اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم

 میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم

 

میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم، ان کی نسل کشی، مساجد کی شہادت اور میانمار میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا سلسلہ جاری ہے لیکن بین الاقوامی برادری اس انسانیت سوز کارروائیوں کو روکنے میں اب تک بہ ظاہر نا کام رہی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کی اس نسل کشی پر جواب طلبی میں نا کام ہے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھانے سے قاصر رہیں۔ تاہم مسلسل خاموشی کے بعداقوام متحدہ نے اپنی خاموشی توڑی اور میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے حکومت میانمار پر برہمی کا اظہار کیا۔ 

 

 

ابنا: میانمارمیں انسانی حقوق کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ٹامس اوجہ آکینتانا نے میانمار کے مسلمانوں کی صورتحال کو اس ملک کی سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے عمل کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ اس موضوع پر آج میرے ساتھ حالات حاضرہ کے پروگرام گشت گذارمیں گفتگو کر رہے ہیں ہندوستان کے تجزیہ نگار قمر آغا۔

قمرآغا ہرمہذب قوم کو ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیئے، اس لئے کہ مسلمانوں کے خلاف جس قسم کی سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طریقے سے مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کیلئے ضروری دکھائی دیتا ہے کہ مسلمان ممالک اپنے اتحاد اور سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی اپنی قومی سلامتی کے خلاف خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ لیکن میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا عالمی اداروں کی جانب سے صرف مذمتی بیان دینا ہی کافی ہے۔

میانمار میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، طاغوتی شکنجوں میں جکڑے عالمی میڈیا اور غلامانہ ذہنیت کے حامل مسلم ممالک کے حکمرانوں کی مسلسل چشم پوشی کے باوجود میانمار کی روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ضمیروں کو مسلسل جھنجوڑنے میں مصروف ہے۔ آج میانمار کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے، انسانی حقوق کا علمبردار عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی خاموش ہے اور او آئی سی کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ ظلم و بربریت کی یہ انتہاء میانمار میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ 1978ء میں برمی انسان نماء بھیڑیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کیا۔ یہ مسلمان ہزاروں کی تعداد میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچے۔ اور آج وہ وہاں مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق رواں سال مظالم کی نئی داستان میں ہزاروں مسلمان ہلاک، زخمی اور بے گھر ہوئے۔ ظلم صرف یہاں تک ہی نہیں رہا بلکہ مسلمانوں کے کئی گھروں اور مساجد کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا۔ اس بربریت کی کہانی میں تقریباً 9 ہزار مسلمان ایک مرتبہ پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ رواں سال اپریل میں 400 انسان نماء وحشی بدھ متوں نے اوکان کے علاقے میں تقریباً 100 سے زائد مسلمانوں کے گھروں پر حملہ آور ہوتے ہوئے انہیں تہس نہس کردیا۔ قبل ازیں 2009ء کے مسلم کش فسادات کے باعث ایک لاکھ 17 ہزار مسلمان برما سے دربدر ہوئےتھے ۔

دوسری جانب امن کا پرچار کرنے اور عالمی ایوارڈ سمیٹنے والی اور میانمار میں سب سے بڑی سیاسی رہنما اور نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو ان کی نسل کشی قرار دینے سے انکار کردیا۔

 برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں آنگ سان سوچی کا کہنا تھا کہ برما کے چند علاقوں میں گزشتہ چند برسوں سے وقفے وقفے سے ہونے والے فسادات میں صرف روہنگیا مسلمان ہی نشانہ نہیں بنے، ان پرتشدد واقعات میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر سیکڑوں روہنگیا مسلمان فسادات کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو بدھ مت کے ماننے والے بھی علاقے سے بے دخل ہوکر مختلف علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اس لئے وہ فسادات میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل کو ان کی نسل کشی نہیں مانتیں تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ بدھ اکثریت کے ملک میں مسلمانوں کو سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔

 واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برمی حکومت اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی، ان پر ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود برما میں جمہوریت کے لئے طویل عرصے تک پابند سلاسل رہنے والی آنگ سان سوچی نے کبھی بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر اپنی آواز بلند نہیں کی۔

اورتواورعالمی حقوق انسانی کے نام نہاد علمبردار بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن امریکی صدر اوبامہ تو میانمار کی حکومت سے جیو اسٹریٹیجک تعلقات بڑھانے میں مصروف ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے اور کسی کو بھی مسلم آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر لب کشائی کی جرات نہیں ہو پا رہی۔

ہیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی حکومت، بدھ مانکس، سیاست دان اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہے۔ اوروسطی میانمار میں تقریباً 400 بدھسٹ کا مسلمان آبادی پر حملہ اسی مزموم سازش کا حصہ تھا۔ شمال مشرقی میانمارکے شہر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مسجدیں شہید کی گئیں، قرآن کریم نذر آتش کئے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

 دراصل امریکہ اور مغربی دنیا کے بدقسمتی سے دوہرے معیار ہیں۔ ان کے لئے صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات ہی مقدم ہیں، جن کے سامنے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ تاہم میانمار کے مسلمانوں کو انصاف دلوانے کے لئے عالمی ضمیر کو جنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آئی ایس او ماہ صیام کے پہلے عشرہ کو قرآن و خودسازی ...
اسکاٹ لینڈ کی فسٹ منسٹر ’’نکولا سٹورجن‘‘ کا ...
سانحہ منٰی، امت مسلمہ کی شہادتوں اور اہم شخصیات ...
یمن میں سعودی عرب کے خلاف وسیع احتجاج
کیسنگر صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کو فاش کرتا ہے
القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (2) / لنک
ندر آل سعود لبنان کو جلا دینے کے درپے؛ طرابلس ...
برطانوی مسلمانوں كی شوریٰ نے اسلام فوبيا كے ...
اہل بیت (ع) اسمبلی کی جانب سے البانوی زبان میں ...
سپاہ پاسداران، فاطمیون اور زینبیون کا شکریہ ادا ...

 
user comment