اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

حدیث غدیر کی سندیت و دلالت

حدیث غدیر کی سندیت و دلالت

حدیث غدیر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے اور محققین اس حدیث کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ آپ کی ولایت سے پس و پیش کرتے ہیں؛ وہ کبھی تو اس حدیث کی سند کو زیر سوال لاتے ہیں اور کبھی سند کو قابل قبول مانتے ہوئے، اس کی دلالت میں تردید کرتے ہیں! چنانچہ ...

حدیث غدیر کی سندیت و دلالت

اس حدیث کی حقیقت کو ظاہرکرنے کے لئے ضروری ہے کہ سند اور دلالت دونوں کے ہی بارے میں معتبر حوالوںکے ذریعہ بات کی جائے۔ غدیر خم کا منظر : ۱۰ ھجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کےاعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کو چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے، قافلہ کو کوچ کا حکم دیا۔ جب یہ قافلہ جحفہ( ۱) سے تین میل کے فاصلے پر رابغ [2] نامی سرزمین پر پہنچا تو غدیر خم کے مقام پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اس آیت کے ذریعے خطاب کیا <یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربکوان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس> [3] اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
آیت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئی ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصایت و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟ لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا، جو لوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے۔ ظہرکا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پر تھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر (ص) کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے کجا‌ؤں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :
حمد و ثناءاللہ کی ذات سے مخصوص ہے۔ ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائی کی وہ اس کے لئے نہیں تھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ہاں اے لوگو! وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا! تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں۔
اس کے بعد آپنے فرمایا: میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا میں نے تمہارے بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کی ہے؟
یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے؟ اور جنت و جہنم وآخرت کی ابدی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟
سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں، میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں، اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے۔
ہاں اے لوگو! قرآن اور میری عترت سے سبقت نہ لینا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی (ع) کو سب لوگوں سے متعارف کرایا۔
اس کے بعد فرمایا: کون ہے جو مؤمنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے ؟
سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔
ہاں اے لوگو!" من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث دار ۔
ترجمہ: جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی (ع) مولا ہیں، [4] اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی (ع) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی (ع) کو دشمن رکھے، اس سے محبت کر جو علی (ع) سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی (ع) پر غضبناک ہو، اس کی مدد کرجو علی (ع) کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی (ع) کو رسوا کر ے اور حق کو اسی موڑ دے جدھر علی (ع) مڑتے ہیں [5]۔
اوپر لکھے خطبہ [6] کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیں موجو د ہیں (ہم جلد ہی اس قول کی وضاحت کریں گے )
حدیث غدیر کی ابدیت:
اللہ کا حکیمانہ ارادہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانے میں باقی رہے اور لوگوں کے دل اس کی طرف جذب ہوتے رہیں۔ اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میں اس کے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب، اس کو وعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں۔ اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق، تخیل اور اخلاص کے ذریعے اس واقعے کی عظمت کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف انداز سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار چھوڑیں (مرحوم علامہ امینی نے مختلف صدیوں میں غدیر کے سلسلے میں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کی زندگی کے حالات کے ساتھ معروف ترین اسلامی منابع سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو کہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے، بیان کیا ہے۔ )
بالفاظ دیگر دنیا میں بہت کم ایسے تاریخی واقعات ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں، مفسروں، متکلموں، فلسفیوں، خطیبوں، شاعروں، مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں۔ اس حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعے سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجودہیں [7] لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن ابدی حقیقت ہے اور یہ حقیقت ابد تک باقی رہے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاں تک کہ ابن خلکان، المستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ہے کہ ۴۸۷ ھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے، لوگوں نے اس کی بیعت کی [8] اور المستنصر باللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ۴۸۷ ھ میں جب ذی الحجہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیں تو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارہویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔ [9]
اس سے بھی زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں عیدغدیر کو ان عیدوں میں شمار کیا ہے جن میں تمام مسلمان خوشیاں مناتے تھے اور اہتمام کرتے تھے [10]
صرف ابن خلکان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے، بلکہ اہل سنت کے مشہور معروف عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے [11] اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہی رکھی جا چکی تھی، کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر، انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاکر آپ (ع) کو امامت و ولایت کے سلسلہ میں مبارکباد دیں۔
زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ و زبیر مہاجرین میں سے وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد دی۔ بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغربت ک چلتا رہا۔
راویان حدیث :
اس تاریخی واقعے کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ [13] البتہ اس جملے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف ان ہی اصحاب نے اس واقعے کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انہی ایک سو دس افرادکا ذکر ملتا ہے۔
دوسر صدی، جس کو تابعین کا دور کہا گیا ہے، میں ۸۹ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعد کی صدیوں میں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اور علماء اہل سنت کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
اس گروہ نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔
عجیب بات تویہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے مورخ طبری نے " الولایة فی طرقِ حدیث الغدیر" نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طُرُق سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا۔ ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالا ولایت میں اس حدیث کو ۱۰۵افراد سے نقل کیا ہے۔ ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نام سے مشہور ہیں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے۔
اہل سنت کےمشہور علماء اور حدیث غدیر :
احمد بن حنبل شیبانی، ابن حجر عسقلانی، جزریشافعی، ابوسعید سجستانی، امیر محمد یمنی، نسائی، ابوالعلاء الحسن بن احمد الہمدانی، اور ابوالعرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں [14] کے ساتھ نقل کیا ہے۔
شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعے کے بارے میں بہت سی اہم کتابیں لکھی ہیں اور اہل سنت کی مشہور کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔
ان میں سے جامع ترین کتاب " الغدیر" ہے،جو عالم اسلام کے مشہور مؤلف مرحوم علامہ امینی کے قلم کا شاہکار ہے۔ (اس کتابچے کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاگیا ہے) بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا:" اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً> [15]
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو بھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےتکبیر کہی اور فرمایا: اللہ کاشکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ہوا۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ:" جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں آپ کی بیعت کرتے ہوئے مبارکبادپیش کریں۔
سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا۔ حسان بن ثابت نے موقع سےفائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر پڑھا،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دو اہم اشعا ر بیان کر رہے ہیں:

فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ہادیاً
فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا

ترجمہ: (رسول اللہ (ص) نے) علی علیہ السلام سے فرمایا :" اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا۔
جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔
تم،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو، بس ان کی پیروی کرو۔ [16]
یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پر فضیلت اور برتری کی بھی سب سے بڑی دلیل ہے۔
یہاں تک کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں (جوکہ دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد منعقد ہوئی) [17] اور عثمان کی خلافت کے زمانے میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج و استناد کیا۔ [18]
اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیت نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوں کے سامنے، اسی حدیث سے استدلال کیا۔ [19]
مولیٰ سے کیا مراد ہے؟
یہاں پر سب سے اہم مسئلہ مولیٰ کے معنی کی تفسیر ہے جو کہ وضاحت میں عدم توجہ اور لاپرواہی کا نشانہ بنی ہوئی ہے کیونکہ اس حدیث کے بارے میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے اس سے اس حدیث کی سندکے قطعی ہونے میں کوئی شک و تردید باقی نہیں رہ جاتی، لہٰذا بہانہ تراشنے والے افراد اس حدیث کے معنی و مفہوم میں شک و تردید پیدا کرنے میں لگ گئے، خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی میں، مگر اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے۔
صراحت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ مولیٰ اس حدیث میں بلکہ اکثرمقامات پر ایک سے زیادہ معنی نہیں دیتا اور وہ "اولویت اور شائستگی" ہے دوسرے الفاظ میں مولیٰ کے معنی "سرپرستی" ہے قرآن میں بہت سی آیات میں لفظ مولیٰ سرپرستی اور اولیٰ کے معنی میں استعمال ہواہے۔
قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ۱۸ آیات میں استعمال ہوا ہے جن میں سے دس مقامات پر یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی مولائیت اس کی سرپرستی اور اولویت کے معنی میں ہے۔
لفظ مولیٰ بہت کم مقامات پردوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس بنیادپر مولیٰ کے معنی میں درجہٴ اول میں اولیٰ، ہونے میں کوئی شک و تردید نہیں کرنی چاہئے۔
حدیث غدیر میں بھی لفظ مولا اولویت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ بہت سے ایسے قرائن و شواہد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ہی ہے۔
اس دعوے کے دلائل: فرض کرو کہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں، لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعے و حدیث غدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک وشبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں۔
دلیل اول :
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعے کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا۔ اس فصیح و بلیغ اور عربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام و ہادی استعمال کیا اور کہا:
فقال لہ قم یا علی فاننی رضیتک من بعدی اماما ًوہادیاً [20] یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سےفرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی بنا کر منتخب کرلیا ہے۔
اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کو امامت، پیشوائی، ہدایت اور امت کی رہبری کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے۔ اور یہ شاعر عرب کے فصیح و اہل لغت افراد میں شمار ہوتا ہے اور صرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ ان کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے ـ جو عرب کے مشہور شعراء و ادباء تھے اور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے ـ انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وہی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت۔
دوسری دلیل :
حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایا کہ و اوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم [21] یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیر کے دن میری ولایت کو تمہارے اوپر واجب قراردیا۔ امام سے بہتر کون شخص ہے، جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے؟ اور بتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیا ہے؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرا معنی نہیں سمجھا؟
تیسری دلیل :
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "من کنت مولاہ" کہنے سے پہلے یہ سوال کیا کہ "الست اولیٰ بکم من انفسکم؟" کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں؟ پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا: "من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ" " یعنی جس جسکا میںمولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔ ان دو جملوں کو ملانے کا ہدف کیا ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہدف ہوسکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، وہی علی علیہ السلام کے لئےبھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام؛ نتیجے میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے۔ [22] اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا، تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرار لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ انصاف سے کتنی دور ہوئی بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کو نظرانداز کر دے اور تمام قرائن کی روشنی سے آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔
چوتھی دلیل :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصولوں کا اقرار کرایا اور فرمایا "الستم تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمداً عبدہ و رسو لہ و ان الجنة حق والنار حق؟ یعنی کیا تم گواہی نہیں دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے عبد و رسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟ یہ سب اقرار کرانے سے کیا ہدف تھا ؟ کیا اس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے لوگوں کے ذہن کو آمادہ کر رہے تھے، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصولوں کی مانند ہے، جن کے سب معتقد ہیں؟ اگر مولا سے دوست یا مددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائے گا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟
پانچویں دلیل :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کےشروع میں، اپنی رحلت کے بارے میں فرمایا کہ :" انی اوشک ان ادعیٰفاجیب"یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں [23] یہ جملہ اس بات کاعکاس ہے کہ پیغمبر اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ رحلتکے بعد پیدا ہونے والا خلا پر ہو سکے، اور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے۔ اس کےعلاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی۔ جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کےعلاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی ربط ختم جائے گا، جبکہ وہ سب سے زیادہفصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں۔ مسئلہ ولایت کے لئے اس سے زیادہ روشن اورکیا ہو قرینہ ہو سکتا ہے۔
چھٹی دلیل :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "من کنت مولاہ" جملے کے بعد فرمایا کہ : "اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین و اتمام النعمۃ و رضی ربی برسالتی و الولایة لعلی من بعدی" الله اکبر، اکمال دین پر، اتمام نعمت پر اور میری رسالت سے اللہ کی رضا اور علی علیہ السلام کے لئے ولایت پر میرے پروردگار کی خوشنودی پر؛ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی، مودت اور مدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں؟ سب سے روشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی ہو گیا [24] کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟
ساتویں دلیل :
اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین (ابوبکر وعمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔
شیخین وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی "ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای و مولیٰ کل مؤمن و مؤمنة" [25] یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح و شام میرے اور ہر مؤمن مرد و عورت کے مولا ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا کہ اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے؟ کیا مقام خلافت، زعامت اور امت کی رہبری، ـ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نہیں ہوا تھا ـ اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟ محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نہیں تھی۔
آٹھویں دلیل :
اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے تو یہ ضروری نہیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔
ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلے کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پر لوگوں کو بیھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا۔
کیا قرآن نے تمام مؤمنین کو ایک دوسرےکا بھائی نہیں کہا ہے؟ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے <انما المؤمنون اخوة> [26] مؤمنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں؟
کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مؤمنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نہیں پہچنوایا ہے؟ جبکہ علی علیہ السلام بھی اسی مؤمن معاشرے کے ایک فرد تھے۔
لہٰذا کیا ان کی دوستی کے اعلان کی الگ سے کیا ضرورت تھی؟ اور
اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظامات کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔
یقیناً کوئی بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی، کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگیمیں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے۔ اب آپ فیصلہ کریں: اگر، ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نہیں تھی تو کیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے؟
وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریں گے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ یقیناً اگرتمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو حقیقی و صحیح نتیجوں پر پہنچیں گے اور یہ کام مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں آپسی اتحاد میں اضافے کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی معاشرہ ایک نئی شکل اختیارکر لے گا۔
تین پر معنی حدیثیں:
اس مقالے کے آخر میں تین پر معنی حدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔
الف: حق کس کے ساتھ ہے؟
زوجات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ام سلمیٰ اور عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: "علی مع الحق و الحق مع علی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض"
ترجمہ: علی (ع) حق کے ساتھ ہیں اورحق علی (ع) کے ساتھ ہے، اور یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہونچ جائیں۔
یہ حدیث اہل سنت کی بہت سی مشہور کتابوں میں موجود ہے۔ علامہ امینی نے ان کتابوں کا ذکر ا لغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے [27]
اہل سنت کے مشہور مفسر قران، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ " حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے۔ اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:"
اللہم ادر الحق مع علی حیث دار" اے اللہ حق کو ادھر ہی موڑ دے جدھر علی مڑیں [28]
قابل توجہ ہے یہ حدیث جو یہ کہہ رہی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے۔
ب: میثاق اخوت (مواخات):
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے ایک مشہور گروہ نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کیا ہے : آخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین اصحاب فاخی بین ابی بکر و عمر، و فلان و فلان، فجاء علی رضی اللہ عنہ فقال آخیت بین اصحابک و لم تواخ بینی و بین احد؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انت اخی فی الدنیا والآخرة"
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت جاری کیا، ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا اور اسی طرح سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔ اسی وقت حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی آپ نے سب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کردیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "آپ دنیا وآخرت میں میرے بھائی ہیں"۔
اسی سے ملتا جلتا مضمون اہل سنت کی کتابوں میں ۴۹ جگہوں پر ذکر ہوا ہے۔ [29] کیا حضرت علی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بھائی کا رشتہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ امت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں؟
کیا افضل ہوتے ہوئے مفضول کے پاس جانا چاہئے؟
ج: نجات کا تنہا ذریعہ:
ابوذر نے خانہ کعبہ کے در کو پکڑ کر کہا کہ جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں ابوذر ہوں، میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا : "مثل اہل بیتی فیکم کمثل سفینة نوح، من رکبہا نجیٰ و من تخلف عنہا غرق" یعنی تمہارے درمیان میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔ [30]
جس دن توفان نوح نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا تھا، اس دن نوح علیہ السلام کی کشتی کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ اونچا پہاڑ بھی،جس کی چوٹی پر نوح علیہ السلام کا بیٹا بیٹھا ہواتھا نجات نہ دے سکا۔ کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق، آپ (ص) کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے وابستہ ہونے کے سوا نجات کا کوئی دوسرا راستہ ہے؟


حوالہ جات
[1] یہ جگہ احرام کے میقات کی ہے اور ماضی میں یہاںسے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔
[2] رابغ اب بھی مکہ اورمدینہ کے بیچ میں واقع ہے۔
[3] سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷
[4] پیغمبر اسلام صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کہا تاکہ بعدمیں کوئی مغالطہ نہ ہو۔
[5] یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پہلا حصہ یافقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے۔ (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/ ۲۵۶( ب) تاریخ دمشق ج/ ۴۲ ص/ ۲۰۷، ۲۰۸، ۴۴۸ ( ج)خصائص نسائی ص/ ۱۸۱ ( د)المجملکبیر ج/ ۱۷ ص/ ۳۹ ( ہ) سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( و) المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳۲ص/ ۱۳۵ ( ز) المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ ( ح) مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص / ۲۸۰،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱( ط)مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴،اور دیگر کتب۔
[6] اسخطبہ کو اہل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکیا ہے۔ جیسے (الف) مسند احمد ج/ ۱، ص/ ۸۴، ۸۸، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۵۲، ۳۳۲، ۲۸۱، ۳۳۱،اور۳۷۰( ب) سنن ابن ماجہ ج/ ۱،ص/ ۵۵، ۵۸ ( ج) المستدرک الصحیحین نیشاپوریج/ ۳ ص/ ۱۱۸، ۶۱۳( ج) سنن ترمزی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( د) فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ ( ہ) تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ ( و) تاریخ خلفاء،سیوطی/ ۱۱۴،اوردیگر کتب۔
[7] سورہ مائدہ آیہ/ ۳، ۶۷
[8] وفایة الآیان ۶۰/۱
[9] وفایةالآیان ج/ ۲ ص/ ۲۲۳
[10] ترجمہ آثارالبقایہ ص/ ۳۹۵،الغدیر/ ۱،ص/ ۲۶۷
11] ثمار القبول اعیان/ ۱۱
[12] عمر بن خطاب کی مبارک بادی کا واقعہ اہلسنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں (الف) مسند ابن حنبل ج/ ۶،ص/ ۱۰۴ ( ب) البدایہ ونہایہ ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ ( ج)الفصولالمہمہ ابن صباغ ص/ ۴۰ ( د)فرائد السمطین،ج/ ۱،/ ۷۱،اسی طرح ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ و زبیرکی مبارکبادی کا ماجرا بھی بہت سی دوسر ی کتابوں میں بیان ہوا ہے جیسےمناقب علی بن ابی طالب،تالیف :احمدبن محمد طبری،الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰
[13] اس اہم سند کا ذکر دوسری جگہ پر کریں گے
[14] سندوں کا یہ مجموعہ الغدیرکی پہلی جلد میں موجود ہے جو اہل سنت کی مشہور کتابوں سے جمع کیا گیا ہے۔
[15] سورہٴ مائدہ آیہ/ ۳
[16] حسان کے اشعار بہت سی کتابوں میں نقل ہوئےہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :مناقب خوارزمی،ص/ ۱۳۵،مقتل الحسین خوارزمی،ج/ ۱،ص/ ۴۷،فرائد السمطین ج/ ۱،ص/ ۷۳ و ۷۴،النور المشتعل،ص/ ۵۶،المناقب کوثر ج/ ۱،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲
[17] یہ احتجاج جس کو اصطلاح میں" مناشدہ "کہا جاتا ہے حسب ذیل کتابوں میں بیان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزمیحنفی ص/ ۲۱۷،فرائد السمطین حموینی باب/ ۵۸،الدر النظیم ابن حاتم شامی،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلانی ص/ ۷۵، امالی بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲، شرحنہج البلاغہ ابن الحدید ج/ ۲ ص/ ۶۱، الاستیعاب ابن عبد البر ج/ ۳،ص/ ۳۵،تفسیر طبری ج/ ۳ ص/ ۴۱۸،سورہ مائدہ کی ۵۵ آیہ کے تحت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
خلافت ظاہرى سے شہادت تك 3
حضرت امام حسين عليہ السلام اور اسلامي حکومت

 
user comment