور علم عمل کرنے والے ترجیح رکھتا ہے۔۔۔ ‘‘۔
امام ؑ نے اِن کلمات کے ذریعہ اُن اشخاص کی توصیف کی ہے جو اِن صفات سے آراستہ ہیں :
الف:نیک کام کرنے والا اخلاقی ارزشوں کے لحاظ سے اچھا ئی سے بہتر ہے ۔
ب۔اچھی بات کہنے والا ،چونکہ یہ شخص لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
ج۔اپنے علم پر عمل کرنے والا ،علم پر ترجیح رکھتا ہے ،بیشک علم عمل کے لئے وسیلہ اور تہذیب چاہتا ہے ،جب علم پر عمل ہوتا ہے تو اس کی رسالت کا حق ادا ہوجاتا ہے ،علم محفوظ ہوجاتا ہے ،اس کی شان و منزلت بڑھ جا تی ہے اور یہ علم سے بہتر ہے ۔
۲۔امام علی نقی ؑ کا فرمان ہے:کرامت سے نا آشنا شخص کی بہتری اس میں ہے کہ وہ ذلیل ہوجائے ‘‘۔
یہ کلمہ کتنا زیبا ہے کیونکہ جو شخص کرامت انسا نی سے نا آشنا ہے اور انسا نی اقدار کی خبر نہیں رکھتا اس کی بہتری اسی میں ہے کہ اس سے رو گردانی کی جائے ۔
۳۔امام علی نقی ؑ کا فرمان ہے:''سب سے بڑا شر بری عادت ہے ‘‘۔
بیشک سب سے بڑی مصیبت بری عادت ہے، اس سے انسان عظیم شرّ میں مبتلا ہوجاتا ہے جس سے متعدد مصیبتیں اور مشکلیں پیدا ہو جا تی ہیں ۔
۴۔امام علی نقی ؑ کا فرمان ہے:''جہالت اور بخل سب سے بری عا دتیں ہیں۔۔۔‘‘۔
اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جہالت اور بخل بری عا دتیں ہیں ،یہ دونوں انسان کو اس کے پروردگار سے دور کردیتی ہیں اوروہ اُن دونوں کے ساتھ حیوان سائم کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔
۵۔امام علی نقی ؑ کا فرمان ہے:''نعمتوں کا انکار سستی کی علامت ہے اور ردّو بدل کا سبب ہوتا ہے ‘‘۔
بیشک جس نے کفرانِ نعمت کیا اور نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ کا ہل ہے ،منعم کے دائرۂ اطاعت سے خارج ہے ۔جیسا کہ نعمتوں پراکڑنانعمتوں کے زوال کا کا سبب ہوتا ہے ۔
۶۔امام علی نقی ؑ کا فرمان ہے:''لڑا ئی جھگڑا پرانی صداقت ''بھا ئی چارگی ‘‘کو ختم کر دیتا ہے مورد اعتماد معاملات کو منحل کر دیتا ہے ،جھگڑے کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ایک دوسرے پر برتری طلب کی جائے ، جبکہ برتری طلبی جدا ئی کے اسباب کی بنیاد ہے۔۔ ۔‘‘۔(۲۲)
مراء مجادلہ کو کہتے ہیں جو صداقت کی ریسمان کو توڑ دیتا ہے ،محبت و مودّت کو منحل کر دیتا ہے اور دونوں کے درمیان بغض و عداوت کورائج کر دیتا ہے ۔
حوالہ جات
۱۔حیاۃالامام علی نقی ؑ ،صفحہ ۲۴۳۔
۲۔المناقب، جلد۴، ص۴۴۱۔
۳۔امالی صدوق ،صفحہ ۴۹۸۔
۴۔حیاۃالامام علی نق
۵۔سورۂ مسد، آیت ۱۔
۶۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، صفحہ ۲۳۹۔ی ؑ ، صفحہ ۴۶۔
۷۔سورۂ توبہ، آیت ۲۵۔
۸۔تاریخ اسلامِ ذہبی ،چھبیسویں طبقہ کے رجال ۔تذکرۃ الخواص ،صفحہ ۳۶۰۔
۹۔المنتظم، جلد ۱۲، صفحہ ۲۶۔
۱۰۔سورۂ غافر، آیت ۸۳۔۸۴۔
۱۱۔شرح شافیہ مؤلف ابو فراس ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۷۔
۱۲۔حیاۃالامام علی نقی ؑ ، صفحہ ۲۴۲۔۲۴۳۔
۱۳۔سورۂ حدید آیت ۶۔
۱۴۔دائرۃ معارف بیسویں صدی ہجری، جلد ۶،صفحہ ۴۳۷۔
۱۵۔سورۂ جا ثیہ، آیت ۲۱۔
۱۶۔مرآۃ الجنان ،جلد ۲،صفحہ ۹۶۰۔تذکرۃ الخواص، صفحہ ۳۶۱۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ۶۷۔
۱۷۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، صفحہ ۲۶۲ ۔۲۶۴۔
۱۸۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، صفحہ ۲۶۳۔۲۶۴۔
۱۹۔سورۂ ہود، آیت ۶۵۔
۲۰۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۵،صفحہ ۳۱۱۔
۲۱۔اعلام الوریٰ ،صفحہ ۳۴۸۔
۲۱۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، صفحہ ۱۵۸۔۱۶۰۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام
حضرت فاطمہ زہراء
فدک حضرت زہرا کی ملکیت
حضرت زھرا علمائے اھل سنت کی نطر میں
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت اور علمی ...

 
user comment