اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

بسم اللہ سے پہلے اعوذ باللہ کی تلاوت کیوں کی جاتی ہے ؟

اسلام ميں ہر چيز کے لئے ، خاص کر قرآن مجيد جيسى  عظيم کتاب سے استفادہ کرنے کے لئے خود قرآن مجيد ميں اس کى تلاوت اور اس کى آيات سے  استفادہ کرنے کے لئے کچھـ آداب  و شرئط بيان کئے ہيں جو حسب ذيل ہيں :

1ـ قرآن مجيد کے خطوط کوباطہارت اور با وضو چھونا چاہئےـ قرآن مجيد اس سلسلہ ميں ارشاد فرماتا ہے;" اس کو پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ کوئى چھو بھى نہيں سکتا ہے" [1]

يہ تعبير، ممکن ہے کہ ظاہري پاکيزگي کي طرف اشراہ ہو، اور ممکن ہے اس مطلب کي طرف بھي اشارہ ہو کہ ان آيات کے مطالب اور محتويٰ کو سمجھنا صرف ان لوگوں کے لئے ممکن ہے کہ جو اخلاقي برائيوں سے پاک و منزہ ہوںيعنى، انسان کو ان برے صفات سے پاک ہونا چاہئے جو اس کي حقيقت بين آنکھوں پر پردہ ڈالتي ہيں تا کہ جمال حق اور قرآن مجيد کے حقائق کا مشاہدہ کرنے سے محروم نہ ہو جائے ـ

2ـ قرآن مجيد کي " ترتيل" کي صورت ميں تلاوت کي جاني چاہئے، يعني رک، رک کر اور غور و فکر کے ساتھـ ـ [2]

3ـ قرآن مجيد کي تلاوت کو شروع کرتے وقت شيطان رجيم سے خداوند متعال کي پناہ مانگني چاہئے، چنانچہ ہم نے مذکورہ آيات ميں پڑھا ہے کہ: " لہذا جب آپ قرآن پڑھيں تو شيطان رجيم کے مقابلہ کے لئے اللہ سے پناہ طلب کريں[3] ـ

ايک روايت ميں ملتا ہے کہ امام صادق عليہ السلام نے اس سوال کے جواب ميں کہ ہم کيسے اس حکم پر عمل کريں گے؟ او رکيسے کہيں؟ فرمايا کہ يوں کہو: " استعيذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم"

ايک دوسري روايت ميں پڑھتے ہيں کہ امام (ع) نے سورہ حمد کي تلاوت کے دوران فرمايا: " اعوذ باللہ السميع العليم من الشيطان الرجيم و اعوذ باللہ ان يحضرون" يعني: " ميں شيطان رجيم سے خداوند شنوا و دانا کي پناہ طلب کرتا ہوں اور ميرے پاس حاضر ہو جانے سے اس کي پناہ چاہتا ہوں"

ليکن يہ کہ قرآن مجيد کي تلاوت کے دوران، اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم" کو " بسم اللہ الرحمن الرحيم" سے پہلے پڑھنا اس وجہ سے ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحيم ، قرآن مجيد کا جزو ہے، اسلئے متن قرآن ميں داخل ہونے سے پہلے اعوذ باللہ کو پڑھنا چاہئے ـ

اس کے علاوہ ايک روايت ميں آيا ہے کہ جبريل امين (ع) نے جو پہلى چيز پيغمبر اکرم صلي اللہ کو قرآن مجيد کے بارے ميں بتائے وہ يہ تھي: اے محمد! کہدو: استعيذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم اس کے بعد کہدو: "بسم اللہ الرحمن الرحيم * اقرا باسم ربک الذي خلق[4] "

البتہ يہ چناہ چاہنا صرف لفظ وبات تک محدود نہيں ہونا چاہئے بلکہ انسان کي روح و جان کي گہرائيوں ميں اثر کرنا چاہئے، اس طرح کہ انسان قرآن مجيد کي تلاوت کرتے وقت شيطان صفتون سے دور رہے اور الٰہي صفتوں کے نزديک ہو جائے تا کہ کلام حق کو سمجھنے کي راہ ميں موجود موانع اس کى فکرسے دور ہوجائيں اور حقيقت کے دل ربا جمال کو صحيح طور پر ديکھـ سکے ـ [5]

اس بناپر قرآن مجيد کي تلاوت کے آغاز پر شيطان سے خدا کى طرف پناہ چاہنا ضرورى ہے اور پورى تلاوت کے دوران يہ حالت جاري رہنى چاہئے، اگر چہ زبان پر نہ ہو ـ

[1]  واقعہ 79، لا يمسہ الا المطہرون

[2]  مزمل، 4، و رتل القرآن ترتيلا

[3]  نحل 98، فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشيطان الرجيم

[4]  مستدرک الوسائل ج 4، ص 265ـ4 الشيخ ابو الفتوح الرازي في تفسيرہ عن عبداللہ ابن عباس قال انہ نزلت او اول ما قالہ جبريل لرسول اللہ ص في امر القرآن ان قال لہ يا محمد قل استعيذ يالسميع العليم من الشيطان الرجيم ثم قال بسم اللہ الرحمن الرحيم اقرا باسم ربک الذي خلق

[5]  تفسير نمونہ، ج 11، ص: 401 و۴۰۲

 

 


source : http://www.ahl-ul-bait.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟
کیا تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں ؟
کو نسی چیزیں دعا کے اﷲ تک پہنچنے میں مانع ہوتی ...
صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
جنت ماں کے قدموں تلے / ولادت کے دوران مرنے والی ...
کیا شب قدر متعدد ھیں ؟ اور کیا دن بھی شب قدرکا حصھ ...
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
بدعت كیا ہے اور كن چیزوں كو بدعت میں شمار كیا جاتا ...

 
user comment