اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 2

 فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 2

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (اورقرابت دار کو اس کا حق دو) تو نبی اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں عطا فرمایا"

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 2

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 1

اور ہاں! کیا علی (ع) پیغمبر کے وصی نہیں تھے؟ اور یہ کہ وہ کیوں اس "حدیث مخصوص" سے بے خبر تھے؟ اور

اگر علی (ع) فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حمایت میں حق بجانب تھے تو پھر ابوبکر نے سیدہ سلام اللہ علیہا کا حق دینے سے انکار کیوں کیا؟

اب ایک بنیادی سوال:

قرائن اور نشانیوں منجملہ سورہ نمل کی سولہویں اور سورہ مریم کی چھٹی آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل نہیں ہوئی اور حق سیدہ (س) کی جانب تھا چنانچہ حضرت سیدہ (اسی بنا پر) ابوبکر سے ناراض ہوئیں اور ان سے راضی نہیں ہوئیں حتی کہ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ابوبکر «فاطمة بضعة منی من اغضبها اغضبنی» (39) اور « یا فاطمةُ! ان اللہ یغضب لغضبِکِ و یرضی لرضاکِ» (40) "مَغضُوبٌ عَلَيهِمْ" میں شمار نہیں ہونگے؟ یہ ان لوگوں میں حساب نہ ہونگے جن کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى (41) (= جس پر میرا غضب وارد ہوجائے و سقوط سے دوچار ہوگا)۔

اگر فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مطالبہ حق و حقیقت پر مبنی تھا تو پھر ابوبکر نے "لا نورث ما ترکنا صدقة" (42) کو رسول اکرم (ص) سے کیوں منسوب کیا؟ اس حدیث میں ارث نہ چھوڑنے کا مسئلہ تمام انبیائے الہی سے منسوب کیا گیا ہے؟ اور یہ امر صریح قرآن کے خلاف ہے کیوں کہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ انبیاء ایک دوسرے کے وارث تھے۔ وَ وَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ۔ (43) (= اور سلیمان اپنے والد داؤد کے وارث ہوئے) ۔ اور حضرت زکریا (علی نبیناو آلہ و (ع)) نے بارگاہ الہی میں التجا کی: فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا * يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ۔ (44) (= پس (اے پروردگار! مجھے ایسا ولی اور وارث عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو) پس اگر ابوبکر کی بات صحیح ہے اور رسول اللہ (ص) نے واقعی فرمایا ہے کہ "لا نورث ما ترکنا صدقة" تو کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (معاذاللہ) قرآن کے خلاف بات کی ہے؟

اگر کوئی شخص عدم معرفت کی بنا پر پیغمبر اکرم (ص) کو معصوم تسلیم نہ کرے اور یوں تصور کرے کہ آپ (ص) معمولی امور یا تاریخی مسائل میں اشتباہ اور خطا کا ارتکاب کرسکتے ہیں، تو اس کا تصور ان امور میں ہوتا ہے جن کے سلسلے میں شرعی حکم صادر نہ ہوتا ہو (45) جبکہ یہ کلام جس موضوع پر دلالت کرتا ہے وہ شرعی حکم کا متقاضی ہے۔ تو اس قسم کی خطا رسول اللہ (ص) سے کیونکر صادر ہوسکتی ہے؟ کیا رسول اکرم (ص) نے خود نہیں فرمایا کہ: "جو بات (حدیث) قرآن کے خلاف ہو (جان لو کہ) وہ میں نے نہیں کہی ہے۔"

اس کے با وجود کہ ابوبکر سے اس حدیث کا صدور یقینی ہے۔ (اور کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرتا کہ یہ حدیث انھوں نے ہی رسول اکرم (ص) سے منسوب کرکے استدلال کے طور پر سیدہ سلام اللہ علیہا کو سنائی ہے) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابوبکر نے قرآن مخالف کلام رسول اللہ (ص) سے منسوب کیا ہے؟

فرض کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے ایسی بات منسوب کی جائی جو حقیقت اور قرآن کے خلاف ہو یا کوئی ایسا کلام ابوبکر سے منسوب کیا جائے جو کلام نبی (ص) کے خلاف ہو تو ان دو باتوں میں سے کونسی بات بہتر ہے؟

ایک سوال اور:

کیا علی اور فاطمہ (علیہما السلام) نے اس بات کی یاد آوری نہیں کرائی کہ ابوبکر کا کلام قرآنی نصّ کے منافی ہے؟ یا یہ کہ اور فاطمہ (علیہما السلام) نے ابوبکر کے کلام کی تردید کرتے ہوئے آیات قرآنی سے استدلال و استشہاد کیا ہے؟ گو کہ بخاری وغیرہ نے یہ استدلالات ثبت کرنے سے اجتناب کیا ہے!۔

ابن سعد اور سیوطی نے روایت کی ہے کہ جب ابوبکر نے "لانورث ما ترکنا صدقة" سے استدلال کیا تو علی (ع) نے فرمایا: وَ وَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ (46) اور حضرت زکریا (علی نبیناو آلہ و (ع)) نے بارگاہ الہی میں التجا کی: فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا * يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ (47) اور ابوبکر نے علی (ع) کے استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہی ہے۔ چنانچہ علی (ع) نے فرمایا: هذا کتاب اللہ ینطق" (= یہ کتاب الہی ہے جو بول رہی ہے)۔ (48)

چلئے ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ حدیث درست ہے اور رسول اکرم (ص) نے واقعی فرمایا تھا کہ "لانورث ما ترکنا صدقة" اور فرض کرتے ہیں کہ یہ بات قرآن کے منافی نہیں ہے۔ یہ فرض بھی بخاری کی حدیث کی تأئید نہیں کرتا اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے کہ بخاری کی حدیث درست اور قابل قبول نہیں ہے۔

کیوں اور کیسے؟

اس لئے کہ: جو کچھ رسول اللہ (ص) نے اپنے بعد چھوڑ رکھا تھا وہ سب آپ (ص) کی حیات طیبہ میں آپ (ص) کی ذاتی ملکیت تھا اور بخاری کی حدیث کے مطابق وہ سب کچھ آپ (ص) کی وفات کے بعد صدقے اور وقف میں تبدیل ہؤا ہے۔ اور پھر ذاتی ملکیت میں آپ (ص) کا عمل اور آپ (ص) کی روش الگ ہے اور موقوفات و صدقات میں الگ۔ (یعنی ذاتی املاک و اموال اور موقوفات و صدقات میں آپ (ص) کی روش اور آپ (ص) کا عمل الگ الگ ہے)۔

پس ابوبکر نے کیونکر کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زمانے میں صدقات جس حال میں تھے میں بھی انہیں اسی حال پر چھوڑوں گا اور ان میں تبدیلی نہیں لاؤنگا اور صدقات میں اسی طرح عمل کروں گا جس طرح رسول اللہ (ص) عمل کیا کرتے تھے؟

حالانکہ رسول اللہ (ص) ان میں اپنی شخصی ملکیت کے حوالے سے عمل کیا کرتے تھے (جنہیں اب ابوبکر نے صدقہ قرار دیا تھا جبکہ اس وقت یہ صدقہ نہیں بلکہ رسول اللہ (ص) کے ذاتی اموال و املاک تھے)؟ اور ابوبکر کو موقوفات اور صدقات کے متولی کی حیثیت س عمل کرنا چاہئے تھا۔ اگر حدیث "لانورث ما ترکنا صدقة" درست ہے تو عائشہ نے اس کی مالکیت کا دعوی کرکے اپنے والد یعنی ابوبکر کو کیوں اس گھر میں دفنایا؟ (49) تمام شواہد و دلایل ثابت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کی دلیل قبول نہیں فرمائی جیسا کہ بخاری اور اہل سنت کے دیگر محدثین نے تأکید کی ہے مگر اس کے باوجود بعض افسانہ پردازوں اور تاریخی جعلیات میں حقیقت کا رنگ بھرنے والوں نے الفت و محبت کی نغمہ خوانی کے واسطے حقیقت پر الٹی کھال چڑھا کر لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ "لانورث ما ترکنا صدقة" جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے ان کی بات قبول کی اور اور ابوبکر سے فرمایا: ان صدقات اور فدک میں اسی طرح عمل کریں جس طرح کہ رسول اللہ عمل فرمایا کرتے تھے!!۔

ایک طرف سے تو اس دعوے کی کوئی سند نہیں ہے اور دوسری طرف سے صحیح بخاری اور دیگر صحاح و مسانید میں منقولہ روایات سے مغایرت رکھتا ہے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنی عمر مبارک کے آخری لمحوں تک فدک کے بارے میں اپنے مطالبے پر اصرار کرتی رہیں اور چونکہ ابوبکر مسلسل انکار کررہے تھے لہذا حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا نے ان سے آخر عمر تک قطع تعلق کیا اور آخری سانسوں تک ان سے قطع کلام کیا اور اسی امر پر بخاری اور مسلم سمیت دیگر صاحبان صحاح و مسانید نی بھی تأکید کی ہے۔ (50)

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد حضرت علی (ع) فدک کے مطالبے پر اصرار کرتے رہے۔ اس سلسلے میں بھی متعدد احادیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری سمیت اہل سنت کے دیگر صحاح و مسانید میں منقول ہیں۔ (51) اور ان احادیث میں فدک کی واگذاری سے انکار کے سلسلے میں حضرت علی (ع) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا عباس رضوان اللہ علیہ کی آراء بھی بیان ہوئی ہیں۔

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ عمر نے کہا: جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات پائی ابوبکر نے کہا میں رسول اللہ کا ولی ہوں۔ تم (عباس اور علی) آگئے پس تم نے (اے عباس!) اپنے بھتیجے (رسول اللہ (ص)) کے ترکے سے اپنا حصہ مانگا اور اس (علی (ع)) نے اپنی زوجہ (حضرت فاطمہ (س) کے والد (رسول اللہ (ص)) کے ترکے سے ان (جناب سیدہ (س)) کا حصہ طلب کیا۔ پس ابوبکر نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "ہم انبیاء ارث نہیں چھوڑا کرتے اور جو کچھ ہو اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں وہ صدقہ اور وقف ہوتا ہے" اور تم دونوں ابوبکر کو جھوٹا، گنہگار، مکار اور خائن سمجھتے تھے۔ خدا جانتا ہے کہ وہ سچا، نیک کردار، ہدایت یافتہ اور حق کا پیروکار تھا۔

اس کے بعد ابوبکر نے وفات پائی اور میں رسول خدا (ص) اور ابوکر کا ولی ہوں اور تم دونوں مجھے جھوٹا، گنہگار، مکار اور خیانت پیشہ سمجھتے ہو۔ اور خدا جانتا ہے کہ میں سچا، نیک کردار، ہدایت یافتہ اور حق کا پیروکار ہوں۔ (52)

یہ روایت بخاری نے اپنی صحیح میں کئی بار دہرائی ہے مگر ہر جگہ اس میں تھوڑا سا لفظی اختلاف ہے۔ مثلاً ایک جگہ آیا ہے: (عمر نے علی اور عباس سے کہا:) تزعمان ان ابابکر کان کذا و کذا۔۔۔ (53) (= کیا تم گمان کرتے ہو کہ ابوبکر ایسا اور ویسا ہے؟ یا "تذکران ان ابابکر فیه کما تقولون" (55) (= یا تم یاد کرتے ہو کہ ابوبکر فدک کے معاملے میں ویسا ہی تھا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو) یا تزعمان ان ابابکر فیها کذا۔ (55) = تم گمان کرتے ہو کہ ابوبکر صدقے کے معاملے میں ایسا تھا) ان تمام نقلوں میں "و اللہ یعلم انه فیها صادق ۔۔۔" (اور خدا جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچا ہے) کی عبارت دکھائی دے رہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کذا و کذا کی جگہ وہی الزامات نقل ہوئے تھے جو مسلم نے ذکر کئے ہیں۔ مگر بخاری نے تأدب یا کنایہ استعمال کرکے یہ روایت نقل کے ہے۔ [کذا و کذا بخاری کی بہت سی روایات میں دکھائی دیتا ہے اور بعض مقامات پر اہل بیت رسول (ص) کے فضائل کی بجائے کذا و کذا لکھتے ہیں اور بعض جگھوں پر حتی علی (ع) کے نام کی بجائے رجل من اصحاب الرسول یا رجل آخر جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جس کا مقصد خیر خواہی پر مبنی نہیں ہے)۔

البتہ یہ امر مسلّم ہے کہ حضرت فاطمہ اور حضرت علی (ع) اور عباس (رض) کو ابوبکر کے قول اور فعل پر اعتراض تھا اور اہل سنت کے معتبر منابع کے مطابق یہ تین افراد کبھی بھی ان کے قول و فعل سے مطمئن نہیں ہوئے ہیں اور اپنے اعتراض و انکار پر اصرار کرتے رہے ہیں اور اس پر قائم رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ صحیحین اور مسند ابن حنبل وغیرہ نے فدک کے بارے میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کے دو مختلف نظریئے نقل کئے ہیں:

1۔ [مسلم کی روایت کے مطابق] عمر کی یہ رائے کہ علی اور عباس کا نظریہ سیدہ فاطمہ (س) کا نظریہ بھی تھا اور وہ یہ کہ ابوبکر اور عمر دونوں اہل بیت کے مالی حقوق کے سلسلے میں جھوٹے، گنہگار، مکار اور خیانت پیشہ تھے۔

2۔ اور عمر کی اپنی رائے یہ تھی کہ کہ ابوبکر اور وہ (عمر) سچے، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے۔

اب ہم ان دو نظریات کے حامل افراد کے مقام و منزلت پر نظر ڈالتے ہیں جو عمر نے بیان کئے ہیں تا کہ قارئین کرام خود فیصلہ کرسکیں کہ ان دو نظریات میں سے کون سے نظریئے کو ترجیح دینی چاہئے:

[عمر ہی کے بقول] پہلے نظریئے کے حامل افراد علی علیہ السلام، عباس رضوان اللہ علیہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہا، ہیں۔

علی وہ ہیں جو بچپن سے ہی حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیر تعلیم و تربیت اور زیر سرپرستی رہے تھے۔

نبی (ص) مدینة العلم ہیں تو علی باب مدینة العلم ہیں۔ (جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: انا مدینة العلم و علی بابها، فمن اراد العلم فليأت باب المدينة۔ (56) (= میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں) جس کی گواہی تمام اہل تشیع اور اہل سنت کے تمام منابع و مصادر حدیق میں موجود ہے اور انبیاء علیہم السلام کا ارث چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کا مسئلہ بھی علم و دانش سے تعلق رکھتا ہے [جس کاشہر رسول اللہ اور دروازہ علی تھے نہ کوئی اور یہ حضرات دوسروں کی نسبت اس سے زیادہ آگاہ ہیں]۔

علی (ع) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصی اور جانشین ہیں۔ اہل سنت آپ (ع) کی بلافصل جانشینی کے انکاری ہیں مگر ان کی وصایت کا انکار نہیں کرتے۔

[اگر فرض کریں کہ علی (ع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھریلو اور ذاتی امور میں ہی وصی تھے ـ جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے، تو بھی] وصی، وصیت کرنے والے کے مالی امور سے بے خبر نہیں ہوسکتا۔ خاص طور پر جب کوئی حکم ضابطے اور قاعدے کے خلاف جاری ہؤا ہو۔

پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارث نہ چھوڑنا چاہتے تو سب سے پہلے اپنے وصی کو بتا دیتے اور یہ امر ان سے ہرگز ہرگز خفیہ نہ رکھتے۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اکلوتی وارث تھیں اور اگر پیغمبر (ص) کا کوئی ترکہ تھا تو ازواج کا آٹھواں حصہ نکال کر سب سے بڑا حصہ حضرت سیدہ کو ہی مل جاتا۔ کیونکہ اولاد سمیت جن دوسروں کو ارث میں حصہ میں ملتا ہے (متوفّی کے) والد، والدہ اور زوجہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدین آپ (ص) کے بچپن میں انتقال کرگئے تھے چنانچہ آپ (ص) کی بیٹی کے ساتھ آپ (ص) کی زوجات ارث میں شریک تھیں اور زوجہ کا حق ترکے کا صرف آٹھواں حصہ ہے اور چونکہ حضرت رسول اکرم (ص) کی 9 زوجات بفید حیات تھیں لہذا ہر زوجہ رسول (ص) کو ترکے کا بہتّرواں حصہ ملنا چاہئے تھا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ (ص) نے یہ بات اپنی زوجات کو بتائی ہو (57) جن میں سے ہر ایک کا حصہ ترکے کے آٹھویں حصے کا نواں حصہ تھا اور اپنی اکلوتی وارث سے یہ بات چھپائے رکھی ہو جبکہ انہیں ارث کا سب سے بڑا حصہ (ساڑھے ستاسی فیصد حصہ) ملنا تھا؟ اور انہیں یہ نہ بتایا ہو کہ لانورث ما ترکنا صدقة؟۔ یا رسول اللہ (ص) (معاذ اللہ) اپنی بیٹی کو اپنی وفات کے بعد دردسر اور سرگردانی میں مبتلا کرنا چاہتے تھے؟ (58)

ضمیمہ

حدیث ما ترکنا کا افسانہ:

ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اس حدیث کی جرح آخر مقالہ میں پیش کی جائے گی مگر یہ جرح صرف مستندات پر مبنی ہے فیصلہ قارئین کو کرنا ہے کہ حق کہاں ہے اور باطل کہاں؟ ملاحظہ فرما ئیں:

عن عائشة ام المؤمنین حیث قالت: و اختلفوا فی میراثه فما وجدوا عند احد من ذالک علماء فقال ابوبکر سمعت رسول اللہ یقول (انا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناه صدقة)۔ (60)

ترجمہ: عائشہ ام المؤمنین نے روایت کی ہے ۔۔۔۔ اور انھوں نے (سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ابوبکر نے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میراث میں اختلاف کیا پس ابوبکر نے کہا: میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ فرمارہے تھے: ہم انبیاء ارث نہیں چھوڑا کرتے اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

قال ابن ابی الحدید المشھور انه لم یرو حدیث انتفاء الارث االا ابوبکر وحده۔

ترجمہ: ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مورخین اور محدثین کے درمیان مشہور یہی ہے کہ ارث کی نفی کے بارے میں مذکورہ روایت ابوبکر کے سوا کسی نے بھی نقل نہیں کی ہے۔ (61 ـ 62)

اور ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:

ان اکثر الروایات انہ لم یرو هذا الخبر الا ابوبکر وحده و ذکر ذالک اعظم المحدثین حتی ان الفقهاء فی اصول الفقه اطبقو علی ذالک فی احتجاجاتهم فی الخبر بروایة الصحابی الواحد و قال شیخنا ابوعلی لایقبل فی روایة الا روایة اثنین کالشهادة فخالفه المتکلمون و الفقهاء کلهم و احتجوا بقبول الصحابة بروایة ابی بکر وحده (نحن معاشرالانبیاء لا نورث) و مع هذا وضعوا احادیث اسندوا فیها الی غیر ابی بکر انه روی ذالک عن الرسول (ص)! (63)

ترجمہ: اکثر روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ یہ خبر ـ اکیلےـ ابوبکر کے سوا کسی نے بھی نقل نہیں کی ہے اور اکثر محدثین ـ حتی فقہاء ـ نے اس روایت کو ان روایات میں شمار کیا ہے جو صرف ایک صحابی سے نقل ہوئی ہیں اور ہمارے شیخ (استاد) ابوعلی نے کہا ہے کہ ہر روایت قابل قبول نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کم از کم دو صحابیوں سے نقل ہوئی ہو جس طرح کہ شہادت اور گواہی بھی صرف اسی صورت میں قابل قبول ہے جب گواہ دو مرد (یا دو عورتیں اور ایک مرد) ہوں چنانچہ تمام علمائے عقائد (متکلمین) اور فقہاء نے اپنے استدلالات میں اس کو مسترد کیا ہے۔ اورانھوں نے (نحن معاشرالانبیاء لا نورث) کو مقبولیت کا درجہ دینے کے لئے کہا ہے کہ چونکہ اس روایت کو صحابہ نے قبول کیا ہے لہذا ہم بھی اسے قبول کرتے ہیں! (اگرچہ قاعدے کے خلاف ہے) اور اس کے باوجود انھوں نے بعض دیگر احادیث وضع کی ہیں جو ابوبکر کے سوا دوسرے صحابہ سے منسوب کی گئی ہیں اور ان احادیث میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ حدیث رسول اللہ (ص) سے نقل ہوئی ہے!۔ (64)

ان علیا قال لابی بکر عند ما ذکر ابو بکر حدیث انتفاء ارت النبی ( و ورث سلیمان داؤود) (65) و قال (یرثتی و یرث من آل یعقوب۔ (66) فقال ابوبکر: هو هکذا و انت و اللہ تعلم ما اعلم، فقال علی ع):هذا کتاب اللہ ینطق، فسکتوا و انصرفوا۔

ترجمہ: جب ابوبکر نے ارث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفی والی حدیث کا حوالہ دیا تو علی (ع) نے کہا: اور سلیمان داؤد کا وارث ہؤا اور زکریا نے کہا (خداوندا مجھے ایسا ولی عنایت عطا فرما جو) میرا اور آل یعقوب کاوارث بنے " اور ابوبکر نے کہا ایسا ہی ہے اور آپ جانتے ہیں جو میں جانتا ہوں۔ پس علی (ع) نے کہا: یہ کتاب خدا ہے جو بول رہی ہے۔ پس سب خاموش ہوئے اور مجلس برخاست ہوئی۔ (67)

بسط الخصومة علنيا في سقيفة ابى بكر

ترجمہ: عبدالعزیز الجوہری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سقیفۂ ابی بکر میں خصومت اور عداوت اعلانیہ طور پر پھیل گئی۔ (68)

ان فاطمة بنت محمد دخلت على ابى بكر وهو في حشد من المهاجرين والانصار ۔ ثم قالت : انا فاطمة بنت محمد اقول عودا على بدء : لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ۔ (68)، فان تعزوه تجدوه ابى دون آبائكم، واخ ابن عمى دون رجالكم ۔ ۔ ثم انتم الان تزعمون ان لا ارث لنا، أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ تَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ؟ (69) يابن ابى قحافة اترث اباك ولا ارث ابى ؟ ! ! لقد جئت شيئا فريا۔ (70)، فدونكها مخطومة تلقاك يوم حشرك، فنعم الحكم اللہ، والزعيم محمد، والموعد القيامة وعند الساعة يخسر المبطلون۔ (71 و 72)

ترجمہ: فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) ابوبکر پر وارد ہوئیں جب کہ مہاجرین اور انصار کی جمعیت حاضر تھی، اور فرمایا: میں فاطمہ بنت محمد (ص) ہوں ۔ ابتدا میں دہرانا چاہتی ہوں کہ: یقینا ایک رسول تم ہی میں سے تمہاری طرف آیا جس پر تمہاری تکالیف بہت گران گذرتی ہیں اور تمہاری ہدایت پر اصرار کرنے والا ہے اور مؤمنین پر رؤف اور مہربان ہے!" اگر تم توجہ کرو تو تم آپ (ص) کو میرا باپ پاؤگے جبکہ وہ تمہارا باپ نہیں ہے اور آپ (ص) کو میرے چچا زاد (علی (ع)) کا بھائی پاؤگے جبکہ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ پھر اب تم گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے ارث نہیں ہے؟ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟ اور کون ہے جو یقین والوں کے لئے خدا سے بہتر حکم کرتا ہے؟۔ اے ابی قحافہ کے بیٹے! تم تو اپنے باپ کے وارث ہوسکتے ہو، میں رسول اللہ کی بیٹی اپنے باپ کی وارث نہیں ہوسکتی؟ تم نے نہایت عجیب اور برا عمل انجام دیا ہے۔ ۔۔۔ پس خدا کا حکم اور اس کافیصلہ بہترین ہے اور زعیم میرے والد محمد (ص) ہیں اور ہماری میعادگاہ قیامت ہے اور اس وقت باطل والے نقصان اٹھائیں گے۔

ان فاطمة قالت: افعلى عمد تركتم كتاب اللہ، ونبذتموه وراء ظهوركم، اذ يقول اللہ تبارك وتعالى (وَ وَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ۔ (73)) وقال اللہ عزوجل فيما قص من خبر يحيى بن زكريا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا * يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ۔ (74) وقال عزوجل (وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللہ۔ (75)) وقال (يُوصِيكُمُ اللہ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ۔ (76)) وقال (إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ۔ (77)) وزعمتم ان لا حظوة ولا ارث لى من ابى، ولا رحم بيننا، افخصكم اللہ بآية اخرج منها نبيه، ام تقولون اهل ملتين لا يتوارثون، او لست انا وابى من اهل ملة واحدة، ام لعلكم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من النبى(ص) (افحكم الجاهلية تبغون۔ (78)

ترجمہ: حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: کیا تم نے جان کر کتاب اللہ کو ترک کیا اور اس کو اپنے پیچھے پھینک دیا؟ جب کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (اور سلیمان داؤد کا وارث ہؤا) ۔ اور اللہ تعالی یحیی بن زکریا کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: (پس مجھے ایسا فرزند عطا کردے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو) اور خداوند عز وجل نے فرمایا: (خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام میں قرابتدار اور رشتہ دار ایک دوسرے کے لئے (دوسروں سے) زیادہ ترجیح رکھتے ہیں) اور فرمایا: (خداوند تعالی فرزندوں کے بارے میں تمہیں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ (میراث) دو لڑکیوں کی میراث کے برابر ہے) اور فرمایا: (تمہارے اوپر واجب کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اگر اس نے اپنے پیچھے کوئی اچھی چیز چھوڑ رکھی ہو تو اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لئے شایستہ انداز میں وصیت کرے یہ حق ہے پرہیزگاروں پر) اور تم نے گمان کیا کہ میرے لئے میرے والد سے کوئی بھی حصہ اور ارث نہیں ہے! اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے! پس کیا خدا نے ایک آیت تمہارے لئے مختص کردی اور اپنے نبی کو اس (آیت) سے نکال باہر کیا؟ یا پھر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اگر رشتہ دار دو دینوں کے پیروکار ہوں تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے! یا یہ کہ میں اور میرے والد ایک دین کے پیروکار نہیں ہیں!! یا یہ کہ قرآن کے عموم اور خصوص کے بارے میں تم میرے والد سے زیادہ عالم اور جاننے والے ہو!!! کیا تم پھر بھی جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟ (79)

ایک سوال: اگر اہل بیت اور اولاد نبی(ص)، نبی (ص) کے وارث نہیں ہوسکتے تو پھر کون آپ (ص) کا وارث ہوگا؟

اگر حدیث (لانورث) صحیح ہے تو اس میں تو کوئی بھی استثنا نظر نہیں آتی اور عائشہ کی روایت کے مطابق جناب سیدہ نے اپنا نمائندہ بھیج کر ابوبکر سے مدینہ اور فدک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدا کی جانب سے لوٹائی جانے والی املاک میں سے اپنے ارث اور خیبر کےباقیماندہ خمس کا مطالبہ کیا۔ ابوبکر نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "ہم انبیاء" کوئی ارث اپنے پیچھے نہیں چھوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد (ص) کو ان اموال میں سے صرف اپنا حصہ مل سکتا ہے۔ اور یہ کہ ابوبکر نے جناب سیدہ کو کچھ بھی دینے سے انکارکیا۔ (80) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابوبکر کے موقف میں کوئی استثنا نہیں تھی مگر ایک روایت ایسی بھی ملتی ہے جس میں ابوبکر استثنا کے قائل ہوئے ہیں اور اس روایت کا عنوان کچھ یوں ہے: استثناء من نفي ارث النبي و توريثه تحقيقا للعدالة و رحمة باهل البيت الكرام» فقد تفضل ابوبكر لقد دفعت ألة رسول اللہ و دابته و حذاه الي علي و ما سوي ذالك ينطبق عليه الحديث۔ (81)

ترجمہ: «ابوبکر کی جانب سے عدل و انصاف کو عملی جامہ پہنانے اور اہل بیت کرام پر رحم و شفقت کے عنوان سے ارث نبی (ص) کی نفی سے اسثناء» پس ابوبکر نے کہا: میں نے رسول اللہ کی شمشیر، آپ (ص) کا گھوڑا اور جوتے علی (ع) کے سپرد کئے اور اس کے سوا دیگر تمام اشیاء پر حدیث کا انطباق ہوتا ہے!!!۔

یہاں خلیفہ کے اس فضل و کرم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث واقعی رسول اللہ (ص) نے نہیں فرمائی تھی اور وہ رسول اللہ (ص) کی میراث میں سے اہم چیزیں بھی مستثنی کرسکتے تھے مگر اگر وہ قیمتی چیزیں اہل بیت (ع) کے ہاتھ میں رہتیں تو ان کی زندگی میں کبھی غربت نہیں آسکتی تھی۔ چنانچہ وہ لے لی گئیں اور جوتے اور گھوڑا اور تلوار علی علیہ السلام کے حوالے کردی گئی۔ مگر وہ اس بات سے غافل تھے کہ گھوڑا اور تلوار حاکمیت رسول کی منتقلی کی نشانی کے طور پر آپ (ص) کے حقیقی وارث کو ملنی چاہئے تھیں سو ایسا ہی ہؤا۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق

 
user comment