اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

شرک اور مشرک کے بارے میں مناظرہ

حافظ :-کچھ اسی حدیث پر انحصار نہیں ہے کہ آپ اس کی اصلاح کی کوشش کریں بلکہ آپ کی کتابوں وارد تمام دعاؤں کے اندر کفر وشرک کے نمونے ملتے ہیں جیسے بغیر ذات پرور دگار عالم یک طرف توجہ کئے ہوئے اماموں سے حاجتیں طلب کرنا اور یہ غیرخدا ہے حاجت طلب کرنا خود ہی شرک کی ایک مکمل دلیل ہے ۔

خیرطلب :-آپ کی ذات سے یہ بات بہت بعید تھی کہ اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے ایسی فضول اور بے جا بات منہ سے نکالیں ،واقعی آپ بہت بے انصافی کرتے ہیں یا پھر اس پر توجہ نہیں کرتے ہیں کہ کیا فرما رہے ہیں یا بغیر شرک کے معنی پر غور کئے ہوئے بیان کرتے ہیں میں متمنی ہوں پہلے شرک اور مشرک کے معنی بیان فرما یئے تا کہ حقیقت ظاہر ہو۔

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا

حافظ:- مطلب اتنا واضح ہے کہ میرے خیال میں تشریح کی ضرورت ہی نہیں ، بدیہی چیز ہے کہ خدائے بزرگ کا اقرار کرتے ہوئے غیر خدا کی طرف توجہ کرنا شرک ہے اور مشرک وہ شخص ہے جو غیر خدا کی طرف رخ کرے اور اس سے حاجت طلب کرے ۔

جماعت شیعہ جیسا کہ مشاہدہ ہے کبھی خدا کی طرف توجہ نہیں رکھتی ہے اور بغیر خدا کا نام لئے ہوئے اپنے سارے مقاصد اپنے اماموں سے عرض کرتی ہے یہاں تک کہ میں دیکھتاہوں کہ شیعہ فقراء گزرگاہوں اور دروازوں اور دکانوں پر آتے ہیں ، تو کہتے ہیں ۔ یا علی ، یا امام حسین یا امام رضائے غریب یا حضرت عباس اور ایک مرتبہ بھی نہیں سنا گیا کہ یا اللہ کہیں ۔یہ باتیں خود شرک کی دلیل ہیں کیونکہ جماعت شیعہ کبھی خدا کی طرف توجہ نہیں کرتی بلکہ اپنی تمام تر توجہ غیر خدا سے وابستہ رکھتی ہے ۔

خیر طلب:- میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی اس طرح باتوں کا کیا مقصد سمجھوں ،آیا ان کو ہٹ دھرمی کی دلیل سمجھوں کہ قصدا تجاہل عارفانہ کر رہے ہیں یا حقائق کی طرف توجہ نہ کرنے کا نتیجہ ہے ؟ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہٹ دھرمی کرنے والوں میں سے نہ ہوں گے ۔

چونکہ ایک عالم باعمل کے شرائط میں سے انصاف بھی ہے لہذا جو شخص حق سے واقف ہو اور اپنی مطلب برآوری کے لئے حق کشی کرے وہ انصاف سے دور ہے اور جس کے پاس انصاف نہیں وہ عالم بلا عمل ہے ، حدیث رسول میں ارشاد ہے "العالم بلا عمل کا الشجر بلا ثمر"(یعنی عالم بے عمل بغیر میوے کے درخت کی مثل ہے )آپ جو بار بار اپنے جملوں میں شرک اور مشرک کے الفاظ زبان پر جاری کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے لغو اور بے مغز دلائل سے موحد شیعوں کو مشرک ثابت کریں تو ممکن ہے کہ آپ کے بیانات بے خبر سنی عوام پر اثر انداز ہو جائیں اور وہ شیعوں کو مشرک سمجھ لیں (جیسا کہ اب تک ان پر غلط اثر پڑتا رہا ہے ۔) لیکن یہ محترم حاضرین جلسہ شیعہ حضرات آپ کی تقریر سے سخت ناراض اور ناخوش ہیں اور آپ کو ایک مطلب پرست اور افترا پرداز عالم سمجھ رہے ہیں کیونکہ یہ اپنے عقائد سے واقف ہیں اورسمجھتے ہیں کہ آپ نے ان الزامات میں سے ایک بھی ان کے اندر موجود نہیں ہے ۔ لہذا اپنے الفاظ اور بیانات میں ایسے جملے ادا نہ کرنے کی کوشش فرمائیے کہ ان پر سچی بات واضح ہو اور ان کے دل آپ کی طرف کشش محسوس کریں۔

میں مجبو ر ہوں کہ آپ اجازت دیں تو حاضر و غائب بردران اہل سنت کے سادہ ذہنوں کو روشن کرنے کے لئے وقت کے لحاظ سے مختصر طور پر شرک اور مشرک کےبارے میں اسلام کے بزرگ محققین حکماء وفقہاء اور علماء جیسے علامہ حلی ، محقق طوسی ،علامہ مجلسی علیھم الرحمۃ جو اکابر و مفاخر علمائے شیعہ میں سے ہیں ،اور دوسرے حکماء اورصاحبان تحقیق جیسے صدر المتالہین شیرازی ،ملا نوروز علی طالقانی ،ملا ہادی سبزواری اور جناب صدر کے دونو با عظمت خوش مرحوم فیض کاشانی و فیاض لاہیجانی رحھم اللہ کا آیات قرآنی اور ارشادات ائمہ طاہرین علیھم السلام کی روشنی میں جو کچھ عقیدہ ہے وہ آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ حاضرین جلسہ یہ نہ سمجھ لیں کہ شرک کے معنی وہی ہیں جو آپ مغالطہ دے کر بیان کررہے ہیں ۔

حافظ:- غصے کے ساتھ فرمائیے ۔

نواب :-قبلہ اس جلسہ کی بنا چونکہ بے سواد لوگوں کے سمجھنے کے لئے ہے لہذا پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ، متمنی ہوں کہ اپنے ارشادات میں انتہائی سادگی کا لحاظ رکھئے آپ کی نظر صرف حضرات علماء اور ان کی عقل کے مطابق جواب دینے پر نہ رہنا چائیے بلکہ اہل مجلس کی اکثیریت با الخصوص ہند اور پیشاور کےباشندوں کی رعایت ضروری ہے جو اہل زبان نہیں ہے گزارش ہے کہ پیچیدہ اور مشکل مطالب بیان نہ فرمائیے گا ۔

خیر طلب :- جناب نواب صاحب آپ کی یاد دھانیاں میرے پیش نظر ہیں ،اور کچھ اسی صحبت پر منحصر نہیں ہے بلکہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں میری عادت ہی یہ ہے کہ جس مجمع میں کچھ عوام اور بے خبر افراد موجود ہوتے ہیں وہاں قطعا اپنا روئے سخن خواص پر موقوف نہیں رکھتا ہوں ،اس لئے کہ پیغمبروں کی بعثت اور کتابوں کے نزول کی غرض بے خبر لوگوں کو متنبہ کرنا تھا اور یہ نظریہ ہر گز عملی جامہ نہیں پہن سکتا جب تک حقائق جس طرح سے آپ نے فرمایا سادہ طور پر اور قوم کی زبان میں بیان نہ ہوں چنانچہ حدیث میں رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے کہ "نحن معاشر الا نبیاء نکلم النّاس علی قدر عقولھم"(یعنی ہم پیغمبروں کی جماعت لوگوں سے ان کے عقلوں کے مطابق گفتگو کرتی ہے ) یقینا آپ کی خواہش اصولی اور برابر میرے پیش نظر ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ آپ کی منشاء کے مطابق پہلے سے زیادہ عمل کرسکوں گا اور متمنی ہوں کہ جس مقام پر سہوا غفلت ہوجائے وہاں آپ حضرات توجہ فرمادیجئے گا ۔

شرک کے اقسام

خیر طلب :- جہاں تک آیات قرآنی کے خلاصے ، اخبار کثیرہ اور محققین علماء کی تحقیقات کا ملہ سے اور بالخصوص ان اہم تشریحات سے جو صدر المتالہین اور فاضل طالقانی نے فرمائی ہیں معلوم ہوتا ہے شرک کی دو قسمیں ہیں اور دوسرے اقسام شرک نہیں دونوں قسموں میں پوشیدہ ہیں ۔ اول جلی اور آشکار ،دوسرے شرک خفی و پو شیدہ ۔

شرک جلی

شرک در ذات

شرک جلی کا مطلب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذات یا صفات یا افعال یا عبادت میں خدائے تعالی کا کوئی شریک قراردے۔

شرک در ذات یہ ہے کہ حق تعالی کے مرتبہ الوہیت اور ذات میں شریک قرار دے اور زبان سے اس کا اعتراف کرے جیسے (بت پرست)اور مجوس جو اصل ومبداء،نوروظلمت ،یزداں اوراہرمن کے قائل ہیں اور نصاری جو اقانیم ثلاثہ کے قائل ہوئے اور ذات خداوندی کو تین اجزا یعنی باپ بیٹا اور روح القدس میں تقسیم کیا ،ان میں سے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ روح القدس کے عوض مریم ہیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاصیت کے معتقد ہوئے جو باقی دو میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک یہ تینوں اکھٹا نہ ہوں ذات خداوندی کی حقیقت مکمل نہیں ہوتی جیسا کہ سورہ نمبر 5(مائدہ)آیت نمبر77 میں خدا نے ان کے قول کی تردید اور اپنی وحدانیت کا اثبات فرمایا ہے "لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثۃ وما من الہ الا الہ واحد"(یعنی یقینا وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے خدا کو تین میں سے ایک جانا (یعنی تین خدا کے قائل ہوئے باپ بیٹا ،روح القدس) حالانکہ سوائے خدا ئے واحد کے اور کوئی خدا نہیں)۔

عقائد نصاری

اس آیہ مبارکہ میں نصاری کے فرقوں میں نسطوریہ ،ملکائیہ اور یعقوبیہ کا بیان کیا گیا ہے جنہوں نے ثنویہ اور بت پرستوں سے یہ عقیدہ حاصل کیا (کتاب الوثنیہ فی الدیانیۃ النصرانیۃ ۔ مؤلف تنیر بیرونی کی طرف رجوع کیا جائے) خلاصہ یہ کہ نصاری ثنویہ اور مجوس کی طرح مشرک ہیں کیونکہ اقانیم ثلاثہ کے قائل ہیں اس میں سے زیادہ واضح الفاظ میں وہ لوگ کہتے ہیں کہ الوہیت خدا،مریم اور عیسی کے درمیان مشترک ہے ان میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ خدا ،عیسی اور روح میں سے ہر ایک خدا ہے ۔اور اللہ جل جلا لہ ان تین میں سے ایک ہے ،وہ کہتے ہیں کہ پہلے سے خدا تین تھے ۔ اقنوم الاب ، اقنوم الابن ،روح القدس(سریانی زبان میں اقنوم کے معنی وجود ہستی ہیں) اس کے بعد یہ تینوں اقنوم ایک ہوگئے اور وہ مسیح ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عقلی ،نقلی دلائل سے دلائل اتحاد کا باطل ہونا ثابت ہے ۔ اور اس معنی سے اتحاد حقیقی محال ہے حتی کہ غیر ذات واجب الوجود میں بھی اسی وجہ سے آخرت میں فرماتا ہے ۔"وما من الہ الا الہ واحد" (یعنی کوئی ایسی ذات واجب جو عبادت کی مستحق ہو سواخدا ئےیکتا کے موجود نہیں ہے جو وحدانیت محض سے موصوف ہے ۔ شرکت کے وہم سے بالاتر ہے اور سارے ممکن موجودات کا مبداء وہی ذات وحدہ لا شریک ہے ۔

شرک درصفات

شرک درصفات یہ ہے کہ خدائے تعالی کے صفات جیسے حکمت ،قدرت اورحیات وغیرہ کو قدیم لیکن زائد ذات سمجھیں جیسے اشعری جو ابو الحسن علی ابن اسماعیل اشعری بصری کے اصحاب میں جیسا کہ آپ کے اکابر علماء مثلا علی ابن احمد بن حزم الظاہری نے کتاب فصل جزء چہارم صفحہ نمبر 207 میں اور مشہور فلسفی ابن رشد محمد بن احمد اندلسی نے کتاب "الکشف من منا ہج الادقۃ فی عقائد الملۃ"صفحہ نمبر 58 میں نقل کیا ہےکہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ اللہ کے صفات زائد بر ذات اور قدیم ہیں ۔ چنانچہ جو شخص صفات خداوندی کو حقیقتا اس کی ذات اجل پرزائد سمجھے یعنی اس کو صفت عالمیت ،وہ مشترک ہے اس لئے کہ اس نےقدم میں اس کے لئے کفو وقرین اور ہمسر ثابت کیا حالانکہ سوا حق تعالی کی ذات ازلی کے کائنات میں کسی قدیم کا وجود نہیں ہے اور صفات خداوندی اس کی عین ذات ہیں جیسے شیرینی اور چکنا ہٹ الگ کی کی چیزیں نہیں ہیں جو شکر اور روغن کی ذات پر وارد ہوئی ہوں بلکہ جس وقت خدا نے شکر اور روغن کو پید کیا ، تو پھر وہ شکر اور روغن ہی نہ رہیں گے ۔ "تلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون" یہ مثالیں ذہنوں کو ملتفت کرنے کے لئے ہیں تاکہ ہم جس وقت بو لیں خدا یعنی عالم ،حی ،قادر، حکیم، وغیرہ تو یہ سمجھ لیں کہ صفات خداوند ی اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں۔

شرک در افعال

افعال میں شرک یہ ہے کہ خدا کو حقیقی طو رپر متوحد اور متفرد با لذات نہ سمجھے ،اس صورت سے کہ مخلوقات میں سے کسی ایک فرد یا افراد کو خدا کے افعال اور تدبیروں میں مؤثر یا مؤثر کا جزء سجھے یا یہ کہ خلقت کے بعد امور کو مخلوق کے سپرد جانے جس کے یہودی قائل تھے کہ خدانے مخلوقات کو خلق کیا اس کے بعد امور کی تدبیر سے بازرہا ۔ سارا کام خلق کے ذمہ چھوڑ دیا اور خود علیحدگی اختیار کر لی ۔

چنانچہ ان لوگوں کی مذمت میں سورہ نمبر 5 (مائدہ)آیت نمبر26 میں ارشاد ہے "وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء"(یعنی یہودیوں نے کہا کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں( اب وہ خلقت میں کوئی تغیر نہیں کرے گا اور نہ کوئی چیز پید کرے گا اس جھوٹی بات کی وجہ سے)ان کے ہاتھ بندھ گئے اور وہ خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے ۔بلکہ خدا کے دونوں ہاتھ (یعنی اس کی قدرت اوررحمت)کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے نفقہ دیتا ہے )

اور مشرکین غلات جن کو مفوضہ بھی کہتے ہیں قائل ہیں کہ خدا نے اماموں کو امور تفویض کردیئے ۔ وہی پیدا کرتے ہیں اور روزی دیتے ہیں ۔یہ بدیہی چیزیں ہیں کہ جو شخص افعال خداوندی میں کسی طریقے سے کسی کودخیل سمجھے ،جز مؤثر کی صورت سے یا انبیاء یا امتوں یا اماموں کو تفویض امور کی حیثیت سے قطعا شرک ہے ۔

شرک در عبادت

اور شرک در عبادت یہ ہے کہ عبادت کے موقع پر ظاہری توجہ یا دل کی نیت غیر حق کی طرف رکھے مثلا نماز میں خلق کی طرف توجہ کرے یا اگر نذر کرتا ہے تو خلق کے لئے کرے اور اس طرح عبادتوں میں نیت کی ضرورت ہے اگر عمل کے وقت نیت غیر خدا کے لئے ہو تو وہ مشرک ہے کیونکہ سورہ نمبر81(کہف)آیت نمبر110 میں صریحی طور پر اس طرح کے عمل (شرک )سے منع کیا گیا ہے ۔قولہ"فمن کان یرجو لقاآربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا "(یعنی جو شخص لقائے رحمت پروردگار کا امید وار ہے اس کو چائیے کہ وہ نیکو کار بنے (یعنی پاک اور پسندیدہ عمل کرے)اور اپنے خدا کی عبادت میں ہرگز کسی کو اس کا شریک نہ بنائے ۔

عمل اور عبادت کے وقت چائیےکہ غیر خدا کی طرف توجہ نہ کرے ،پیغمبر یا امام یا مرشد کی صورت نظر کے سامنے نہ رکھے اس طریقے سے کہ نماز ،روزہ، حج، خمس، زکاۃ اور نذر وغیرہ ہر قسم کی واجب یامستحب عبادت کا ظاہر عمل خدا کے لئے ہو لیکن دل اور باطن میں توجہ غیر خدا کی طرف رہ ے یعنی شہرت اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے یا کسی اور مقصد سے ۔

اس لئے کہ عمل میں ریا حدیث کی زبان میں شرک اصغر کہا گیا ہے جو ہر عامل کو برباد کرنے والا ہے چنانچہ حضرت رسول(ص) اللہ خدا سے منقول ہے کہ "اتقوا الشرک الاصغر"یعنی پرہیز کرو چھوٹے شرک سے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ چھوٹا شرک کون ہے؟فرمایا "الریاء والسمعۃ"ریا اور سمعہ (یعنی دکھانے اور سنانے کے لئے عبادت کرنا (مترجم) )شرک اصغر ہے ۔

نیزآنحضرت (ص)سے مروی ہے کہ فرمایا " ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الخفی ایا کم والشرک السر فان الشرک اخفی فی امتی من دبیب النمل علی الصفا فی اللیلۃ الظلماء"(یعنی بد ترین چیز جس سے میں تمھارے لئے ڈرتا ہوں وہ پوشیدہ شرک ہے ۔لہذا مخفی شرک سے دور رہو کیونکہ میری امت میں شرک اندھیری رات میں سخت پتھر پر چونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ پو شیدہ ہے پھر فرمایا جو شخص ریا کے ساتھ نمازپڑھے وہ مشرک ہے ۔جو شخص ریا سے روزہ رکھے یا ریا سے صدقہ دے یا ریا سے حج کرے یا ریا سے غلام آزاد کے وہ بھی شرک ہوگا ۔ اور یہ آخری قسم چونکہ قلبی امور سے متعلق ہے لہذا شرک خفی میں شامل کی گئی ہے ۔

حافظ:- ہم آپ ہی کے بیان سے سند لے رہے ہیں کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص خلق کے لئے نذر کرے تو وہ مشرک ہے لہذا شیعہ بھی مشرک ہیں ،اس لئے کہ ہمیشہ امام اور امام زادے کے لئے نذر کرتے ہیں اور چونکہ یہ نذر غیر خدا کے لئے ہے لہذا یقینا شرک ہے ۔

نذر کے بارے میں

خیرطلب :- عقل اور علم منطق کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم وملت کے عقائد میں فیصلہ کرنا چائیں تو جاہل اور بے خبر لوگوں کے اقوال یا افعال پر فیصلہ نہیں کیا کرتے بلکہ اس قوم کے قوانین اور ان کی معتبر کتابوں پر پورا تبصرہ کرتے ہیں ۔

حضرات محترم اگر آپ شیعوں کے عقائد کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو بے خبر شیعہ عوام کے اقوال وافعال پر توجہ نہ کرنا چاہئیے کہ اگر بے پڑھے لکھے فقیروں نے راستوں میں یا علی یا امام رضا کی صدا لگادی تو آپ ان الفاظ کو ان کے یا تمام شیعوں کے شرک کی دلیل قرار دیں یا اگر ایک جاہل محض نا واقفیت میں امام یا امام زادے کے لئے نذر کرے تو آپ اس کو اپنے مقابل کو زیر کرنے کے لئے حربہ بنا لیں ۔اس لئے کہ جاہل اور لا ابالی افراد تو ہر قوم کے عوام میں پیدا ہوتے ہیں ۔

البتہ آپ کی نیت خالص ہے ،بہانہ سازی اور عیب جوئی کے درپے نہیں ہیں اور عقلمندی کے ساتھ سمجھنا چاہتے ہیں تو شیعوں کی فقہی کتابوں کی طرف رجوع کیجئیے جو عام طور پر دستیاب ہوتی ہیں اور ہر کتب خانے میں ان کی کوئی نہ کوئی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ کی استدلالی کتابوں اور عملیہ رسائل کامطالعہ کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ علاوہ اس کے کہ کوئی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام بھی مہمل اور بے قاعدہ نہیں ہیں بلکہ فقہ جعفری کےباطن سے توحید کا لب لباب ظاہر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سارے کتب خانوں میں موجود ہیں ان کامطالعہ کیجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فقہائے شیعہ کے عملیہ رسالوں میں ملے گا ۔نذر چونکہ خدا کے لئے کسی عمل کو اپنے اوپر لازم کرنے کی وجہ سے ابواب عبادت میں سے ایک باب ہے لہذا اس کے لئے حتمی طور پر دو شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔کیونکہ اگر ان دونوں میں سے کوئی مفقود ہوگی تو نذر منعقد نہ ہوگی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسری :- صیغہ چاہےوہ جس زبان میں ہو۔

جب مسلمان یہ سمجھ لے گا کہ اس کی نذر بغیر ان دو شرطوں کے صحیح نہ ہوگی تو کوشش کرے گا کہ پہلے ان دونوں کامطلب اور نوعیت سمجھ لے اس کے بعد نذر کرے جس وقت کسی فقیہ سے سوال کرے گا یا کوئی رسالہ پڑھے گا تو اس کو معلوم ہوگا کہ اولا ساری عبادتوں میں بالخصوص نذر میں نیت اللہ کے بارے میں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئیے لہذا غیر خدا کے لئے نیت کا سوال یہ ختم ہو جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہلی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرنے والی ہے ، یہ ہے کہ نذر کنے والے کو نذر کے وقت صیغہ پڑھنا لازمی ہے اور صیغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہو صیغہ جاری نہیں ہوتا ،مثلا روزے کی نذر کرنا چاہتا ہے ۔ تو کہے "للہ علیّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہتا ہے تو کہے "للہ علیّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسری نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے والے کے لئے عربی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہو تو ہر قوم والا اپنی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط سے کہ ا س کے معنی مذکورہ صیغہ سے مطابق ہوں ، اور اگر نیت میں غیر خدا ہو یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا کے نا م کے ساتھ شامل کر لے ۔چہلہے پیغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہو تو قطعا وہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوجھ کر ایسا کرے تو مشرک ہے کیونکہ مذکورہ آیت میں کھلا ہو ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البتہ اہل علم پر لازم ہے کہ نا واقف لوگوں کو سمجھا ئیں کہ نذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئے ہونا چاہیئے ،چنانچہ واعظین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہتے ہیں ۔اور شیعہ فقہا عموما بیان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہر زندہ یا مردہ کے لئے چاہے وہ پیغمبر یا امام ہی ہو باطل ہے اور اگر سمجھ کے عمدا ایسا کرے تو مشرک ہے ۔

نذر صرف خدا کے لئے کریں اس کے مصرف کے تعین میں اختیار ہے ۔مثلا نذر کرے کہ خدا کے لئے کوئی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغیرہ میں لے جا کر قربانی کرے گا۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئے فلاں سیّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئی حرج نہيں ہے ،لیکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئے نذر کرے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد کے ساتھ قطعا شرک ہے ۔ ہر رسول ،فقیہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھنا اور بیان کرنا ہے ۔ "وما علی الرسول الا البلاغ"یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پہنچا دینے کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔سورہ نور آیت 54۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئی شخص یا اشخاص احکام دین کے سیکھنے اور سکھانے کی کوشش نہ کریں اور ہدایات کے مطابق اپنے مذہبی فرائض پر عمل نہ کریں تو ان کے اصل عقیدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوتا۔

میرا خیال ہے کہ اسی قدر جواب سے حقیقت ظاہر ہوگئی ہوگی اور اس کے بعد آپ حضرات شیعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط فہمی میں مبتلا نہ کریں گے ۔

شرک خفی

بہتر ہے کہ ہم لوگ پہلی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسری قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور وہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہا ہے اس قسم کے شرک اور شرک در عبادت کے درمیان جس کو ہم نے شرک جلی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے کہ بندہ سرک عبادت میں خدا کے لئے شریک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت میں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے بہکانے سے مقام ولایت کی صورت نگاہ میں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائے تو قطعا وہ عمل باطل اور شرک خفی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشریک کے انسان کے ذہن وفکر میں اور کسی کو دخل نہ ہونا چا ہیئے ورنہ شرک جلی میں داخل ہوجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مروی ہے کہ فرمایا "یقول اللہ تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیہ غیری فھو لہ کلہ وانا منہ برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص کوئی نیک عمل کرے اور اس میں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اسی کے لئے ہے اور میں اس (عمل یا عامل) سے بیزار ہوں اور میں تمام اغنیا سے زیادہ شک سے غنی ہوں۔نیز روایت میں ہے کہ ارشاد فرمایا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا حج کرے اور اس کا نظریہ یہ ہو کہ لوگ اس عمل پر اس کی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے اس عمل میں خدا کے لئے شریک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب بہ رحمۃ اللہ والدار الآخرۃ ثم ادخل فیہ رضا احد من الناس کان مشرکا"(یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائے آخرت کی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس میں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو وہ عامل مشرک ہو جائے گا)۔

شرک خفی کا دامن بہت وسیع ہے کیونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ بھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں میں سے ایک شرک در اسباب ہے جیسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر امید وخوف کی نظر رکھتے ہیں ، یہ بھی شرک ہے لیکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے کہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اشیا کی تربیت میں اثر انداز ہوتا ہے اگر اس اثر کو بغیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئے ہوئے خود آفتاب کی جانب سے سمجھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حکیم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہرگز شرک نہیں ہے ،بلکہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے کیونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق کی طرف توجہ کرنے کا پیش خیمہ ہے ؛جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے کہ آیات الہی پر غور کرو اس لئے کہ فکر ونظر خود خدائے تعالی کی طرف توجہ کا مقدمہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہر سبب کی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام کی طرف یہاں تک کہ کسی قسم کا کام کرنے والے کی اپنے شغل اور عمل کی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بنادیتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس کی نظر اس نیت سے ہو کہ "لا مؤثر فی الوجود الا اللہ"یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئی اور نہیں ہے تو کوئی قباحت نہیں ہے اور شرک نہ ہوگا ۔

شیعہ کسی پہلو سے مشرک نہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس سےمطلب واضح ہوگیا ہے اور ہم اصول شرک اور اس کے معانی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپنے بیانات سے نتیجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہم نے شرک جلی و خفی کے جو طریقے بیان کئے ہیں ان میں سے کس کے ماتحت آپ شیعوں کو مشرک کہتے ہیں ۔آیا کہاں اور کس پڑھے لکھے یا جاہل شیعہ سے آپ نے سنا ہے کہ وہ خدائے تعالی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہو؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پیش نظر رکھتا ہو ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھا ہے کہ اصول وفروع اور عقائد کے بارے میں ان بزرگان دین اور ائمہ طاہرین سے کوئی ایسی بات یا حکم منقول ہو جو شرک کے ان طریقوں سے ملتا ہو جو میں نے عرض کیئے ؟۔

اب رہا شرک خفی اور اس کے اقسام جیسے لوگوں کو دکھانے اور ان کو متاثر کرنے کے لئے کوئی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر امید قائم کریں تو یہ بات تنہا شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ شیعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہت سے عقل ومعرفت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی شیطان کے وسوسوں میں مبتلا ہو کر ریائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہوجاتے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت شیطان کرنے لگتے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چہ یہ طرز عمل شرک کے مفہوم میں آجاتا ہے لیکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے کیونکہ تھوڑی روحانی توجہ سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے ۔ پھر آپ کس پہلو سے شیعوں کو مشرک سمجھتے ہیں؟ اور عوام کو دھوکے میں ڈالتے ہیں ،جیسا کہ فی الحال آپ نے اشارہ کیا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض کیا کہ اگر آپ غور فرمائیے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ اماموں سے حاجت طلب کرنا اور ان کا وسیلہ اختیار کرنا شرک ہے چونکہ ہم کو انسانی واسطے کی ضرورت نہیں ہے لہذا جب بھی خدا کی طرف توجہ کریں گے نتیجہ حاصل ہوجائے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے کہ آپ کا ایسا منصف اور ہوشیار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپنے اسلاف کی عادتوں کے زیر اثر رہ کر ایسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سورہے تھے یا میری گزارشوں کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرنے کا اور مطالب کی تشریح کردینے کے بعد بھی آپ یہ بات دہرا رہے ہیں کہ اماموں سے حاجت چاہنا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کبھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔اگر خلق سے حاجت چاہنا اور ان سے مدد کی خواہش کرنا شرک ہے تو انبیاء کس لئے خلائق سے امداد مانگتے تھے ؟ بہتر ہو گا کہ آپ حضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے ۔

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلقیس لانا

ضرورت ہے کہ سورہ نمبر27(نمل)کی آیات نمبر 38 تا 40 پر توجہ فرمائیے جن میں ارشاد ہے "قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭"(یعنی جناب سلیمان نے حاضرین مجلس سے کہا کہ تم میں سے کون شخص بلقیس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس کے کہ وہ لوگ میرے سامنے اطاعت گزار بن کے آئیں ؟ جنا ت میں سے ایک دیو بولا کہ میں اس کا تخت لے آنے پر ایسا قادر اور امین ہوں کہ آپ کے دربار سے اٹھنے سے پہلے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص نے جس کو تھوڑا سا علم کتاب معلوم تھا (یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے تھے) کہا کہ میں آپ کی پلک جھپکنے سے قبل اس کو یہاں لے آؤں گا ۔جب سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس دیکھا تو کہا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل سے ہے ۔۔الی آخر) بدیہی چیز ہے کہ بلقیس کا اتنا بڑا تخت اتنی طویل مسافت سے پلک جھپکنے سے قبل سلیمان کے پاس لے آنا عاجز مخلوق کا کام نہیں ہے اور مسلّم ہے کہ ایک خلاف عادت امر ہے لیکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہتا ہے تخت منگوانے کی درخواست خدا سے نہیں کی بلکہ ایک عاجز مخلوق سے حاجت روائی اور امداد کی خواہش کی اور اہل دربار سے فرمائش کی کہ وہ عظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، لہذا خود جناب سلیمان کا عاجز بندوں سے یہ تقاضا کرنا کہ تم میں سے کون اپنی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلقیس کو اس کے آنے سے پہلے میرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے کہ مخلوق سے مطلق حاجت چاہنا شرک نہیں ہے ۔خدا نے دنیا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔شرک بھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس سے حاجت طلب کر رہا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمجھے تو اس سے مدد لینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگوں میں رواج ہے کہ ہمیشہ زید ،عمر وبکر کے دروازے پر جاکر بغیر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہوئے امداد کا تقاضا کرتے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈاکٹر کے دروازے پر جاکر کہے کہ ڈاکٹر صاحب میری فریاد کو پہنچئے ،بیماری مجھ کو مارے ڈالتی ہے تو کیا یہ مریض مشرک ہے؟۔

اگر کوئی دریا میں ڈوبنے والا ہو فریاد کرے کہ لوگو میری مدد کو پہنچو اور مجھ کو بچاؤ اور خدا کا نام نہ لے تو کیا وہ مشرک ہے ؟۔

اگر کسی ظالم نے کسی بے گناہ مظلوم کا پیچھا کیا اور اس نے وزیر اعظم کے در پر جا کے کہا جناب وزیر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔میں آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا کیونکہ مجھ کو سوا آپ کے اور کسی سے امید نہیں جو مجھ کو اس ظالم کے پنجے سے چھٹکارا دلائے تو کیا وہ مشرک ہے ؟۔

اگر کسی کے گھر کوئی چور جان یا مان یا عزت کے قصد سے داخل ہوا اور وہ کوٹھے پر چڑھ کے اپنے پڑوسیوں کو مدد کے لئے پکارے اور رسما کہے کہ لوگو میری مدد کو دوڑو اور اس چور سے بچاؤ لیکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ لے تو کیا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہوگا اور کوئی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلکہ جو لوگ مشرک کہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھر ان کی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہمی نہ پھیلائے ، بالعموم سارے شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو وہ قطعی مشرک ہے ۔ اور ہم لوگ اس سے بے بیزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آپ نے مصیبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہتے ہوئے سنا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ"یا علی اللہ ادرکنی" یا حسین اللہ ادرکنی" بلکہ دنیا چونکہ دار اسباب ہے کیونکہ "ابی اللہ ان یجری الامور الا باسبابھا" یعنی اللہ نے امور کو بغیر ان کے اسباب نافذ کرنے سے انکار کیا ہے (مترجم)۔ لہذا شیعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھتے ہیں اور انہیں حضرات کے ذریعے سے خدا تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے کیوں حاجت طلب نہیں کرتے کہ وسیلہ اور واسطہ کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دفیعہ میں ہماری مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے لیکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہم کو ہدایت کررہا ہے کہ خدا کی جلیل بارگاہ میں وسیلے کے ساتھ حاضر ہونا چاہئیے چنا نچہ سورہ نمبر 5 (مائدہ)آیت نمبر36 میں ارشاد ہوتا ہے "یا ایھاالذین آمنوا اتقواللہ وابتغوہ الیہ الوسیلۃ" (یعنی اے ایمان والو خدا سےڈرو اور اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لئے (اولیائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئے)۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذریعے ہیں

ہم شیعہ اہل بیت طاہرین علیھم السلام کو امور کے حل وعقد میں قادر مطلق نہیں سمجھتے بلکہ ان حضرات کو خط کے صالح بندے اور فیض خداوندی کاواسطہ جانتے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے ساتھ ہمارا توسل رسول اللہ کے حکم سے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان سے توسل اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور کہاں سے معلوم ہو ا کہ واسطے سے مراد آل محمد (ص) ہیں؟۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے کہ خطرات اور مہلکوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے میری عزت اور اہل بیت سے متوسل ہو۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ایسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہمارے سامنے بھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ کہاں سے معلوم ہو ا کہ وسیلے سے مراد عترت اور اہل بیت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء جیسے حافظ ابو نعیم اصفہانی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آیہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و اہل بیت رسول(ع)ہیں ۔چنانچہ علماء میں سے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم صفحہ 79 میں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو جناب معصومہ نے قضیہ فدک کے سلسلے میں مہاجرین انصار کے سامنے ارشاد فرمایا تھا چنانچہ خطبے کے شروع ہی میں ان مظلومہ نے مندرجہ ذیل عبارت کے ساتھ اس آیت کے معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے "واحمداللہ الذی بعظمتہ ونورہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "(یعنی میں حمد کرتی ہوں اس خدا کی جس کی عظمت اور نور کی وجہ سے آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے اس کی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہم ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر۔

 

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تشیع کے اندر مختلف فرقے
نعت رسول پاک
اسراف : مسلم معاشرے کا ناسور
تمباکو نوشی کے احکام
تا روں بھري رات
تلمود ( یہودیوں کی وحشتناک کتاب)
امام خمینی کی شخصیت کو خراج عقیدت
فرقۂ سلفیہ پر ایك نظر
معاشرے کے ساتھ رہیے
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق

 
user comment