اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ:
ذیل کی تصاویر ملکہ سبا "بلقیس بنت شراحیل" زوجہ "سلیمان بن داؤد (ع)" سے منسوب محل کے کھنڈرات کی تصاویر ہيں۔ یہ کھنڈرات یمن میں واقع ہیں۔
بلقیس بنت شراحیل دسویں صدی قبل از مسیح یمن کی فرمانروا تھیں اور شہر سبا ان کا دارالحکومت تھا۔ جب حضرت سلیمان (ع) کو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کے ملک کے عوام سورج کے پجاری ہیں تو انھوں نے انہيں اسلام اور یکتا پرستی کی دعوت دی جس کے جواب میں بلقیس نے بڑے بڑے تحائف جناب سلیمان (ع) کے لئے بھجوا دیئے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے تحائف کو مسترد کیا اور اور فرمایا:
"فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ"۔ (سورہ نمل آیات 36 و 37)
ترجمہ: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس (دولت) سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفے سے فرحاں (اور) نازاں ہو ٭ تو ان کے پاس (تحفے سمیت) واپس پلٹ جا سو ہم ان پر ایسے لشکروں کے ساتھ آئیں گے جن سے انہیں مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی اور ہم انہیں وہاں سے بےعزت کر کے اس حال میں نکالیں گے کہ وہ رسوا ہوں گے۔
ملکہ سبا بہت سمجھدار حکمران تھیں چنانچہ انھوں نے حکمت اور تدبر سے حضرت سلیمان نبی (ع) کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور ان پر ایمان لائیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض گذار ہوئیں:
"رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" (سورہ نمل آیت 44)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان (علیہ السلام) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
بعض تاریخی متون میں منقول ہے کہ بلقیس اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت سلیمان (ع) سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور کئی برسوں تک ان کے ساتھ مشترکہ زندگی گذار دی۔
اور اب ان کے محل کے کھنڈرات درس عبرت ہیں دیکھنے والوں کے لئے کہ وہ جان لیں کہ ہر شخص اور ہر چیز ـ چاہے جس قدر بھی شاندار اور صاحب جاہ و حشمت ہو ـ فانی ہے اور صرف خداوند باقی ہے جو باقی ہے اور باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔
/110
source : http://www.abna.ir