اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 2

سیدہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں تم پر ہر نماز میں جو میں ادا کرتی ہوں، نفرین کروں گی / ابن قتیبہ: خلیفہ سیدہ (س) کے گھر سے نکلے تو کہنے لگے: اے لوگو! تم سب راتوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اپنی خوشیوں میں مصروف ہو اور مجھے اس مصیبت سے دوچار کرچکے ہو؛ مجھے تمہاری بیعت نہیں چاہئے؛ آؤ اپنی بیعت واپس لو اور مجھے مقام خلافت سے معزول کرو...

بقلم: ف۔ح۔مہدوی

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 2

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 1

ترجمہ: حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: کیا تم نے جان کر کتاب اللہ کو ترک کیا اور اس کو اپنے پیچهے پهینک دیا؟ جب کہ الله تعالی ارشاد فرماتا ہے: (اور سلیمان داؤد کا وارث ہؤا) . اور الله تعالی یحیی بن زکریا کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: (پس مجهے ایسا فرزند عطا کردے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو") اور خداوند عز وجل نے فرمایا"خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام میں قرابتدار اور رشتہ دار ایک دوسرے کے لئے (دوسروں سے) زیادہ ترجیح رکهتے ہیں") اور فرمایا: ("خداوند تعالی فرزندوں کے بارے میں تمہیں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ (میراث) دو لڑکیوں کی میراث کے برابر ہے") اور فرمایا: ("تمہارے اوپر واجب کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپهنچے اگر اس نے اپنے پیچهے کوئی اچهی چیز چهوڑ رکهی ہو تو اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لئے شایستہ انداز میں وصیت کرے یہ حق ہے پرہیزگاروں پر.") اور تم نے گمان کیا کہ میرے لئے میرے والد سے کوئی بهی حصہ اور ارث نہیں ہے! اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے! پس کیا خدا نے ایک آیت تمہارے لئے مختص کردی اور اپنے نبی کو اس (آیت) سے نکال باہر کیا؟ یا پهر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اگر رشتہ دار دو دینوں کے پیروکار ہوں تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے! یا یہ کہ میں اور میرے والد ایک دین کے پیروکار نہیں ہیں!! یا یہ کہ قرآن کے عموم اور خصوص کے بارے میں تم میرے والد سے زیادہ عالم اور جاننے والے ہو!!! کیا تم پهر بهی جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟۔ (32)

ایک سوال: اگر اہل بیت اور اولاد نبی(ص)، نبی (ص) کے وارث نہیں ہوسکتے تو پهر کون آپ (ص) کا وارث ہوگا؟

اگر حدیث (لانورث) صحیح ہے تو اس میں تو کوئی بهی استثنا نظر نہیں آتی اور عائشہ کی روایت کے مطابق جناب سیدہ نے اپنا نمائندہ بهیج کر ابوبکر سے مدینہ اور فدک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدا کی جانب سے لوٹائے جانے والے املاک میں سے اپنے ارث اور خیبر کےباقیماندہ خمس کا مطالبہ کیا. ابوبکر نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "ہم انبیاء" کوئی ارث اپنے پیچهے نہیں چهوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد صلی الله علیہ و آلہ و سلم کو ان اموال میں سے صرف اپنا حصہ مل سکتا ہے. اور یہ کہ ابوبکر نے جناب سیدہ کو کچھ بهی دینی سی انکارکیا. (33) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابوبکر کے موقف میں کوئی استثنا نہیں تهی مگر ایک روایت ایسی بهی ملتی ہے جس میں ابوبکر استثنا کے قائل ہوئے ہیں اور اس روایت کا عنوان کچھ یوں ہے:

نفی ارث سے استثناء یا پھر جعلی حدیث سے استثناء:

شرح نہج البلاغہ اور بلاغات النساء میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس کا عنوان ہے:

"ابوبکر کی جانب سے عدل و انصاف کو عملی جامہ پہنانے اور اہل بیت کرام پر رحم و شفقت کے عنوان سے ارث نبی (ص) کی نفی سے اسثناء"۔

اس روایت میں ہم پڑھتے ہيں:

"فقد تفضل ابوبكر لقد دفعت ألة رسول الله و دابته و حذاه الی علی و ما سوی ذالك ینطبق علیه الحدیث"۔ (34)

ترجمه: " پس ابوبکر نے کہا: میں نے رسول اللہ کی شمشیر، آپ (ص) کا گهوڑا اور جوتے علی (ع) کے سپرد کئے اور اس کے سوا دیگر تمام اشیاء پر حدیث کا انطباق ہوتا ہے!!!

