اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

کم از کم معرفت امام زمان عج

کم سے کم معرفت کا عنوان احادیث کی کتابوں میں منعقد ہے طائرانہ نگاہ میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ متعبد عبد کا فطری سوال ہے کہ حد اقل کو انجام دے دوں پھر مراتب طے کرنا ممکن ہو ں گے ۔

معرفت کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ ظاہری۲۔باطنی

۱۔ظاہری:جو حضرت خاتم الائمہ علیہ السلام کے شخص،اسم اور نسب اور تاریخی پہچان سے مربوط ہے۔

اسم۔نام!حضرت کا اسم مبارک!م۔ح۔م۔د۔ہے،جو خاتم النبینﷺ کا نام ہے وہی خاتم الائمہ× کا نام ہے لیکن خاتم الائمہ× کے اسم مبارک کو ذکر کرنے سے منع کیا گیا ہے ایک توسرّ الھی ہے اور دوسرا یہ کہ ادب اور احترام خاص سے اسکی تفصیل کے لیے الگ ایک کتاب کی ضرورت ہے ۔جب اللہ تبارک و تعالی نے حضرت خاتم الائمہ× کے نام کا ذکر نہیں فرمایا مگر حروف مقطّعہ کے ذریعہ جسطرح حدیث لو ح میں موجود ہے تو پس حضرت کے اسم مبارک کو صراحتاً ذکر نہ کرنا ارادہ اور مصلحت ربّ العالمین ہے۔

کنیت

جو کنیت خاتم النبین علیہا السلام کی ہے وہی خاتم الائمہ علیہ السلام کی ہے ۔

لقب

حضرت کے القاب زیادہ ہیں :لیکن ہم مشہور پر اکتفا کرتے ہیں۔

{خاتم الائمہ،بقیۃاللہ،صاحب العصر ،صاحب الزمان،ولی العصر،حجۃ اللہ،امام الزمان، القائم،قائم الزمان، ولیّ الامر، مھدی ، حجۃ بالغہ}

نسب

(م،ح،م،د)ابن الحسن العسکری ابن علی النقی ابن محمد التقی ابن علی الرضا ابن موسیٰ الکاظم ابن جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی زین العابدین ابن حسین سید الشھداء، ابن علی ابن ابیطالب^۔بعض دیگرروایات میں مھدی ابن فاطمہ الزھر÷ اور وُلدُ الحسین× ذکر ہوا ہے ،بعض دیگر میں ذریّۃ الصادق × جیسے کشف المحجۃ ابن طاووس میں مذکور ہے۔

والدہ

حضرت بی بی نرجس خاتون÷ جن کا لقب ملیکہ خاتون ہے اور یوشع بن قیصر کی بیٹی ہیں پس باپ کے لحاظ سے حضرت قیصر کی پوتی ہویں اور والدہ کی طرف سے حضرت عیسی روح اللہ × کے حواریین میں سے ہیں۔

شمائل

۱۔رنگ سفید

اس قدر سفید ہوں گے کہ چہرے کی سفیدی کا نور بالوں کی سیاہی پر غالب ہوگا۔

۲۔بال

سیاہ گھنگرالے بال جو کان کی بوندی تک ہوں گے ۔

۳۔ریش مبارک

سیاہ ۔

۴۔پیشانی

بلند اور تابندہ و درخشندہ پیشانی

۵۔آنکھ

آنکھ موٹی اور سیاہ اوپر کمانی ابَرو کے ساتھ جذاب

۶۔سینہ

کشادہ سینہ جو علم اللہ کا خزینہ ہے۔

۷۔اعضاء

اعضاء آپس میں مناسب ہیں ۔

تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا جمال بدن مبارک امام سے ظاہر ہو رہا ہو گا۔

بدن مبارک کے علاوہ چند دیگر خصوصیات:

۱۔اِمام ابن الامام

۲۔وصی ابن وصی

۳۔ نسب جو ذکر ہوا ہے وہ بھی ایک خصوصیّت ہے۔

بدن مبار ک کی دیگر خصوصیات وہ آثار ہیں جو ظاہر ہوں گے مثلا ََ ہاتھ(یداللہ) کا اثر یہ ہے کہ جس کے سر مبارک پر رکھیں گے اتنا قوی دل ہوجائے گا کہ لوہے کی صلابت سے زیادہ سخت جسے کوئی بھی توڑ نہیں سکتا ۔ چالیس مردوں کی قوت آجائے گی عقل کامل ہو جائے گا ۔بدن مبارک کا اثر یہ ہے کہ نور ساطع ہوگا کہ جس سے پوراجہان سورج کے نور اور چاند کی روشنی سے بے نیاز ہو جائے گا اس طرح کی خصو صیات کے لیے ایک کتاب کی ضرورت ہے یہاں پر اختصار کی بنیاد پر اسی پر اکتفاء ہے۔

تاریخی پہچان

ولادت: ۱۵ شبعان المعظم ۲۵۵ ہجری

مقام ولادت: سر داب مبارک شہرسامرا یعنی حضرت امام حسن عسکری× کے بیت الشرف کا سرداب جو اب بھی حرم ِحضرت عسکریین علیہما السلام میں موجود ہے۔

غیبت صغریٰ:۲۶۰ ہجریٰ سے شروع ہوئی جو تقریبا ۶۹ سال ہے۔

غیبت کبریٰ:۳۲۹ ہجری قمری سے شروع ہوئی ابھی تک جاری ہے انشاء اللہ بامر اللہ غیبت ختم ہو گی اور اللہ کا نور ظہور فرمائے گا ۔( اللہ مولا کے ظہور میں تعجیل فرمائے) تو ہر طرف عدل و عدالت قائم ہو گی اور ہر مقام نور خدا سے منور ہو گا۔

2۔معرفت باطنی

مراد ،معرفت واقعی وجود خا تم الا ئمہ ×# ہے جو ہمارے لیے میسرتو نہیں ہے کیونکہ قصور و تقصیر ہم میں محقق ہے لیکن ہر منتظر اپنی ظرفیت اور پاکیز گی کے مطابق کسی حد تک پا سکتا ہے اور اگر خود مولا نے نظر کرم فرما دی تو وہ مسیحوں کا بھی مسیحا ہے پھر حتماًاس لوہے کو ضرور خالص سونا بنا دے گا اور کسی حد تک مولا کے عرفان کی قابلیت پیدا ہو جائے گی۔

جسکا بہترین راستہ انہیں وظائف پر عمل کرنا ہے ان ذمہ داریوں کو ادا کر نا ہے تاکہ اسکی کریمانہ نظر کو جلب کریں اسکی نظر تو اکسیر اعظم ہے جو ذرّہ کو عرش عُلا تک پہنچا دیتی ہے۔جب معرفت مراتب رکھتی ہے تو ادنیٰ معرفت ذکر کر دی جائے دیگر مراتب کو خود طے فر مائیں گے ۔ اس پر بھی فقط ایک روایت جو تمام مطالب کو جامع ہے معرفت اسم و رسم اور صفات کے لحاظ سے ۔

ہشام کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق × کی خدمت میں تھا کہ معاویہ ابن وہب اور عبدا لملک بن اعین داخل ہوئے معاویہ ابن وہب نے کہا: یابن رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں اس خبر کے بارے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ تحقیق رسول اللہ نے اپنے رب کو دیکھا ، تو کس صورت میں حضرت نے اللہ عزو جل کو دیکھا؟ اور اس حدیث کے بارے میں کہ مومنین جنت میں اپنے رب کو دیکھیں گے کس صورت پر دیکھیں گے؟

حضرت صادق × نے تبسم فرمایا : پھر ارشاد فرمایا: اے معاویہ کتنا قبیح ہے ایک مرد کے لیے کہ اسکے ستر یا اسیّ سال زندگی کے گزر جائیں اور یہ اللہ کی مملکت میں زندگی گزارے اسکی نعمات سے کھائے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کے حق کی معرفت نہ رکھتا ہو !

یہاں پر تنبیہ ہے منتظرین خاتم الا ئمہ کے لیے بھی کہ اتنی زندگی کے سال گزاریں اور امام کے وجود کی برکات سے فائدہ بھی اٹھائیں اور پھر حق معرفت امام نہ رکھتے ہوں ۔ پھر امام × نے مسئلہ رؤیۃ اللہ کو بہت وا ضح انداز میں بیان فرمایا : جسکا اجمال یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ٰ کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا اور جو ظاہری آنکھ سے دیکھا جائے وہ اللہ واحد ازلی نہیں ہو سکتا اور وہ مخلوق جیسا ہو جا ئے گا لیکن قلب کی آنکھ سے دیکھا جا سکتاہے کہ وہی اللہ تعالی کی حقیقی معرفت ہے ۔

رسول اللہ ﷺ اور علی× اللہ تبارک و تعا لیٰ کی معرفت اور رؤیت رکھتے تھے ، پھر فرمایا( ثُمَّ قَالَ ع إِنَّ أَفْضَلَ الْفَرَائِضِ وَ أَوْجَبَهَا عَلَى الْإِنْسَانِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ وَ الْإِقْرَارُ لَهُ بِالْعُبُودِيَّةِ وَ حَدُّ الْمَعْرِفَةِ أَنْ يَعْرِفَ أَنَّهُ لَا إِلَهَ غَيْرُ ) اللہ تبارک و تعالی ٰ کے فرائض میں سے افضل ترین فریضہ اور واجب ترین واجب انسان پر معرفت اللہ ہے اور یہ اللہ کی عبودیت کا اقرار ہے ، پھر فرما یا :اللہ تعالیٰ کی معرفت کی حد یہ ہے کہ یوں عرفان پیدا کرئے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ اور معبود نہیں ہے کو ئی شی اس کی شبیہ اور نظیر نہیں ہے ۔اور یہ معرفت پیدا کرے کہ وہ قدیم ثابت اور موجود ہے اور مققود نہیں ہے ( ہر وصف کمال سے ) موصوف ہے بغیر ( خلق سے) شبیہ کے ، کوئی شی اس کو باطل کرنے والی نہیں ہے اس جیسی کوئی شی نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے پھر فرمایا:اسکے بعد معرفت رسول اور اس کی نبوت کی شہادت ہے ادنی معرفت رسول کم سے کم معرفت رسول یہ ہے کہ اسکی نبوت کا اقرار کرے اور جو کچھ نبی لائے ہیں ۔ کہ کتاب امر و نہی ہے اقرار کرے کہ سب کچھ اللہ عزیز و جلیل کی طرف سے ہیں ۔

پھر فر مایا:اسکے بعد معرفت امام ہے وہ امام کہ جسکی اقتدا کرئے اس انداز میں کہ اس امام کی صفت ، وصف اور اسم و نام کی معرفت ہر حال میں رکھتا ہو (یعنی یہ معر فت امام کسی حال میں بھی اس سے زائل نہ ہو دُکھ سُکھ میں خلوت و جلوت میں جنگ و صلح میں صحت ومرض میں )۔ کم سے کم معرفت امام یہ ہے کہ امام ، نبی کا عِدل ہے ( یعنی نبی کا بدل ہے بعینہ تما م صفات نبی کمالات رسول ظاہری ہوں یا باطنی انہیں رکھتا ہے تما م مراتب معرفت نبی پر فائز ہے) مگر درجہ نبوت وہ امام × کے لیے نہیں ہے اور امام نبی کا وارث ہے اور امام کی اطاعت اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت ہے ہر امر میں امام کے تسلیم ہو جس امر کو اما م کی طرف پلٹنا ہے اس میں بھی تسلیم ہو امام کے قول کو اخذ کرے (یعنی قول امام کو حجت مانتا ہو) اور یہ علم بھی رکھتا ہو اور جانتا ہو کہ امام رسول اللہ کے بعد علی ابن ابی طالبؑ پھر اس کے بعد حسن ؑ پھر حسینؑ پھر علی ابن الحسینؑ ، پھر محمد بن علیؑ پھر جعفر ابن محمد ؑ ، پھر میرے بعد میرا بیٹا موسیٰؑ ( موسی بن جعفرؑ) پھر اسکا بیٹا ( یعنی علی ابن موسیؑ) علی کے بعد محمد اسکا بیٹا ( محمد ابن علیؑ) کے بعد علیؑ اسکا بیٹا ( علی ابن محمد ؑ) علی کے بعد حسنؑ اسکا بیٹا ( حسن بن علی ؑ) اور الحجت ؑ ،حسنؑ کی اولاد سے ( حجۃ ابن الحسن)^، پھر امام نے فرمایا: اے معاویہ میں نے تیرے لیے ایک قانون قاعدہ اس مسئلہ ( معرفت) میں بیان کر دیا ہے پس اس قاعدہ پر عمل کر۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جامع بیان ہے جو کچھ معرفت میں ابھی تک ذکر کیا جا چکا ہے اس حدیث شریف سے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔اَنَّہ عِدل النبّی:؟ یہ جملہ مزید مورد دقت واقع ہو نا چاہیے ، لفظ عدل کو سمجھا جا ئے پھر حقیقت نبی خاتم کو درک کیا جائے ، ہر نبی نہیں بلکہ خاتم ﷺ جو باقی نبیوں کا امام ہے پھر یہ جملہ کچھ سمجھ آئے گا ۔( عَِدل) یہ کلمہ عین کے زَ بر اور زِ یر ، دونوں کے ساتھ پڑ ھا جاتا ہے۔معنی ٰ عِدل: عد ل الشیی مثلہ من جنسہ و مقدارہ و عَدلہ ما یقوم مقامہ من غیر جنسہ۔۔۔ یقال عد لت بھذا عدلا من باب ضرب اذا جعلتہ مثلہ قائما َََ مقامہ ثم الذین کفروا بر بھم یعدلون

شیی کا عدل : اس کی مثل اس کی جنس سے اورشی کی مقدار یعنی ہم جنس مثل کو عدل کہتے ہے جس طرح باہم مقدار کو عدل کہتے ہیں ، ہم وزن ہو یا طول و عرض ،شی کا قائم مقام عِدل ہے اگرچہ کہ اسکی جنس سے نہ ہو ، عرب کہتے ہیں یہ اس کا عِ دل ہے از باب ضرب ( علم صرف کے لحاظ سے وزن بتا یا جا رہا ہے ) جب آپ کس شی کو دوسری کے مثل قرار دیں اور اس کے قائم مقام قرار دیں صاحب اللغۃ نے اس معنی پر استشھاد کیا ہے قرآن کی اس آیت سے کہ پھر کافر اپنے رب (بتوں) کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثل اور اس کے قائم مقام قرار دیتے ہیں ۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ عدل میں تساوی برابری قائم مقامی ماخوذ ہے چاہے وہ ذات میں ہو یا صفا ت میں ،اگر ذات میں ممکن نہ ہو تو پھر صفات میں ۔ جسکی بنیاد پر ایک شی دوسری کے قائم مقام ، جانشین ہو سکتی ہے۔ (عِدل ) عدل ( دو برا بر چیزوں میں سے ایک طرف کو بھی کہتے ہیں ) ہر ایک دوسرے کی عِ دل ہو گی جیسے ترازو کے دو پلوں میں سے ہر ایک پَلہ دوسرے کا عِدل ہے ۔ یہ معنی قرآن مجید سورۃ انعام کی آیت ۱۴ اور ۱۵۰ میں روشن ہے (ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ ، وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ ) کفار اپنے رب کو( انکےجو بت ہیں) مثل خدا قرار دیتے ہیں اللہ کے مساوی سمجھتے ہیں جو حقیقی رب ہے جس طرح ہم اللہ بتارک و تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال مانتے ہیں کفار اپنے بتوں کو ایسے مانتے ہیں ۔ رسول اللہ کے ، رب کے مقابلے میں اپنے رب کو لا تے ہیں اور اسکا مساوی اور مقابل سمجھتے ہیں جسطرح اللہ تبارک و تعالی ٰ خالق السموات و الارض ہے زمین و آسمان کا خالق ہے کفار اپنے بتوں کو بعینہ اسی طرح سمجھتے ہیں۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے نور اور ظلمت کو خلق فرمایا ہے یہ اپنے بتوں کو اس طرح مانتے ہیں ۔اسی طرح سورت ِنمل کی ۶۰ آیت میں ہے ( أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ) خدا وند متعال آیت کے شروع میں افعال واجب تعالیٰ کے ذریعہ اپنی تو حید کو بیان فر ما رہے ہیں پھر ذیل آیت میں کفار کا مشرکا نہ نظریہ بیان فرما رہے ہیں ۔ کس نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا؟ کس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی نازل کیا؟ پھر خود جواب کے طور پر فرمایا، پس ہم نے پانی کے ذریعے باغات اُگائے جو باعث شادی اور سرور ہیں۔تمہاری بساط اور قدرت میں نہیں کہ تم درخت اگاؤ آیا ایسے اللہ کے ساتھ دوسرا اللہ ہو سکتا ہے جسکی قدرت میں یہ کام ہو آخر میں فرمایا(بل ھم قوم یعدلون ) بلکہ یہ قوم ( بطور باطل ) اپنے رب کو رب حقیقی کی مثل اور عِدل قرار دینے والے ہیں ۔

ان آیات سے روشن ہو تا ہے کہ عدل حقیقی وہی ہے جو ترازو کے دو پلوں میں سے ہر ایک کی نسبت، دوسرے کی طرف ہے۔ کفار کے خداوں میں کوئی صفت ایسی نہیں تھی جو مثل ، عِدلِ صفات خدا وند متعال ہو سکے ذات واجب تبارک و تعالیٰ کے لیے اصلا عدل ممکن نہیں بلکہ محال ہے کہ کوئی شی اسکی عِدل ہو سکے ، نہ ذات میں نہ صفات اور نہ افعال میں ۔اس عقیدہ تو حید کا شرف فقط مذہب امامیہ اثنا عشریہ کو حاصل ہے دیگر کسی مذہب کے پاس اس طرح خالص تو حید قرآنی نہیں ہے ۔ بہر حال کلمہ (عِدل) کا معنی روشن ہو گیا کہ جس طرح ترازو کا ایک پلہ دوسرے کے مساوی ہے اس طرح کی برا بری کو عِدل کہتے ہیں جسکا لازمہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے قائم مقام اور جانشین ہو سکتے ہیں ذات ِ واجب کے لیے یہ عدل اور مساوات اور برابری کسی لحاظ سے بھی ممکن نہیں لیکن دیگر موجودات کے لیے عدل ممکن ہے ۔

النبی

اب بالتریب مراحل ہیں جنہیں بیان کرنے کے بعد معرفت النبی حاصل ہو گی جنہیں دو مرحلوں میں خلا صہ کرتے ہیں ۔

۱۔ حقیقۃِنبوت ،۲۔ مقام نبوت خاتم ﷺ ۔

دو مرحلے ،معرفت کے عمیق سمندر ہے اگر ہادی برحق کے ہاتھ میں ہاتھ نہ ہو تو اس دریا میں بالکل وارد ہونا ہی ممکن نہیں ہے۔

معنیٰ نبی

بنا بر تحقیق : نبی بروزن فعیل ہے بمعنی رفیع اور بلند ، جہاں پر پستی کا احتمال ہو شخص نبی اس سے مر تفع اور بلند ہے۔

حقیقت نبی

نبی کا وجود جھان اور انسان سے بلند ہے جسکا لازمہ یہ ہے کہ جب رتبۃ بلند از جہان ہے اسکا لازمہ یہ ہے کہ جہان پر محیط ہے اور غیب کے جہان سے مرتبط ہو جس کے نتیجہ میں اس پر و حی کا نزول ہوتا ہے ، یہ حقیقت، معنی لغوی کو مد نظر رکھتے ہو ئے بھی عقل سلیم کے ذریعہ سے سمجھی جا سکتی ہے ۔

دلیل

اس لیے کہ نبوت سفارت الھیہ ہے اور اللہ قدوس کی تر جمانی ہے امیرالمومنین × فرماتے ہیں (رسل الله سبحانه تراجمة الحق و السفراء بين الخالق و الخلق )اللہ قدوس کے بھیجے ہوئے نمائندے حق کے ترجمان ہیں اور خالق و مخلوق کے درمیان سفیر ہیں پس حقیقت نبوت ،اللہ عزوجل اور پوری مخلوق کے درمیان وساطت ہے ۔

ضرورت واسطہ

واسطہ کی ضرورت تب ہوتی ہے جب دو طرف آپس میں مرتبط نہ ہو سکیں عدمِ ار تباط کا سبب جو بھی ہو ہماری بحث میں عدم ِ ارتباط کا سبب بشر کا وجود کے لحاظ سے بہت پست ہونا ہے کیونکہ طبیعت اور مادہ سے تعلق کی وجہ سے محدود ہو گیا ہے ادھر اللہ کا لامنتاھی ہونا اس قدر بلند ہے کہ قابل ِ ادراک نہیں ( لایدر کہ بعد الھم و لاینالہ عوض الفطن)نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ پس ہماری پستی اور اسکی رفعت اور بلندی تقاضا کرتی ہے کہ درمیان میں واسطہ کا ہونا ضروری ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالی کی سچی زبان حضرت امام جعفر صادق× ارشاد فرما تے ہیں (قَالَ فَمِنْ أَيْنَ أَثْبَتَّ أَنْبِيَاءَ وَ رُسُلًا قَالَ ع إِنَّا لَمَّا أَثْبَتْنَا أَنَّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً مُتَعَالِياً عَنَّا وَ عَنْ جَمِيعِ مَا خَلَقَ وَ كَانَ ذَلِكَ الصَّانِعُ حَكِيماً لَمْ يَجُزْ أَنْ يُشَاهِدَهُ خَلْقُهُ وَ لَا أَنْ يُلَامِسُوهُ وَ لَا أَنْ يُبَاشِرَهُمْ وَ يُبَاشِرُوهُ وَ يُحَاجَّهُمْ وَ يُحَاجُّوهُ ثَبَتَ أَنَّ لَهُ سُفَرَاءَ فِي خَلْقِهِ وَ عِبَادِهِ يَدُلُّونَهُمْ عَلَى مَصَالِحِهِمْ وَ مَنَافِعِهِمْ وَ مَا بِهِ بَقَاؤُهُمْ وَ فِي تَرْكِهِ فَنَاؤُهُمْ فَثَبَتَ الْآمِرُونَ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْحَكِيمِ الْعَلِيمِ فِي خَلْقِهِ وَ ثَبَتَ عِنْدَ ذَلِكَ أَنَّ لَهُ مُعَبِّرِينَ وَ هُمُ الْأَنْبِيَاءُ )تحقیق جب ہم نے یہ بر ھا ن سےثابت کرلیا کہ ہمارا خالق ہے جو ہم سے عالی و متعالی اوربلند ہے اور ان تمام سے متعالیٰ جنہیں اس نے خلق فرما یا اور وہ خالق حکیم بھی ہے ممکن نہیں کہ اسکی مخلوق اسے دیکھ کر مشاھدہ کرے اور نہ اپنی حسِّ لا مسہ سے اسے چھو سکتی ہے اور نہ وہ خالق اس مخلوق کے ساتھ معاشرت رکھتا ہے اور نہ مخلوق اس خالق کے ساتھ ہم صحبت ہے ( دوسری طرف یہ ہے کہ) خالق اپنی مخلوق پر حجت رکھتا ہے اور وہ اس کے لیے حجت رکھتے ہیں ( یعنی عبد و معبود کے درمیان احکام ہیں جنہیں انجام دے کر مخلوق ، بارگاہ خالق میں پہنچے۔ لذا حجت کی ضرورت پیش آئے گی پس ( ان دو جہتوں کا ملاحظہ کرتے ہوئے خالق کا علو ، رفعت ، اور بلندی کیونکہ لا محدود ہے اس مخلوق کی دنائت اور پستی کیونکہ محدود و بیچارہ ہے) ثابت ہوا کہ اللہ کے لیے اسکی مخلوق میں سفیر ہیں ۔ جو سفراء مخلوق کی راہنمائی کر تے ہیں انکے مصالح اور منافع پر ہدایت کرتے اس پر کہ جس میں مخلوق کی بقا ہے اور جس کے ترک کرنے سے مخلوق کی فناہے پس امر کرنے والےاور نہی کرنے والے ، اللہ حکیم و علیم کی طرف سے اس کی مخلوق میں ثابت ہو گئے ۔اس سے ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل کے لیے تعبیر کرنے والے ہیں اور وہی تو انبیاء ہیں۔

واسطہ فوقِ خلق اور دونِ خالق ہے

جب ضرورت اور وجوب و اسطہ خلق و خالق کے درمیان ثابت ہوا تو قطعا وہ واسطہ مخلوق سے رفیع او ر بلند ہے ورنہ مخلوق جیسا ہو گا وا سطہ نہیں ہو گا اسی طرح یقیناً خالق سے اَدنی ہے ورنہ خالق ہو گا واسطہ نہیں ہو گا ، لیکن اس واسطہ میں خالق سے ارتباط کی قدرت ہو پس ایسی صفات رکھتا ہو کہ خالق سے اسکی اس بلندی پر ارتباط قائم کر سکے اور ادھر تو ظاہراً کچھ خصوصیات ہوں جس کی بنیاد پر مخلوق سے ارتباط کر کے سفارت الھیہ کو انجام دے اور اس پیغام کو ان تک پہنچائے۔ لذا وہ واسطہ کہ اللہ کا سفیر اور نبی ہے ۔ اللہ کی طرف سے علم، قدرت ، اور حکمت رکھتا ہو اسی طر ح رافت اور رحمت بھی ، ونیز عصمت بھی رکھتا ہوں اور صاحب اعجاز بھی ہو ۔

انبیا ء کا علم اللہ سے عالم اور قدرۃ اللہ سے قادر اور حکمۃ اللہ سے حکیم،معصوم اور صاحب اعجاز ہو نا واجب اور ضروری ہے

تو اسی احادیث میں حضرت صادق × ادامہ دیتے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں :وہ انبیاء علیہم السلام، اللہ کی مخلوق میں سے اس کا صفوۃ ہیں

وضاحت

صفوۃ شی ، شی کا خالص ہونا ہر کدورت میل ، نجاست سے جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو(الخلوص عن الکدورۃ) ہر گندگی سے خالص ہونا، پس (صفو تہ من خلقہ)یعنی جو کدورت ، نقص عیب پستی مخلوق میں ہے انبیاء علیہم السلام اس سے خالص ہیں جس کا لازمہ یہ ہے کہ پس خلق و مخلوق سے رفیع اور بلند ہیں ، اور جب یہ اصطفا اور صفوۃ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انجام دیا ہے تو یقینا کسی قسم کا نقص عیب کدورت ِ مخلوق ان میں نہیں ہوگی جسکے نتیجے میں اللہ کا علم ، قدرت حکمت ، قدوسیت ، اور طہارت ان میں ہو گی لذا قطعا صفوتہ من خلقہ ، انبیا کی عصمت پر قطعی دلیل ہے ۔

اوران انبیاء کو حکمت کے ساتھ ادب دے کر مودّب کیا گیا ہے لذا فرمایا ( اَدبّنی اللہ باَءدبہ) اللہ نے مجھے اپنے ادب سے متادّب فرمایا ( ھو یطعمنی و یسقینی)وہی مجھے طعام کھلاتا ہے اور مجھے سیراب کرتا ہے ان انبیاء کو اس حکمت کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور انبیاء لوگوں کے ساتھ کے حالات میں شریک نہیں ہیں جبکہ انبیاء کی ظاہری خلقت اور ترکیب و ترتیب ان جیسی ہے جہاں پر لوگوں کے سر آنکھ ، ناک ، ہونٹ ، ہاتھ ، پاؤں ہوتے ہیں ۔انبیا ء کے بھی وہیں ہیں ظاہری صورت میں ویسے ہیں ، دو ہاتھ ، دو پاؤں، دو آنکھیں ،وغیرہ لیکن ان اعضاء کے حالات اور خصوصیات پا کیزگی اور شرافت کے لحاظ سے ان جیسے نہیں ہیں ان خصوصیات میں لو گ اَن کے شریک نہیں ہیں اور یہ معنی ہے (انابشرمثلکم) کا میں تم جیسا بشر ہوں فقط ظاہری صورت اور اعضاء کی ترتیب و تر کیب میں ،ور نہ ، نہ میرا ہاتھ تم جیسا ،نہ آنکھ تم جیسی نہ زبان تم جیسی ، نہ بدن مبارک تم جیسا ،رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں (عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ تَنَامُ عُيُونُنَا وَ لَا تَنَامُ قُلُوبُنَا وَ نَرَى مِنْ خَلْفِنَا كَمَا نَرَى مِنْ بَيْنِ أَيْدِينَا ) ہم گروہ انبیاء ، ہماری آنکھیں ( ظاہراً) سوتیں ہیں ( یعنی بند ہوتی ہے ) لیکن ہمارے قلوب نہیں سوتے ( یعنی ہمارا وجود ہمیشہ بیدار ہے ) ہم اپنی پشت سے ایسے دیکھتے ہیں جیسے سامنے سے دیکھتے ہیں ۔اہل کے لیے اتنا ہی کافی ہے تفصیل کسی اور مقام پر۔

انبیاء علیہم السلام حضرت حکیم و علیم کی طرف سے حکمت کے ساتھ مویّد ہوتے ہیں اور دلائل و براہین اور شواہدِ نبوت سے انکی تائید کی جاتی ہے ( یعنی علامات نبوت معجزات اور برھانوں سے انہیں مسلح کر کے بھیجا جاتا ہے ۔جیسے حضرت عیسیٰ× نے جھولے میں فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے کتاب دے کر اور نبی بنا کر بھیجا گیا ہے (قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ وَ جَعَلَني نَبِيًّا ) کتاب شاہد ہے اور یہ کلام معجزہ ہے مردوں کو زندہ کرنا ، برص کے مریضوں کو شفا دیتا، پس اللہ عزوجل کی زمین حجت سے خالی نہیں جس حجت کے ساتھ علم ہے جو علم ،رسول کے قول کی سچائی اور صداقت کی دلیل ہو تا ہے اور نبی کی عدالت کے لازم ہونے پر دلیل ہو تا ہے یہ عدالت ِنبی، وہی عصمت نبی ہے ۔

نبوت کی تعریف

تو اب نبوت کی تعریف سمجھ آئے گی کہ علما ء فرماتے ہیں (النبوۃ ھی رئا سۃ عامۃ الھیۃ) نبوت وہ ریا ست اور سلطنت بے حد و مرزہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے ، یہ وہی ہے جو اوپر حدیث میں بیان ہوا ہے ۔

انبیا ء علیہم السلام کے بشر ہونے میں مخلوق کا امتحان ہے

جب انبیاء علیہم السلام لوگوں کے ساتھ انکے عام حالات وجودی میں ان جیسے نہیں لیکن ظاہری صورت میں ان جیسے ہیں لذا فرمایا( انا بشر مثلکم) اور آئمہ فرماتے ہیں ( نَأْكُلُ وَ نَشْرَبُ وَ نَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ) ہم کھاتے پیتے ہیں ہم بازاروں میں چلتے ہیں ظاہراً! لوگوں جیسے ہیں ؛تو مخلوق حیرا ن ہو جاتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ انبیاء ظاہراً ہم جیسے ہو کر پھر بھی ہم جیسے نہیں ؟ یہی تو اس بشر کا امتحان ہے جو اس امتحان میں معرفت کے ذریعے کامیاب ہوئے وہ ملائکہ جیسے ہیں اور جو نا کام ہوئے وہ کافر اور شیطان جیسے ہیں۔

شیطان جیسے

اس لیے کہ شیطان نے ظاہراً آدم کو دیکھ کر سجدہ سے انکار کیا اور ملائکہ نے آدم کا عرفان پانے کے بعد حضرت آدم کا سجدہ کیا۔

کفار جیسے

اس لیے کہ کفار حضرت خاتم کو انہیں ظاہراً دیکھ کر اپنے جیسا سمجھتے تھے ؛ لذا حضرت پرا یمان نہ لائے۔ بلکہ وہ قائل تھے کہ نبی قطعا ہم جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر ہم جیسا ہو تو وہ نبی کیوں بنا ہم خود بن جاتے ، پس اگر کوئی نبی ہے تو یقیناً ہم جیسا نہیں ہے ، کیونکہ نبی خالق و مخلوق کے درمیان سفیر اور واسطہ ہوتا ہے کفار بھی اس بدیھی اور روشن قانون کو سمجھتے تھے اور اسکے قائل تھے کہ نبی کو ہم جیسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہم سے بلند و برتر ہے قطعا ہم سے بلند ہے اور ہم جیسا نہیں ہے۔نبی کا خلق سے بلند ہو نا اور مخلوق کے حالات میں شریک نہ ہونا ، بدیہات اور واضحات میں سے ہے لیکن اُن کا اشتباہ اس میں تھا کہ حضرت ہم جیسے ہیں ، لذا نبی نہیں ہے وہ یہ معرفت حاصل نہیں کر پائے کہ وہ ظاہرا ترتیب و ترکیب اعضاء اور ظاہری صورت میں ہم جیسا ہے نہ حقیقت میں ہم جیسا ہے ، تو نبوت کاا نکار کر کے کافر ہو گئے۔

کفار کے اقوال

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن میں انکے عقائد کو ذکر فرمایا ہے {وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأسْوَاقِ لَوْلا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ،أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلا رَجُلا مَسْحُورًا } کافر کہتے ہیں اس رسول کو کیا ہو گیا ہے ( کافر کنایہ لگا رہے ہیں ) "نقل کفر کفر نباشد"رسول مجنون ہے اس پر جادو کر دیا گیا ہے کھانا کھاتا ہے ،بازاروں میں چلتا ہے اگر اسکے پاس فرشتہ نازل کیا گیا ہوتا تو وہ اسکے ساتھ ہمیں ڈرانے و الا ہوتا یا اس کی طرف خزانہ ڈالا جاتا یا اسکےکے لیے خاص جنت باغ ہوتا ( جسطرح دنیا کے باد شاہوں کے پاس ہو تا ہے جس سے وہ حکومت چلاتے ہیں )۔ کہ جس سے وہ رسول کھاتا ( یعنی اپنی معاش وہاں سے چلاتا ، ہماری طرح بازار میں جا کر اپنی معتشہ کا بندو بست نہ کرتا ) ظالم ( کفار) کہتے ہیں تم اتباع نہیں کر رہے ہو مگر ایسے مرد کی جس پر جادو کر دیا گیا ہے۔تو پس ان اقوال میں اس بدیہی قانون کو تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن اشتباہ مصداق میں کر رہے ہیں کہ حضرت خاتم کو اپنے سے بلند نہیں مان رہے اب اسکا سبب کیا تھا فعلا ہماری کلام اس میں نہیں ہے ۔{وَقَالُوا لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الأمْرُ ثُمَّ لا يُنْظَرُونَ }

کا فر کہتے ہیں ، کیوں اس پر ملک فر شتہ نازل نہیں کیا گیا ؟ اس آیت کا ذیل اور نویں آیت کفار کے سوال کا جواب ہے جو کچھ معتبر تفسیروں میں ہے اسکا خلاصہ یہ ہے کہ یہ رسول تم سے واقعا رفیع و بلند ہے اور تم جیسا نہیں لیکن صورت ظاہری میں اور اعضاء کی ترتیب و ترکیب میں تم جیسا بنا کر بھیجا کہ تم وحشت نہ کھاؤ۔ تمہاری ہدایت کے لیے ہے فر شتہ اس دنیا میں کہ دار اختیار ہے تمہاری ہدایت کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا بلکہ واسطہ کو کچھ، تمھارے جیسا ہونا چاہیے تا کہ و ساطت کر سکے اس لیے فر مایا( انا بشر مثلکم)تمہارے جیسا ایک بشر ، فقط ظاہراً چلتے پھرتے ہیں بدن کے ظاہری اعضاء ہیں نہ انکی خصوصیات ِ طاہرہ میں ،کہ ان میں تم جیسا نہیں ، ظاہرا نبی کی دو آنکھیں ہیں لیکن وہ اس کا محتاج نہیں وہ بدن کے کسی حصے سے بھی دیکھ سکتے ہے تم آنکھوں کے محتاج ہو دیگر اعضاء بھی اسی طرح ہیں۔پس امتحان یہ ہے کہ اس ظاہر سے دھوکہ نہیں کھانا۔

حضرت امیر المو منین × نے اس امتحان کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے

یہ خطبہ د یگر خطبوں کی طرح معارف کا ایک مواج ِدریا ہے اور ٹھا ٹھیں مار تا ہوا سمند ر ہے ۔ جسکے عرفان کی موجوں کو برداشت کرنا ہر ایک کاکام نہیں ہے ، فقط اشارہ کے طور پر شاہد ِ مطلب کو سرسری ذکر کیا جاتا ہے ۔

مولا × فرماتے ہیں : حق تبارک و تعالیٰ نے اپنے لیے عزت اور کبریائی کو چنا اور اسے اپنا حرم قرار دیا کہ کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا جس نے داخل ہونے کی جسارت کی دنیا و آخرت میں ملعون بنا دوں گا پھر اپنے فرشتوں کا امتحان لیا تا کہ متواضع متکبر سے ممتاز ہو جائیں تو حق تبارک و تعالیٰ ارشاد فرمایا( إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ،فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ،فَسَجَدَ الْمَلائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ) میں مٹی سے بشر کو خلق کرنے والا ہوں ، جب میں اس کا تسویہ کر لوں (اعضاء کی ترتیب و ترکیب اور ظاہری صورت کے لحاظ سے) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں بس وہ ملائکہ اس کے لیے سجدہ کرنے والے ہو جائیں ،پس تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، مگر ابلیس نے نہ کیا پھر حضرت ، ابلیس کے تکبر اور اعتراض کو بیان فرما رہے ہیں تو اس نے اللہ کے حرم ، عزت اور کبر یائی ، کی ہتک حرمت کی تو اللہ نے رسوا اور ذلیل فرمایا پھر حضرت فرماتے ہیں :اگر حق تبارک و تعالیٰ چاہتے تو آدم کو مٹی کے بجائے ایسے نور سے خلق فرماتے کہ اس کی کرنیں آنکھوں کو اندھا کر دیتی، اسکی زیبائی عقلوں کو اڑا دیتی ، ایسی خو شبو ہوتی کہ بشر کے مشام پر چھا جاتی کہ اور کوئی بو استشمام ہی نہ کر سکتا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر قادر تھے۔

لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا امتحان لیا ہے اس اصلِ جو ہر کی معرفت کے لحاظ سے کہ لوگ اس حققیت اصلیہ سے جاہل ہیں ( کون سمعاً او طاعتاً ) متواضع ہو کر یا عرفان و معرفت کے ساتھ اسے قبول کرتے ہیں ، اور کون اپنے اوپر عجب کرتے ہو ئے اور اِ تراتے ہوئے تکبر کرکے، اسکا انکار کرتے ہیں ؟ اس کے بعد حضرت تفصیل کے ساتھ شیطان کی عداوت اور دشمنی کو بیان فرماتے ہیں البتہ یہ امتحان فقط حضرت آدم علیہ السلام میں رک نہیں گیا بلکہ ہر نبی کی امت کا، اس نبی کے لحاظ سے یہ امتحان تھا ، لذا قرآن میں کئی مر تبہ فرمایا کہ ہم نے انہیں میں سے (منھم ) نبی بھیجا ، خاتم ﷺ کے بارے میں فرمایا (هُوَ الَّذي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ )امیین میں رسول بھیجا انہیں میں سے ۔ تو یہ امتحان آدم سے لیکر خاتم ﷺ تک ہے ، اور حضرت خاتم ﷺ کے زمانہ میں امت کا امتحان عظیم ہے ۔ متا سفانہ اکثر مسلمین بھی اس امتحان میں ناکام ہو گئے اور حضرت کو اپنے جیسا سمجھ بیٹھے، لیکن مذہب جعفریہ امامیہ اثنا عشریہ ، خیر البریہ پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہیں ۔

حضرت حق نے ، الحمد للہ رب العالمین ہمیں اس جو ھر کی معرفت عطا فرمائی ہے جو ظاہری بدن کی صورت میں مخفی ہے جسے دل کی انکھ سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ظاہری آنکھ سے نظر آ نے والی شی ہی نہیں ہے ، اس عطاء پر فخر نہیں شکر ہے یہ طینت کی پاکیز گی اور اللہ اور مولا کی نظر ِلُطف و کرم سے عطا ہوا(لنبشر انفسنا بانا قد طھرنا بو لیتھم ^ )ہم نےاپنے آپ کو بشارت اور خوشخبری دی کہ تحقیق ہم چودہ معصومین ^ کی ولایت کے سبب طاہر اور پاک ہو گئے ۔ پھر حضرت کعبہ کے حج کو بھی ایک امتحان قرار دیتے ہیں ۔

حجّ کعبہ ، اوّلین و آخرین کا ، امتحان ہے

حضرت ارشاد فرماتے ہیں : آیا تم نہیں دیکھ رہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پتھروں کے ذریعہ سے کہ جو نہ کسی کو فائدہ پہنچاتے ہیں نہ نقصان، نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں اس جہان کے اولین ، آدم علیہ السلام سے لیکر ، آخرین تک سب کا امتحان لیا ہے۔ ان پتھروں کو اپنا محترم گھر بنایا ۔ ( جسکی بی حرمتی اصلا جائز نہیں ہے ) لوگوں کے لیے قبلہ بنایا کہ وہ اس کی طرف قیام کریں ۔ پھر اسے سنگلا خ ترین زمین میں قرار دیا جہاں کوئی سبزہ اور رعنائی نہیں ہے ۔ ریت اور پہاڑوں میں قرار دیا پھر آدم علیہ السلام اور اسکی اولاد کو قیامت تک حکم دیا کہ ہر نکتہ زمین سے دور دراز کا سفر کرکے آؤ اور ان پتھروں کا طواف کرو، اسے چومو احترام کرو ، اورخاص احترام کہ اس میں تم مچھر مکھی تک کو نہیں مار سکتے ہو وہاں سب اللہ کی تقدیس و تہلیل کرو اور اسکی عبادت انجام دو۔

لیکن اللہ تبارک و تعالی نے تو اپنے گھر کو عام پتھروں سے بنایا اگر وہ چاہتا تو سرخ یاقوت اور سبز زبرجد سے بناتا ، پھر اسے بہت سر سبز باغوں کے درمیان قرار دیتااوربہتر ین سیدھی زمین پر واقع فرماتا جس میں پہاڑ نہ ہوتے۔ لیکن اس نے یہ امتحان لیا ہے کہ بشر کا تکبر ٹوٹے ۔ جس طرح حضرت موسیٰ کو فرمایا ( إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً )کوہ طورپر بھی پتھر تھے ، اے مو سیٰ کلیم! اس کو حکم دیا اپنے جوتے اتارو یہ پہاڑ ، ایک مقدس وادی ہے ۔ انا نیت اور محبت ِد نیا کے جوتے اتار کر ذلیل و خاضع ہو کر یہاں عاجزی سے آؤ ۔بلکہ دل کی آنکھ سے ان ، پتھروں کے پیچھے اللہ کے نور کو دیکھ کر اسے سجدہ کرو ۔ معلوم ہوا کہ بشر کا امتحان ہمیشہ یہی ہے کہ ظاہر سے دھوکہ نہ کھائے اور باطن کو قلب سے مشاہدہ کرکے ، کامیابی حاصل کرے ، لذا جو اصلا باطن کے قائل نہیں ۔ یا باطن دیکھنا نہیں چاہتے ، فقط ظاہر پر اکتفاء کرتے ہیں یہ بیچارے بارگاہ حق میں کیسے ذلیل وخواراور پست ہوں گے جس کا انداز ہ انسان نہیں لگا سکتا وہ کیسے معرفت اللہ حاصل کریں گے کیسے نبی و امام کو پہنچانیں گے ۔ کیسے قرآن و سنت کو سمجھیں گے ؟

تنبیہ

کعبہ کی ایک مثال ہے جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی ایک مثال تھی یہ امتحان معصومین ^ کی مزارت اور انکے حرم کے لیے روشن دن سے زیادہ واضح طور پر ثابت ہے ۔

بر سرِ مطلب

پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ا نبیاء علیہم السلام کو ان خصوصیات اور اپنی صفات سے متصف فرماکر ، بشری لبادے میں بھیجا تا کہ امتحان لے کہ کون خشیت کے ساتھ خاضع ہے اور کون اصل سے جاہل ہو کر متکبر ہے اسی مجمل اور مختصر پر اکتفا کرتے ہیں ۔

دوسرامرحلہ

خاتم النبین کی نبوت

یہ مقام پس بلند اورمنیع و رفیع ہے جسکے تصور سے ہی عقل مات ہے یہ وہ عنقاء وجود ہے کہ طائر لاہوتی بھی وہاں پر ، پَر نہیں مار سکتا ، لذا قد سیوں کا سردار جبرائیل× کہتا ہے ( لَوْ دَنَوْتُ أَنْمُلَةً لَاحْتَرَقْتُ ) اگر انگلی کا پورا بھی َپر ماروں تو جل جاؤں گا ۔لیکن تکمیل مطلب کے لیے سرسری اشارہ کیا جاتا ہے ، یہاں پر ہر کلام سے تمسک باطل ہے سوائے قرآن و عترت کے۔

قرآن

(وَ إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظيمٍ )تحقیق آپ حتماً خُلق عظیم پر ہیں خلق عظیم کا ادراک مشکلات میں سے ہے اجمالی اور سرسری بیان پیش کرتے ہیں ۔

خُلق

1۔مصباح اور مقائیس اللغۃ میں(سجیّت) کے معنی میں ہے ، راغب اصفہان مفرادت میں کہتےہیں خَلق اور خُلق کا ایک معنی ہے لیکن خَلَق کیفیت اور ظاہری شکل و صورت، جسے ظاہری آنکھ سے دیکھا جاتا ہے ، خُلق صلاحیات و استعدات اور ملکاتِ باطنی سے مختص ہے جنہیں بصیرت ِقلبی سے درک کیا جاتا ہے ، بہر حال معنی خُلق ، ایک باطنی امر ہے جو کمال و فضلیت کا مَلکہ ہوا کرتا ہے جیسے کمالِ عدالت کا مَلکہ، شجاعت ، سخاوت وغیرہ پس خُلق وہ ملکہ نفسانیہ ہے جس سے افعال حسنہ آسانی کے ساتھ صادر ہوں ۔

معنیٰ خُلق :بروزن فُعُل ہے جو ما فُعِلَ کے معنی میں ہے یعنی جسے انجام دیا گیا ہو، اعم از اس سے کہ وہ طبیعت اور ذات ہو یا سجیّت و فضلیت اورکمال ہو ! یہ باطن کے کمال و فضائل پر بولا جاتا ہے ۔

عظیم

یہ خُلق جب صف عظیم کے ساتھ ہے تو کسی انسان میں یہ خلق اس عظمت کے ساتھ ممکن نہیں پایا جائے ، اب وہ خلق عظیم انفرادی ہو یا اجتماعی، عظیم ہے اور کوئی اس عظمت پر نہیں ہے خلق اولین اس عظمت پر نہیں جس طرح کہ خلق آخرین بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے ۔خُلق عظیم اللہ تبارک و تعالیٰ میں ہے ، لذا اللہ کی صادق زبان نے ارشاد فرمایا ( تخلقوا با خلاق اللہ)اللہ کے خُلق اور اخلاق سے متخلق ہو جاؤ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا اخلاق نہیں ہے مگر اسکی صفات علیا اور اسماء حسنیٰ ، حضرت خاتم ﷺ یقینا اللہ کے اخلاق سے متخلق ہیں ، اور وہ بھی بطور ، اکمل اور اتم اس لیے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلق عظیم پر حضرت خاتم کے وجود کو خلق فرمایا ہے ، لہذا کسی قسم کا نقص اور کمی واقع نہیں ہو گی ، اسی وجہ سے عظیم ہیں ۔ اور جب اللہ کا اخلاق اسکے اسماء و صفات ہیں تو پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے تمام اسماء و صفات بطور اکمل و اتم حضرت خاتم ﷺ سے ظاہر فرمائے تو فرمایا (وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ ) کہ ظہور رحمت رحمانیہ ہے پھر فرمایا ( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ) مومنین پر رؤوف و رحیم ہے ، کہ یہ ظہور رحمت خاصہ ر حیمیہ ہے ، یہ دونوں رحمتیں ( بسم اللہ الرحمن الرحیم )میں ہیں کہ جس سے تمام اشیاء ظاہر ہوتی ہیں پس خُلق عظیم، اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور اسماء کی مظہریت کا نام ہے جنات ملائکہ اور تمام موجودات خُلقِ عظیم کی زکات سے موجود ہو رہے ہیں ۔

اور دیگر تمام انبیاء ، رسل اور الوالعزم یہیں سے فیض پا رہے ہیں جو نبوت ورسالت بیان ہو چکی ہے خُلق ِ عظیم کی خیرات ہے(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ،وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ) اے نبی خاتم، تحقیق ہم نے آپ کو شاھد ، مبشر ، اورنذیر بنا کر ، اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے اذن سے اور سراج منیر بناکر بھیجا ہے۔حق تبارک و تعالیٰ نے نبی خاتم کے لیے پانچ عنوان ذکر فرمائے ہیں ، کہ ہر ایک کی تفصیل طاقت فرسا ہے ، سر سری بیان پر اکتفاء کرتے ہیں( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ )النبی کوخطاب فرما کر تمام انبیاء کو نکال دیا کہ دیگر انبیاء اس خطاب کے مخاطب نہیں ہیں ، بلکہ مخاطب فقط خاتم ﷺ ہیں ۔ لذا النبی نبوت عامہ کہ جسکا بیان پہلے مرحلہ میں گزر چکا ہے طے کرکے نبوت خاصہ پر پہنچا کہ ختم نبوت ہے ۔ نبوت اور ہے ختم نبوت مقام دیگر ہے ختم نبوت کا جلوہ بعد والے پانچ اسماء میں ظاہر ہو رہا ہے ۔

شاھداََ

مقام (شاہدیۃ ) خاتم بس عظیم ہے کہ عالمین چشم زدن میں اسکے سامنے حاضر ہیں اور اسکی رضا کی گدا گری کر رہے ہیں ۔

معنیٰ شاھد

بمعنی ٰ معائنہ کر نا ہے ( شھدتُ الشییءَ اطلعتُ علیہ و عاینتُہ فانا شاھد) (مصباح الغات) میں شی پر شاھد ہوں ۔ یعنی میں اس پر مطلع ہوں اور اسکا معاینہ کیا ہے پس میں شاھد ہوں نتیجہ یہ ہے کہ شاھد ، علم و اطلاع بھی رکھتا ہو حضور اور معاینہ کے ساتھ ۔

1۔ شھدت العید ادرکتہ : میں عید پر شاھد ہوں یعنی میں نےعید کو درک کیا پس عید کا علم بھی اور اس میں حضور بھی ہے (فمن شھد منکم الشھر ای من کان حاضراََ فی الشھر مقیما ََ غیر مسافرِِ) پس جو تم میں سے ماہ رمضان میں شاھد ہو یعنی جو ماہ مبارک رمضان میں حاضر ہو بطور مقیم، مسافر نہ ہو مراد یہ ہے کہ بطور مسافر غائب نہ ہو ۔

۲۔ صحاح اللغت: شھدہ شھوداََ انما حضرہ فھو شاھد، شاھد علم کے ساتھ حاضرہونا ہے ۔

۳۔ مفرادت راغب :الحضور مع المشاھدۃ اما با لبصر او با لبصیر ۃ، شھادت ، ماوھدہ کے ساتھ حضور ہے یہ مشاھدہ یابصر کے ساتھ ہے محسوسات میں یا بصیرت کے ساتھ ہے معنویات میں

علم اور شہادت میں فرق

شہادت اخص از علم ہے شی کا علم کھبی دوسری شی کی طرف سے ہے اور کھبی دوسری شی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ خودِ شی کی طرف سے ہے شھادت فقط دوسری قسم کا علم ہے ۔ لذا جو" حَواس" سے "بداھۃً "معلوم ہو وہ شھادت ہے اور دوسری شی سے معلوم ہو دلالت کے ذریعہ سے وہ غائب ہے ( فروق الغات)

شاھد اور حاضر میں فرق

کسی کا حضور کھبی علم کیساتھ ہے کھبی علم کے کیساتھ نہیں ہے شاھد وہ ہے جو علم کے ساتھ حضور رکھتا ہے ۔ پس نتیجہ یہ ہے کہ معلوم کے پاس حضور کے ذریعہ علم رکھنا اور اسکا معاینہ کرنا شھادت ہے شاھد وہ عالم ہے جو معلوم کے پاس حاضر ہو کر معاینہ کر کے علم رکھتا ہو بلکہ حضور ہوتا ہی علم کے ساتھ ہے ۔

کس پر شاھد؟

حضرت خاتم کے شھود کا متعلق عالمین ہے اس لیے کہ آنحضرت جب عالمین کی رحمت اور اسکے لیے بشیرو نذیر ہیں تو یقینا عالمین پر شاھد ہیں دوسرا اس لیے کہ آپ خلقت ِحق کے شاھد ہے تیسرا اس لیے آپ کل شی پر شاھد ہیں، چوتھا اس لیے کہ تمام انبیاء پر شاھد ہیں پانچواں اس لیے کہ تمام انسان اولین و آخرین ، پر شاھد ہیں۔حضرت شاھد ہیں کیونکہ حق تبارک و تعالی کے اسم شاھد و شہید کے مظہر ہیں ۔جسطرح اللہ تبارک و تعالیٰ ہر شی پر شاھد ہیں اسی طرح اللہ کی طرح حضرت خاتم ہر شی پر باذن اللہ شاھد ہیں ۔ جس طرح اللہ اور رسول ہر شی کے ولی ہیں (وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَؤُلاءِ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )جس دن ہم ہر امت میں انہیں میں سے اس دن اُن پر شاھد مبعوث کریں گے ہم آپ ( خاتم) کو ان ( شہدا ) پر شھید بنا کر لائیں گے

پس حضرت خاتم آدم سے عیسٰی تک تمام انبیاء اور ان کی امتوں میں حا ضر تھے جسطرح اب انہی امت کے ہر فرد پر بطور شاھد حاضر ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی انہیں مشاھدہ کر لے اور کوئی نہ کر ے ۔ جسطرح وا جب تبارک وتعالیٰ ہر شی پر بطور شاھد حاضر ہیں اب وہ نبی کا مشاھدہ کر سکے یا نہ لیکن گذشتہ امتوں کا ہر فرد بھی اس امت کا ہر فرد بھی حتما اس کا مشا ھدہ کرے گا اگرچہ موت کے وقت ہی کیوں نہ ہو ( عن جابر عن أبي جعفر ع في قوله « وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَ يَوْمَ الْقِيامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً» قال ليس من أحد من جميع الأديان يموت إلا رأى رسول الله ص و أمير المؤمنين ع حقا من الأولين و الآخرين )امام باقر × ارشاد فرماتے ہیں تمام ادیان میں سے کوئی ایک فرد نہیں ہے کہ اس پر موت واقع ہو مگر وہ رسول ا للہ اور امیر المومنین کو واقعا دیکھے گا اولین و آخرین میں سے ۔

مبشراً َو نذیراََ

مبشرّاً: بشارت اور خوشخبری دینے والا ، نذیر:خوف دلانے والے ڈرانے والا خوشخبری ہے ثواب، جنت اور نعمات کی اور خوف دلانا اور ڈرانا ہے عذاب ِجہنم سے۔مطلب یہ ہے کہ حق تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو وعدہ اور وعید کے ذریعہ اپنی طرف بلا رہا ہے ، وعدہ وہی جنت ، اور اسکی نعمات اور ثواب ہے اور وعید ، جہنم اور اسکا عقاب ، اور عذاب ہے ، تو وعدہ کے لیے ایک منادی کی ضرورت ہے اور وعید کے لیے بھی ۔ وعدہ کے منادی کو مبشر اور وعیدکے منادی کو نذیر کہیں گے۔ وعدہ اسم رحیم و رحمان و منعم کے ظہور کا نتیجہ ہے ، وعید، اللہ کے غضب اور انتقام کے ظہور کا نتیجہ ہے بس حضرت خاتم مبشر بن کر حضرت حق کے رحمن و رحیم و منعم ہونے کو ظاہر فرما رہے ہیں اور نذیر بن کر اسکے غضب اور انتقام کو ظاہر فرما رہے ہیں ۔

داعیا ًالیٰ اللہ: اللہ کی طرف دعوت دینے والا

حضرت رسول اللہ  فقط اپنی امت کو اللہ کی طرف بلانے والے نہیں بلکہ اولین وآخرین کو دعوت دینے والے ہیں ۔ جدہر دعوت دے رہا ہے وہ اللہ ہے جو فقط رحمن نہیں رحیم نہیں قھار نہیں بلکہ وہ اسم ذات ہے جو تمام اسماء و صفات جمال و جلا ل کو شامل ہے اللہ کے جمال کی طرف بھی بلاتا ہے اور اسکے جلال کی طرف بھی دعوت دیتا ہے دعوت دینے والا تب داعی ہو گا جب خود وہاں تک پہنچ چکا ہو جسکی طرف دعوت دے رہا ہے ۔ پس تنہا ذات ِخاتم ﷺ ہےجو اللہ کی بارگاہ میں پہنچی ہے اور شب معراج اس پر شاہد ہے لذا تمام انبیاء علیہم السلام کو انکی امتوں سمیت اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے حضرت آدم ، نوح ،ابراہیم، موسیٰ ، عیسیٰ علیہم السلام جو اپنی اپنی امت کو اللہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں در واقع ان سے پہلے حضرت خاتم ، اللہ کی طرف بلانے والے ہیں ۔

عاقل کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

سراجاً منیراَ

سراج ، ہر چراغ نہیں بلکہ وہ چراغ جس میں چمک دمک کامل ہو اور مزین ہو ۔ اس لیے خدا واند متعال نے سورج کو سراج کہا ہے چاند کو نہیں کہا(وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا )اللہ نے چاند کو آسمانوں میں نور اور روشن قرار دیا سورج کو سِراج قرار دیا ۔یعنی سورج نور کے علاوہ زیت بھی ہے پھر سِراج کو وصف منیر سے موصوف فرمایا تو یہ معنیٰ ہو گا پوری زینت اور چمک و دمک کے ساتھ نور دینے والے ہیں ۔حضرت خاتم ﷺ تمام جہانوں پر شمس وجود ہیں جنکے طلوع سے عالمین میں سویرا ہو تا ہے جہان میں صبح ہوتی ہے ہر موجود کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف روشن راستہ نظر آتا ہے اور ہر جہان اس شمس سے مزین ہے جسکی چمک دمک سے ہر موجود روشن ہے یعنی موجود ہے ۔

جس طرح سورج نور، اور حرارت دیتاہے روشنی اور گرمی دیتا ہے جہاں کی موجودات پرورش پاتیں ہیں ، دانے کونپل بنتے ہیں کو نپل پودے بنتے ہیں پودے درخت اور درختوں پر پھل لگتے ہیں اور پھلوں میں ذائقہ اور مٹھاس آتی ہے۔ اسی طرح شمس وجود، خاتم ﷺ ہر موجود کو نور وجود اور حراتِ ایمان عطا فرماتا ہے جس سے مسلمان ، مومن متقی ،صالحین شہداء ،اولیا ، انبیاء ، مرسلین ، پیدا ہوتے ہیں ، زمین و آسمان شمس و قمر ، چاند ستارے سب اسی نورسے وجود لینے والے ہیں یہ سِراج منیر ، رحمت اللعالمین بن کر تمام میں انکی ظرفیت کے مطابق اللہ کی رحمت کو تقسیم فرما رہے ہیں ۔

جس طرح سورج نباتات کو نشوونما عطا کرتا ہے اسی طرح شمس ِوجود خاتم ﷺ عقول کی پرورش کرتا ہے ۔

حضرت امیر المو منین ارشاد فرماتے ہیں بعثت انبیاء کی غرض علووں کو پرورش دیناہے(فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَهُ وَ وَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَهُ لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ وَ يُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ وَ يَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ وَ يُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُول ) اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول معبوث فرمائے اور پے در پے انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ یہ لوگوں سے فطرۃ اللہ پر باندھا ہواعہد و پیمان ادا کرنے کو طلب کریں اور لوگوں کو اللہ کی فراموش شدہ نعمت یاد دلائیں ۔ اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حجت تمام کریں ۔ اور ان کے لیے عقلوں کے دفن شدہ خزانوں کو نشوو نما دیں ۔یہی انسان کو اللہ تک پہچانا ہے ۔ اور جب یہ نور عقلوں پر پڑتا ہے کہ جسکی گرمی سے وہ کھلتے ہیں ۔ پس اگر نبی نہ ہوں تو عقل نشوونما نہیں پا سکتے اب دنیا میں جتنی ترقی ہے اور بعد میں جو ترقی ہوتی رہے گی یہ سب نور خاتم کی وجہ سے ذہنوں میں ارتقا ہے کہ آج دنیا میں انٹرینٹ تک رسائی ہے کرہ چاند پر گئے ہیں یا کرہ مریخ پر جا نا چاہتے ہیں ۔ اس طرح کی دیگر تر قیاں ، اور اسی طرح معارف دین جو اب تک بیان ہوئے ہیں خاتم ﷺ کے نور کا نتیجہ ہے۔حضرت امام باقر × فرماتے ہیں آخر الزمان میں لوگ آئیں گے جو سورۃ توحید میں موجود معارف تو حید کو کھولیں گے اور درک کریں گے اذھان آخر الزمان میں اس منزل پر جا پہنچیں گے کہ قا بلیت اور توحید قرآنی کا ادارک پیدا ہوگا ۔ عقول کے دفینے اور خزانے نکلیں گے یہ سب شمس ِوجود خاتم ﷺ جو سراجاً منیراً ہے سب اسکی خیرات ہے ۔

۳۔آیاتِ معراج

عہد اختصار کی وجہ سے فقط مراتب معراج کی طرف اشارہ ہوا چاہتا ہے تفصیل کے لیے آیاتِ معراج کی طرف رجوع کریں اور خاتم الائمہ ادرکنی کہیں تاکہ یہ معارف ہمارے قلوب میں متجلی ہوں ۔معراج خاتم مسلمات میں سے ہے کوئی اہل اسلام جسکا انکا ر نہیں کر سکتا رئیس مذہب شیعہ حضرت صادق × ارشاد فرماتے ہیں ( عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ الصَّادِقُ ع مَنْ أَنْكَرَ ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ فَلَيْسَ مِنْ شِيعَتِنَا الْمِعْرَاجَ وَ الْمُسَاءَلَةَ فِي الْقَبْرِ وَ الشَّفَاعَةَ )جس نے تین چیزوں کاا نکار کیا وہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے، معراج ، سوال قبر ، شفاعت۔

مراحل معراج

مبدا اور آغاز ، مسجد الحرام ، پھر مسجد اقصیٰ پھر سماء ، کہ بالترتیب سات آسمانوں کا طے کر نا پھر سدرۃ المنتھی پھر حجابات پھر قاب قوسین با لا خر او ادنی، اب یہ کہ ہر مقام کی کیا خصوصیات ہیں ؟ وہاں کو نسی موجودات ہیں ؟ حضرت نے وہاں کیا کیا اور کیا مشاہدہ کیا؟ یہ سب کچھ اس مقالےکے حوصلہ سے باہر ہے ۔ لیکن یہ مسلم ہے سب سدرۃ المنتھی سے پیچھے ہیں نہ نوری ملائکہ وہاں جا سکتے ہیں نہ کوئی نبی پہنچا ہے اور نہ کسی نوری پرندے میں یہ طاقت ہے کہ وہاں پر ، پَر مار سکے ،حضرت حق اپنے جانشین خاتم لائمہ علیہ السلام کے صدقہ میں ہمیں ان معارف کا عرفان ِ کامل عطاء فرمائے تاکہ اس کی فوج میں شامل ہو کر کوئی خدمت انجام دے سکیں ۔

عترت

حضرت خاتم  کے بارے میں عترت النبی ﷺ کی فرمائشات کا ایک بے کراںسمندر ہے جسکے ایک قطرہ سے تھوڑی سے نمی لینے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی فقط امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بیانات سے جو نہج البلاغہ میں ہیں اسکے ایک خطبہ سے چند کلمات( أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالدِّينِ الْمَشْهُورِ وَ الْعَلَمِ الْمَأْثُورِ وَ الْكِتَاب ) حضرت امیر المو منین × فرماتے ہیں : میں علی ابن ابی طالب گواہی دیتا ہوں کہ تحقیق حضرت محمدﷺ، اللہ کے عبد ہیں ، یہ عبدیت وہی اساس ہے جو علم سے پیدا ہوتی ہے اور مراتب کمالات عطا کرتی ہے جس طرح ذکر ہو چکا ہے یہ عبودیت کہ جو حضرت صادق × فرماتے ہیں عبودیت وہ جوہر ہے جسکی کنہ میں ربو بیت ہے۔ العبودیۃ جوھرۃ کنھھا ر بو بیۃ۔ یہ وہی ہے کہ حدیث قدسی میں حضرت حق فرماتے ہیں ( يا ابن آدم أنا غني لا أفتقر أطعني فيما أمرتك أجعلك غنيا لا تفتقر يا ابن آدم أنا حي لا أموت أطعني فيما أمرتك أجعلك حيا لا تموت يا ابن آدم أنا أقول للشي ء كن فيكون أطعني فيما أمرتك أجعلك تقول لشي ء كن فيكون ) اے آدم کے بیٹے! ، میں وہ بے نیاز ہوں جسے کوئی احتیاج نہیں ، تجھے ایسا غنی قرار دوں گا کہ تو کھبی بھی کسی کی طرف نیاز پیدا نہیں کرے گا میں زندہ ہوں جسے موت نہیں۔ تجھے ایسا زندہ قرار دوں گا کہ تجھے موت نہیں آئے گی میں شی کو کہتا ہوں ہو جاؤ وہ ہو جاتی ہے تو بھی شی کو کہے گا ہو جا وہ ہو جائے گی۔ اور محمد اللہ کے رسول ہیں، ایسے رسول جو تمام دیگر مرسلین پر شاہد ہیں عبد حضرت کا مقام ہے اور رسولت اسکا منصب اور عہدہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے وہاں سے بھیجا ہے دین مشہور یعنی واضح کھلے دین کے ساتھ۔

راسخ علامت اور نشانی کے ساتھ لکھی ہوئی کتاب کے ساتھ ( قرآن مجید ) درخشندہ نور کے ساتھ ، تابندہ روشنی کے ساتھ ، اور ایسے امر کے ساتھ جو حقیقت کو واضح کر دیتا ہے تاکہ شکوک و شھبات کو نابود کرے واضح محکم براہین ( جیسے معجزات) کے ساتھ استدلال کرے دیگر آیات الھی کے ذر یعہ لوگوں کو ( گناہوں سے ) بچائے اور ( برے اعمال کے در ناک نتائج ) سے لوگوں کوڈرائیں۔جب کسی کو کوئی بیھجتا ہے تو کچھ دے کر روانہ کرتا ہے ۔ بنا پر اسکے حضرت حق تبارک و تعالیٰ جب اس نبی کو بھیج رہا ہے تو ان حقائق کے ساتھ کہ جن کا ادراک علم و عقل بشر سے خارج سے مگر فضل پروردگار کے ساتھ لیکن وہ حضرت خود کیا حقیقت ہے ۔ اصلا ً لفظوں میں بساط نہیں کلموں میں ظرفیت نہیں کہ ذکر کرسکیں ۔ اب وہ دین مشہور کیا ہے ؟ وہ راسخ نشانی کیاہے ؟ کتاب مسطور کیا ہے؟ وہ درخشندہ نور کیا ہے ؟ اسی طرح تا بندہ روشنی امر صادع کیا ہے؟ یہ سب توضیح چاہتی ہیں ۔ یہاں فقط اشارہ مقصود ہے۔

اسماء النبی 

نبی اکرم  سے بیشتر آشنا ہونے کے لیے انکے اسماء مبارکہ کو بیان کیا جاتا ہے۔ اور یہاں فقط ان اسماء پر اکتفا کرتے ہیں جنہیں مرحوم کاشانی & نے علم الیقین میں بیان فرمایا ہے ۔ قرآن سے اور غیر قرآن سے حضرت کے متعدد اسماء ذکر ہوئے ہیں اسی طرح کتب آسمانی میں حضرت کے اسماء مذکور ہیں اسی طرح علامہ مجلسی نے بحار الانوار کے باب اسماء النبی میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں چار سو اسماء کا ذکر ہوا ہے ہم یہاں پر چند اسماء کا ذکر کرتے ہیں ۔

محمد، احمد ، الخاتم ، المصفیٰ ، الرّسول ، النبی ، البشیر ، النذیر ، سراجِ منیر ، الامین ، الصادق ، الرّحیم ، الکریم ، النّور ، المزمل، المدثر، المذکر، العبد، حامد، محمود ،مبلغ، مکّرم ، حبیب اللہ ،الفاتح ،ا لمتوکل ، الا متی ، ماحی ، عاقب ، حاشر، رسول الرحمۃ ، رسول التوبۃ ، الذکر ، الشمس، التین ، النجم ، ضحوک ، قتّال ، فتاح۔

چند روایات

۱ ۔ رسول اللہ ﷺ سے میں سنا: قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ إِنَّ لِي أَسْمَاءً ،تحقیق میر ے لیے میرے رب کے پاس دس اسماء ہیں ) أَنَا مُحَمَّدٌ وَ أَنَا أَحْمَدُ)میں محمد و احمد ہوں (وَ أَنَا الْمَاحِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ وَ) میں وہ مٹانے والا ہوں کہ میرے ذریعہ اللہ کفر کو مٹائے گا (أَنَا الْحَاشِرُ يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَيَّ ) میں وہ حاشر ہوں کہ تمام بندوں کو میرے قدم پر محشور کیا جائے گا (وَ أَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ أَحَدٌ) میں وہ بعد میں آنے والا ہوں جس کے بعد کوئی نہیں (وَ قِيلَ إِنَّ الْمَاحِيَ الَّذِي يُمْحَى بِهِ سَيِّئَاتُ مَنِ اتَّبَعَهُ وَ فِي خَبَرٍ آخَرَ الْمُقَفِّي وَ نَبِيُّ التَّوْبَةِ وَ نَبِيُّ الْمَلْحَمَةِ وَ الْخَاتَمُ وَ الْغَيْثُ وَ الْمُتَوَكِّلُ وَ أَسْمَاؤُهُ فِي كُتُبِ اللَّهِ السَّالِفَةِ كَثِيرَةٌ مِنْهَا مؤذ مؤذ بِالْعِبْرِيَّةِ فِي التَّوْرَاةِ وَ فَارِقٌ فِي الزَّبُور) میں رحمت کا رسول ، تو بہ کا رسول اور میں صاحب فضائل رسول ہوں( و انا لمقفی و انا قثم)میں سب کے پیچھے لایا گیا ہو اور میں کامل جامع اور جواد ہوں۔

۲۔ امام باقر × فرماتے ہیں : عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ إِنَّ اسْمَ رَسُولِ اللَّهِ ص فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ ع الْمَاحِي وَ فِي تَوْرَاةِ مُوسَى ع الْحَادُّ وَ فِي إِنْجِيلِ عِيسَى ع أَحْمَدُ وَ فِي الْقُرْآنِ مُحَمَّدا ،تحقیق رسول اللہ ﷺ کا نام ابراہیم کے صحیفوں میں ماحی ہے حضرت موسیٰ کی تورات میں حادّ ہے اور انجیل عیسیٰ میں احمد اور فرقان میں محمد ﷺ ہے پھر ہرایک معنی بیان فرمایا : الماحی: بتوں کی صورت کو مٹانے والا، ہر معبود جو رحمان کے علاوہ ہو اسے مٹا نے والا،الحاد: سخت دشمن ہے اس کا جو اللہ اور اس کے دین کا دشمن ہو۔احمد: اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنی کتابوں میں بہترین ثنا کرنا اور اللہ نے حضرت کے کاموں کی حمد کی ہے ۔ محمد:اللہ اسکے ملائکہ اور رسل و انبیاء اور تمام امتیں حضرت محمدﷺ کی حمد کرتی ہیں اور حضرت پر صلوات بھیجتی ہیں اور حضرت کا نام عرش پر محمد رسول اللہ ﷺ ، رکھا ہوا ہے ۔

بر سر مطلب

جب النبی کچھ معلوم ہوا تو عِدلُ النبی جو کہ امام ہے معلوم ہوگا ، امام، نبی خاتم کی طرف وہی نسبت رکھتے ہیں جو ترازو کی ایک طرف ، دوسری طرف سے رکھتی ہے پس امام ،النبی کی طرح رفیع و بلند ہوتا ہے وجوداً واسطہ اور سبب بین الخلق و الخالق ہے فوقِ بشر ہے لیکن بشری لبادہ اوڑھ کے بھیجا گیا ہے ، تمام مراتب اور مقامات نبی خاتم کے رکھتا ہے سوائے نبوت کے ۔ نبوت نہیں رکھتا یعنی کوئی دوسرا قرآن امام پر نازل نہیں ہوگا امام پرکوئی نئی شریعت نازل نہیں ہوئی ، نئے احکام نازل نہیں ہوئے، پس امام نبی نہیں لیکن خاتمﷺ کے علاوہ تمام انبیاء سے افضل ہے جسطرح روایات ِ متواترہ، بالتواتر المعنوی ، اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں۔ امام عِدل النبی ہے مگر جو مستثنیٰ کر دیا گیا ہے دلیل قطعی سے جس طرح نبوت کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے ۔پس کم سے کم معرفتِ امام یہ ہے کہ وہ عدلِ النبی ہیں ۔

 

 

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment