اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

مولی کے لغوی معنی میں غور و فکر

لفظ مولی کے کتنے معانی ہیں اور حدیث غدیر میں ان میں سے کس معنی کو مراد لیا گیا ہے ؟

علمائے لغت نے ایک طرف تو لفظ مولی کے معنی ”سید“ (آزاد کرنے والا جومالک نہ ہو) بیان کئے ہیں اوردوسری طرف لفظ مولی کے معنی امیر اور سلطان ذکر کئے ہیں اور تیسری طرف اجماع ہے کہ ولی اور مولی کے ایک ہی معنی ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک امر اولویت سے جدا نہیں ہیں کیونکہ امیر کو معاشرہ میں نظم وضبط قائم کرنے، افراد کی تربیت کے طریقوں کوجاری کرنے اورایک دوسرے پر تجاوز کرنے سے منع کرنے کے اعتبار سے لوگوں پر اولویت حاصل ہے ۔

اسی طرح سید کو بھی اپنے ماتحت افراد کے کاموںمیں اولویت حاصل ہوتی ہے اور ان دونوںچیزوں (امارت اور سیادت) کا دائرہ وسعت کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے ، مثلا ولایت شہر کا دائرہ کسی ادارہ کی ریاست سے وسیع ہے اور ضلعوں کی ولایت کا دائرہ ،شہر کی مسئولیت کے اعتبار سے وسیع ہے اور ان سب سے وسیع دائرہ سلطان او ربادشاہ کا ہے ۔ اور ان سب سے وسیع دائرہ پیغمبر کی ولایت کا ہے جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور خلیفہ کی ولایت کا دائرہ بھی وسیع ہے جو امور کی تدبیر اور دین کے شعائر کی مدد کرنے میں انبیاء کا جانشین ہوتا ہے ۔

اور اگر ہم ان کے سامنے لفظ مولی کو ”اولی بہ شیء“ (کسی چیز سے زیادہ سزاوار)کے معنی میں نظر انداز کردیں تو اس لفظ کو سید و سردار اور میر کے معنی میں بیان ہونے اور یہ کہ حدیث میں لفظ مولی کے معنی عالی ترین اور وسیع ترین کے معنی سے مطابقت رکھتے ہیں، نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ اگر چہ لفظ مولی کے ۲۷ معنی ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے کوئی ایک معنی بھی حدیث میں مراد نہیں لئے گئے ہیں اور صرف انہی دو معنی سے مطابقت ملتی ہے ، وہ ۲۷ معنی مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ رب (پروردگار) ۔ ۲۔ چچا ۔ ۳۔ چچا زاد بھائی ۔ ۴۔ پوتا (اپنے بیٹے کا بیٹا) ۔ ۵۔ بھانجا ۔ ۶۔ غلام کو آزاد کرنے والا ۔ ۷۔ آزاد شدہ غلام ۔ ۸۔ بند ہ ۔ ۹۔ مالک (۱) ۔ ۱۰۔ پیروی کرنے والا ۔ ۱۱۔ نعمت لینے والا ۔ ۱۲۔ شریک۔ ۱۳۔ ہم قسم۔ ۱۴۔ ہمراہ ۔ ۱۵۔ پڑوسی ۔ ۱۶۔ مہمان۔ ۱۷۔ داماد ۔ ۱۸۔ نزدیک ۔ ۱۹۔ ولی نعمت ۔ ۲۰۔ ہم پیمان ۔ ۲۱۔ ولی ۔ ۲۲۔ سزاوار۔ ۲۳۔ سید جو مالک نہ ہو ا ور غلام کو آزاد کرنے والا نہ ہو ۔ ۲۴۔ محب ۔ ۲۵۔ یاور و مددگار۔ ۲۶۔ امور میں تصرف کرنے والا ۔ ۲۷۔ کاموں کا متولی ۔

معنی اول : اس معنی کا ارادہ کرنے والا کافر ہے کیونکہ خداوند عالم کے علاوہ اس دنیا میں کوئی بھی پروردگار نہیں ہے (اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ہرگز یہ نہیں فرمایا کہ جس کا میں رب اور پروردگار ہوں اس کے یہ علی رب اور پروردگار ہیں) ۔

دوسرے، تیسرے سے لیکر چودہویں معنی تک : ان میں سے کسی ایک معنی کو بھی مراد لینے سے جھوٹ لازم آتا ہے ۔لیکن صاحب، پڑوسی ، مہمان، داماد اور نزدیک مراد لینا چاہے وہ نزدیکی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ان میں سے کوئی ایک بھی معنی ان کے ارادہ کے سبک ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں ہیں، خصوصا اس عظیم اجتماع اور تپتے ہوئے صحرا میں پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ جو لوگ آگے چلے گئے ہیں وہ واپس آئیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیاجائے وہ بھی ایسی جگہ جہاں پر منزل نہیں کی جاتی اور وہاں پر آرام و استراحت کے وسائل بھی نہیں تھے اور بالفرض اگر ان میں سے کسی ایک معنی کو مراد لے لیا جائے تو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے لئے وہ کونسی فضیلت تھی جس کے لئے ”بخ بخ“ کہہ کر مبارک باد پیش کی گئی ؟

منعم: یہ معنی بھی مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ اس بات میں کوئی ملازمہ نہیں ہے کہ جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نعمت عطا کی ہو اس کو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) بھی نعمت عطا کریں ۔

مگر یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ جس کے اوپر بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا دین کی نعمت ، ہدایت،تربیت،راہنمائی اور دین و دینا میں عزت عطا کرنے کا حق ہو ، وہی حقوق حضرت علی (علیہ السلام) کے بھی ہوں ۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرم کے جانشین، ان کی شریعت کے محافظ اوردین کے مبلغ ہیں، اور اسی وجہ سے خداوند عالم نے اس واضح آیت کے ذریعہ دین کو کامل اور نعمت کو تمام کیا ہے اور یہ معنی اس معنی سے الگ نہیں ہیں جو ہم نے امامت سے مراد لئے ہیں ۔

ہم عہد وپیمان : بہر حال اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہے جو بعض قبائل سے صلح اور مدد کے لئے لیا گیا ہے اور یہ معنی بھی علی (علیہ السلام) میں نہیں پائے جاتے، جی ہاں آپ تمام کاموں کو ا نجام دینے اور ترک کرنے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے تابع ہیں ، اس وجہ سے پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جس کے ساتھ بھی صلح ومدد میں ہم عہد وپیمان ہوں گے علی (علیہ السلام) کو بھی ایسا ہی ہونا پڑے گا ۔ اس معنی میں علی (علیہ السلام) تمام مسلمانوں کے برابر ہیں اور اس بات کو آپ کے متعلق اتنے عظیم مجمع کے سامنے بیان کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔

محب و ناصر

مولی کے معانی میں سے صرف ولی ، ”اولی بہ شی“ ، سیدجو مالک اور آزاد کرنے والا نہ ہو، امور میں تصرف کرنے والا اور متولی کے معنی باقی رہ گئے ہیں ۔

ولی : وہ معنی جو لفظ اولی کے لئے ارادہ کئے گئے ہیں ان کو ارادہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ جو معانی اوپر بیان کئے ہیں وہ سب معانی صحیح نہیں ہیں ۔

سید (۲) مذکورہ معنی میں”اولی“ کے معنی سے جدا نہیں ہے کیونکہ سید یعنی دوسروں پر مقدم۔ خصوصا جس جملہ میں پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے پہلے اپنی تعریف کی اور پھر اسی طرح اپنے چچا زاد بھائی کی تعریف کی ہے ، اس وجہ سے محال ہے کہ اس کو ظلم و غلبہ سے سیادت حاصل ہونے پر حمل کیا جائے ، بلکہ اس سے مراد دینی اور عمومی سیادت ہے ، ایسی سیادت جس کی پیروی تمام لوگوں پر واجب ہے ۔

امور میں تصرف کرنے والا : یہ معنی بھی پہلے معنی کی طرح ہیں ۔ اس معنی کو فخر رازی نے اپنی تفسیر (۳) میں اس آیت ”و اعتصموا باللہ ھو مولاکم“ (۴) کے ذیل میں قفال سے نقل کیا ہے اور یہاں پر لفظ مولی سے یہ معنی مراد لینا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ اس کو ایسے تصرف کرنے والے کے معنی میں لیا جائے جس پیروی اور اطاعت کو خداوند عالم نے لازم و ضروری جانا ہے تاکہ وہ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرسکے ۔

اس وجہ سے وہ انسانی معاشرہ میں ہر طرح کے تصرف کرنے میں زیادہ سزاوار ہیں اور جس کو بھی انسانی معاشرہ میں انسانوں کے تمام پہلوؤں پر تصرف کرنے کاحق حاصل ہے وہ صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا امام واجب الطاعة ہے جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خداوند عالم کے حکم سے نصب کیا ہے اور وہ ہمیشہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قول وفعل کی پیروی کرتا ہے ”وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْہَوی ، إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحی “ (۵) ۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے ، اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے ۔

اور اسی طرح ”متولی امور“ کے معنی ہیں :

ابوعباس مبرد (۶)، قرطبی نے اپنی تفسیر (۷) میں سورہ آل عمران کی اس آیت ”بل اللہ مولاکم“ ( بلکہ خدا تمہارا سرپرست ہے اور و ہ بہترین مدد کرنے والا ہے)(۸) کے ذیل میں ، ابن اثیر نے نہایة (۹) میں ، زبیدی نے تاج العروس (۱۰) میں، ابن منظور نے لسان العرب (۱۱) میں اس کو لفظ مولی کے معنی میں شمار کیا ہے ۔

اور یہ معنی بھی ”اولی“ کے معنی سے جدا نہیں ہیں ۔ خصوصا وہی معنی جس سے پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ لفظ مولی کے صرف ایک معنی ہیں اور وہ ”اولی بہ شی“ (دوسروں کی بانسبت ان سے زیادہ اولویت رکھنا)ہے اور یہ اولویت کاموں میں ان کے

استعمال کے لحاظ سے متغیر ہے اور اس معنی کا مشترک ہونا مشترک معنوی ہے ، لفظ نہیں ہے اور یہ اشتراک لفظی سے بہتر ہے (۱۲) کیونکہ اشتراک لفظی میں متعدد وضع کرنے والوں کی ضرورت ہے اور یہاں پر قطعی دلیل کے ساتھ متعدد وضع ثابت نہیں ہیں، اوراس طرح کے موارد میں قانون اس کو منتفی کردیتا ہے (اصل عدم تعدد وضع) ۔

بعض علماء نے پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مسلم الثبوت روایت جو صحیح سند (۱۳) کے ساتھ نقل ہوئی ہے ، کے متعلق کہا ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا : ”لایقل العبد لسیدہ : مولای“ ۔ (کسی بھی غلام کو اپنے مالک کو مولی نہیں کہنا چاہئے) ۔ ابومعاویہ کی حدیث میں اس جملہ کا اضافہ ہے : ”فان مولاکم اللہ“ ۔ (کیونکہ تمہارا مولی اللہ ہے) ۔ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب یہ لفظ بغیر قرینہ کے ہو تو اس سے اولویت کے معنی سمجھ میں آتے ہیں اور اس روایت کو اکثر ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے (۱۴) ۔

حوالاجات

۱۔ صحیح بخاری ،ج ۷، ص ۵۷ (۴/۱۶۷۱) میںاس کے بجائے ”الملیک“ (بادشاہ) آیا ہے اور قسطلانی نے شرح الصحیح ۷: ۷۷ ( ۱۰/۱۶۰) میں کہاہے مولی یعنی ملیک کیونکہ لوگوں کے امور کا ولی ہے ۔

۲۔ اکثر و بیشتر ائمہ تفسیر، حدیث اور لغت نے اس معنی کو لفظ مولی کے معانی میں شمار کیا ہے ۔

3 ـ التفسیر الکبیر 6 : 210 (23/74) .

4 ـ حجّ: 78.

5 ـ نجم: 3 و 4.

6۔ سید مرتضی نے الشافی (۲/۲۱۹) میں ان سے اس معنی کو نقل کیا ہے ۔

7 ـ الجامع لأحکام القرآن 4: 232 (مج 2/ج 4/149).

8 ـ آل عمران: 150.

9 ـ النهایة فی غریب الحدیث والأثر 4: 246 (5/229).

10 ـ تاج العروس 10: 398.

11 ـ لسان العرب ( 15/401).

12۔ ”اشتراک معنوی “ یہ ہے کہ لفظ ایک معنی کے لئے ایجاد ہو اور اس معنی کے مختلف افراد پائے جاتے ہوں جیسے لفظ حیوان جو کہ ارادہ کے ساتھ ہلنے والے

موجود کیلئے وضع ہوا ہے اور اس کے بہت سے افراد ہیں جیسے انسان، گھوڑا، وغیرہ۔ اوریہ افراد اور مصادیق ، حیوانیت کے معنی میں مشترک ہیں ۔

اشتراک لفظی یہ ہے کہ ایک لفظ کو متعدد معنی کے لئے وضع کیا گیا ہو جیسے لفظ ”شیر“ کو فارسی میں ایک مرتبہ ٹنکی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور ایک مرتبہ پینے والے پانی کے متعلق استعمال کرتے ہیں اور کبھی حیوان درندہ کے معنی میں اور ان میں سے کوئی ایک معنی بھی ایک دوسرے کے سات مشترک نہیں ہیں ۔

13 ـ صحیح مسلم: 197 (4/436، ح 14، کتاب الألفاظ من الأدب وغیره).

14- شفیعی مازندرانی / گزیده اى جامع از الغدیر، ص 108.

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید
اختیاری اور اضطراری افعال میں فرق
حضرت امام رضا (ع) کا کلام توحید کے متعلق
عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار

 
user comment