یہاں خلیفہ کے اس فضل و کرم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث واقعی رسول اللہ (ص) نے نہیں فرمائی تهی کیونکہ اگر یہ حدیث رسول اللہ (ص) کی ہوتی تو ان کو استثناء کا حق ہی نہيں تھا اور دوسری جانب سے اگر اگر حدیث جعلی نہ ہوتی اور اس میں استثناء کا حق خلیفہ کو حاصل تھا تو انھوں نے اگر مذکورہ بالا اشیاء کو ارث کے اس نئے قانون سے مستثنی قرار دیا تو وہ اس سے زیادہ اہم چیزیں بھی مستثنی کرسکتے تھے اور پھر فدک تو ویسے بھی ارث سے مستثنی تھا۔ لیکن خلیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام قیمتی چیزیں اپنے پاس رکھ لیں اور جوتے اور گھوڑا وغیرہ کو واپس کردیا جبکہ فدک اگر سیدہ (س) کے پاس ہوتا تو خاندان رسول (ص) کو کبھی بھی غربت کا منہ نہ دیکھنا پڑتا اور خدا اور رسول خدا (ص) نے فدک اسی لئے سیدہ کو دیا تھا کہ آل رسول (ص) کو کبھی مالی حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو لیکن وہ تو حکومت نے لے لیا چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی مشینری نے فدک غصب کرکے در حقیقت اہل بیت (ع) رسول کی آمدنی کا ذریعہ ان سے چھین لیا۔ اور اگر فدک غصب نہ کیا جاتا تو ایک اہم ہدف حاصل نہ ہوتا اور وہ یہ کہ اہل بیت علیہم السلام کو مالی حوالے سے بڑی آمدنی حاصل ہوتی اور سقیفہ پر بھ سوال اٹھانے کے مواقع میسر آتے اور جن لوگوں نے اس وقت تک جان و مال کے خوف سے خاموش رہ گئے تھے، ممکن تھا کہ زبان کھول دیتے اور اہل سقیفہ کی بنی بنائی حکومت کی جڑیں اکھڑ جاتیں۔ اگرچہ رسول اللہ (ص) کی سواری، شمشمیر اور انگشتری کی علی علیہ السلام کے منتقلی خود اس بات کی دلیل ہے کہ ابوبکر نے در حقیقت حکومت علی علیہ السلام کو منتقل کرلی ہے گوکہ خلیفہ اور اہل سقیفہ در حقیقت اس باریک نکتے سے غافل تھے۔ ۔ الی از اهل بیت و علی علیهم السلام بود - حاصل نمی شد اهل بیت اطهار علیهم السلام از ثروت بیشتری بهره مند می شدند و از سوی دیگر سقیفه نیز زیر سوال می رفت و مسلمانان که از ترس دستگاه خلافت دم فرو بسته بودند ممکن بود لب به سخن بگشایند و رشته های اهل سقیقه را پنبه کنند. اگرچه انتقال سواری و شمشیر رسول خدا خود از نشانه های انتقال حکومت به علی است که ابوبکر و دارو دسته او از این نکته باریک بی اطلاع بودند!. روایت میں ہے کہ ابوبکر نے اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تفضل کیا اور یہ اشیاء علی علیہ السلام کو لوٹا دیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص اہل بیت (ع) کے قرآنی، اسلامی، عرفی اور شرعی حق کو جعلی حدیث کا سہارا لے کر غصب کرسکتا ہے جب کہ یہ حق ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ثابت ہے اور اہل بیت (ع) وہ ہیں جن کے حق میں حدیث ثقلین (35) وارد ہوئی ہے اور ان کی اطاعت دنیا اور آخرت کی فلاح کی ضامن ہے، وہ اہل بیت (ع) پر تفضل کیونکر کرسکاتا ہے! جو کچھ انھوں نے اہل بیت (ع) کے سپرد کیا اس سے خلیفہ اور ان کے حاشیہ برداروں کو کچھ فائدہ نہيں مل سکتا تھا۔

صدقہ اہل بیت (ع) پر حرام اور صحیح حدیث کی خلاف ورزی حرام

حدیث سے تو عدم ارث والی بات ثابت نہ ہوسکی اور پھر اگر یہ حدیث صحیح تھی اور تمام عقلی اور نقلی موانع کے باوجود فرض کیا جائے کہ رسول اکرم (ص) سے نقل ہوئی تھی تو پھر تو رسول اکرم (ص) کا ترکہ صدقہ تھا اور جوتے، تلوار اور گھوڑا بھی صدقہ ہی ہوگا جبکہ علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام پر صدقہ حرام تھا۔ چنانچہ نہ تو علی علیہ السلام صدقہ لینے پر راضی ہوسکتے تھے اور نہ ہی خلیفہ صدقے کی پیشکش کرسکتے تھے اور پھر وہ جو علی اور فاطمہ علیہماالسلام کا حق لے کر صدقے میں تبدیل کررہے تھے اور اس کے لئے اس قسم کی حدیث کا سہارا لے رہے تھے تو وہ صدقہ ـ جو شرعاً اہل بیت پر حرام تھا ـ کیونکر انہیں پیش کردیتے؟ چنانچہ ثابت ہوتا ہے کہ جس مال و ملک میں رحمت و شفقت و تفضل کی گنجائش ہو اس کے لئے کوئی شرعی مانع نہیں ہوتا اور شرعی مانع ہو تو ایک خلیفہ کو اس میں کسی بھی عنوان سے استثناء کا قائل ہونا ناقابل قبول ہوگا اور اگر تصور کیا جائے کہ حدیث صحیح تھی تو ان کا یہ تفضل امر حرام تھا۔

یہ حدیث قرآن سے متصادم ہے

ارث کے اکثر احکام قرآن مجید میں خداوند متعال نے بیان فرمائے ہیں اور ظواہر آیات سے یہ قوانین و احکام اخذ کئے جاتے ہیں چنانچہ ان احکام الہی کو نظرانداز کرکے ذاتی اجتہاد کا سہارا لینے کی گنجائش نہیں ہے۔

ہم یہاں ارث کی آیتوں کے دو زمروں سے استناد کرتے ہیں:

زمرہ اول: وہ آیات قرآنی جن میں ارث کے عمومی احکام شامل ہیں اور ان سے کسی کو بھی مسثنی قرار نہیں دیا گیا ہے جیسے:

1۔ "لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضاً"۔ (36)

ترجمہ: مردوں کے لئے ان کے والدین اور اقربا کے ترکے میں ایک حصہّ ہے اور عورتوں کے لئے بھی ان کے والدین اور اقربا کے ترکے میں سے ایک حصہّ ہے وہ مال بہت ہو یا تھوڑا یہ حصہّ متعین اور واجب ہے۔

2۔ "يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ"۔ (37)

ترجمہ: خداوند متعال تمہیں تمہارے فرزندوں کے بارے میں سفارش فرماتا ہے کہ بیٹے کا حصہ بیٹی کے دو گنا ہو۔

یہ دو آیتیں دلالت کرتی کہ جو بھی دنیا سے چلا جائے اس کا ترکہ اس کے وارثوں کو ملے گا۔ خداوند متعال ارث کے احکام بیان کرنے کے بعد ارشاد فرماتا ہے:

"تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن یطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ یدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ"۔ (38)

ترجمہ: یہ سب الٰہی حدود ہیں اور جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اطاعت کرے گا خدا اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور درحقیقت یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اور ان احکام اور حدود الہی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دھمکا دیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:

"وَمَن یعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَیتَعَدَّ حُدُودَهُ یدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِینٌ"۔ (39)

ترجمہ: اور جو خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا اور ا س کی حدود سے تجاوز کرجائے گا خدا اسے جہّنم میں داخل کردے گا اور وہ وہیں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے خفیف رسوا کردینے والا عذاب ہے۔

حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے بھی ابوبکر سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے:

"افخصكم الله بآیة اخرج منها نبیه..."(40)

ترجمہ: پس کیا خدا نے آیت ارث تمہارے لئے مختص کردی اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اس (آیت) سے نکال باہر کیا؟

سیدہ سلام اللہ علیہا کے اس ارشاد گرامی کے مطابق قرآن مجید میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں ہے جن کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سمیت انبیاء علیہم السلام کو اس حکم سے مستثنی قرار دیا گیا ہو۔ پس کوئی بھی مخصص (اور تخصیص دینے والا عامل) موجود نہیں ہے چنانچہ تمام انبیاء عام انسانوں کی مانند ترکہ اور ارث اپنے فرزندوں کے لئے چھوڑتے ہیں اور ان کی اولاد عام انسانوں کی طرح ان کا ترکہ پاتے ہیں۔ (41)

زمرہ دوئم: آیات قرآن کا دوسرا زمرہ ـ جن سے اس حدیث کا بطلان ثابت ہوتا ہے اور مندرجہ بالا سطور میں ان کی طرف اشارہ ہوا اور یہاں بھی ہم ایک بار پھر ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:

خداوند متعال نے سورہ نمل کی آیت 16 میں فرمایا: "سلیمان داؤد کے وارث ٹہرے" اور سورہ مریم کی آیت 5 میں فرمایا: "میں اپنے اقرباء سے خائف ہوں اور پھر میری بیوی بھی بانجھ ہے، چنانچہ اے اللہ! مجھے اپنے پاس سے ایک ولی اور جانشین قرار دے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ٹہرے...".

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ مال دنیا میں (بھی اور سورہ فاطر کی آیت 32 کے مطابق علم و دانش میں بھی) انبیاء علیہم السلام کے فرزند ان کے وارث ٹہرتے اور ان کا ترکہ پاتے ہیں۔ (42)

ان آیات میں کہیں بھی کسی نبی یا کسی عام انسان کو ارث کے احکام سے مستثنی قرار نہيں دیا گیا ہے۔ جبکہ ان احکام پر عمل کرنے والوں کو جنت کا وعدہ دیا گیا ہے اور اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جہنم کی وعید دی گی گئی ہے۔ تو کیا اس کے باوجود اس قرآنی وعد و وعید کو نظرانداز کرکے خلیفہ اول کی حدیث سے استناد کیا جاسکے گا؟ (43) جبکہ یہ حدیث نحو اور لغت کے قواعد کے حوالے سے ناقص اور مخدوش ہے اور ـ رسول اللہ (ص) کی فصاحت و بلاغت کے مسلم ہونے کے باوجود ـ کیا اس نقصان اور خدشے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ اس مقالے کے آخر میں اس حدیث کے لغوی سقم کو بھی واضح کیا جائے گا۔

اور پھر عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض اموال و املاک علی علیہ السلام اور عباس بن عبدالمطلب کو لوٹا دیں لیکن فدک اور خیبر لوٹانے سے گریز کیا (44) اور خلیفہ دوئم کا یہ عمل اس حدیث کے بطلان کی ایک اور دلیل ہے۔ اور پھر ابوبکر بن ابی قحافہ بھی اس حدیث میں استثناء کے قائل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعض ذاتی اشیاء علی علیہ السلام کو لوٹا دیں جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی کسی حدیث کا وجود ہی نہیں تھا۔

فدک کے سوا رسول اللہ (ص) کے دیگر اموال جوں کے توں رہے

فدک ترکہ نہ تھا بلکہ سیدہ (س) کی ذاتی جائیداد تھا اور خلیفہ نے اس کو ارث قرار دے کر اس کی نفی کے لئے جعلی حدیث کا سہارا لیا تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دیگر املاک بھی تھیں جو آپ کا ترکہ سمجھی جاتی تھیں لیکن خلیفہ اور ان کے معاونین نے ان کو ہاتھ تک نہيں لگایا۔ ان اموال و املاک میں امہات المؤمنین یعنی زوجات رسول (ص) کے گھر بھی شامل تھے لیکن خلیفہ نے اس گھروں کا حساب کتاب صاف کرنے کے لئے کوئی کارندہ روانہ نہيں کیا اور یہ بات معلوم کرنا بھی ضروری نہيں سمجھا کہ یہ گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زوجات مکرمات کو بخش دیئے تھے یا پھر وہ رسول اللہ (ص) کا ترکہ قرار دیئے گئے؟!۔

خلیفہ اول نے نہ صرف ان گھروں کا حساب صاف نہيں کیا بلکہ اپنے انتقال سے قبل اپنے لئے رسول اللہ (ص) کے ساتھ دفن ہونے کے لئے "زوجہ رسول (ص) عائشہ بنت ابی بکر سے اجازت لی" (!) کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وارث سمجھتے تھے؛ لیکن ان کی بیٹی کو نہیں جبکہ اگر حدیث ارث کو صحیح سمجھا جائے تو جب بیٹی وارث نہیں ہوسکتی زوجہ کیونکر وارث ہوسکتی ہے؟

زوجات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گھروں میں زندگی بسر کرتی رہیں حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئیں۔ سنی معتزلی عالم دین ابن ابی الحدید اس امتیازی رویئے اس اس قدر مبہوت اور حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ انہیں اس کے لئے اپنی طرف سے جواز تراشنا پڑا ہے؛ جس کو حوالہ جات میں نقل کیا گیا ہے۔ (45)

عمر ابن عبدالعزيز نے خلیفہ اول کی حدیث کو عملی طور پر مسترد کیا

اموی حکمرانوں کے درمیان عمر ابن عبدالعزیز ایک ایسے حکمران ہیں جن کو اہل سنت کے ہاں خاص احترام سے یاد کیا جاتا ہے اور انہيں خلفائے راشدین کا تسلسل سمجھا جاتا ہے اور اسی معتبر شخص نے خلیفہ اول کی حدیث کو عملی طور پر مسترد کرتے ہوئے فدک بنی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لوٹا دیا۔

جب عمر بن عبدالعزیز بر سر اقتدار آئے (46) کہنے لگے: "میں وہ تمام اموال لوٹا دوں گا جنہیں "غیرحق" ان کے مالکوں سے چھین لیا گیا ہے اور مدینہ میں اپنے کارگزاروں کو لکھا کہ فدک کو اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس لوٹا دیں۔ (47)

عمر بن عبدالعزیز نے مدینہ کے حاکم "عمرو بن حزم" کو تحریری حکم دیا کہ فدک اولاد سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو واگذار کردے۔

ابن حزم نے لکھا: اولاد فاطمہ نے آل عثمان اور دوسرے خاندانوں سے رشتے کئے ہیں؛ اب میں فدک کس کے حوالے کروں؟

عمر نے لکھا: اما بعد؛ اگر میں تم سے کہتا کہ ایک مادہ گائے ذبح کرو تو تم پوچھتے کہ گائے کس رنگ کی ہونی چاہئے! ان بنی اسرائیلی اعتراضات اور بے معنی گفتگو سے اجتناب کرو اور میرا یہ خط پاتے ہی فدک کو علی اور فاطمہ (سلام اللہ علیہما) کے درمیان بانٹ دو؛ اور یوں فدک برسوں بعد ایک بار پھر اپنے اصل مالکین کو لوٹا دیا گیا۔

اب مزدوروں اور مزارعوں کے اعتراض کی باری آئی (!) اور انھوں نے ابن عبدالعزیز سے کہا: تم نے اپنے اس عمل کے ذریعے ابوبکر اور عمر کے عمل کو متنازعہ بنا دیا اور ان پر ظلم کیا اور تم نے ثابت کیا کہ کہ انھوں نے فدک کو غصب کیا تھا۔ (48)

عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا: میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی جانتے ہو کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس تھا اور جب انھوں نے فدک ان سے چھین لیا تو انھوں نے اپنے اس حق کا مطالبہ کیا۔ ہم سب بھی جانتے ہیں کہ فاطمہ بنت رسول (ص) کوئی ایسی شخصیت نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھ لیں اور پھر ام ایمن اور ام سلما رضی اللہ عنہما بھی ان کی حقانیت کی گواہی دے رہی تھیں۔ میرے نزدیک فاطمہ (س) سچی ہیں اور ان کا دعوی مقبول ہے اور اگر وہ کوئی دلیل اور ثبوت بھی نہ لاتیں پھر بھی ان کی بات مقبول تھی کیونکہ وہ جنت کی خواتین کی سیدہ و سردار ہیں۔ میں آج فدک فاطمہ (س) کے وارثوں کے حوالے کرتا ہوں اور اپنے اس عمل کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قربت حاصل کرتا ہوں اور فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کی شفاعت کی امید رکھتا ہوں۔ (49)

ایک وضاحت

عمر بن عبدالعزیز کی جانب سے فدک کو اولادِ سیدہ کے پاس لوٹائے جانے سے متعلق روایت میں ایک نکتہ خاص طور قابل توجہ ہے وہ یہ کہ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ "میں فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزندوں کو لوٹا رہا ہوں" بلکہ کہا کہ "میں وہ تمام اموال لوٹا رہا ہوں جنہیں "غیرحق" ان کے مالکوں سے چھین لیا گیا ہے اور مدینہ میں اپنے کارگزاروں کو لکھا کہ فدک کو اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس لوٹا دیں"، چنانچہ عمر بن عبدالعزیز نے بھی گواہی دی کہ فدک وہ زمین ہے جس کو ظلم و ستم اور جبر کے ذریعے چھین لیا گیا تھا اور حکمرانوں کے ہاتھ میں تھا حتی کہ ان کی اپنی حکومت آئی اور انھوں نے صاحبان حق کو لوٹا دیا اور ابن عبدالعزیز کے جملوں سے یہ گواہی بھی سامنے آئی کہ فدک ارث اور ترکہ نہیں تھا بلکہ سیدہ کے ہاتھ میں تھا اور غصب ہوا اور اس بے بعد عمر ابن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد پھر بھی یزید بن عبدالملک نے اقتدار پر قابض ہوکر فدک دوبارہ غصب کیا۔ (50)

فدک تاریخ کے نشیب و فراز میں

جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوا خلیفہ ثانی عمر بن خطاب نے اپنے دور خلافت میں فدک علی (ع) اور عباس کو لوٹا دیا تو علی علیہ السلام نے فرمایا: دنیا اور آسمانوں کے سائے تلے صرف فدک تھا جو ہمارے پاس تھا بعض لوگوں نے اس میں حرص کی اور ایک گروہ نے اس سے آنکھیں پھیر لیں؛ اور کیا خوب فیصلہ کرنے والا ہے خدا! (51)

خلیفہ ثانی کا دور آیا اور اقربا پروری انتہاؤں کو چھونے لگی تو رسول خدا (ص) کے حکم پر مدینہ سے ہمیشہ کے لئے جلاوطن کئے جانے والے "مروان بن حَكَم" نے خلیفہ کے مالی امور کو اپنے ہاتھ میں لیا اور یوں فدک بھی اس کے ہتھے چڑھا اور معاویہ کے دور میں اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت کے بعد بیت المال کی بندربانٹ کے دوران فدک مروان، عمر بن عثمان اور یزید بن معاویہ کے در میان بانٹ دیا گیا۔ مروان نے یزید کی موت کے بعد حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے فدک اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ہبہ کردیا (!) اور عبدالعزیز نے اس کا ہبہ نامہ اپنے بیٹے عمر کے نام لکھ دیا اور جیسا کہ کہا گیا عمر نے فدک بنی فاطمہ (س) کو واگذار کیا اور ان کے انتقال کے بعد یزید بن عبدالملک حکومت پر قابض ہوا تو اس نے فدک دوبارہ غصب کیا اور بنی مروان کے ہاں میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی مروان کی حکومت کا زوال آن پہنچا اور بنوعباس کو حکومت کی اونٹنی پر سواری کا موقع ملا تو ابوالعباس سفاح نے اسے عبداللہ بن حسن بن علی (ع) کے حوالے کیا، منصور دوانیقی نے غصب کیا اور مہدی عباسی نے بنی فاطمہ کو لوٹایا حتی کہ مامون عباسی کا دور آیا تو اس نے فدک بنی فاطمہ اور اہل بیت (ع) کو لوٹا دیا اور جب متوکل عباسی کا دور آیا تو اس نے فدک کو غصب کیا۔ (52) اور یہ عجیب سلسلہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسی کوئی حدیث صادر نہيں ہوئی تھی اور یہ کہ فدک ارث نہیں بلکہ حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی ذاتی ملکیت تھا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو فدک کو ان عجیب مراحل سے نہ گذرنا پڑتا اور اس کو کئی بار بنی فاطمہ (س) کے پاس نہ لوٹایا جاتا۔

فدک کا مسئلہ ہمیشہ ایک سیاسی مسئلہ تھا گوکہ اس کا اقتصادی کردار بھی مدنظر رہا چنانچہ جو بھی بر سر اقتدار آیا اس نے اپنے سیاسی مفادات کی بنیاد پر فدک کے بارے میں اپنا خاص فیصلہ سنایا جو یا تو فدک لوٹانے کا فیصلہ ہوتا تھا یا اس کے غصب کرنے کا لہذا فدک کی حیثیت مسلسل بدلتی رہتی تھی۔ (53)

اب ہم ایک بار پھر فرض کرتے ہيں کہ خلیفہ اول کی حدیث صحیح ہے اور اس کا لغوی اور نحوی پہلو سے جائزہ لیتے ہیں؛

حدیث "انا لا نُوَرِّثُ ما ترکناہ صدقة"؛ معنی و تفسیر

اس حدیث کا نحوی اور لغوی لحاظ سے لے کر ثابت کرتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہيں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دوسرے انبیاء عظام علیہم السلام ارث اور ترکہ نہیں چھوڑا کرتے۔

حدیث کے معنی واضح کرنے کے لئے ہم ابتداء میں اس کے تین معانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1۔ اس حدیث کے مطابق (اگر درست تصور کیا جائے تو) ترکہ کسی کو ارث کے طور پر نہيں ملتا بلکہ جو کچھ انتقال کرنے والے کی حیات میں اس کی ملکیت تھا، وہ کسی وارث کو منتقل نہيں ہوتا بلکہ صدقہ سمجھا جائے گا۔

2۔ جو کچھ انتقال کرنے والے نے اپنی حیات میں صدقے کے طور پر کسی کو بخشا ہے یہ معینہ دلائل کی بنا پر وقف کیا ہے وہ کسی کو ارث کے طور پر نہيں مل سکے گا اور اپنی پہلی کی سی صورت میں باقی رہے گا اور وارثوں کو صدقات یا وقفیات کے سوا، وہ اموال ارث کے طور پر ملیں گے جو وفات کے وقت متوفی کی ملکیت میں شامل تھے۔

3۔ کسی قسم کا کوئی مال انتقال کرنے والے کی ملکیت میں نہيں ہوسکتا کہ وہ اس کو ترکے اور ارث کے طور پر چھوڑ دے اور جو کچھ بھی وہ اپنے پیچھے چھوڑتا ہے وہ صدقہ یا وقف ہوگا۔

اگر ہم مکمل طور پر ان تین معانی کے درمیان اختلاف پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حدیث کی عبارت واضح نہيں ہے اور اس حدیث سے تینوں معانی اخذ کرنا ممکن ہے۔

اس حدیث کے دو حصے ہیں: ۔

1۔ انا معاشر الانبياء لا نورث،

2۔ ما تركناه صدقة يا ما تركنا صدقة.

عبارت کا دوسرا حصہ اپنے لئے ایک مستقل عبارت ہوسکتا ہے جس میں مبتداء بھی اور خبر بھی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ "انا لا نورث" کے لئے "تکملہ" قرار دیا جائے۔ اول الذکر صورت میں پہلے اور تیسرے معانی اس عبارت سے اخذ ہوسکیں گے کیونکہ ما تركناه صدقة يا ما تركنا صدقة سے ظاہر ہوتا ہے کہ باقی ماندہ ترکہ یا مال میت سے اس کے اقارب کو ارث کے طور پر منتقل نہيں ہوتا اور اس کے انتقال کے بعد صدقہ کی صورت اختیار کرتا ہے اور بظاہر ایک تیسرا مطلب بھی اس سے لیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ "انتقال کرنے والے کے تمام اموال صدقے میں تبدیل ہونگے اور متوفی کو کسی قسم کے کسی مال کا مالک بننے کا حق و اختیار ہی حاصل نہيں تھا!۔ جیسا کہ انسان اپنے کمال کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے: "میں ان اموال کا مالک نہيں ہوں اور یہ صدقات ہیں جن کا میں صرف نگہبان ہوں اور اگر فرض کریں کہ حدیث ایک ہی معنی کی حامل ہے تو اس سے دوسرے معنی سمجھ میں آئیں گے یعنی جو کچھ میت نے اپنی حیات کے دوران صدقے کے طور پر بخش دیا ہے وہ اس کے دیگر اموال کی مانند ارث اور ترکے میں تبدیل نہيں ہونگے اور کوئی انہيں ارث کے طور پر نہیں پائے گا۔ موصول (ما) اس جملے میں مفعول کے مقام پر ہے نہ کہ مبتداء کے مقام پر۔ اور جب حدیث کو اسی ترتیب سے پڑھا جائے تو اس سے وہی کچھ سمجھا جائے گا جو اس کی معکوس اور الٹی صورت یعنی "و ما تركناه صدقة" سے سمجھ میں آئے گا۔ تو اس کے معنی یوں ہونگے کہ "صدقات ارث میں نہيں بدلا کرتے" چنانچہ اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ "ہر مال و جائیداد صدقہ ہے"۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ حدیث کے متن سے مأثور (٭) ترتیب سے جس معنی کا ارادہ کیا گیا ہو وہی معنی صحیح ہیں۔

چنانچہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ کی حدیث اگر صحیح سمجھی جائے اور تسلیم کیا جائے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ہوئی ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدقات کسی صورت میں بھی ورثاء کو منتقل نہيں ہوتے اور اس سے ارث کی تشریع حکم ارث کی نفی کا مفہوم نہيں لیا جاسکے گا۔

عظیم عالم نحو سیبویہ کی فدردانی کرتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ اگر "ما ترکناه صدقة" کو معنوی لحاظ سے مستقل سمجھا جائے تو صدقة کا لفظ مرفوع (صددقةٌ) ہوگا اور اگردوسرے فرض کو مان لیا جائے اور کہا جائے اور کہا جائے کہ "انا لانورث ما ترکناه صدقة". تو اس میں لفظ صدقہ منصوب(صدقةً) پڑھا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ عربی میں آخری لفظ کے اوپر "اعراب" نہيں لگتا کیونکہ عرب وقف کرتے ہوئے آخری حرف پر ثبت نہیں کیا جاتا اور اس کو ساکن پڑھا جاتا ہے۔

بہرحال جو کچھ کہا گیا اس کے مطابق اس روایت کے معانی مختلف ہیں۔ تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثابت کریں گے کہ ان تین معانی میں سے دوسرے معنی یعنی "اموال نبی (ص) میں سے جو صدقہ ہے وہ ارث اور ترکے میں تبدیل نہ ہوگا" اور آپ بھی دیکھیں گے کہ یہ معنی زیادہ قابل قبول ہے۔

