اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

امام صادق(ع) کا علمی مقام اور ائمہ اہلسنت کے اعترافات

مالک بن انس: «ما رَأَتْ عَیْنٌ وَلا سَمِعَتْ اذُنٌ وَ لا خَطَرَ عَلى قَلْبِ بَشَرٍ افْضَلُ مِنْ جَعْفَرِبْنِ مُحَمَّدٍ فی علم و عبادۃ و تقویٰ»علم، عبادت اور پرہیزگاری میں جعفر بن محمد سے برتر نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں خطور کیا

بقلم: سید افتخار علی جعفری

امام صادق(ع) کا علمی مقام اور ائمہ اہلسنت کے اعترافات
اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امام صادق علیہ السلام کی شخصیت کا ایک اہم پہلو آپ کا علمی کمال تھا۔ اہلسنت و الجماعت کے بڑے بڑے اماموں نے آپ کے آگے زانو ادب تہہ کئے اور آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کر کے اس پر فخر کیا اور امام علیہ السلام کے علمی مقام کی تعریف و تمجید کی۔ ذیل میں اہلسنت کے دو اماموں کے اعترافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کے بعد دیگر علماء اہلسنت کے اقوال بھی اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں:
۱: ابو حنیفہ
فرقہ حنفی کے بانی ابو حنیفہ کہتے ہیں: میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ عالم کسی کو نہیں دیکھا۔(۱)
انہوں نے ایک اور مقام پر کہا: جب منصور دوانیقی نے جعفر بن محمد کو اپنے دربار میں بلوایا تو مجھے طلب کیا اور کہا: لوگ جعفر بن محمد کے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں ان کی اہمیت کو ختم کرنے کے لیے تم مشکل سے مشکل سوال تیار کرو۔ میں نے چالیس مشکل سوال تیار کئے۔ پھر ایک دن منصور نے مجھے بلایا۔ جب میں مجلس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ جعفر بن محمد بھی اس کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ جب میری نگاہ ان پر پڑی تو میں ان کی عظمت اور جلالت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اتنا کبھی کسی سے نہیں ہوا تھا۔
میں نے سلام کیا اور منصور کے اشارے سے بیٹھ گیا۔ منصور نے ان کی طرف رخ کیا اور کہا: یہ ابو حنیفہ ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں میں انہیں جانتا ہوں۔
اس کے بعد منصور نے میری طرف مڑ کر کہا: اے ابو حنیفہ! اپنے سوالات ابو عبد اللہ سے پوچھو۔
میں نے سوالات کرنا شروع کئے، جو مسئلہ میں بیان کرتا تھا جعفر بن محمد اس کے جواب میں فرماتے تھے: تمہارا عقیدہ اس سلسلے میں یہ ہے اہل مدینہ کا عقیدہ یہ ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے۔
بعض مسائل میں وہ ہمارے عقیدے سے موافق، بعض میں اہل مدینہ کے عقیدہ سے موافق اور بعض میں دونوں کے ساتھ مخالف تھے۔
میں نے چالیس سوال پیش کئے اور انہوں نے سب کے قانع کنندہ جواب دئے۔
اس کے بعد ابو حنیفہ کا کہنا ہے: ''امام صادق تمام علماء سے زیادہ عالم اور فقہی مسائل میں علماء کے اختلافات سے بھی آگاہ تھے‘‘۔(۲)
تاریخ میں ہے کہ دسیوں مقامات پر ابو حنیفہ نے امام صادق علیہ السلام کی شاگردی پر فخر کرتے ہوئے اسے اپنی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کا یہ جملہ معروف ہے ''لولا سنتان لھلک نعمان‘‘( اگر نعمان دو سال جعفر بن محمد کی شاگردی نہ کرتا تو ہلاک ہو گیا ہوتا)۔(۳)
۲: مالک بن انس
اہلسنت کے معروف چار اماموں میں سے ایک اور فرقہ مالکی کے بانی مالک بن انس کہتے ہیں: ایک مدت تک میری جعفر بن محمد کے پاس رفت و آمد رہی، میں نے ہمیشہ انہیں تین حالتوں میں سے ایک میں دیکھا یا نماز کی حالت میں یا روزے کی حالت میں یا تلاوت قرآن کی حالت میں۔ اور کبھی میں نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ بغیر وضو کے حدیث کہیں(۴)۔
اس کے بعد انہوں نے کہا: «ما رَأَتْ عَیْنٌ وَلا سَمِعَتْ اذُنٌ وَ لا خَطَرَ عَلى قَلْبِ بَشَرٍ افْضَلُ مِنْ جَعْفَرِبْنِ مُحَمَّدٍ فی علم و عبادۃ و تقویٰ»علم، عبادت اور پرہیزگاری میں جعفر بن محمد سے برتر نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں خطور کیا(۵)۔
۳: ابن حجر ہیثمی لکھتے ہیں کہ جعفر بن محمد سے اس قدرعلوم نشر ہوئے کہ آپ ہر انسان کا ورد زباں ہو گئے اور ہر جگہ آپ کا چرچا ہو گیا اور فقہ و حدیث کے بزرگترین علماء جیسے یحییٰ بن سعید، ابن جریح، مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابو حنیفہ، شعبہ اور ایوب سجستانی نے آپ سے حدیثیں نقل کرتے تھے۔(۶)
۴: ابو بحر جاحظ: تیسری صدی ہجری کے معروف دانشمند ابو بحر جاحظ کہتے ہیں: جعفر بن محمد وہ شخص ہیں جن کا علم پوری دنیا پر چھا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری ان کے شاگرد تھے اور ان دو افراد کا جعفر بن محمد کا شاگرد ہونا ان کے علمی مقام کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے(۷)۔
۵: ابن خلکان: معروف مورخ لکھتے ہیں: جعفر بن محمد فرقہ امامیہ کے بارہ اماموں میں سے ایک اور خاندان پیغمبر(ص) کے بزرگان میں سے ہیں کہ آپ کی سچائی اور صداقت کی بنا پر آپ کو صادق کہا جاتا ہے۔(۸)

حوالہ جات
۱: ذهبى، شمس الدین محمد، تذکرة الحفاظ، بیروت، داراحیا، التراث العربى، ج 1، ص 166
۲: مجلسى، بحارالانوار، ط2، تهران، المکتبة الاسلامیه، 1395 ه'.ق ج 47، ص 217- حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاهب الاربعة، ط 2، بیروت، دارالکتاب العربى، 1390 ه'.ق، ج 4، ص 335
۳: مختصر التحفه الاثني عشريه، ص 8، الامام صادق عليه السلام، ج 1، ص 58، اعلام الهدايه، ج 8، ص 23.
۴: ابن حجر العسقلانى، تهذیب التهذیب، ط 1، بیروت، دارالفکر، 1404 ه'.ق ج 1، ص 88
۵: حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاهب الاربعة ، ج 1، ص 53
۶: الصواعق المحرقه، ط 2، قاهره، مکتبة القاهره، 1385 ه'.ق، ص 201
۷: حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاهب الاربعة ، ج 1، ص 55(به نقل از رسائل جاحظ)
۸؛ وفیات الاعیان، تحقیق: دکتر احسان عباس، ط 2، قم، منشورات الشریف الرضى، 1364 ه'.ش، ج 1، ص 327

 


source : www.sibtayn.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment