اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

مہربانی کرکے غزہ کو اپنے حال پر چھوڑ دیں!

مہربانی کرکے غزہ کو اپنے حال پر چھوڑ دیں!

 

بسم اللہ الرحمن الرحيم

وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا. (1)

قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ. (2)

میری آرزو تھی کہ کاش غزہ کے المئے کے بعد دوحہ کانفرنس منعقد نہ ہوتی اور بادشاہ و صدور و امراء غزہ کو اس کے زخموں کے ہمراہ اپنے حال پر چھوڑتے... میری آرزود تھی کہ کاش وہ اپنے محلات کے اندر سے مذمت کے بیانات پر ہی اکتفا کرتے اور دوحہ میں اکٹھے نہ ہوتے اور اہالیان غزہ کے گہری زخموں پر نمک پاشی نہ کرتے...

بادشاہوں اور صدور کی یہ عادت بنی ہوئی ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں اور اس قسم کی کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں؛ یہ سب سب پہلا رد عمل ہے جو عرب حکام کو سوجھتا ہے.

لوگ بھی اس قسم کی کانفرنسوں کے عادی ہوگئے ہیں اور جانتے ہیں کہ جب بھی بڑی بلائیں اور بدبختیاں ان کی طرف رخ کرتی ہیں یہ کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور جس طرح کہ ان کا انعقاد ہوتا ہے اسی طرح ان کا اختتام بھی ہوتا ہی؛ اور اس کا ثمرہ کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ یہ حضرات خوب باتیں کرتے ہیں اور مذمتی بیان جاری کرتے ہیں اور ان کی باتوں اور بیانات کا مثبت نتیجہ فلسطینیوں اور دیگر عربوں کو ہرگز نہیں پہنچتا [ چنانچہ لگتا ہے یہ کانفرنسیں کوئی فائدہ پہنچانے کے لئے منعقد ہی نہیں ہوتیں].

اس بار بھی عرب ممالک اور حکمرانوں کا رد عمل ایسا ہی تھا؛ بالکل اسی وقت جب اسرائیلی بمبار طیارے غزہ کے آسمان پر آئے؛ غزہ کے عوام کو مختلف النوع ہتھیاروں کا نشانہ بنایا؛ سب کچھ ویران کردیا؛ لوگوں کو خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کردیا اور 24 گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں 250 فلسطینیوں کو شہید کیا، ایک ہزار کو زخمی کیا، سینکڑوں گھروں اور عمارتوں کو ان کے مکینوں کے سروں پر ڈھا دیا؛ عرب راہنماؤں کا سب سے پہلا رد عمل «سربراہی کانفرنس کا انعقاد» تھا، چنانچہ انہوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو آواز دی اور سربراہی اجلاس کی تجویز سی سب نے اتفاق کیا «تاکہ غزہ کو مصیبت سے نجات دلائیں». میزبانوں کے مقابلے میں «دوحہ» جیت گیا. عرب کہتے ہیں:

«مصائب قوم عند قوم فوائد» (3)

ان دنوں کانفرنسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؛ وزرائے خارجہ کی سطح کی کانفرنسیں، امراء کی سطح کی کانفرنسیں، بادشاہوں اور صدور کی سطح کی کانفرنسیں.

ان اجلاسوں اور کانفرنسوں کی تعداد ان مصائب اور غموں کی تعداد سے بھی بڑھ کر ہے جو ہمارے دلوں میں آشیانہ بنا بیٹھے ہیں. مصیبت زدہ اور المیہ دیدہ لوگوں کی آرزو ہے کہ کاش یہ کانفرنسیں منعقد نہ ہوں اور عرب راہنما انہیں ان کے مصائب اور زخموں کے ہمراہ اپنے حال پر چھوڑدیں! اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو ان لوگوں سے استفسار کریں جو ان راہنماؤں کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ نہیں ہیں. پوچھیں کہ کیا وہ ان کانفرنسوں کے انعقاد سے اتفاق کرتے ہیں؟ یا یہ کہ وہ آرزو کرتے ہیں کہ ان کے حکام اپنے محلات کے اندر سے ہی مذمت کرنے اور ناک بھون چڑھانے پراکتفا کریں اور اسی رد عمل کو کافی سمجھیں؟

اگر آپ یہ سوال کوچہ و بازار کے لوگوں سے پوچھیں یا غزہ کے بھوک و افلاس سی نڈھال اور موسم سرما کی سرد راتوں میں دشمن کی بمباری کے خوف سے بھاگے ہوئے فلسطینیوں سے پوچھیں تو آپ مطمئن ہوہی جائیں گے کہ میں اس آرزو میں تنہا نہیں ہوں.

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ نا سمجھ ہیں یا تصور کرتے ہیں کہ ریاستوں سے وابستہ ذرائع ابلاغ بھوک و افلاس کا شکار، - اور بے رحم سردی میں - برہنہ تن اور مجروح و بے گھر عوام سے عقل و شعور سلب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ شاید ماضی میں ایسی ہی صورت حال رہی ہو ... لیکن لوگ آج عقل و منطق کی لحاظ سے کافی ترقی یافتہ ہیں اور سیٹلائت سے بہرہ مند ڈھندورچی ان کے عقلی و فکری ارتقاء کو اغوا نہیں کرسکتے.

کتنی زیادہ ہیں مصیبتیں اورکتنی کثرت سے مسلمانوں پر المئے نازل ہورہے ہیں!... اور کتنی زیادہ ہیں سربراہوں کی کانفرنسیں جو اِدھر اور اُدھر ان مصائب اور جارحیتوں کے مقابلے کے لئے بپا ہوتی ہیں!... اور کتنی زیادہ ہیں آرزؤوں کا مدفون ہونا ان کانفرنسوں اور نشستوں میں!...

آج مزید ان کانفرنسوں کے نتائج کو خفیہ رکھنا اور رائے عامہ کو فریب دینا «راہنماؤں» کے لئے ممکن نہیں ہے... وہ دور گذر گیا جب وہ اپنے اعمال، اپنی باتوں، امریکہ کی غلامی اور اسرائیل کے ساتھ اپنے لین دین اور تعاون کو چھپاسکتے تھے اور خداوند متعال بھی ان کے اسرار کو فاش نہیں فرماتا تھا، مگر اب ان کا باطن ٹیلی ویژن کی اسکرین پر بخوبی آشکار ہورہا ہے؛ یہ وہ زمانہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی شدید مسابقت اور سیاست و سیاست بازی کی کشکمکش میں ہر کوئی دوسرے کے اسرار پر سے پردے ہٹا رہا ہے اور ہر کوئی دوسروں کے چہروں سے نقاب کھینچ رہا ہے.

کیا آج فلسطینیوں اور عربوں اور عام مسلمانوں میں کوئی ہے جو ان سوالات کا جواب نہ دے سکتا ہو؟:

ـ کیوں مصر کے حکام غزہ کے شیرخواروں کے لئے خشک دودھ لے جانے والے ٹرکوں کے لئے رفح کی گذرگاہ نہیں کھول رہے؟

ـ وہ کیوں اجازت نہیں دے رہے کہ باہر سے آئے ہوئے ٹرک ان کے مریضوں اور زخمیوں کے لئے دوائیں اور ان کے گھروں اور ایمبولینسوں کے لئے ایندھن لے جائیں؟

ـ‌ کیا مصر کے حکمرانوں کو غزہ میں فلسطینیوں کے استغاثے کی صدا سنائی نہیں دے رہی ہے؟ اور

ـ مصری حکام ان مجروح اور قلعہ بند انسانوں کے استغاثے کی صدا کیونکر سنی ان سنی کرسکتے ہیں؟

آپ کا کیا خیال ہے کہ مصری حکام کس چیز سے خائف ہیں؟ کیا آپ تصور کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے استغاثے کی صدا دنیا والوں نے بھی نہیں سنی؟ اور مصری حکام کا تجاہل عارفانہ بھی کسی نے نہیں دیکھا؟

لوگوں کو دوحہ میں مصری صدر کی حاضری سے کیا توقع ہوسکتی ہے؟ کیا انہیں توقع ہے کہ عرب وزرائے خارجہ کا اجلاس سہراب کے مرنے کے بعد تریاق غزہ کے انسانی المئے کے لئے ارمغان لائے گا ؟(2)

کیا آپ سوچتے ہیں کہ لوگوں نے ٹیلی ویژن اسکرین پر صہیونی وزیرخارجہ زیپی لیوینی کے مصری صدر کے ساتھ ملاقات کی تصویریں نہیں دیکھیں اور انہوں نے نہیں دیکھا کہ مصری صدر نے لیوینی کے ساتھ کتنے دوستانہ انداز سے مصافحہ کیا؟ کیا لوگوں نے نہیں دیکھا کہ غزہ پر حملے سے صرف دو روز قبل لیوینی نے مصری ہم منصب «ابوالغیط» کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی؟ کیا لوگ نہیں جانتے کہ لیوینی نے جارحیت سے دو روز قبل مصری وزیر خارجہ کو صہیونی ریاست کے ارادے سے آگاہ کیا تھا؟ کیا دنیا والوں نے نہیں دیکھا کہ قاہرہ کے حکام نے اس کے باوجود غزہ والوں کو صہیونیوں کی عنقریب آنے والی جارحیت کی خبر تک نہیں دی؟ کیا آپ کا خیال ہے کہ اگر لیوینی نے حسنی مبارک کو خبر نہیں دی تھی تو کیا وہ صرف جملوں کے تبادلے اور تفریح کے لئے قاہرہ گئی تھی؟!!

............

حوالے:

1. سورہ نساء آیت 75 - اور کیوں تم خدا کی راہ (اور) مستضعف مردوں، عورتوں اور بچوں (کی نجات کی خاطر) جنگ کیوں نہیں کرتے؛ وہی (مستضعفین) جو بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: بار پروردگارا! ہمیں اس شہر سے - جس کے لوگ ظالم و ستمگر ہیں - نکال دے اور اپنی جانب سے ہمارے لئے ایک سرپرست قرار دے اور اپنی طرف سے ہمارے لئے مددگار مقرر فرما.

2. سورہ توبہ آیت 14 - ان کے ساتھ جنگ کرو خداوند عزیز تمہارے ہاتھوں ان پر عذاب اتارتا ہے اور انہیں خوار و ذلیل کرتا ہے اور تمہیں ان پر فتح و نصرت عطا فرماتا ہے اور مؤمن گروہ کے دلوں کو ٹھنڈک عطا فرماتا ہے.

3. یہ عربی ضرب المثل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:

ایک گروہ کے مصائب میں دوسرے گروہ کے فوائد ہیں"!

 


source : www.sibtayn.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک

 
user comment