اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

پیامبر رحمت(ص) کی عملی زندگی کے چند نمونے -1


زندگی کے ابتدائی سال
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب مکہ کے اطراف میں سرزمین " اجیاد" میں چوپانی کرتے تھے تو خلوت اور تنہائی سے مانوس ہو جاتے تھے، صحراوں کے سناٹوں میں گھنٹوں محو تفکر رہتے تھے اور اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں سوچتے تھے۔ آپ اپنے قوم و قبیلہ کی دنیا سے ہٹ کر ایک دوسری دنیا میں جیتے تھے، کبھی بھی ان کے لہو ولعب کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور ان پروگراموں میں جو بتوں کی مناسبتوں سے منعقد ہوتے تھے کبھی حصہ نہیں لیتے تھے۔ اور اس قربانی کے گوشت کو چکھتے تک نہیں تھے جسے بتوں کے لیے قربانی کیا جاتا تھا[۱۵]۔ آپ کے طائر تفکر کی سیر توحید حق کی فضا میں ہوتی اور اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی پر تمام ہوتی۔ آپ بتوں سے متنفر رہتے تھے اور فرماتے تھے:" کسی چیز سے میں اتنی دشمنی نہیں رکھتا جتنی ان بتوں سے رکھتا ہوں۔" [۱۶]۔

بچوں کو اہمیت دینا
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسلمانوں کے ساتھ نماز ظہر جماعت سے پڑھ رہے تھے، لیکن معمول کے برخلاف آنحضرت نے آخری دو رکعتوں کو بہت جلدی تمام کر دیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا ہوا ؟ کوئی حادثہ پیش آیا ہے کہ اتنا جلدی نماز تمام کر دی؟ آپ نے فرمایا: " ما سمعتم صراخ الصبی" تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی تھی؟[۱۷]

کنجوسی کی مخالفت
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کعبے کے طواف میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کعبے کا پردہ پکڑ کر کہہ رہا ہے: خدایا! تجھے اس گھر کی حرمت کی قسم مجھے بخش دے۔

آپ نے اس سے پوچھا: کیا گناہ کیا ہے؟

کہا: میں ایک مالدار آدمی ہوں۔ جب کوئی فقیر میری طرف آتا ہے اور مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میرے بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔

آپ نے اس سے فرمایا: مجھ سے دور ہو جا، مجھے اپنی آگ میں مت جلا۔

اس کے بعد فرمایا: اگر تم رکن اور مقام کے درمیان دو ہزار رکعتیں نماز پڑھو اور اتنا گریہ کرو کہ اشکوں سے نہریں جاری ہو جائیں لیکن کنجوسی کی خصلت کے ساتھ مر جاو تو اہل جہنم کے ساتھ محشورہو گے۔[۱۸]


قرض کی ادائیگی
ایک دن ایک شخص کا جنازہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور میں لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ ادا کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم لوگ اس پر نماز پڑھو میں نہیں پڑھوں گا۔

اصحاب نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ کیوں نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے؟

فرمایا: اس لیے کہ یہ آدمی لوگوں کا مقروض ہے۔

ابو قتادہ نے آگے بڑھ کر کہا: میں اس کے قرض کا ضامن ہوں ۔

فرمایا: تم اس کا سارا قرض ادا کرو گے؟

ابو قتادہ نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! میں اس کا پورا قرض ادا کروں گا۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اس شخص کی میت پر نماز جنازہ ادا کی۔

ابو قتادہ کا کہنا ہے: اس شخص کا قرض سترہ یا اٹھارہ درہم تھا۔[۱۹]

اولاد کے ساتھ مساوی سلوک
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے دیکھا کہ ایک آدمی نے اپنے ایک بیٹے کا بوسہ لیا اور دوسرے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔

پیغمبر اکرم (ص)نے ناراضگی کی حالت میں اس سے فرمایا: کیوں تم نے دونوں بیٹوں کے درمیان امتیازی سلوک کیا اور دونوں کے ساتھ ایک جیسا برتاو نہیں کیا؟[۲۰]


گالیوں کے مقابلے میں خاموشی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں کا ایک شخص بہت بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھلا رہا تھا اور لوگ اس کے اطراف میں جمع ہو کراس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت نے ان سے فرمایا: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا: یہ آدمی بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت دکھلا رہا ہے۔ فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو میں تمہیں ایک شخص کی خبر دوں جو اس سے زیادہ شجاع ہے۔ عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! فرمایا: وہ شخص جس کو سامنے والا گالیاں دے رہا ہو اور وہ خاموشی سے سنتا رہے، اسے برداشت کرے اور اپنے نفس اور شیطان پر قابو پا لے وہ اس سے زیادہ شجاع ہے [۲۱]

مومن کے احترام کے لیے کھڑا ہونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی وارد ہوا۔ آنحضرت اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے ۔ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ ! جگہ کافی ہے آپ کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ اس کے پاس بیٹھنے کے لیے آئے تووہ اپنی جگہ اس کو دے دے۔ [۲۲]


مزدورں کے ہاتھ کا بوسہ دینا
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ جنگ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کے لیے گئے، نبی اکرم(ص) نے انکے ساتھ مصافحہ کیا اور جب اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: تمہارے ہاتھ اتنے کھردھرے کیوں ہیں؟ کہا : یا رسول اللہ ! میں کلہاڑی اور بیلچے سے کام کرتا ہوں اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی مہیا کرتا ہوں۔ رسول خدا(ص) نے سعد کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور فرمایا: یہ وہ ہاتھ ہے جس تک آتش جہنم کی حرارت نہیں پہنچے گی۔ [۲۳]


دنیا کی نسبت بی رغبتی
سہل بن سعد ساعدی کا کہنا ہے: ایک آدمی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیجئے جب میں اسے انجام دوں تو خدا اور اس کی مخلوق کا محبوب قرار پاوں۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت ہو جاو تاکہ خدا تمہیں دوست رکھے اور جو کچھ مال دنیا تمہارے پاس ہے اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو تاکہ لوگ تم سے راضی ہو جائیں۔[۲۴]


عورتوں کا جہاد
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک دن جہاد اور مجاہدین کے ثواب کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ایک عورت نے کھڑے ہو کر پوچھا :یا رسول اللہ(ص)! کیا عورتوں کے لیے بھی یہ فضیلتیں ہیں ؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہاں، اس دن سے لے کر جب عورتیں حاملہ ہوتی ہیں اس دن تک جب تک بچہ دودھ پیتا رہتا ہے عورتوں کو خداوند عالم مجاہدین کا ثواب عنایت کرتا ہے اور اگر اس درمیان ان کو موت آ جائے تو ان کا مقام شہید کے مقام جیسا ہے۔[۲۵]


مومن کی نماز کا ثواب
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف نگاہ کر رہے تھے ایک آدمی نے اس کی وجہ پوچھی۔ آنحضرت نے جواب میں فرمایا: میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی، دیکھا کہ دو فرشتے زمین کی طرف آ رہے ہیں، تاکہ ایک اللہ کے مومن بندے کی دن و رات کی نمازوں اور عبادتوں کو لکھیں۔ لیکن اس کو نماز کی جگہ نہیں پایا، بلکہ اسے بیماری کے بستر پر پایا، وہ آسمان کی طرف واپس چلے گئے اور بارگاہ خدا وندی میں عرض کیا: ہم معمول کے مطابق اس بندہ مومن کی عبادتگاہ میں اس کی عبادتوں کا ثواب لکھنے گئے لیکن اسے وہاں نہیں پایا بلکہ وہ بستر بیماری پر آرام کر رہا تھا۔ خداوند عالم نے ان فرشتوں سے فرمایا: جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے اس کے لیے وہی ثواب لکھو جواس کے لیے اس وقت لکھتے تھے جب وہ صحت کے عالم میں اپنی عبادتگاہ میں نمازیں پڑھتا تھا اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے نیک اعمال کا ثواب اس وقت تک لکھتا رہوں جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے۔ [۲۶]


مشرک ماں کے ساتھ صلہ رحم
اسماء بنت ابو بکر کہتی ہیں: میری ماں میرے پاس آئی، میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھا : میری ماں مشرک عورت ہے اور میرے پاس آتی رہتی ہے کیا میں اس کے ساتھ رابطہ اور صلہ رحم باقی رکھوں۔ فرمایا: کیوں نہیں۔ [۲۷]


نماز کی تاثیر
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز کی انتظار میں مسجد میں پیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میں نے ایک گناہ کیا ہے اس کی مغفرت کے لیے کیا کروں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا۔ جب نماز تمام ہو گئی تو وہ آدمی دوبارہ اٹھا اور اس نے اپنا سوال تکرار کیا۔ رسول خدا (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم نے ابھی نماز ادا نہیں کی، کیا اس کے لیے اچھے طریقے سے وضو نہیں کیا؟ عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! فرمایا: یہی نماز، تمہارے گناہوں کا کفارہ اور ان کی بخشش کا سبب ہے۔[۲۸]


تحفہ
ابن عباس ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور مہاجرین اور انصار کا ایک گروہ بھی مجلس میں حاضر تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو شخص بازار جائے اور اپنے اہل و عیال کے لیے تحفہ و تحائف خریدے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے محتاجوں کو صدقہ دیا ہے۔ اور نیز فرمایا: کھانا، پھل، اور دیگر تحائف تقسیم کرتے وقت سب سے پہلے لڑکیوں کو دو اس کے بعد لڑکوں کو۔ یقینا جو شخص اپنی لڑکی کو خوش رکھے گا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے بنی اسماعیل میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو شخص اپنے بیٹے کو رونے سے چپ کروائے اور اسے کچھ دے کر خوش کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے خدا کے خوف سے گریہ کیا ہے اور جوشخص خوف خدا کی وجہ سے گریہ کرے خداوند عالم اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ [۲۹]


تعلیم اور تعلم
ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ کی نگاہ دو گرہوں پر پڑی جن میں سے ایک گروہ عبادت میں مشغول تھا اور دوسرا علمی مباحثہ کر رہا تھا آنحضرت دونوں گروہوں کو دیکھ کر مسرور ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں اور خیر اور سعادت پر ہیں۔ لیکن میں لوگوں کو علم سکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں ۔ یہ بات کہہ کر آپ اس گروہ میں شامل ہو گئے جو علمی گفتگو میں مشغول تھا ۔[۳۰]
حوالہ جات
[۱۵] سیرہ احمد زینی۔ص۹۵۔
[۱۶] سیرہ حلبی، ج۱،ص۲۷۰۔
[۱۷] فروغ کافی، ج ۶، ص۴۸۔
[۱۸] جامع السعادات، علامہ نراقی،ج ۲،ص۱۵۴۔
[۱۹] مستدرک الوسائل: ج۱۳، ص۴۰۴۔
[۲۰] بحار الانوار، ج۱۰۴،ص۹۷ ح۶۱
[۲۱] مجموعہ ورام،ص ۳۴۰۔
[۲۲] بحار الانوار،ج ۱۶،ص۲۴۰۔
[۲۳] اسد الغابہ؛ ج ۲،ص۲۶۹۔
[۲۴] سنن ابن ماجہ، ج۲، ص ۱۳۷۴۔
[۲۵] من لا یحضر الفقیہ، ج۳،ص۵۶۱۔
[۲۶] فروع کافی، ج۱، ص۳۱۔
[۲۷] محجۃ البیضاء، ج۳،ص۴۲۹
[۲۸] بحار الانوار، ج ۷۲، ص۳۱۹۔
[۲۹] تحفۃ الواعظین، ج ۶ص ۱۰۹، نقل از وسائل الشیعہ، ج۷، ص۲۲۷۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment