اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

آٹھ ذوالحجہ؛ یوم الترویہ اور اس کے آداب و اعمال

آٹھ ذوالحجۃ الحرام یوم ترویہ ہے؛ ترویہ کے معنی پانی ذخیرہ کرنے کے ہیں۔ اس دن بیت اللہ الحرام کے زائرین و حجاج کرام مکہ سے منی کا سفر اختیار کرتے ہيں جہاں ایک رات ٹہر کے انہیں عرفات جانا پڑتا ہے اور وہاں انہیں عرفات جانے کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔

بقلم: زیدی

آٹھ ذوالحجہ؛ یوم الترویہ اور اس کے آداب و اعمال

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

چونکہ قدیم زمانے میں عرفات میں پانی ناپید تھا اسی لئے حجاج منی کے خاص اعمال انجام دینے کے ساتھ اس روز عرفات اور اس کے بعد مشعر الحرام میں ٹہرنے کے لئے پانی فراہم کرتے تھے چنانچہ اس کو یوم الترویہ کا نام دیا گیا۔ یوم الترویہ یعنی آب رسانی کا دن۔
اس روز حجاج حج تمتع کی نیت سے احرام باندھ کر مکہ سے منی کی طرف عزیمت کرتے ہیں، رات وہیں بسر کرتے ہیں اور صبح عرفات پہنچتے ہیں۔ یہ دن روز عرفہ کے اعمال کے لئے ابتدائیہ ہے اور یہیں عرفہ کے اعمال کی تیاری ہوتی ہے۔
یوم الترویہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کے حج کی یادگار ہے کیونکہ جبرائیل(ع) نے انہیں بتایا کہ عرفات، مشعر اور منی کے لئے پانی بھی ساتھ لے جائیں۔ نیز اسی دن حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا قافلہ مکہ سے نکل کر منی پہنچا تھا اور وہیں سے عرفات روانہ ہوا تھا۔
یہ دن ذوالحجہ کے اہم دنوں میں سے ایک ہے اور امام جعفر صادق(ع) سے منقولہ حدیث کے مطابق اس دن کو روزہ رکھنا انسان کا ساٹھ سال کا کفارہ ہے۔ (1)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم (ع) کو تعمیر کعبہ کا حکم ملا تو انہیں کعبہ کا اصل مقام معلوم نہ تھا چنانچہ جبرائیل (سلام اللہ علیہ) نے اللہ کے حکم سے وہ مقام انہیں بتا دیا اور خداوند متعال نے کعبہ کے ستون بہشت سے نازل کئے اور حجرالاسود بھی نازل ہوا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کے لئے دو دروازے قرار دیئے ایک مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب۔ جس کو مستجار کہا جاتا ہے۔ جب تعمیر کعبہ کا کام مکمل ہوا تو ابراہیم اور اسمعیل (علیہما السلام) نے حج کی نیت سے طواف کیا اور آٹھ ذوالحجۃ الحرام کو جبرائیل نازل ہوئے اور ان سے کہا کہ اٹھیں اور پانی اکٹھا کریں کیونکہ زمین عرفات میں پانی نہيں ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کو یوم الترویہ (پانی جمع کرنے) کا دن کہا گیا۔
ارشاد ربانی ہے:
"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ"۔ (٭)
"اور وہ وقت جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پرور دگار اس کو امن والا شہر بنا اور اس میں رہنے والوں کو پھلوں سے روزی عطا کر، انہیں کہ جو ان میں سے اللہ اور آخرت پر بھی ایمان لائیں۔ ارشاد ہوا کہ اور جو کفر اختیار کرے گا میں اسے بھی کچھ دن تو مزے اٹھالینے دوں گا۔ پھر اسے بہ جبردوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے"۔
اللہ اور خلیل اللہ کے درمیان یہ مکالمہ تعمیر کعبہ کے بعد انجام پایا۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ثمرات اور پھلوں سے روزی پانے اور بہرہ مند ہونے سے مراد ثمرات قلوب یعنی لوگوں کی محبت اور مکہ کی جانب ان کا مائل ہونا ہے تکہ وہ اس کی طرف سفر اختیار کریں۔ (2)
عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کررہے ہیں "فأصبح بروی یومه أجمع" پس وہ صبح کو اٹھے اور پورا دن سوچتے رہے کہ کیا یہ خواب اللہ کا حکم ہے یا نہیں؟، چنانچہ اس دن کو ترویہ کا دن کہا گیا اور جب دوسری رات بھی وہی خواب دیکھا "فلّما أصبح عرف أنّه من الله" پس جب صبح ہوئی تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا حکم ہے چنانچہ اس دن کو "یوم عرفہ" کا نام دیا گیا۔ (3)
یوم الترویہ کی منزلت
یوم الترویہ زمانے کے قابل قدر ترین ایام میں شمار کیا گیا ہے جس کے اپنے آداب و اعمال ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: خداوند تبارک و تعالی ہر چیز میں سے چار چیزیں منتخب کردیں: فرشتوں میں سے جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل (علیہم السلام)؛ تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے چار انبیاء کو منتخب کیا: ابراہیم، داؤد، موسی (علیہم السلام) اور مجھے؛ چار خاندانوں کو دوسرے خاندانوں میں سے چن لیا: خاندان آدم، خاندان نوح، خاندان عمران؛ اور شہروں میں سے چار شہروں کو چن لیا اور تین و زیتون اور طور سینین اور "اس بلد امین" کی قسم کھائی پس تین سے مراد مدینہ ہے، زیتون سے مراد بیت المقدس، طور سینین سے مراد کوفہ اور بلد امین سے مراد مکہ ہے؛ اور خواتین میں سے چار خواتین کو منتخب کیا: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (سلام اللہ علیہن)؛ اور اعمال حج میں سے چار اعمال کو منتخب کیا: قربانی دینا، لبیک کے ساتھ آواز بلند کرنا، احرام اور طواف؛ اور مہینوں میں سے چار مہینوں کو حرام قرار دیا: محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ اور ایام میں سے چار کو منتخب کیا: روز جمعہ، یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ)، روز عرفہ (نو ذوالحجہ) اور عید الضحی (دس ذوالحجہ)۔ (4)
شیخ صدوق نے امالی میں نقل کیا ہے کہ حج کے مستحب اعمال میں سے ایک یہ ہے کہ یوم الترویہ کو زوال شمس سے لے کر رات تک کا ادراک کرے اور جو ایسا کرے اس نے پورے حج تمتع کا ادراک کیا ہے۔ (5)
اس روایت کے مطابق یوم ترویہ کی منزلت اس قدر ہے کہ اس کا ادراک پورے حج کا ادراک سمجھا گیا ہے کیونکہ ترویہ کا دن درحقیقت عرفات اور عید الضحی میں داخل ہونے کی تیاری کا دن ہے۔
اس دن کے اعمال
محمد بن عمیر نے ایک واسطے سے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ روز ترویہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور عرفہ کا روزہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (6)
محدث شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں اس دن کے روز کو ساٹھ برسوں کے کفارے کے برابر قرار دیا اور نقل کیا ہے کہ شیخ شہید نے اس دن کے غسل کو بھی مستحب قرار دیا ہے۔
اس دن کے واقعات:
اس دن امام حسین (علیہ السلام) نے اہل کوفہ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:
بسم الله الرحمن الرحیم
حسین بن علی کی طرف سے مؤمن و مسلم بھائیوں کے نام
میں منگل از طرف حسین بن علی بسوی برادران مؤمن و مسلمان
سلام علیکم.
... میں منگل آٹھ ذوالحجۃالحرام کو ـ جو یوم ترویہ ہے ـ مکہ معظمہ سے تمہاری طرف روانہ ہوا؛ جب میرا نمائندہ تم پر وارد ہوجائے تو اپنے کام میں عجلت اور کوشش کرو کیونکہ میں ان ہی دنوں تمہارے پاس آؤں گا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ایک شبہہ اور اس کا جواب
شبہہ مشہور ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے حج کو ناقص چھوڑا اور عراق کی طرف روانہ ہوئے جو ایک غلط بات ہے اور شیعہ فقہاء نے بھی اس کو غلط اور نادرست قرار دیا ہے کیونکہ امام (علیہ السلام) اٹھ ذوالحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ سے عراق روانہ ہوئے ہیں جبکہ حج کا اغاز مکہ میں احرام باندھ کر عرفات میں وقوف سے ہوتا ہے۔
پس حقیقت یہ ہے کہ امام (علیہ السلام) اصولا حج کے اعمال میں داخل نہیں ہوئے تھے اور حج کو ناقص چھوڑنے کی بات بےجا ہے۔ امام حسین(ع) نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لایا تھا۔ گوکہ شیخ مفید سمیت بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور طواف اور سعی کے بعد احرام سے نکل آئے کیونکہ آپ (ع) حج کو مکمل کرنے سے عاجز تھے؛ تاہم یہ رائے بعید از قیاس ہے۔
امام صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے:
"قَدِ اعْتَمَرَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ (عليه السلام) فِی ذِی الْحِجَّةِ ثُمَّ رَاحَ یَوْمَ التَّرْوِیَةِ إِلَى الْعِرَاقِ وَالنَّاسُ یَرُوحُونَ إِلَى مِنًى وَلَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِی ذِی الْحِجَّةِ لِمَنْ لَا یُرِیدُ الْحَجَّ"۔ (7)
"امام حسین(ع) ذوالحجہ میں عمرہ بجالائے اور اس کے بعد یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کو عراق کی طرف عزیمت فرمائی جبکہ لوگ منی جارہے تھے اور جو حج بجا نہیں لانا چاہتا وہ عمرہ بجا لای سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے"۔
مکہ سے خروج کی دو اہم دلائل ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ آپ(ع) کو حجاج کے بھیس میں مکہ آنے والے یزیدی دہشت گردوں کی طرف سے جانی خطرہ لاحق تھا اور دوسرا یہ کہ آپ(ع) کسی صورت میں بھی حاضر نہ تھے کہ بیت اللہ الحرام کی حرمت شکنی ہو۔
آپ(ع) نے عبداللہ بن زبیر سے فرمایا: خدا کی قسم اگر میں ایک بالش برابر مکہ سے باہر مارا جاؤں تو یہ میرے سے اس سے کہیں زيادہ پسندیدہ ہے کہ مکہ کے اندر مارا جاؤں۔ خدا کی قسم! اگر میں جانوروں کے بلوں میں پناہ لوں پھر بھی یزید کے گماشتے مجھے باہر لائیں گے تا کہ حاصل کریں جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-علل الشرایع ج 2 ص 399 باب 171
٭۔ سورہ بقرہ آیت 126۔
2-قصص النیاء ص 193
3-صحیفه سجادیه ترجمه و شرح فیض الاسلام ص 322
4- خصال ترجمه مهری ج 1 ص 249
5-امالی شیخ صدوق ترجمه کمره ای ص 651، احتجاجات ترجمه ج 4 بحارالانوار ج 2 ص 391
6-ثواب الاعمال ترجمه انصاری ص 145
7- الکافی ج : 4 ص 536۔
8-وقعه الطف ص 152۔

 


source : www.sibtayn.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہل سنت والجماعت کی اصطلاح کا موجد؟
فلسطین کی تاریخ
حضرات ائمہ علیھم السلام
والدین کی نافرمانی کےدنیامیں منفی اثرات
عزا داری کا اسلامی جواز
ایمانداری کا انعام
سنت محمدی کو زندہ کرنا
امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے
دينى حكومت كى تعريف
خطبه غدیر سے حضرت علی علیه السلام کی امامت پر ...

 
user comment