آپ دیکھ رہے کہ یہاں صیغہ جمع (لا نورث) استعمال ہوا ہے اور اگر تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہیں بھی ایسا جملہ استعمال نہيں کیا مگر یہ کہ فرض کیا جائے کہ حدیث میں صیغۂ جمع در حقیقت مجازی ہے۔ یہ البتہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وجہ شہرت منکسرالمزاج اور تواضع سے عبارت ہے اور تمام ظواہر اور قرائن بھی ہماری است بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ "نون جمع"، جمع کے معنی کے ابلاغ کے لئے بروئے کار آیا ہے اور حدیث کا حکم جمع کے لئے ہے لیکن بہترین تعبیر یہ ہے کہ ہم کہہ دیں "جمع در حقیقت مسلمانوں کی جماعت ہے نہ کہ انبیاء کی جماعت" کیونکہ اس سے جماعت انبیاء سمجھنے کا نہ تو کوئی قرینہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی پس منظر ہے۔

اگر کوئی معترض کہہ دے کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے صادر ہوتے وقت ایک قرینے سے مقترن اور ایک عہد سے مسبوق و معہود تھی (یعنی اس کے لئے ایک قرینہ بھی تھا اور پس منظر بھی جس سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ جمع انبیاء کی جماعت کے بارے میں ہے؛ تو ہم جواب میں کہیں گے کہ اگر آپ کی بات صحیح ہو تو ماننا پڑے گا کہ خلیفہ نے پوری حدیث نقل نہيں کی ہے بلکہ اس کا ایک حصہ حذف کردیا ہے جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ حدیث کے راوی کو پوری حدیث نقل کرنی چاہئے اور حدیث کے ان اجزاء کو ہرگز حذف نہیں کرنا چاہئے جو حدیث کے سمجھنے اور اس کی تفسیر و تجزیہ میں مؤثر ہیں اور اگر انبیاء والا دعوی قبول کیا جائے اور لازماً یہ بات بھی ماننی پڑے کہ خلیفہ نے حدیث کا ایک حصہ حذف کیا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حدیث کا وہ حصہ خلیفہ کے نقصان میں تھا جو انھوں نے حذف کیا ہے اور حدیث کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بھی جھوٹی حدیث منسوب کرنے سے کم نہيں ہے۔

بہر حال ہم اس بحث کو ترک کردیتے ہیں اور اس حدیث کو مکمل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث (بشرط صحت) خلیفہ نے کمی اور زیادتی کے بغیر ہی نقل کی ہے اور یہی حدیث کی مکمل عبارت ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم (یعنی رسول اللہ (ص) اور امت اسلامی وہ اموال بطور ترکہ نہیں چھوڑا کرتے جنہیں ہم نے اپنی زندگی میں ہی بطور صدقہ ادا کیا ہے۔

ہم نے دوسرے معنی کا مطلب بیان کیا اور ہم نے ثابت کیا کہ یہ حدیث صحیح بھی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ارث و ترکہ چھوڑنے سے متصادم نہیں ہے کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ صدقے میں دیا ہوا مال ارث میں تبدیل نہيں ہوا کرتا۔

وضاحت:

ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں صیغۂ "لانورث" (جو متکلم مع الغیر) میں ضمیر جمع کا مرجع کون لوگ ہیں کیونکہ ہم نے متعدد دلائل بیان کردیں کہ اس میں ضمیر جمع کا مرجع انبیاء علیہم السلام نہيں ہیں کیونکہ ہم نے بیان کیا کہ سلیمان داؤد کے وارث ٹہرے اورزکریا نے بیٹے کی التجا کرتے ہوئے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ مجھے ایسا صالح بیٹا عنایت کردے جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی وارث بنے اور اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے جو انبیاء گذرے ہیں ان کی وراثت کا زمانہ بھی گذرا ہے اور جن کو ان کا ترکہ ملنا تھا وہ مل چکا ہے اور ان کے وارثوں کے وارث بھی اس دنیا میں نہيں ہیں چنانچہ ایک ایسا قاعدہ وضع کرنا یا بیان کرنا جس کا تعلق انبیائے سلف سے ہو اور انبیائے سلف کے لئے نافذ العمل ہو عقل کل فی الکل اور مرسل اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بعید ہے۔ چنانچہ ایک مرجع باقی رہتا ہے جس کی طرف جمع متکلم کی ضمیر لوٹے گی اور وہ ہے جماعت مسلمین جو صدور حدیث کے وقت آپ (ص) کی خدمت میں حاضر تھی یا کم از کم مسلمانوں کی اس جماعت کے لوگ ابھی زندہ تھے اور ان تک آپ (ص) کے احکام پہنچ سکتے تھے اور آپ (ص) نے ان کی ہدایت کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا؛ جس طرح کہ کوئی عالم دین اپنے حاضر دوستوں سے خطاب کرتا ہے اور بغیر اس کے کہ اس سے قبل علماء کا کوئی ذکر آیا ہو وہ ضمیر جمع استعمال کرتا ہے اور اس ضمیر جمع سے حاضر اور موجود دوست مراد ہوتے ہیں؛ نہ کہ وہ تمام لوگ جو علماء کے حلقے میں آتے ہیں، اور اگر اس کا مقصد حاضرین کے سوا کوئی اور گروہ ہو تو گویا اس نے ایک مبہم بات کی ہے جو ادب کے لحاظ سے ایک لغزش ہے اور معما سے زیادہ شباہت رکھتی ہے۔

اس فرض کی صحت کی علامت، وہ حکم ہے جو اس حدیث کے ذریعے مسلمانوں کے لئے [یعنی ان لوگوں کے لئے جو ضمیر کا مرجع ہیں] بیان اور ثابت کیا گیا ہے۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا یہ درست ہے کہ ہم مسلمانوں سے ارث و ترکے کی نفی کریں؟ یہ کہہ دیں کہ ہر مسلمان کا مال صدقہ ہے اور وہ اس مال کا مالک نہیں ہے؟ ممکن نہیں ہے کہ اس سے یہ معنی لئے جائیں کیونکہ یہ قرآن کی نصّ صریح کی نفی ہے، اسلام کی ضروریات (اور ناقابل انکار و تردید احکام) سے متصادم ہے کیونکہ قرآن اور اسلامی کے احکام کے مطابق ہر مسلمان مختلف ذرائع سے اموال اور املاک کا مالک بن سکتا ہے اور وہ قرآنی احکام کے مطابق اپنے ارث میں سے ایک حصے کے بارے میں وصیت کرسکتا ہے اور باقی کو ارث کے طور پر وارثین کے لئے چھوڑ سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

/110

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 3

54۔ فدك تاریخ کے آئینے میں - شهید آیت الله باقر الصدر - (فارسی ترجمہ) صص 154 تا 156.

٭۔ مأثور: وہ ترتیب جو ابتدائی طور پر حدیث میں موجود تھی۔

53۔ فدک اور اس کا تاریخی سفر مختلف تفاسیر میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت 26 (و آت ذالقربی حقہ) کے ذیل میں بیان ہؤا ہے بعنوان نمونہ: شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 16، ص 209 تا 286. سفینة البحار ج2 ص 350. الطرائف میں ص 391 اور بعد کے صفحات میں اور دوسری کتب، جن میں سے اکثر کا منبع شرح نہج البلاغہ ہے۔

52۔ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید ج 16، صص 217ـ .216.

51۔ حكمت 262 - نهج البلاغه.

50۔ تاریخ یعقوبی ج2 ص 306.

49۔ كشف الغمه ج2 ص121.

48۔ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید معتزلی ج16 ص278.

47۔ تاریخ یعقوبی ج2 ص 304. وفاء الوفاء ج3 ص 999.

اتنا ہلکا اور بے وقعت استدلال جو ہم نے ابن اابی الحدید سے نقل کیا صرف یہ بتانے کے لئے تھا کہ اس مقدمے میں خلیفہ کے اقدام کے لئے کوئی مدلل جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
46۔ تاریخ طبری ج6 ص 426.

45۔ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید ج 16،ص .261 اسی جلد كے اسی صفحے پر ابن ابی الحدید كی بحث كـچھ یوں ہے: قال المرتضى: وقوله يجوز أن يكون النبي صلى الله عليه وآله نحلهة إياه و تركه أبوبكر في يده - لما في ذلك من تقوية الدين - وتصدق ببدله . وكل ما ذكره جائز إلا أنه قد كان يجب أن يظهر أسباب النحلة والشهادة بها والحجة عليها ولم يظهر من ذلك شئ فنعرفه ومن العجائب أن تدعى فاطمة فدك نحلة وتستشهد على قولها أمير المؤمنين عليه السلام وغيره فلا يصغى إلى قولها ويترك السيف والبغلة والعمامة في يد أمير المؤمنين على سبيل النحلة بغير بينة ظهرت ولا شهادة قامت (الشافي 232 ، 233) . قلت : لعل أبابكر سمع الرسول صلى الله عليه وآله وهو ينحل ذلك عليا عليه السلام فلذلك لم يحتج إلى البينة والشهادة فقد روى أنه أعطاه خاتمه وسيفه في مرضه وأبو بكر حاضر وأما البغلة فقد كان نحله إياها في حجة الوداع على ما وردت به الرواية وأما العمامة فسلب الميت وكذلك القميص والحجزة والحذاء فالعادة أن يأخذ ذلك ولد الميت . ولا ينازع فيه لانه خارج أو كالخارج عن التركة فلما غسل عليه السلام أخذت أبنته ثيابه التى مات فيها وهذه عادة الناس على أنا قد ذكرنا في الفصل الاول كيف دفع إليه آله النبي صلى الله عليه وآله وحذاءه ودابته والظاهر أنه فعل ذلك اجتهادا لمصلحة رآها . وللامام أن يفعل ذلك۔ (الشافي سید مرتضی علم الہدی صفحہ233)۔ ابن ابی الحدید کہتے ہيں: سید مرتضی نے کہا: اور یہ جو کہا گیا ہے کہ نبی کے لئے جائز ہے کہ آپ نے بعض اشیاء کو علی علیہ السلام کا نحلہ (اور مال و ملک) فرار دیا ہو اور ابوبکر نے بھی یہ اشیاء آپ (ع) کے پاس چھوڑ رکھی ہوں اس لئے کہ اس سے تقویت پہنچتی ہے اور پھر ابوبکر نے ان اشیاء کے بدلے صدقہ دیا [یہ نہیں معلوم کہ ان اموال کی قیمت جو خلیفہ نے صدفے کے عنوان سے نکال دی، کہاں سے آئی، خلیفہ کی جیب سے یا بیت المال سے؟] جو کچھ بھی اس حوالے سے کہا گیا ہے وہ سب درست اور جائز ہے لیکن جو بات بہت زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس کو نحلہ (بے مانگے عطیہ) قرار دیئے جانے کے اسباب کیا تھے اور اس پر پیش کی جانے والی شہادت اور قائم ہونے والی دلیل بھی سامنے لائی جائے اور عجیب بات یہ ہے سیدہ فاطمہ (س) نے خلیفہ سے فرمایا کہ فدک ان کا نحلہ (بے مانگے عطیہ) ہے اور علی علیہ السلام اور ام ایمن کو گواہ کے طور پر پیش کیا لیکن ان کی شہادت کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن تلوار، خچر اور عمامہ عطیہ کے طور پر امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس چھوڑ دیا اور اس پر کسی گواہ اور ثبوت کی ضرورت محسوس نہيں کی ... [ابن ابی الحدید جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں] شاید ابوبکر نے رسول اللہ (ص) کو یہ چیزیں علی علیہ السلام کو نحلہ کے طور پر تخصیص دیتے ہوئے سنا ہو!؛ اسی بنا پر ان چیزوں کو نحلہ کے طور پر علی علیہ السلام کے سپرد کرتے ہوئے گواہ اور ثبوت مانگنا ضروری نہيں سمجھا ہو! کیونکہ یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی آخری بیماری میں اپنی انگشتری اور تلوار علی (ع) کو عطا فرمائی تھی جبکہ ابوبکر بھی وہاں حاضر تھے [ابن ابی الحدید کی یہ بات شاید سے شروع ہوئی ہے اور اس کا ثبوت و گواہ بھی کوئی نہیں ہے کہتے ہیں کہ] اور مادہ خچر رسول اللہ (ص) نے حجۃالوداع کے دوران علی علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی جیسا کہ اس سلسلے میں بھی روایت موجود ہے؛ اور عمامہ اور قمیص، کمربند، اور ازار، نیز جوتے سب رسول اللہ (ص) کی میت سے جدا کئے گئے اور عادت یہ تھی کہ یہ چیزیں میت کے فرزند کو ملا کرتی تھیں اور یہ چیزیں اس سے چھینی نہیں جاتی تھیں کیونکہ یہ ترکے اور ارث سے خارج ہیں؛ پس جب رسول اللہ (ص) انتقال فرماگئے تو آپ کا لباس آپ (ص) کی بیٹی (س) نے لے لیا اور یہی لوگوں کی عادت اور رسم تھی جیسا کہ ہم نے فصل اول میں ذکر کیا کہ ابوبکر نے رسول اللہ کی عصا اور جوتوں اور آپ (ص) کے چوپایوں کو کیونکر علی (ع) کے حوالے کردیا اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب انھوں نے اجتہاد اور مصلحت کے طور پر انجام دیا تھا جو ان کی اپنی تشخیص کے مطابق تھا اور یہ سب ایک امام کو کرنا بھی چاہئے۔

44۔ تاریخ مدینة المنوره ج1 ص207. جامع الاصول ج10 ص386. وفاء الوفاء ج3 ص 995. سنن الكبری ج6 ص 301.

43۔ فدك ذوالفقار فاطمه ص 77.

42۔ الشافی ج4 ص 60 - 65.

41۔ فدك ذوالفقار فاطمه ص 76.

40۔ بلاغات النساء صفحه 16 و 17.

39۔ سوره نساء آیه 14.

38۔ سوره نساء آیه 13.

37۔ سوره نساء آیه 11.

36۔ سوره نساء آیه 7.

4- لوگ اگر اہل بیت (ع) کی اطاعت کریں اور ان کا دامن تھامے رہیں تو قرآن کے مفاہیم سے بہتر انداز میں روشناس ہونگے اور کبھی بھی گمراہ نہيں ہونگے اور ہمیشہ کے لئے حق بجانب ہونگے۔
5۔ دین اور دنیا کے تمام علوم ااہل بیت (علیہم السلام) کے پاس موجود ہیں اور جو ان کی اطاعت کریں گے وہ کبھی گمراہ نہ ہوگا اور حقیقی سعادت حاصل کرے گا۔ قرآن کو صرف اور صرف اہل بیت (ع) کے ساتھ ہم پلہ قرار دیا گیا کہ وہ معصوم عن الخطا ہيں اور وہ قرآن کے حقائق سے آگاہ اور اس کی حفاظت کی روشوں سے واقف ہیں۔ اور یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اور عترت سے مراد رسول اللہ (ص) کے تمام رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ اہل بیت سے مراد معین افراد ہیں جو دین کے تمام علوم کے مالک ہیں اور ہر لحاظ سے رہبری اور امامت کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہيں اور قابل قبول نہیں ہے کہ اہل بیت (ع) کو علم و دانش اور تمام انسانی اوصاف و خصوصیات میں دوسروں سے افضل قرار دیا جائے لیکن حکومت دوسروں کے سپرد کیا جائے۔ ائمہ اہل بیت (ع) علی، حسن، حسین، علی، محمد، جعفر، موسی، علی، محمد، علی، حسن اور مہدی علیہم السلام ہیں جو کبھی قرآن سے جدا نہيں ہوتے اور انہیں امت کی امامت و رہبری کا عدہ سونپ دیا گیا ہے؛ وہی جو رسول اللہ (ص) ذریت ہیں؛ ابن عباس کہتے ہیں: إن الله تعالى جعل ذرية كل نبي في صلبه، وجعل ذريتي في صلب علي بن أبي طالب. اللہ تعالی نے ہر نبی کی ذریت اس کی اپنی صلب سے قرار دی ہے اور میری ذریت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی صلب سے قرار دی ہے۔ (ینابیع المودة حنفی جلد 2 صفحه 90۔ الجامع الصغير جلد 1 صفحه 262 حديث 1717. كنز العمال جلد 11 صفحه 600 حديث 32892)۔ روایات اور احادیث میں آیت شریفہ قل لا اسئلكم عليه اجراً إلا المودة في القربی (سورہ شوری آیت 23) کی تفسیر کے حوالے سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی حدیث سے اس کا جواب دیا اور فرمایا کہ میرے اقرباء جن کی محبت و اطاعت واجب ہے وہ وہی لوگ ہیں جو اس حدیث کا مصداق ہیں۔

1۔ یہ کہ قرآن قیامت تک باقی ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) کا بھی یہی حال ہے اور اس کی تفسیر رسول اللہ اور اہل بیت رسول (ص) کا وہی ارشادہ ہے کہ زمین تا قیامت امام سے خالی نہيں ہوگی۔
2۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان دو امانتوں کے ذریعے مسلمانوں کی تمام علمی اور دینی ضروریات کو پورا کردیا اور اہل بیت (ع) کو قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے دینی اور علمی مرجع کے طور پر متعارف کراتے ہوئے مسلمانوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔
3- قرآن اور اہل بیت (ع) کو کسی صورت میں بھی ایک دوسرے سے الگ نہيں ہونا چاہئے اور کسی مسلمان کو یہ حق نہيں پہنچتا کہ علوم اہل بیت (ع) سے چشم پوشی کرے اور اپنے آپ کو اہل بیت (ع) کی ہدایت و ارشاد کے دائرے سے باہر کردے۔

35۔ حدیث ثقلین: زید بن ارقم کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "گویا خداوند متعال نے مجھے اپنے وصال کی دعوت دی ہے اور مجھے اس دعوت کو لبیک (()) کہنا پڑے گا تاہم میں (تمہیں بے یار و مددگار نہيں چھوڑوں گا اور) دو گرانقدر چیزیں تمہارے درمیان چھوڑے جاررہا ہوں: کتاب اللہ اور اپنا خاندان (عترت اہل بیت)، دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ روا رکھتے ہو: یہ دو ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتی کہ کوثر کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں۔ (البدایة و النهایة ج 5 ص 209 - ذخائر العقبى ص 16 - فصول المهمة ص 22 - خصائص ص30 الصواعق المحرقه ص 147 - کتاب "غاية المرام وحجة الخصام" میں سيد هاشم البحراني الموسوي التوبلي نے یہ حدیث 39 سنی منابع سے اور 82 شیعہ منابع سے نقل کی ہے ... حدیث ثقلین مسلم اور قطعی حدیثوں میں سے ہے جو بہت سی اسناد اور مختلف عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور شیعہ اور سنی علماء، محدثین اور مؤرخین نے اس کی صحت کی تصدیق کی ہے اور سب اس سلسلے میں متفق ہیں۔ اس حدیث اور مشابہ احادیث سے بعض حقائق سامنے آتے ہیں:

34۔ شرح نہج البلاغہ ج4 صص 87 ، 89 ـ بلاغات النسا ص 12 تا 15۔

33۔ صحیح بخاری ج3 ص252 كتاب المغازی باب 155- غزوة خیبر حدیث 704۔

32۔ بلاغات النساء صفحة 16 - 17۔

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment