اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

عظمت اہلبیت علیہم السلام

 عظمت اہلبیت علیہم السلام

دین کا تحفظ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم بھی اسی راستے کو اپنائیں جو ہمارے بزرگان اور پیشواوں نے اپنایا ،اسی راستے پر چلیں جس پر ہمارے ائمہ(ع) چلے ،انہوں نے اپنے عمل اور کردار سے دین کی حفاظت کی یعنی انہوں نے دین ناب محمدی کے ہر قانون پر خود عمل کیا تو ان کا یہی عمل ہمارے لیے دین کی شکل اختیار کر گیا انہوں ویسی نماز پڑھ کے بتایا جیسی رسول(ص) پڑھا کرتے تھے انہوں نے ویسا روزہ رکھ کر بتایا جیسا رسول(ص) رکھتے تھے انہوں نے ویسا حج کر کے بتایا جیسا رسول کیا کرتے تھے لہذا ان کے عمل کی تاسّی در حقیقت دین واقعی کا اتباع ہے۔ ان کی سیرت کو نظر انداز کرنا اور ان کی نماز جیسی نماز نہ پڑھنا ان کے حج و زکات یا دیگر اعمال جیسے اعمال انجام نہ دینا دین واقعی سے دوری اور گھر والوں کو چھوڑ ہمسایہ سے دین کو لینے اور اس کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔

بقلم :سید افتخار علی جعفری

عظمت اہلبیت علیہم السلام
خالق کائنات نے کائنات کو خلق کیا لیکن اس میں موجود اشیاء کو یکساں اور برابر پیدا نہیں کیا۔ حتی ایک ہی چیز اور ایک ہی صنف کی اشیاء کو بھی یکساں نہیں بنایا۔ بلکہ بعض کو بعض پر ترجیح اور فوقیت عطا کی۔ جمادات میں زمین کو خلق کیالیکن زمین کی بعض جگہوں کو بعض دوسری جگہوں پر ترجیح دی ۔ مسجد کی جگہ اور گھر کی جگہ بظاہر تو یکساں نظر آتی ہے لیکن مسجد کی جگہ کو نجس کرنا حرام اور گھر کو نجس کرنا جائز ہے۔ تمام شہر بظاہر تو یکساں نظر آتے ہیں لیکن جو امتیاز مدینة الرسول اور مکہ مکرمہ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ۔ سر زمین مکہ کو قرآن کریم نے بلد امین اور ام القریٰ کے لقب سے نوازا ، کسی اور شہر کو یہ لقب نصیب نہ ہوا۔ سر زمین مکہ میں بھی جو فوقیت مسجد الحرام کو حاصل ہے وہ باقی شہر کو نہیں اور مسجد الحرام میں بھی جو مقام و مرتبہ خانہ کعبہ کاہے وہ بقیہ مسجد کی نہیں۔
نباتات کی منزل میں بھی تمام درختوں کو یکساں خلق نہیں کیا ۔ قرآن کریم میں خالق نے ہزاروں انواع و اقسام کے درختوں کو چھوڑ کر صرف انجیر اور زیتون کی قسم کھائی جو ان کی برتری اور عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
حیوانات میں بھی سب جانور ایک سے نہیں ہے کچھ جانوروں کا کھانا حرام اور کچھ کا کھانا حلال ہے۔ ہر جانور راہ خدا میں قربان ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو جانور اس سعادت کا حامل ہو گا یقینا بارگاہ خداوندی میں اس کا مقام ہو گا۔ جو مقام اصحاب کہف کے کتے کو حاصل ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے جانور کو حاصل ہو۔
منزل انسانیت میں خود انسان کو یکساں نہیں بنایا جو مقام ان کے سر کا ہے وہ اس کے بقیہ بدن کا نہیں اور سر میں بھی جو مرتبہ عقل و فکر کا ہے وہ باقی سر کا نہیں ، عقل و فکر ہی ہے جو انسان کا طرّہ امتیاز ہے۔ اور عام انسانوں کی تو بات ہی کیا انبیاء اور مرسلین بھی ایک صف میں نظر نہیں آتے وہاں بھی یہ اعلان ہے:'' تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض'' ( بقرہ، ٢٥٣) رسولوں میں بھی ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے صرف ٣١٣ کو رسول بنایا اور ان میں سے صرف پانچ کو اولو العزم انبیاء بنایا اوراس کے بعد ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کو سب کا آقا و سردار بنایا۔
لہذا مذکورہ تمہید سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ کائنات میں دو چیزیں مسلمہ حقیقت ہیں ایک یہ کہ کائنات اور اس میں موجود اشیاء کے درمیان اختلاف مراتب پایا جاتا ہے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اور دوسری چیز یہ کہ اس فضیلت اور امتیاز کا عطا کرنے والا صرف اور صرف خداوندعالم ہے کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اسی نے مکہ مکرمہ کو ام القریٰ اور خانہ کعبہ کو بیت اللہ بنایا۔ اسی نے مرسل اعظم کو سید و سالار انبیاء بنایا۔ اسی نے پیغمبر اکرم (ص) کو اپنا حبیب بنایا اور ان کی محبت میں کائنات کو خلق کیا چنانچہ حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا:'' یا احمد لولاک لما خلقت الافلاک '' اے احمد اگر آپ کی خلقت مقصود نہ ہوتی تو میں کائنات کی تخلیق نہ کرتا۔ اور اسی نے اسی حدیث میں مزید فرمایا:'' و لو لا علی لما خلقتک'' اگر علی نہ ہوتے تو آپ کو بھی خلق نہ کرتا۔ ''ولو لا فاطمہ لما خلقتکما'' اور اگر فاطمہ کی خلقت مد نظر نہ ہوتی تو میں آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔ ( مستدرک سفینة البحار، الشیخ الشاہرودی، ج٣، ص١٤٩، الجنة العاصمہ، ص ١٤٥، مجمع النورین، ص١٤، الاسرار الفاطمیہ، الشیخ محمد فاضل المسعودی، ص٢٣١، کشف اللئالی، صالح بن عبد الوہاب بن عرندس، الجنة العاصمہ، میر جہانی، ص١٤٩)۔
یہ خالق کائنات کا اعلان ہے کہ اس نے کائنات کو مرسل اعظم(ص) کی محبت میں ، اور مرسل اعظم کو علی (ع) کی محبت میں اور آپ دونوں کو فاطمہ زہرا (س) کی محبت میں خلق کیا۔
یہ وہ انوار مقدسہ ہیں جو اللہ کی سب سے پہلی مخلوق ہیں ۔ حضرت آدم کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے خالق نے انہیں خلق کیا ۔ہزاروں سال کی قید تو ہماری کوتاہ بیانی کا نتیجہ ہے ورنہ یہ وہ انوار قدسیہ ہیں جو جب سے نور الانوار(خدا) ہے یہ بھی ہیں جس طرح وہ ازلی اور ابدی ہے اسی طرح یہ بھی ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہنے والے ہیں اس لیے کہ ممکن نہیں ہے کہ سورج ہو اور اس کی کرنیں نہ ہوں اس کی روشنی نہ ہو ۔ اللہ نور ہے اور یہ اس نور کی نورانی کرنیں ہیں جب حضرت آدم نے صفحہ ہستی میں قدم رکھا تو ایک مرتبہ دیکھا کہ عرش الہی پر ایک تخت لگا ہے جس پر نور کی ایک ملکہ تشریف فرما ہے جس کے سر پر نورانی تاج ، گلے میں ہار اور کانوں میں گوشوارے ہیں جناب آدم نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : بارالٰہا! کیا مجھ سے پہلے بھی تیری کوئی مخلوق تھی؟ آواز آئی یہ میری وہ نورانی مخلوق ہے جسے سب سے پہلے میں نے خلق کیا ۔ عرض کیا : کیا اس مخلوق کا تعارف ممکن ہے؟ فرمایا: یہ نورانی ملکہ فاطمہ ہیں ان کے سر پر جو تاج ہے وہ محمد مصفطیٰ ہیں ان کے گلے کا ہار علی مرتضیٰ ہیں ان کے کانوں کے گوشوارے حسنین ہیں۔ اگر تم اور تمہاری اولاد میں کسی کو کوئی مشکل درپیش آئے تو ان کا واسطہ دے کر دعا کرے اس کی دعا قبول ہو گی اس کی مشکل آسان ہو گی۔ اسی بنا پر جب جناب آدم جناب، حوا کے فراق میں سرگرداں تھے تو اچانک یاد آیا کہ قدرت نے ان انوار قدسیہ کا واسطہ دے کر دعا مانگنے کی تاکید کی تھی تو فوراً دست بدعا ہوئے : ''یا حمید بحق محمدیا عالی بحق علی یا فاطر بحق فاطمہ یا محسن بحق حسن یا قدیم الاحسان بحق حسین '' ۔جناب آدم نے پنجتن پاک کا واسطہ دیا تو قدرت نے انہیں جناب حوا کا وصال نصیب فرمایا۔
پروردگار عالم نے آدم اور اولاد آدم کو ہمیشہ کے لیے یہ تعلیم کر دیا کہ دیکھو ابتدائے کائنات سے انتہا تک نہ ان کا کوئی مثل و نظیر ہے اور نہ ان کے واسطہ کے بغیر مجھ تک رسائی ممکن ہے۔
قدرت کا یہ بھی عجیب انتظام ہے کہ اس نے پنجتن پاک کو سب سے پہلے پیدا کیا اور سلسلہ نبوت کے اختتام پر پیکر جسمانی میں انہیں زمین پر اتارا اور انہیں امت وسط قرار دے کر تمام انسانوں پر گواہ بنا دیا۔ ''و کذالک جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شھداء علی الناس '' ( بقرہ، ١٤٣)یہ اول سے آخر تک تمام انسانوں کے اعمال پر شاہد ہیں اور شاہد وہ ہوتا ہے جو قضیہ کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے۔ اگر اس نے آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی۔ یہ ظاہری اور باطنی دونوں صورتوں میں تمام انسانوں کے اعمال پر گواہ ہیں۔
اور انہیں سب سے آخر میں دنیا میں بھیجنے کی شاید ایک مصلحت یہ بھی ہو کہ اگر ابتدا میں زمین پر آتے تو ان کی شریعت محدود ہو جاتی ان کے بعد کوئی دوسرا نبی آتا تو اس کا دین ناسخ اور ان کا دین منسوخ ہو جاتا۔ لہذا قدرت نے ابتدا میں خلق کر کے تمام مخلوقات پر انہیں گواہ بنایا اور آخر میں بھیج کر ان کی شریعت کو لامحدود بنایا۔ اور یہ سنت قائم کر دی کہ آخری کی شریعت قیامت تک باقی رہے گی ۔ آخری نبی محمد مصطفی ہیں تو ان کا دین قیامت تک باقی رہے گا ، آخری کتاب قرآن کریم ہے تواس کا قانون قیامت تک نافذ ہو گا۔ اور بظاہر مسلمانوں کے آخری خلیفہ حضرت علی علیہ السلام ہیں تو ان کی شریعت قیامت تک چلنا چاہیے پھر کسی دوسرے خلیفہ کی سنت پر عمل کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہم سنت محمدیہ کو چھوڑ کر سنت عیسیٰ یا سنت موسیٰ پر عمل کریں جو نہ شرعاً جائز ہے اور نہ عقلاً۔ لہذا جس طرح ہمارے آخری نبی کا دین قیامت تک باقی رہے گا جس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا دین اختیار کرنا نا قابل قبول ہے اسی طرح امیر المومنین علی علیہ السلام کی شریعت اور ان کی فقہ کر چھوڑ کر کسی دوسرے کی شریعت اور فقہ پر عمل کرنا بھی بارگاہ رب العزت میں ناقابل قبول ہے ایسی صورت میں اس کے سارے اعمال رایگاں ہوں گے اور محشر میں خالی ہاتھ ناک پوچھتا ہوا نمودار ہو گا۔
عظمت اہلبیت (ع) قرآن اور سنت کی روشنی میں
قرآن کریم میں ٣١٣ ایسی آئتیں ہیں جو متفقہ طور پر اہلبیت اطہار کی شان میں نازل ہوئی ہیں ہم یہاں پر صرف آیت تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
سورہ احزاب کی ٣٣ ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہے:'' انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا'' بتحقیق اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ تم اہلبیت کو رجس سے دور رکھے اور تمہیں پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔
ترمذی نے اپنی صحیح کے اندر عمر بن ابی سلمہ سے نقل کیا ہے: جب آیت تطہیر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل ہوئی تو آپ ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے آپ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا اور ایک کساء کو سب پر اڑھا کر فرمایا: خدایا یہ ہیں میرے اہلبیت ۔ ہر طرح کے رجس کو ان سے دور کر دے اور انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ اتنے میں آیت نازل ہوئی اور اللہ نے اہلبیت اطہار کو ہر طرح کے رجس سے دور کر دیا ۔ جب پنجتن پاک کساء میں داخل ہو چکے تو جناب ام سلمہ نے بھی رسول سے داخل ہونے کی اجازت مانگی آپ نے فرمایا: انک علی خیر۔ تم بھی خیر پر ہو۔ لیکن اہلبیت میں تمہارا شمار نہیں ہو سکتا۔(صحیح ترمذی، ج٥، ص٧٢٣)
اس آیت اور اس کی شان نزول پر غور کرنے سے بہت سارے مسائل کا حل نکل جاتا ہے۔ اس آیت میں پروردگار عالم نے اہلبیت (ع) کو رجس سے دور رکھا ہے رجس ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی نجاست کو کہا جاتا ہے اور اللہ کا ارادہ کن فیکون ہوتا ہے اس نے ارادہ کیا کائنات خلق ہو گئی وہ کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہو جاتی ہے۔ لہذا اس کے ارادے سے اہلبیت ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ ہیں نہ گناہوں کی آلودگی ان کے قریب آسکتی ہے اور نہ ظاہری نجاسات ۔ لہذا وہ معصوم ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ اہلبیت صرف وہ ہو سکتے ہیں جنہیں خود رسول اسلام (ص) معین کریں نہ ہم اور آپ ۔ رسول اسلام نے خود اپنے اہلبیت کی تعداد معین کی اور فرمایا کہ اہلبیت صرف چودہ ہیں اس کے علاوہ حتی ازواج رسول بھی اہلبیت میں شامل نہیں ہو سکتیں چہ جائے ہم اور آپ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے کساء کے نیچے خود اور اہلبیت کو جمع کر کے عملی طور پر بتا دیا کہ اہلبیت ہم ہیں ہماری ازواج بھی ان میں شامل نہیں ہو سکتیں اور اس کے بعد متعدد جگہوں پر بیان فرمایا کہ نسل امام حسین سے پیدا ہونے والے نو امام بھی اہلبیت میں شامل ہیں جومیرے خلیفہ اور جانشین ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے مقام امامت عنایت ہوا ہے صرف وہ معصوم ہیں ان کے علاوہ ان کی اولادوں میں سے بھی کوئی مقام عصمت پرفائز نہیں ہے یعنی کلی طور پر پیغمبر اکرم سے لے کر امام مھدی علیہ السلام تک چودہ ذوات مقدسہ ایسی ہیں جو اہلبیت رسول کہلاتی ہیں اور معصوم ہیں ان کے علاوہ ان کی اولادیں فاطمی سادات کہلاتی ہیں ان پر زکات فطرہ حرام ہے وہ خمس میں سہم سادات کے مستحق ہیں لیکن اپنے آپ کو اہلبیت کہنے کا حق نہیں رکھتے۔
اہلبیت اور آئمہ حق کی تعداد کے سلسلے میں متعدد احادیث اہلسنت کی انتہائی مشہور اور اہم کتب احادیث مثلا صحیح بخاری، صحیح ترمذی، صحیح مسلم، صحیح ابی داود اور مسند احمد وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں جن میں مرسل اعظم نے اپنے اہلبیت اور بارہ اماموں کی تعداد کو بیان کیا ہے مذکورہ کتابوں میں اس موضوع سے متعلق ٢٧١ حدیثیں بیان ہوئی ہیں مثال کے طور پر صحیح بخاری میں نقل ہوا ہے کہ جابر بن سمرة نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا کہ آپ نے فرمایا: '' یکون اثنا عشر امیرا فقال کلمة لم اسمعھا فقال ابی انہ قال کلھم من قریش''( صحیح بخاری، ج٩، کتاب الامقام، ص ١٠٠) میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔ (راوی کہتا ہے :) اس کے بعد (پیغمبر اکرم ) نے کوئی بات کہی جو میں نے نہیں سنی ،میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا پیغمبر نے فرمایا وہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے ۔
مذکورہ حدیث میں اماموں کی تعداد کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں جسے اہلسنت کے مشہور عالم دین'' شیخ سلمان قندوزی'' نے اپنی کتاب ینابیع المودة میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) سے آپ کے اوصیاء کے سلسلے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
'' ان وصی علی بن ابی طالب و بعدہ سبطای الحسن و الحسین تلوہ تسعة ائمة من صلب الحسین قال یا محمد فسمھم لی: قال ان امضی الحسین فابنہ علی فاذا مضی علی فابنہ محمد فاذا مضی محمد فابنہ جعفر،فاذا مضی جعفر فابنہ موسی، فاذا مضی موسی فانبہ علی، فاذا مضی علی فابنہ محمد فاذا مضی محمد فابنہ علی، فاذا مضی علی فابنہ الحسن فاذا مضی الحسن فابنہ الحجة محمد المھدی الی فھٰولاء اثنا عشر'' (ینابیع المودہ، ص٤٤١)
اس حدیث سے یہ بات صاف واضح ہو جاتی ہے کہ اہلبیت اطہار صرف چودہ معصوم ہیں یعنی رسول خدا، جناب فاطمہ زہرا اور بارہ امام جن کے نام مذکورہ حدیث میں بیان ہوئے ہیں ، یہی رسول اسلام کے حقیقی جانشین اور خلیفہ ہیں ان کے دین کے والی و وارث اور محافظ ہیں ان کے طفیل سے دین اسلام آج تک زندہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دین اسلام کو کوئی مشکل در پیش ہوئی ، جب بھی دین پر آنچ آئی تو انہوں نے بڑھ کر دین کو سہارا دیا جب بھی دین کو خون کی ضرورت پڑی تو ائمہ اطہار نے اپنا خون دین کو دے کر اسے حیات جاودانی بخشی۔ تاریخ ان دردناک واقعات کو چھپا ہی نہیں سکتی جب خلفاء وقت دین کے نام پر دین کی دھجیاں اڑا رہے تھے، منبر رسول پر بیٹھ کر نزول وحی اور رسالت پیغمبر(ص) کا انکار کر کے د ین کو صرف بنی ہاشم کا ڈھونگ کہہ رہے تھے تو رسول کے حقیقی وارثوں اور دین کے سچے محافظوں نے اپنی گردنیں دے کر یہ ثابت کر دیا کہ اسلام بنی ہاشم کا ڈھونگ نہیں ہے بلکہ اللہ کا بھیجا ہوا دین و ائین زندگی ہے اس کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے یہ نہ مٹے گا۔ اس کا محافظ خود اللہ ہے اس کے بعد اس کے مقرر کردہ نمائندے ہیں جن میں سے گیارہ نے ظاہری طور پر دین کی حفاظت کی ہے اور بارہواں پردہ غیب میں رہ کر قیامت تک اس کی محافظت کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔اور تیسرے نمبرپر وہ سادات کرام ہیں جن کے گھر میں اس دین مبین کا نزول ہوا ہے ان کا بھی فریضہ اولیہ ہے کہ اس وحی الہی کی حفاظت کریں جو ان کے گھر میں نازل ہوئی ہے اس کتاب الہی کا تحفظ کریں جو ان کے گھر میں اتری ہے ۔ لہذا دین کا تحفظ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم بھی اسی راستے کو اپنائیں جو ہمارے آباو اجداد نے اپنایا ،اسی راستے پر چلیں جس پر ہمارے ائمہ چلے ،انہوں نے اپنے عمل اور کردار سے دین کی حفاظت کی یعنی انہوں نے دین ناب محمدی کے ہر قانون پر خود عمل کیا تو ان کا یہی عمل ہمارے لیے دین کی شکل اختیار کر گیا انہوں ویسی نماز پڑھ کے بتایا جیسی رسول پڑھا کرتے تھے انہوں نے ویسا روزہ رکھ کر بتایا جیسا رسول رکھتے تھے انہوں نے ویسا حج کر کے بتایا جیسا رسول کیا کرتے تھے لہذا ان کے عمل کی تاسّی در حقیقت دین واقعی کا اتباع ہے۔ ان کی سیرت کو نظر انداز کرنا اور ان کی نماز جیسی نماز نہ پڑھنا ان کے حج و زکات یا دیگر اعمال جیسے اعمال انجام نہ دینا دین واقعی سے دوری اور گھر والوں کو چھوڑ ہمسایہ سے دین کو لینے اور اس کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا انجام کیا ہے اس کے بارے میں آپ خود فیصلہ کر لیجئے۔
والسلام علی من اتبع الہدیٰ

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حرم مطہر قم ( روضۂ حضرت معصومہ علیہا السلام )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
حضرت عباس نمونہ وفا
حضرت عباس علیہ السلام کا شہادت نامہ
عظمت اہلبیت علیہم السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
عفو اہلبيت (ع)
حضرت علی علیہ السلام اور آٓپ کے گیارہ فرزندوں کی ...
ام عمارہ شیر دل خاتون
"سکینہ" اور "وقار" کے درمیان فرق کیا ہے، ...

 
user comment