اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

کیا دنیا کا ظلم سے بھر جانا امام مہدی عجل اللہ کے ظہور کا سبب بنے گا؟

اس مطلب کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا لازمی ہے:

الف): اس بات میں کسی قسم کا شک و شبھہ نہیں ہے کہ انسانوں کی تقدیر اور ان کے اختیاری اعمال کے درمیان گہرا رابطہ ہے۔ قرآن کریم بھی ہر شخص کے مستقبل کو اس کے اختیار میں جانتاہے:(وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ) ( نجم،آیہ ۳۹.) اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔اور معاشرے کی تقدیر کو بھی لوگوں کے اعمال و رفتار کے مرہون منت جانتا ہے (... اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ۔..) ( رعد،آیہ۱۱.) اللہ کسی قوم کا حال یقیناًاس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے،یعنی ایک معاشرے کی اچھی یا بری تقدیر اس معاشرے کے لوگوں کے اختیار میں ہے ۔ اسلام چاہتاہے کہ انسان ، سماجی مسائل کے بارے میں خاموش نہ رہے اور ظلم و ستم کے مقابلے اور عدل کے قیام کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس راہ میں جنگ و جدل کرے:(اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا ۔ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ)(الَّذِِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ...)( حج، آیہ ۳۹۔۴۰)جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناًقدرت رکھتا ہے۔*یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا پروردگار اللہ ہے ...۔اور اس بارے میں کسی قسم کی سستی کو قبول نہیں کرتا اور حساب لیتا ہے:( وَمَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ...)( نساء،آیہ۷۵.) (آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے ...۔

اسی بنا پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دین کے واجبات میں سے شمار کیا گیاہے اور خداوند متعال نے ان دو عظیم فرائض کی انجام دہی کے لئے حکم دیا ہے:( وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ...)( آل عمران، آیہ۱۰۴.) اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے ...۔

ب): کلی طور پر دین کا کوئی ایک حکم اس کے دوسرے احکام کے خلاف نہیں ہوتا کیونکہ اگر خلاف ہو تو یہ چیز اس دین کے باطل ہونے کی علامت ہے، لہذا قرآن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اختلاف نہیں پایا جاتا ۔اسی لیے ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالی ، متعدد آیات میں لوگوں کوتوبہ کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا حکم دے اور دوسری جگہ پر خدا کے وعدہ (حجت خدا کے ظہور) کے متحقق ہونے کیلئے گناہ کا حکم دے! جس دین میں توحید اورایک خدا کی عبادت کا حکم دیا گیاہے اسی دین میں شرک کو قبول کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے۔

ج): زمین کے ظلم و ستم سے پُر ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ سب افراد کو ظالم و فاسدہونا چاہئے اوران سب کے اعمال اور کردار ایک دوسرے پر ظلم و ستم اور معاشرے میں فساد پرمشتمل ہوں۔بلکہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ظالم ہوں اور ان کا ظلم زمین کے بہت ساری جگہوں پر پھیلا ہوا ہو ۔ مثال کے طور پر اگر ایک کمرا سیگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تو کیاکہاجاسکتا ہے اس کمرے میں موجود سب افراد سیگریٹ پیتے ہیں؟ جبکہ ظلم کا عام ہونا ایک نسبی اور کنایی امر ہے اور اس سے مراد ظلم کا اس طرح عام ہونا ہے کہ عدل و انصاف نظر نہیں آتا نہ یہ کہ بالکل عدل کا وجود نہ ہو۔

د): اس بات میں بھی شک نہیں کرنا چاہئے کہ امام زمانہ (عج) کا قیام ، مددگاروں اورانصار کے بغیر واقع نہیں ہوگا۔ آیات اور احادیث میں بھی انصار کے موجود ہونے کی طرف اشارہ کیا گیاہے، ساتھیوں اور اصحاب کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان انقلاب کے اہداف اور پروگراموں کے نفاذ کے لئے حرکت کرنا ہے۔

امام کے ساتھی اورانصار ، انقلاب کے دوران لوگوں کو انقلاب سے آگاہ اور ہمراہ کرتے ہیں۔اور مختلف مواقع پر جان نثاری کرتے ہیں اور انقلاب کے بعد کسی قسم کی کوشش اور جدوجہد سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اس قسم کے افراد اس وقت کامیاب ہوتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو انقلاب اور اپنے رہبر کے رنگ میں ڈھال لیاہو،تاکہ لوگ انقلاب کے جلووں کو ان کے اعمال اور کردار میں مشاہد کریں۔

کیا گناہ اور ظلم کے راستے پر حرکت لوگوں کو امام زمانہ (عج) کی طرف لے کر جاتی ہے؟ اسی بنا پراللہ تعالی نے ایمان اور عمل صالح کو بیان کیا ہے : (ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھا ہے کہ زمین کے وارث نیک اور صالح لوگ ہوں گے ) ( انبیاء،آیہ۱۰۵.) اور ایک اورجگہ پرارشاد ہوتا ہے:'تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجالائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کررکھاہے کہ انہیں زمین کی خلافت عطا کرے گا...۔) ( نور،آیہ۵۵.) انقلاب مہدی علیہ السلام کے وجودپانے کی شرط یہ ہے کہ لوگ مؤمن اور نیک اعمال کرنے والے ہوں تاکہ انقلاب محقق ہو۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:( کونوا دعاۃ الناس بغیر ألسنتکم)(بحار الانوار،ج67،ص303) لوگوں کو اپنی زبان کے بغیر (اپنے عمل سے)دعوت دو۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:'ہمارے لئے زینت کاباعث بنو نہ ننگ و عار کا۔‘‘(بحار الانوار،ج65،ص151)کیا گناہ اور ظلم ، مہدی (ع) کو دعوت دینا ہے اور ائمہ علیھم السلام کے لئے زینت اور فخر کا باعث ہے؟

ھ)۔ انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عبودیت اور بندگی کے ذریعے کمال کی طرف حرکت کرے اور عبودیت اور بندگی اسی وقت ممکن ہے کہ جب انسان اللہ تعالی کی جانب سے مقرر کی ہوئیں انفرادی اور سماجی ذمہ داریوں پر عمل کرے اللہ تعالی سورہ والعصر میں فرماتا ہے:بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (وَالْعَصْرِ)( اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ) (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۔ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر)بنام خدائے رحمن و رحیم* قسم ہے زمانے کی۔ *انسان یقیناًخسارے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔‘‘ ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۔ ..)(تحریم،آیت 8) اے ایمان والو تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو، توبہ خالص۔"

مختصر یہ کہ خداوند متعال ، انسانوں کو اپنی اورمعاشرے کی تقدیر کو معین کرنے میں مؤثر جانتاہے اورا س سے اصلاح کی خاطر قیام کرنے کا مطالبہ کرتاہے اور اس نظر ئیے کے تحت، ظہور کا وعدہ بیان کرتاہے۔

بنابرین امام زمانہ (عج) کے انتظار کاصحیح معنی، نہ خاموشی ہے اور نہ ہی ظلم شکار ہونا ہے اور نہ ہی ظلم کے عام ہونے میں مدد دیناہے، بلکہ وہ ظہور کے لئے دعا کرے اور اس راہ میں اپنی تمام ترکوششوں کو بروئے کار لائے اور اگر اس راہ میں، حکومت کی تشکیل کی ضرورت محسوس کرتاہے تو حکومت کی تشکیل کے لئے اقدامات کرے ،تو یہ فطرتی بات ہے کہ ظالم اور فاسد لوگ ہی آرام و سکون سے نہیں بیٹھیں گے اور مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔لہذا ظلم کا محاذ بھی اپنے ظلم کی انتہا کرتے ہو ئے حرکت کرے گا اورحق کا محاذ ہی اپنی کوششوں اورجدوجہد کے عروج پرہوگا اور یہی وہ زمانہ ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے حق طلب انسانوں کی مدد کرے گا اور امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے ساتھ ظالموں کا قطع قمع کرے گا۔

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment