اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

جیمس پٹراس: ایران پر حملہ امریکہ کو زوال کے جہنم میں دھکیل دے گا

ایک امریکی مبصر نے لکھا کہ ایران ممکنہ امریکی - اسرائیلی حملہ امریکی سلطنت کو سقوط اور تباہی کے جہنم میں دھکیل دے گا۔

جیمس پٹراس: ایران پر حملہ امریکہ کو زوال کے جہنم میں دھکیل دے گا

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق امریکی دانشور و مبصر جیمس پٹراس نے (James Petras) نے گلوبل ریسرچ ویب بیس میں "امپریلزم اور جمہوریت: وہائٹ ہاؤس یا میدان آزادی" کے عنوان کے تحت اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملہ ایک ایسی آگ بھڑکا دے گا جو عالمی سطح پر پھیل جائے گی اور ایران جو جوابی کاروائی کرسکتا وہ ایسا ضرور کرے گا۔ اس کے بعد سعودی عرب اور خلیج فارس کے تیل کے کنویں آگ کی نذر ہونگے، جہاز رانی کے حیاتی روٹس بند ہوجائیں گے، تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرے گی اور ایشیائی، یورپی اور امریکی معیشتیں نیست و نابود ہوجائیں گی اور سب دیوالیہ ہوجائیں گے۔
ایران کے سپاہی اپنے حلیف ملک "عراق" کی افواج کے ہمراہ بغداد کی چھاؤنیوں کا محاصرہ کریں گے، افغانستان اور پاکستان غرضیکہ پوری دنیائے اسلام ہتھیار اٹھائے گی اور امریکی افواج یا تو بھاگیں گی یا ہتھیار ڈالیں گی۔ بجٹ کے خسارے اور ادائیگیوں کے بیلنس میں شدید اضافہ ہوگا اور یہ سلسلہ قابو سے باہر ہوگا۔ بے روزگاری میں دو گنا اضافہ ہوجائے گا اور یہ پیہم ممکنہ واقعات ایک جمہوری تحریک کے شعلوں کو ہوا دیں گے اور ایک نئی وجود میں آنے والی جمہوریت اور ایک بوسیدہ و فرسودہ سلطنت (Empire) کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوگی اور اس کو خطرے سے دوچار کرکے سقوط اور زوال کے جہنم میں پھینک دے گی۔
مضمون کا مکمل متن:
مقدمه
امپریلزم اور جمہوریت کے درمیان رابطہ 2500 برسوں سے ـ پانچویں صدی قبل مسیح سے لے کر (نیویارک میں) منہتن کے آزادی پارک تک، زیر بحث و مناظرہ رہا ہے امپریلزم اور کیپٹلزم کے نقادوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان دو میں بہت گہرے تضادات نظر آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بل کلنٹن کے زمانے میں امریکہ پولیس اسٹیٹ بن گیا اور اس نے پولیس آپریشنز کا سہارا لیا، بش نے اس کو آگے بڑھا کر قومی اور ملکی قوانین وضع کئے جبکہ اوباما نے ایک قدم آگے بڑھایا اور قانون کے ماوراء سمندر پار لوگوں پر قاتلانہ حملوں کا سہارا لیا ہے جبکہ امریکہ آج تک متعدد استعماری لڑائیاں لڑتا آیا ہے اور آج بھی اوباما ان جنگوں کے قائل ہيں۔
لیکن اس سے قبل ماکس ویبر (Max Weber) سے لے کر ولادیمیر لینن تک کے نظریہ پردازوں کا خیال تھا کا امپریلزم نے ملک کو متحد کئے رکھا ہے، ملک کے اندر خاص طبقات کو مرکزیت حاصل نہیں کرنے دیا ہے، ایسے مزدوروں کا طبقہ پیدا کیا ہے جو مراعاتوں سے بہرہ مند ہیں اور یہ مزدور امپریلسٹ جماعتوں کی فعالانہ حمایت کرتے اور ان کو ووٹ دیتے ہيں۔
اگر ایک تاریخی جائزہ پیش کیا جائے اور ان حالات پر روشنی ڈالی جائے اور ان کا موازنہ کیا جائے جن کے تحت امپریلسٹ اور جمہوری ادارے ایک دوسرے سے قریب یا دور ہوجاتے ہیں، تو ان چیلنجوں اور آپشنز (Options) کی قدرے وضاحت ہوجائے جو جمہوری تحریکوں کے سامنے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ یہ تحریکیں پوری دنیا میں بالیدگی اور نشوونما کی حالت میں ہیں اور آتشفشانی کررہی ہیں۔
انیسویں صدی
انیسویں صدی میں یورپی اور امریکی سلطنتیں (Empire) پوری دنیا میں وسیع سے وسیع تر ہورہی تھیں اور جمہوری ادارے بھی اسی رفتار سے معرض وجود میں آرہے تھے۔ مزدور طبفے کو حق رائے دہی کی عطائیگی کو فروغ دیا گیا، مختلف جماعتیں معرض وجود میں آئیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کرنے لگيں۔ سماجی قوانین وضع ہوئے اور مزدور طبقات نے قانون ساز اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔
کیا جمہوریت اور امپریلزم کا بیک وقت فروغ ایک غیر منطقی یکجہتی کا نتیجہ تھا اور قوتوں کے درمیان پایاجانے والا تضاد اس ہمزمانی کا سبب تھا؟ ہم جانتے ہيں کہ امپریلزم سمندر پار فتوحات کا خواہاں تھا اور جمہوریت جمہوری پالیسیوں کو ترغیب دیتی تھی۔ حقیقت میں امپریلزم اور جمہوریت کی پالیسیوں میں وجوہ اشتراک کی کوئی کمی نہ تھی اور یہ وجوہ اشتراک صرف ممتازاور مراعات یافتہ طبقوں تک محدود نہ تھیں۔
پوری انیسویں صدی، بالخصوص بیسویں صدی عیسوی کے دوران لیبر اور سوشل ڈیموکریٹک جماعتوں اور بائیں بازو کے کئی اہم افراد اور انقلابی سوشلسٹوں نے کسی خاص موقع پر یا دوسرے مواقع پر، مزدوروں کے مطالبات کو امپریلزم کے فروغ و توسیع کی حمایت کے ساتھ نتھی کیا۔ حتی کارل مارکس نے بنفس نفیس اپنی صحافتی مضامین میں جو "نیویارک ہیرلڈ ٹربیون" میں شائع کئے جاتے تھے، ہندوستان میں برطانوی فتوحات کو "ماڈرن کرنے والی قوت"، "پیس کر رکھنے والی قوت"، اور [ہندوستان کی ترقی میں] رکاوٹ بننے والی جاگیرداری قوتوں کو دیوار سے لگانے والی قوت" جیسے الفاظ سے یاد کرکے برطانوی امپریلزم کی تنقیدی حمایت کی۔ اس نے اسی زمانے میں یورپ میں 1848 کے انقلابات کی بھی حمایت کی۔
امپریلزم کی قوت محرکہ، تشکیل دینے والے برسر اقتدار طبقات دو گروہوں میں تقسیم ہوئے: بعض لوگ بعض جمہوری اصلاحات کے ذریعے عوام کو "شہری" میں تبدیل کرنے کو ایسا وسیلہ سمجھتے تھے جس کے نتیجے میں شہریوں کو فوج میں جبری خدمت کے لئے بلا کر سامراجی (امپریلسٹک) جنگوں میں بروئے کار لایا جاسکتا تھا۔ بعض دوسرے خوفزدہ تھے کہ جمہوری اصلاحات معاشرتی مطالبات میں اضافے اور وسعت کا سسب بنیں گی اور یہ صورت حال سرمایہ اکٹھا کرنے کے عمل اور مراعات یافتہ طبقے (The privileged class) کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی۔ ان دو طبقوں کی بات صحیح تھی کیونکہ سیاست میں عوام کی وسیع شرکت ایک مہلک اور خطرناک جدید قوم پرستی نے جنم لیا جس نے سلطنت سازی اور امپائر سازی کے لئے ضروری ایندھن فراہم کیا لیکن جمہوری حقوق پر عوام کی دسترس طبقاتی تنظیموں کی تشکیل کے لئے ایک وسیع تحریک کے آغاز پر منتج ہوئی جس نے مراعات یافتہ طبقے کی حکومت کو چیلنج کیا اور اس کو خطرات سے دوچار کیا۔ حکمران طبقے اپنے اندر جمہوری اداروں کو مراعات یافتہ کے مختلف دھڑوں کے درمیان رونما ہونے والے مسائل کے حل کا وسیلہ سمجھتے تھے جو آپس میں مسابقت کرتے تھے لیکن جب ان جمہوری اداروں نے عوامی صورت اختیار کرلی اور ان کی خصلت بھی عوامی ہوگئی تو یہ بھی سیاسی خطرہ سمجھے گئے۔
امپریلسٹ جماعتوں اور طبقات کی بنیاد پر تشکیل پانے والی جماعتوں نے شہروں میں مزدوروں اور دیہی علاقوں کے غرباء کے ووٹ کمانے کے لئے مقابلے کا آغاز کیا جبکہ مزدوروں اور دیہاتیوں نے تازہ تازہ حق رائے دہی حاصل کیا تھا۔ بہت سے مسائل میں افراد کے وجود کے اندر امپریلزم سے وفاداری اور طبقات سے وابستگی کی دو خصوصیات "بقائے باہمی" کے عنوان سے سمائی ہوئی تھیں۔ اس سوال کا جواب سوال کہ "امپریلسٹک آگہی یا پھر طبقاتی آگہی" میں سے کونسی عمل کے میدان میں اترے گی یا دوسری پر سبقت حاصل کرے گی کسی حد تک سیاسی منصوبوں کی کامیابی یا شکست پر منحصر تھا۔
بالفاظ دیگر جب دولت سے مالامال نوآبادیوں بالخصوص مہاجر نشین نوآبادیوں میں سہل و آسان فتوحات کے ذریعے سلطنتوں کی توسیع کا منصوبہ وضع کیا جاتا، جمہوریت پسند مزدور امپریلزم کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت (امپائر) تجارت کو فروغ دیتی تھی یعنی برآمدات منافع بخش اور درآمدات سستی اور آسان ہوجاتی تھیں اور سلطنت ہی مقامی منڈی اور صنعتکاروں کو تحفظ دیتی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ مزدور طبقے کے ایک بڑے طبقے روزگار کی فراوانی اجرتوں میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لیبر جماعتیں، سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں مزدور یونینوں کے ہمراہ کبھی بھی امپریلزم کی مخالفت کے لئے نہیں اٹھیں بلکہ اس کی حمایت کرتے تھے۔
دوسری جانب سے جب امپریلسٹک لڑائیاں خونریز جنگوں میں تبدیل ہونے اور ان کے اخراجات میں اضافف کی صورت میں مزدور طبقہ قوم پرستی (اور Chauvinism) سے سرشار جذبات سے دور ہوجاتا تھا اور ان جنگوں کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ جنگ کے خاتمے کے لئے جمہوری مطالبہ ہڑتالوں پر منتج ہوا جو نا متناسب ‍قربانیوں پر ترجیح رکھتی تھیں اور اس ترتیب سے جمہوری اور امپریلزم مخالف جذبات آپس میں متحد ہونے کی جانب مائل ہوجاتے تھے۔
امپریلزم اور جمہوریت کے درمیان تضادات اس وقت ابھر کر سامنے آیا کرتے تھے جب امپریلزم کے محاذ میں شکست کے آثار نمودار ہوتے یا حتی امپریلسٹ ملک دشمن کے ہاتھوں تسخیر ہوجاتا۔ 71ـ 1870 میں فرانس پر جرمنی کے قبضے اور پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست جمہوری اور سوشلسٹ بغاوتوں پر منتج ہوئی۔ (1971 میں پیرس کمیون اور 1918 میں جرمن انقلاب کے بعد) لوگوں نے میلٹارزم (()) اور طبقہ حاکمہ اور سرمایہ دارانہ و امپریلسٹک نظام کے پورے پیکر پر یلغار کی۔
امپریلزم اور جمہوریت کا جائزہ اور "تاریخ، معاشرے کے زیریں طبقوں کے زاویہ نگاہ سے"
مؤرخین، بالخصوص ڈیلی فیشن مکتب کے پیروکاروں نے "تاریخ، معاشرے کے زیریں طبقوں کے زاویہ نگاہ سے" کے عنوان سے جمہوری اقدار اور مزدور طبقے کی جدوجہد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ساتھ ساتھ مزدور طبقے کی جانب سے امپریلسٹک فتوحات کی طویل المدت حمایت کو ناچیز گردانا۔ اس صورت میں مزدور طبقے کی ذاتی یا جِبِلِّی یکجہتی اس لئے شدت کے ساتھ کمزور ہوگئی کہ انھوں نے امپریلسٹک فتوحات میں وسیع کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے سپاہیوں، مزدوروں، ملاحوں اور ناظرین و شاہدین یا پھر براہ راست مداخلت کی شکل میں سمندر پار فتوحات میں حصہ لیا تھا۔ فرانسیسی اور برطانوی مزدوروں اور بعدازاں امریکہ میں مزدور تحریکوں میں بہت سے مزدور تھے جو اپنے ملک کی بین الاقوامی سلطنت کے لئے کام کررہے تھے ان کی مدد کررہے تھے اور ان کے وفادار تھے۔
یہاں جو نقطہ نظر منظور نظر ہے وہ یہ ہے یہ مزدور طبقہ جمہوری آگہی کو صرف اس شرط پر امپریلسٹک آگہی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہيں جب امپریلسٹک پالیسیوں سے حاصل ہونے والے وادی فوائد اور ثمرات جمہوری جدوجہد سے حاصل ہونے والے فوائد سے کم ہوں۔
مزدور اور امپریلزم
سلطنت (امپائر) قائم کرنے کے لئے مزدوروں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ کم اجرت پر زیادہ پیداوار دے دیں تاکہ نوآبادیوں کی طرف برآمدات میں اضافہ ہو اور ان علاقوں میں منافع بخش سرمایہ کاری کی جاسکے۔ مزدوروں سے یہ تقاضا خاص طور پر امپائر کی توسیع کے پہلے مرحلے میں سرمایہ داروں اور مزدوروں کے درمیان جھگڑے کا باعث بنا۔ جس وقت بین الاقوامی سلطنتیں نوآبادیاتی ممالک پر اپنا کنٹرول مضبوط کررہی تھیں منڈیوں، مزدوروں اور وسائل کے استحصال میں بھی شدت لارہی تھیں۔ نوآبادیوں کے لئے بے تحاشا برآمدات نے علاقائی صنعتکار حریفوں (Competitors) کو نیست و نابود کردیا۔ اس طرح منافع کی مقدار میں اضافہ ہوا، اجرتوں میں اضافہ ہوا اور مزدوروں نے سلطنت کے خلاف اپنی ابتدائی مخالفت کا سلسلہ ترک کردیا اور برآمدات تیار کرنے والی صنعتوں کے منافع میں حصہ مانگنے لگے۔ مزدوروں اور لیبر یونینوں کے راہنماؤں نے سلطنت کی ترجیحی پالیسیوں کی تائید کردی۔ یہ پالیسیاں مسابقتوں میں مقاقی صنعتوں نیز نوآبادیوں کی منڈیوں پر موناپولی اور کنٹرول کا تحفظ کررہی تھیں۔ ان کی حمایت کا سبب یہ تھا کہ سلطنت (Empire) ان کے روزگار کا تحفظ کررہی تھی اور ان کی زندگی کی سطح کو ارتقاء مل رہا تھا۔
سماجی جدوجہد میں سرگرم عمل مزدور یا تو بلیک لسٹ ہوجاتے تھے یا پھر جیلوں میں ڈال دیئے جاتے تھے چنانچہ وہ یا رضاکارانہ طور پر نوآبادیوں میں ہجرت کرتے تھے یا پھر ان ممالک میں جلاوطن ہوکر بھیج دیئے جاتے تھے۔ جب وہ نوآبادیوں میں سکونت پذیر ہوتے تو انہیں روزگار کے مواقع پیش کئے جاتے جہاں اجرتیں زیادہ سے زیادہ ہوتیں۔ مثلا ان کو تخصصی امور کی مباشرت اور نظارت (Stewardship) کی ذمہ داری کی پیشکش کی جاتی تھی یا کوئی عہدہ اور کسی ادارے کا انتظام و انصرام سونپا جاتا تھا اور یوں وہ استعماری نظام کے آلہ کار میں بدل جاتے تھے۔ ان میں سے کئی افراد اپنے سابقہ رفقائے کار یا افراد خاندان اور دوستوں کو بھی اپنے پاس بلاتے اور انہیں مہاجر یا قراداد کی بنیاد پر مزدور کا کام کرنے کی پیشکش کیا کرتے تھے۔ مزدوروں کو مقامی بنانا اور جمہوری و استعماری جذبات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور ان میں پر امن بقائے باہمی قائم کرنا ایک کامیاب اور فاتح استعمار یا امپریلزم کا سبب بھی تھا اور اس کا نتیجہ بھی تھا۔
افراد کی وفاداری سلطنت کی جانب موڑنا لیکن آب و نان دے کر نہیں
گو کہ استعمار کی جانب سے مزدوروں کے مفادات کا تحفظ سلطنت کے لئے مزدوروں کی آگاہانہ حمایت کا سبب سمجھا جاتا تھا۔ یہ حمایت اور جانبداری خوشنودی اور علامتی رضا و رغبت کے اس احساس کے ذریعے تقویت پاتی تھی کہ "میں ایک ایسے ملک کا باشندہ ہوں جو "دنیا کے قائدین میں شمار ہوتا ہے ایسا ملک جس میں سورج غروب نہيں کرتا"۔ بہت کم ایسا ملک پایا جاسکتا ہے جس کے مزدوروں کی اکثریت نے کبھی بھی استعماری طاقتوں کے ہاتھوں دوسرے علاقوں سے لائے گئے استحصال کا شکار مزدوروں، کانکنوں، مزارعوں اور دہقانوں یا نوآبادیوں کے مقامی چھوٹے مالکان کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی ہو۔ ایک استعماری ملک کی طاقت جتنی زیادہ ہوتی اس کے لئے استعمار و استحصال کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم تھے۔ استعمار کی قید و بند جتنی دیر پا رہتی اس استعماری قوت کا معاشی نفوذ اتنا ہی گہرا ہوتا تھا اور نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اس استعماری سلطنت کے مزدوروں میں غرور اور برتری کا احساس زیادہ قوی اور مستحکم ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ بات ہرگز حیرت انگیز نہيں ہے کہ چین میں افیم کی جنگ میں انگریز سلطنت میں وحشی پن کی انتہا کردی، انیسویں صدی کے دوران کئی بار آئرلینڈ پر اور بیسویں صدی میں ہندوستان پر متعدد بار قحط مسلط کیا اور پوری نسلوں کو موت کے منہ میں اتارا لیکن برطانوی مزدوروں اور اس ملک کے مزدوروں کی جماعت "لیبر پارٹی" نے کبھی بھی استعماری ملک کے ان غیر انسانی کرتوتوں کے خلاف کوئی مؤثر احتجاج نہيں کیا۔ اسی طرح فرانسیسی مزدوروں کی جماعتوں بالخصوص سوشلسٹوں نے دوسری جنگ کے بعد جزیرہ نمائے ہندوچین (Indochinese Peninsula) (1) اور شمالی افریقی ملک الجزائر میں فرانس کی استعماری جنگوں میں بھرپور شرکت کی اور صرف اس وقت ان جنگوں کی مخالفت کی جب فرانس کو ان جنگوں کے نتیجے میں حتمی شکست اور اندرونی طور پر مکمل نابودی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سلسلے میں کیوبا اور فلپائن کے خلاف امریکہ کی کامیاب جنگوں اور کیریبین اور جنوبی امریکی ممالک میں اس ملک کی جارحیتوں کو "امریکن لیبر فیڈریشن" اور بہت سے عام مزدوروں کی حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ ریڈیکل اور بنیاد پرست مزدوروں کی ایک اقلیت نے ان جنگوں کی مخالفت کی۔ مزدوروں کی جانب سے کوریا، ویت نام اور افغانستان میں امریکہ کی استعماری جنگوں کی "محدود مخالفت"، دیرپا نقصانات اور بہت زیادہ معاشی ضرر و زیاں اور کامیابی کے اثرات کے فقدان کا نتیجہ تھی۔
اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مزدوروں نے حتی استعماری جنگوں کی مخالفت کرتے وقت بھی نوآبادی ملکوں میں جاری حریت پسند تحریکوں اور مزدور تحریکوں سے یکجہتی کا اظہار نہیں کیا۔
استعمار (امپریلزم) اور "حقیقی جمہوریت"
بائیں بازو کی بعض تنظیموں سے سنا جاتا ہے کہ "استعمار جمہوریت کے ساتھ سازگار نہيں ہے" ایسی ہی بات ہے کہ ہم کہہ دیں کہ "گذشتہ ڈیڑھ صدی میں کبھی بھی آزادانہ انتخابات نہيں ہوئے، جماعتوں کے درمیان مسابقت نہيں ہوئی، اور حالیہ عشروں میں شہریوں کے حقوق حتی محدود سطح پر بھی، ملحوظ نہيں رکھے گئے"۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں استعماری مداخلت اور ان ممالک میں نوآبادیات کے فروغ میں "جمہوری اداروں کی نسبت شہریوں کے تعہد (Commitment)" نے کردار ادا کیا ہے اور اسی تعہد نے سلطنت کے قائدین کو یہ امکان فراہم کیا کہ وہ خونریز لڑائیوں، حتی کہ اقوام کے قتل عام اور استعماری جنگیں لڑنے کے لئے قانونی جواز فراہم کریں اور ان جنگوں اور خونریزیوں کے لئے اپنے شہریوں کی فعالانہ حمایت یا تعاون حاصل کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت امپریلزم کی توسیع اور اس کے فروغ میں رکاوٹ نہ تھی ـ جو حتی حقیقت میں خاص صورت حال میں ان جنگوں کو ممکن بنانے میں ممد و معاون بھی رہی ـ تو پھر کن حالات کی بنا پر مزدور تحریک اور عوام نے استعماری جنگوں کی مخالفت کی ہے؟ جب رائے دہندگان کی اکثریت نے ان جنگوں کی مخالفت کی ہے تو اس وقت حکمران طبقے کا رد عمل کیا رہا ہے؟ بالفاظ دیگر جب جمہوری ادارے استعماری پالیسیوں میں قوت محرکہ کا کردار ادا نہیں کرتے تو حکمران قوتیں کیا کرتی ہیں؟

استعماری جمہوریت سے استعماری پولیس اسٹیٹ تک
گذشتہ 10 سال کے عرصے نے امریکہ میں استعمار اور جمہوریت کے سلسلے میں ہمیں اہم اسباق دیئے ہیں۔ میں ایک بحث انگیز صورت حال سے شروع کرتا ہوں جو اس سلسلے میں پائی جاتی کہ دہشت گردوں کی دسترس امریکی سرزمین تک کیونکر ممکن ہوئی؟ وہ کس طرح 9 ستمبر 2001 کو مسافر طیارے ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ہم نے دیکھا کہ اس واقعے کے بہانے حکومت امریکہ نے دو اہم استعماری جنگیں لڑیں اور صومالیہ، یمن، پاکستان اور لیبیا میں بے شمار اعلانیہ اور غیر اعلانیہ حملے کئے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ جارج بش نے شروع کردی اور یہ جنگ سینئر غیر منتخب صہیونی فوجی حکام نے نیٹو اور اسرائیل کے تعاون اور جمہوری انداز سے منتخب ہونے والی امریکی کانگریس کی حمیات سے لڑی۔ اسی بنا پر ووٹروں کی عظیم اکثریت نے خوف و ہراس پھیلانے والی عظیم تشہیری مہم، جادوگری اور دروغ گوئی سے متأثر ہوکر ان جنگوں کی حمایت کی۔
ان جنگوں (یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگوں) کی وسعت اور وفوجی اخراجات نیز اندرون ملک ایک جابر اور کچل دینے والی سیکورٹی مشینری (یا سیکورٹی اداروں) کے اخراجات میں شدید اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک پولیس اسٹیٹ کی بنیاد پڑی۔
سلطنت کی پالیسیوں کا منحنی راستہ ابتدائی کامیابیوں سے شروع ہوکر مسئلہ انگیز اور طویل المدت قبضوں تک پہنچا۔ یہ صورت حال مقبوضہ ممالک میں مزاحمت کی شدت اور وسعت، حکومت کے اخراجات میں بے تحاشا افزائش، گہرا ہوتا ہوئے مالی اور معاشی بحران، اندرونی بدعنوانیوں اور سقوط و زوال اور سیاسی مخالفتوں میں اضافے پر منتج ہوئی۔
بالکل ماضی کی طرح حالیہ جنگیں بھی ـ جو پرخرچ اور طویل ہوچکی ہیں اور ان سے فتح اور کامیابی کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی ـ شہریوں کی ناراضگی کا سبب بن گئی ہيں اور اب تو اعلانیہ مخالفت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اجرت لینے والے نیز تنخواہ دار شہریوں کی اکثریت (یعنی مزدوروں اور سرکاری ملازمین) جو استعماری سیاستدانوں کو ووٹ دیا کرتے تھے اور اور ان کے ہاتھوں وضع شدہ استعماری پالیسیوں اور قوانین کے نفاذ کی حمایت کررہے تھے ـ جن میں "ملکی قوانین" بھی شامل تھے جن کے تحت شہریوں کے سول اور بنیادی قوانین کو معطل کیا جاسکتا ہے ـ آج استعماری ایجنڈے اور پروگرام کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آج جمہوری اکثریت اپنے طبقاتی اور معاشی مفادات کے لئے تقدم اور ترجیح کے قائل ہیں۔ اور یہ رجحان اس وقت شدت بھی پا چکا ہے کیونکہ طویل معاشی جمود وسیع تقریبا 20 فیصد شہریوں کی بے روزگاری یا جزوقتی (Part-time) روزگار کا سبب بن چکا ہے۔ سنہ 2008 سے 2011 تک نہ ختم ہونے والی جنگیں اور طویل المدت معاشی بحران نے جمہوریت اور استعمار کے درمیان تضاد کو متحرک کردیا ہے۔

بالفاظ دیگر جمہوری اکثریت آج استعماری جنگ لڑنے اور ان کو جاری رکھنے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ عراق، افغانستان اور لیبیا میں استعماری فعالیت زودرس فتح حاصل نہ کرسکی اور جنگی فتوحات مفتوحہ ممالک میں منافع بخش برآمداتی منڈیاں کھلنے اور ان ملکوں کے قدرتی وسائل پر قبضے کا امکان فراہم نہ کرسکیں اور روزگار کے مواقع معرض وجود میں نہ آئے اور اس استعماری ملک کے مزدور اور ملازم شہریوں کے لئے مفید ثابت نہ ہوسکیں۔ ہتھیاروں کی فراہمی کے بھاری اخراجات نے بھی بنیادی ڈھانچے میں سرکاری سرمایہ کاری کو کم کردیا اور روزگار کے مواقع میں بھی کمی واقع ہوئی۔ مفتوح ممالک میں محدود سطح پرروزگار کے بعض خطرناک مواقع فراہم ہوئے جو امریکہ کے بے روزگاروں کے لئے جاذب نظر نہیں تھے اور بہت زیادہ خطرناک تھے۔
بالفاظ دیگر، سابقہ استعماری اور امپریلسٹک جنگوں کے برعکس، لوٹی ہوئی دولتوں میں سے کچھ حصہ بھی امریکی سلطنت کے وفادار مزدوروں کو نہیں دیا گیا۔ اس سلطنت پر موجودہ مالی بوجھ اجرت لینے والوں کی اجرتوں اور ان کی زندگی کی سطح تیزی کے ساتھ مسلسل گرگئی۔ دوسری جانب سے لوگوں سے لئے جانے والے ٹیکس کی قہقرائی (تراجعی یا Retrogressive) حرکت نے ہر قسم کی اجرتوں نے عوام سے قوم پرستی اور اس سلطنت میں رہنے پر فخر و مباہات کے تمام جذبات چھین لئے ہیں اور اب یہ جذبات پلٹ کر سیاسی طور پر شہریوں کے احساس کمتری میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ مسلمان ممالک کے عزم صمیم اور شدید مخالفت نیز چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے سامنے امریکیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت میں مبالغہ آمیز جنگ طلبانہ جذبات اور عوام کی اکثریت میں خود تنقیدی کے رجحانات معرض وجود میں آئے۔ عوام کی اکثریت کی آگہی میں اضافہ ہوا اور ان سب کو معلوم ہوا کہ تمام مسائل کی بنیادیں وال اسٹریٹ اور وہائٹ ہاؤس میں پیوست ہيں۔ لوگوں کے درمیان بے جو بے فکری رائج تھی اور بے فکری کے عالم میں ہی عراق اور افغانستان میں سلطنت کی افواج کے داخلے کے وقت پرچم لہرایا کرتے تھے اب وہ زمانہ نہیں رہا اور عوام اب اپنے نام نہاد قائدین کی دندان شکست کے خواہاں ہیں اور یہ رجحان بری طرح فروغ پاگیا ہے۔ 80 فیصد سے زائد عوام اب کانگریس کے سلسلے میں منفی نگاہ رکھتے ہیں اور وہ اب ریپلکنز اور ڈیموکریٹس کے خلاف ہیں۔ وہائٹ ہاؤس، پنٹاگان اور اس ملک کی قومی سلامتی وزارت کے سلسلے میں یہ منفی تصورات اور نظریات بالکل یکسان طور پر موجود ہیں۔
ایک عشرہ جنگ اور چارسالہ معاشی بحران کے بعد عوامی احتجاج پھٹ پڑا اور "وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو" کے عنوان سے شروع ہونے والی تحریک نے ٹیبل پر نئے آپشنز رکھ لئے اور سلطنت کے پروگرام اور ایجنڈے کو کنارے لگا چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مالی اور فوجی نظریہ پردازوں پر شدید ترین تنقید ہورہی ہے۔
انتظامیہ کے اہلکاروں بالخصوص عدلیہ، انٹلیجنس اداروں اور پولیس نے وسیع سطح پر خودسرانہ اور استبدادی انداز سے ایک پولیس اسٹیٹ کی بنیاد رکھی ہے۔ کروڑوں افراد کی جسمانی تلاشیاں لی جارہی ہيں اور ان کو زیر نگرانی رکھا جارہا ہے۔ پولیس اسٹیٹ کے کارندے اربوں فیکسز، ایمیل پیغامات، ویب سائٹوں اور ٹیلی فون رابطوں پر نظر رکھے ہوئے ہيں، ٹیلی فون مکالمات چپکے سے سنے جارہے ہیں اور کیسٹوں پر ریکارڈ کئے جارہے ہيں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت اور استعمار کے درمیان رابطہ اس وقت منقطع ہوگیا جب روبہ زوال استعماری حکومت عوام اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے سے عاجز ہوگئی اور یہ حکومت اپنے ساتھ عوام کی رواداری کے اسباب فراہم نہیں کرسکی۔
سازشوں کے عجیب و غریب اور ناقابل قبول دعوے یکے بعد دیگرے جاسوسی ایجنسیوں کی جانب سے سامنے آرہے ہیں۔ ایران کی طرف سے سعودی عرب کے سفیر کے خلاف بم دھماکہ سازش کا دعوی، در حقیقت خلیج فارس میں استعمار کی فوجی مہمات کے لئے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی نیت سے سامنے آیا۔ عوام وال اسٹریٹ کے خلاف اپنے احتجاجی پروگرام کے پابند ہیں اور وہ بدستور اپنے ملک کے اندر اپنے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے خواہاں ہیں گو کہ ایک چھوٹی سے تنظیم ـ جو سیاسی طور پر اثر و رسوخ رکھتی ہے ـ اور اسرائیل کی صہونی قوت کی حامی ہے، وال اسٹریٹ پر قبضے کے خلاف ہے۔
جیسے جیسے استعمار اور جمہوریت کے درمیان تضادات میں شدت آرہی ہے سابقہ اجماع میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور استعماری پالیسیاں جاری رکھنے پر موجودہ اجماع ٹوٹ رہا ہے۔
وہائٹ ہاؤس اور کانگریس کی دلی اور پرزور خواہش یہ ہے کہ ایک پولیس اسٹیٹ کی مدد سے، بنیادی طور پر جمہوریت کو کچلنے کے قائل استعماری نظام (Imperialistic System) کو قائم و دائم رکھا جائے۔ لیکن
لیکن اکثریتی امریکی رائے دہندگان آگے کی جانب دباؤ بڑھا رہے ہیں اور اپنے باقی ماندہ جمہوری حقوق سے استفادہ کرتے ہوئے، از خود استعماری سیاسی پروگرام کے کو جمہوری معاشرتی پروگرام میں بدلنے کے درپے ہیں۔
نتیجہ
ہم نے کہا کہ سلطنت اور جمہوریت اپنے ظہور اور صعود کے زمانے میں ایک دوسرے کو مکمل کررہی تھیں۔ ہم نے بتایا کہ جنگ جنگیں کشورگشائی کے لئے لڑی جاتی تھیں، قلیل المدت تھیں اور کم خرچ تھیں اور جب یہ جنگیں بہت زیادہ منافع بخش تھیں اور مزدوروں کے لئے روزگار کی فراہمی کا سبب بنتی تھیں تو ڈموکریٹک اکثریت مراعات یافتہ طبقے کی حمایت کے لئے اٹھا کرتی تھی، جمہوری ادارے اس وقت ارتقائی منازل طے کیا کرتے تھے جب سلطنت سمندر پار سستے وسائل فراہم کرتی تھی اور منڈی سستی ہوا کرتی تھی اور اس کے نتیجے میں مزدوروں کی زندگی کی سطح بہتر اور بلند تر ہوجاتی تھی تو سامراجی جماعتوں کو ووٹ دیا کرتے تھے اور انتظامیہ و عدلیہ کے حکام پر مثبت نظر رکھتے تھے اور استعماری جنگوں سے واپس آنے والے سپاہیوں کے لئے تالیاں بجاتے تھے۔ بعض لوگ رضآ کار ہوکر فوج میں چلے جاتے تھے۔ اس حمایت کی بنا پر سلطنت بھی حکومت بھی عوام کے لئے آئین میں ضمانت شدہ حقوق دینے کی پابند ہوا کرتی تھی تا ہم "جمہوریت اور امپریلزم کی شادی" ایک ساختی (Structural) شادی نہیں تھی بلکہ یہ شادی بعض بدلتی ہوئی شرطوں سے مشروط ہے اور یہی شرطیں ان کے درمیان جدائی اور دوری کا سبب بھی بن سکتی ہیں جس طرح کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔
طویل المدت، کثیر اخراجات اٹھانے والی اور ہاری جانے والی استعماری جنگوں نے عوامی زندگی کی سطح بری طرح تنزل سے دوچار کردی ہے اور ایک نسل سے بھی زیادہ طویل عرصے سے اس صورت حال نے استعماری حکمرانوں اور جمہوریت پسند عوام کے درمیان تعلق کو شدت سے کمزور کردیا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے درمیان یہ خلیج کے آثار ابتدائی طور پر کوریا کی جنگ کے آخر میں ظاہر ہونا شروع ہوئے تھے۔ اسی زمانے سے رائے عامہ نے جنگ کوریا اور سرد جنگ کے بانی صدر ٹرومین (Harry S. Truman) کی مخالفت شروع کی۔ اس خلیج کے بیشتر آثار جنگ ویتنام کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس دور میں امریکہ کہ کروڑوں فوجی اور غیر فوجی عوام نے طویل المدت اور ہاری جانے والی جنگ کے سامنے ـ جس نے کروڑوں امریکی نوجوانوں سے جبری فوجی ڈیوٹی کے دوران زندگی کے تمام مواقع چھین لئے تھے ـ صف آرا ہوئے اور اس جنگ کے خاتمے کے لئے سرگرم ہوگئے اور اس اقدام کے ذریعے انھوں نے دنیا کے ممالک میں امریکی سلطنت کی فوجی مداخلت کے جواز کو زیر سوال ٹہرایا۔
یہ جابر ملک ابھی اس لائق نہیں تھا کہ 1970 کے عشرے کی جمہوری تحریکوں کو دہشت گردی اور خوف و ہراس پھیلانے کے ذریعے قابو کرے۔ جنگ ویتنام کا اختتام استعمار کے مقابلے میں جمہوری امریکہ کی جلوہ گری اور جمہوریہ کی تعمیرنو اور تجدید تھی۔
پاناما، گراناڈا، ہائیٹی اور دیگر ممالک میں تیز رفتار، کم خرچ اور کامیابی چھوٹی چھوٹی فوجی مداخلتیں استعمار اور جمہوریت کے درمیان تضاد کا باعث نہیں بنیں۔ نکاراگؤا، السلواڈور، گوئٹمالا، انگولا، موزمبیق، افغانستان اور بلقان میں اس سلطنت کی خفیہ اور نیابتی جنگوں (Covert and Proxy Wars) کو جمہوری اپوزیشن کی جانب سے کوئی مناسب جواب نہيں ملا کیونکہ یہ جنگیں بھی زیادہ جانی اور مالی نقصان کا باعث نہ بنیں اور ان کی وجہ سے بجٹ کو خسارے کا سامنا نہ کرنا پڑا اور سماجی آمدنی میں کمی نہيں آئی۔
افغانستان اور عراق میں جاری جارحانہ جنگیں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں گوناگوں حملے اسی زاویئے یعنی کم خرچ، تیز رفتار کامیابی اور کم خرچ فتوحات، کے حوالے سے امریکی سلطنت کے بعض اسٹراٹجسٹس کے زیر بحث آئے۔ حتی کہ وزارت جنگ "پنٹاگان" میں تعینات ایک سینئر افسر اور اسرائیل کے اہم حامی نے کہا کہ "عراق پر حملہ اور اس پر قبضہ اس کے تیل کے ذخائر پر تسلط کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرے گا"۔
اکیسویں صدی کی جنگیں عملی طور پر بالکل مختلف ہوئیں۔ امریکیوں نے ان جنگوں میں مرکزی امریکہ اور کیریبین کی جنگوں کی نہیں بلکہ کوریا اور ویتنام کی جنگوں کی روش کی پیروی کی۔ اکیسویں صدی کی جنگیں بہت طویل المدت ہوئیں اور نہ صرف جلدی اختتام پذیر نہيں ہوئیں بلکہ ان کے اخراجات بہت ہی زیادہ ہوئے اور سب سے بدتر یہ کہ یہ جنگی ایک بہت بڑے معاشی بحران کے بیچ واقع ہوئیں۔ اس زمانے میں 1950 اور 1960 کے عشروں کی وسیع آمدنی کا دور نہیں ہے جنہوں نے کوریا اور ویتنام کی جنگوں سے حاصل ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرکے دباؤ کو کم کردیا تھا اور شکست بھی زیادہ تلخ نہ ہوئی۔
استعمار اور جمہوریت کے درمیان خلیج آج بہت ہی خاص اور خطرناک صورت اختیار کرگئی ہے۔ عوام کی جمہوری مخالفت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور پولیس اسٹیٹ زیادہ اعلانیہ اور آشکار و نمایاں ہوچکا ہے اور اعلانیہ طور پر کام کررہا ہے۔ استعمار یا امپریلزم اندرون اور بیرون ملک دہشت گردی کی جعلی سازشوں کے الزامات کا سہارا لے رہا ہے یوں جابر اور کچلنے والی مشینری اور صدارتی فرمان پر حکمرانی کو فروغ مل رہا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی ہدایات و سفارشات کھوکھلے ڈھول کی صورت پیش کررہی ہیں۔ عوام ہر روز گذشتہ روز کی نسبت حکمرانوں کے دعوؤں کو بمشکل مان لیتے ہيں۔ عوام حکومت کی جانب سے عوام کی خودسرانہ گرفتاریوں، عوام کو مسلسل زیر نگرانی رکھنے، امریکی شہریوں پر دہشت گردانہ حملوں اور ان کے قتل کی توجیہ کو غلط سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ سب قانون سے ماوراء احکامات کی بنیاد پر ہورہا ہے اور یہ کہ ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
آج ہمیں عظیم اور طویل المدت خطرات کا سامنا ہے اور "یہ خطرات استعماری جمہوریت کی ذات میں مضمر ہیں"۔ اور اس کی وجہ اندرونی تضادات نہیں ہیں بلکہ ان کا سبب یہ ہے کہ " امپریلسٹک قوتوں کو کسی روزاپنے حریف یعنی استعمار مخالف اور حریت پسند قومی تحریکوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا اور یہ ایک طویل المدت جنگ ہوگی۔ استعمار اور جمہوریت کے درمیان مکمل جدائی اس وقت وقوع پذیر ہوگی جب استعماری جنگیں اپنے منفی اثرات عوام کی اکثریت کی تنخواہوں اور اجرتوں پر مرتب ہونگے۔ اس وقت اور صرف اسی وقت ملک کی جمہوری قوتیں اٹھ کر اپنا کام شروع کریں گی تا کہ ایک ڈیموکریٹک جمہوریت کی بنیاد رکھیں جس میں سماجی عدل کا نظام ہو اور اس میں سلطنت کا کوئی عنصر نہ ہوگا۔
اس وقت اور حال حاضر کا خطرہ یہ ہے کہ سلطنت کے اداروں نے ملک کے تمام سیاسی اداروں اور مراکز میں جڑیں پکڑ رکھی ہيں اور ان اداروں کو قومی سلامتی کے بہانے ایک وسیع حکومت اور پولیس کی حمایت حاصل ہے۔ شاید بیرون ملک ایک زبردست سیاسی ـ فوجی جھٹکے (Shock) کی ضرورت ہو جو اس ملک میں عوامی اور جمہوری شورش کی چنگاری روشن کرے گا اس طرح یہ امپریلسٹ پولیس اسٹیٹ ایک ڈیموکریٹک جمہوریہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ نظام حکومت پر تنہائی اور بے بسی کا احساس بری طرح مسلط ہوچکا ہے جبکہ اس کو سمندر پار ذلت آمیز شکست اور اندرونی طور پر شدید ترین گہری اور سرکش داخلی معاشی بحران کا بھی سامنا ہے۔
خطرہ یہ کہ یہ خوف و وحشت اور یہ بے بسی اور عجز و ضعف وہائٹ ہاؤس کو اپنے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایران پر حملہ کرے اور اس کے لئے کسی جعلی بہانے کا سہارا لے۔
ایران پر امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ حملہ پوری دنیا کی وسعتوں پر محیط عالمی آگ پر منتج ہوگا۔
ایران جوابی کاروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔
یہ جنگ شروع ہوتے ہی سعودی عرب اور خلیج فارس کی ریاستوں کے تیل کو کنؤيں نذر آتش کئے جائیں گے
تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرے گی
اسی حال میں ایشیائی، یورپی اور امریکی معیشت زوال پائے گی
جہازرانی کے تمام حیاتی روٹس بند ہوجائیں گے
ایرانی سپاہی اپنے عراقی اتحادیوں کے ہمراہ بغداد کی چھاؤنیوں کا محاصرہ کریں گے
عراق، افغانستان اور پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کے مسلمان ہتھیار اٹھائیں گے
امریکی فوجی یا ہتھیار ڈالیں گے یا پھر پسپا ہوجائیں گے
جنگ امریکی خزانے کو تحلیل کی جانب لے جائے گی
بجٹ کا خسارہ اور ادائیگیوں کا میزانیہ قابو سے خارج ہوجائے گا
بے روزگاری دو گنا ہوجائے گی
یہ پیہم حادثات اور واقعات ایک جمہوری اور عوامی تحریک کے شعلے بھڑکائیں گے اور تازہ جنم لینے والی جمہوریت اور دنیا کی و روبزوال پوسیدہ و فرسودہ سلطنت کے درمیان فیصلہ کن جنگ اس سلطنت کو سقوط و تباہی کے جہنم میں دھکا دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ ہندوچین یا (Indochinese Peninsula) بھارت کے مشرق اور چین کے جنوب مغرب میں واقع جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک یعنی کمبوڈیا، لائوس، ویت نام، میانمار (برما)، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک پر مشتمل ہے۔ اس جزیرہ نما کو فرینچ انڈوچائنا بھی کہا جاتا ہے۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق

 
user comment