اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

کس نے چھلنی کیا برچھی سے جگر زینب(س) کا

زینب اس باعظمت خاتون کانام هے جن کا طفولیت فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا هے جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا هوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص)نے انھیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا عصمت کبریٰ فاطمہ زہرا نے انھیں فضیلتوں اور کمالات کی ایسی گھٹی پلائی جس سے زینب کی تطهیر و تزکیہ نفس کا سامان فراہم هوگیا اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن هی سے اپنی شفقت آمیز مرافقت کا شرف بخشا یہ تھی زینب کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختا بنیادیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت تکامل انسانی کی ایک مثال بن گیا. 

وہ زینب جو قرة عین المرتضیٰ جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈک هو جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کانور هو وہ زینب جو علی مرتضیٰ کی قربانیوں کو منزل تکمیل تک پہنچانے والی هو وہ زینب جو”عقیلة القریش“هو جو قریش کی عقیلہ و فاضلہ هو وہ زینب جو امین اللہ هو اللہ کی امانتدار هو گھر لٹ جائے سر سے چادر چھن جائے بے گھر هو جائے لیکن اللہ کی امانت اسلام پر حرف نہ آئے، قرآن پر حرف نہ آئے،انسانیت بچ جائے، خدا کی تسبیح و تہلیل کی امانتداری میں خیانتداری نہ پیدا هو، وہ هے زینب جو ”آیة من آیات اللہ“آیات خدا میں ہم اہلبیت خدا هیں ہم اللہ کی نشانیوں میں سے ہم اللہ کی ایک نشانی هیں وہ زینب جو مظلومہ وحیدہ ہے جو مظلوموں میں سے ایک مظلومہ ”ملیکة الدنیا“وہ زینب جو جہان کی ملکہ هے جو ہماری عبادتوں کی ضامن هے ۔زینب اس بلند پائے کی بی بی کا نام جس کا احترام وہ کرتا جس کا احترام انبیاء ما سبق نے کیا هے جس کو جبرائیل نے لوریاں سنائی هیں کیونکہ یہ بی بی زینب ثانی زہرا سلام اللہ علیہا هے اور زہرا کا حترام وہ کرتا تھا جس کا احترام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرتے تھے ۔جس رحمة للعالمین کے احترام میں ایک لاکھ انبیاء کھڑے هوتے هو ئے نظر آئے عیسیٰ نے انجیل میں نام محمد(ص) دیکھا احترام رحمة للعالمین میں کھڑے هوگئے موسیٰ نے توریت میں دیکھا ایک بار اس نبی کے اوپر درود پڑھنے لگے تو مددکے لئے پکارا احترام محمد(ص) میں سفینہ ساحل پہ جا کے کھڑاهوگیا (یعنی رک گیا ) جس رحمت للعالمین کے احترام میں ایک کم ایک لا کھ چوبیس ہزار انبیا ء کا، کارواں کھڑا هو جائے تو وہ رحمت للعالمین بھی تو کسی کے احترام میں کھڑا هوتا هو گا اب تاریخ بتاتی هے کہ جب بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا محمد (ص) کے پاس آئیں محمد مصطفیٰ کھڑے هو گئے تو اب مجھے بتائے کہ استاد کھڑا هو اور شاگرد بیٹھا رهے سردار کھڑا هو سپاهی بیٹھے رهیں تو اب بات واضح هو گئی کہ محمد(ص)اکیلے نهیں فاطمہ(س) کے احترام میں کھڑے هوئے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا کارواں احترام فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا میں کھڑا هوا اب زینب هیں ثانی زہرا اگران کے تابوت و ان کے حرم کے سامنے احترام میں اگر شیعہ کھڑا هو جائے تو سمجھ لینا کہ وہ سنت پیغمبر ادا کررہا هے ۔

کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس هوگی اس کا علم و تقویٰ کتنا بلند و بالا هوگا یهی وجہ هے کہ روایت کے جملہ هیں کہ آپ عالمہ غیر معلمہ هیں آپ جب تک مدینہ میں رهیں آپ کے علم کا چرچہ هوتا رہا اور جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی(ع) سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی هیں لیکن ہماری عورتوں نے یہ خواہش ظاہر کی هے کہ اگر هو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب(س) سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ جائیں ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع هو گئیں اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معارف الٰهیہ سے مستفیض فرمائیں حضرت زینب(س) نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں هی خواتین کی کثیر تعداد علوم الٰهی سے فیضیاب هونے لگی آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں اور روز بہ روز تفسیر قرآن کے درس میں خواتین کی تعداد میں کثرت هو رهی تھی درس تفسیر قرآن عروج پر پہنچ رہا تھا اور ساتھ هی کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مردو زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں هو رهی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر هو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں هو رهی هے جس کا باپ ”راسخون فی العلم “ جس کا باپ باب شہر علم هے جس کا باپ استاد ملائکہ هے ۔

یہ تھی عظمت صدیقہ طاہرہ زینب کبریٰ ،لیکن، وہ و قت بھی قریب آیا کہ جب زمانہ نے رخ موڑ لیا ،جس در سے لوگ نجات حاصل کرتے تھے اسی در کو مسمار  کرنے کی تیاریاں هونے لگیں حسین مظلوم(ع) نے ایک چھوٹا سا کارواں بنایا اوربحکم الٰهی نانا کے مدینہ کو خیر باد کہہ کر راہ کربلا اختیار کیا ایک روز راہ میں زینب نے دیکھا کہ دنیائے انسانیت کو منزل سعادت پہونچانے کا ذمہ دار امام محراب عبادت میں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کرنے میں مصروف هے بامعرفت بہن بھائی کے قریب بیٹھ گئی جب امام اپنے وظیفہ عبادت سے فارغ هوئے تو زینب(س) نے کہا بھیا میں نے آج شب میں ایک صدائے غیبی کو سنا هے گویا کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ 

الا یا عین فاحتفظی 

علی قوم تسوم قہم امنایا۔ 

ومن یبکیٰ اعلیٰ الشہد اء بعدی 

بمقدار الیٰ انجاز وعدی 

ان اشعار کا ترجمہ اردو زبان کے منظومہ انداز میں پیش خدمت هے۔ 

اشکبار دل حزیں هے ، میرا ساتھی یہاں کوئی نهیں هے 

میرا عہد وفا پورا هوا هے ،مصیبت میں مصیبت آفریں هے 

شهیدوں پر نهیں روئے گا کوئی،یهی احساس دل میں آتشیں هے 

غم و کرب وبلا اور درد پیہم ، یہ سب اور ایک جسم نازنیں هے 

زینب نے جب اپنے بھائی کو صحرائے کربلا میں تڑپتا دیکھا تو کہا ہائے میرے نانا محمد(ص) ہائے میرے بابا علی(ع)ہائے میرے چچا جعفر ہائے حمزہ سید الشہداء دیکھو میراغریب حسین(ع) صحرائے کربلا پر خون میں لت پت پڑا هے کاش آج آسمان گرجاتا یہ منظر زینب نہ دیکھتی لیکن ایک بار راوی کہتا هے کہ زینب نے کلیجے کو سنبھالا اور اس کے بعد بھائی کا کٹا هوا گلا چوم کر صبرو رضا کا دامن تھامے هو ئے خیام کی طرف چلیں زینب نے اتنی عظیم مصیبت پر صبرو استقامت اختیار کر کے عظمت انسانیت کو معراج بخشی اور پیام حسینی کی ہدایت نواز تاثیر سے دنیائے بشریت کو حیات جاویداں کا راستہ دکھایا۔ یهی وجہ هے کہ آج تک ہر صاحب بصیرت انسان زینب کے جذبہ استقامت کے سامنے سرِ ادب خم کئے هوئے هے کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ نے مصیبت دائم کی گھڑی میں صبرو تحمل کے ایسے نمونے پیش کئے جو آج تک ہر اہل درد کے لئے مثال بن چکے هیں حضرت علی علیہ السلام کی باعظمت بیٹی نے اپنی ہر مصیبت میں رضائے الٰهی کو مد نظر رکھا اور اپنے صبرکا اجر بارگاہ خدا سے طلب کیا۔ یهی وجہ هے کہ بھائی کی لاش پر آکر خدا کے حضور میں قربانی آل محمد علیہم السلام کی قبولیت کی دعا کرنا زینب کے مقام تقویٰ کا بے مثال نمونہ سمجھا جاتا هے اور حقیقت بھی یهی هے کہ اتنے عظیم بھائی کی لاش پر بہنیں عموماً اپنے حواس کھو بیٹھتی هیں لیکن زینب کے اخلاص صبر کی عظمتیں نمایاں هوئیں اور غم و اندوہ کی اس حالت میں رضائے الٰهی کے حصول کی دعائیں مانگتی رهیں عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ نے کربلا کی غم واندوہ فضاء میں عظمت و کردار کے جو نمونے پیش کئے وہ نہ فقط یہ کہ پوری کائنات کے لئے معیار عمل بنے بلکہ شہادت امام کے عظیم مقصد کی تکمیل بھی هوئی اور رہتی دنیا تک فطرت کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم هو گئی حق و باطل کی پہچان کے راستے واضح هوگئے اور شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کے پاکیزہ اسرار بھی نمایاں هوگئے۔ 

سیدہ زینب(س) نے اپنے پر جوش خطاب میں اموی خاندان کی بربریت اور ارباب اقتدار کی طاغوتیت کو بے نقاب کردیا اور لوگوں کو ان کے جرائم کے خلاف قیام کرنے پر آمادہ کیا ۔ 

اے زینب کبریٰ تیرے خطبوں کے ذریعہ 

شبیر کا پیغام زمانہ نے سنا هے 

دیتے هیں جو ہر روز مسلمان آذانیں 

در اصل تیرے درد بھرے دل کی صدا هے 

شاعر نے حضرت زینب(س) کے خطبوں کی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی هے کہ: 

ایمان کی منزل کف پا چوم رهی هے 

ملت کی جبیں نقش وفا چوم رهی هے 

اے بنت علی عارفہ لہجہ قرآں 

خطبوں کو تیرے وحی خدا چوم رهی هے 

ایک روایت بتاتی هے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ہند کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اے ہند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے هیں انھیں دیکھ کر دل دہل اٹھتا هے آؤ چلیں وهیں دل بہلائیں۔ ہند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سر تا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کرکے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پہچان لیا اور اپنی بہن ام کلثوم سے کہا بہن کیا آپ نے اس عورت کو پہچان لیا هے؟ ام کلثوم نے جواب دیا کہ نهیں میں نے اسے نهیں پہچانا، زینب نے فرمایا یہ ہماری کنیر ہند بنت عبداللہ هے جو ہمارے گھر میں کام کاج کرتی تھی، زینب(س) کی بات سن کر ام کلثوم(س) نے اپنا سر نیچے کر لیا اور اسی طرح جناب زینب(س) نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تاکہ ہند ان کی طرف متوجہ نہ هو لیکن ہند ان دونوں بیبیوں کو غور سے دیکھ رهی تھی اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لئے هیں کیا کوئی خاص بات هے ؟ جناب زینب(س) نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رهیں۔ ہند نے پھر پوچھا بہن آپ کس علاقے سے هیں ؟ 

اب زینب(س) خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا: ہم مدینہ کے رہنے والے هیں ،ہند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑ دی اور احترام سے کھڑی هو گئی اور پوچھنے لگی بہن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی هیں ؟جناب زینب(س) نے فرمایا: آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی هیں؟ ہند نے کہا: میں اپنے آقا امام علی(ع) کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاہتی هوں، علی(ع) کے گھر انے کانام لےکر ہندکی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری هو گئے اور خود کہنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وہاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بہت محبت هے۔ زینب(س) نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی هے اور کن کے متعلق دریافت کرنا چاہتی هے ؟ ہند نے کہا کہ امام علی(ع) کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاہتی هوں میں آقاحسین(ع) اور اولاد حسین (ع)اور علی (ع)کی پاکیزہ بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاہتی هوں۔ خاص طور پر میں اپنی آقا زادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی هوں اور اسی طرح فاطمہ زہرا(س) کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاہتی هوں۔ زینب(س) نے ہند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا، تونے جو کچھ پوچھا هے میں تفصیل سے تجھے بتاتی هوں تو نے علی(ع)کے گھر کے متعلق پوچھا هے تو ہم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے، تو حسین(ع)کے متعلق دریافت کرتی هے تو یہ دیکھو تمہارے آقا حسین(ع) کا سر تمہارے شوہر یزید کے سامنے رکھا هے۔ تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا هے۔ 

تو ہم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے هیں۔ تو نے اولاد حسین (ع)کے متعلق پوچھا هے تو ان کے سب جوان مارے گئے هیں۔ صرف ایک علی ابن الحسین(ع) باقی هیں۔ جو تیرے سامنے هیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نهیں سکتے هیں اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا هے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب هوں اور یہ میری بہن ام کلثوم هے۔ جناب زینب کا دردناک جواب سن کر ہند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کہنے لگی ہائے میری آقا زادی یہ کیا هو گیا هے۔ ہائے میرے مولا کا حال کیسا هے۔ ہائے میرے مظلوم آقا حسین! کاش میں اس سے پہلے اندھی هو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی، روتے روتے ہند بے قابو هوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بند خون خون هو گیا اور وہ گر یہ کر کے بے هوش هو گئی جب هوش میں آئی تو جناب زینب اس کی طرف متوجہ هو کر فرمانے لگیں: اے ہند تم کھڑی هو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمہارا شوہر یزید، بڑا ظالم شخص هے ممکن هے تمهیں اذیت و آزار پهونچائے۔ ہم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ہم یہ نهیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے تمہارا سکون تباہ هو جائے ہند نے جواب دیا،کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کوئی چیز عزیز نهیں هے۔ میری زندگی کا سکون ختم هو چکا هے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے هوئے گزاروں گی ۔

نوحہ

بے کفن شبیر ہے تو بے ردا ہمشیر ہے

فاطمہ تیرے جگر پاروں کی یہ تقدیر ہے

اک نشیبی سی جگہ بیٹے کے استقبال کو

گود پھیلائے ہوئے یہ فاطمہ دلگیر ہے

جس کو ماری ہے سناں کچھ ہے خبر وہ کون ہے

کلمہ گو تیرے نبی کی ہو بہو تصویر ہے

قاری قرآں چلے قرآں کو نیزے پر لیے

ننگے سر محمل پہ جبکہ وارثِ تطہیر ہے

دے دیئے عون و محمد،اصغر و اکبر سبھی

کیوں نہ ہو بنتِ نبی کے شیر کی تاثیر ہے

جو اُٹھاتا ہے غم شاہِ شہیداں میں قلم

نام نقوی دفتر شبیر میں تحریر ہے

نوحہ

بے ردا شہر کی گلیوں سے گذر زینب کا

پشتِ عابد پہ ہے تحریر سفر زینب کا

گرپڑا خاک پہ عباس کا سر مقتل میں

نوک نیزہ سے نہ دیکھا گیا سر زینب کا

خون شبیر کی ہر بوند کا مقروض بشر

خون شبیر ہے مقروض مگر زینب کا

رات لگتی ہے مجھے بنتِ پیمبر کی ردا

چاند لگتا ہے مجھے دیدۂ تر زینب کا

یہ الگ بات کہ محفوظ رہا دین رسول

یہ الگ بات کہ لوٹا گیا گھر زینب کا

لاش اکبر پہ حسین ابن علی کہتے تھے

کس نے چھلنی کیا برچھی سے جگر زینب کا

جس جگہ شامِ غریباں کی ہو مجلس برپا

ذکر ہوتا ہے وہاں تا بہ سحر زینب کا


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ
چہل احادیث
تاریخ آغازِ طِب

 
user comment