اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حضرت علی(علیہ السلام) اور قبولِ خلافت

ایسے مشکل حالات میں لوگوں کی ناراض اکثریت نے علی ابن ابی طالب علیه السلام کی خدمت میں پناہ لی اور آنحضرت علیہ اسلام کے انکار کے باوجود آپ کو مسندخلافت پر بٹھادیا۔ درحقیقت یہ پھلی بار تھا کہ لوگوں کی اکثریت نے خود جوش طور پر داعیٴ بیعت کے عنوان سے ایک لائق ترین فرد ، ایسے شخص کے ھاتھوں پر بیعت کی۔ عمر اور عثمان نے اپنے پھلے والے خلفا کی وصیت کے مطابق خلافت حاصل کی۔ اور ابوبکر کے بارے میں بھی مسئلہ علی ابن ابی طالب+ کی طرح نھیں تھا۔ شروع میں چند گنے چنے افراد نے ان کی بیعت کی اور بعد میں تیزی کے ساتھ کچھ حوادث کا پیش آ نا( جس کا سبب مھاجرین و انصار اور اوس و خزرج کے درمیان پوشیدہ و آشکار رقابتیں نیز بیرونی دھمکیاں بھی تھیں) جو اس بات کا سبب بنا کہ ان کی شخصیت اور موقعیت مستحکم ا ور پائیدار ھو جائے ۔ شاید یھی وجہ تھی کہ عمر بعد میں مختلف مواقع پر کھا کرتے تھے :” ابوبکر کی بیعت ناگھانی اور بغیر سوچے سمجھے ھوگئی کہ خداوندعالم نے مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ پس قتل کردو اس شخص کو جو اس شر کی طرف پلٹنا چاھتا ھے (یعنی جو ابوبکر کی طرح بیعت کروانا چاھتا ھے)[1]

حضرت علی (علیہ السلام) نے بدترین حالات میں قدرت اور منصب خلافت کو سنبھالا اور ان مشکلات کو تحمل کرنے پر مجبورھوئے جن مشکلات کو پیدا کرنے میں آپ کا ذرا سا بھی ھاتھ نہ تھا۔ بنیادی طور پر آنحضرت(علیہ السلام)  کی بیعت کے لئے لوگوں کا ھجوم صرف اس لئے تھا کہ یہ مشکلات حل ھوجائیں۔ ان لوگوں کی نظر میں ان مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا واحد شخص صرف اور صرف آنحضرت(علیہ السلام)  کی ذات والا صکات تھی، تقریباً تمام بیعت کرنے والوں کی چاھت بھی یھی تھی۔[2]ان لوگوں کی تعداد بھت کم تھی کہ جنھوں نے  ذاتی صلاحیت کی بنا پر آپ کو خلافت کے لائق سمجھتے ھوئے اور وصیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی پیروی کرتے ھوئے آنحضرت(علیہ السلام)  کی بیعت کی تھی۔ اگرچہ بعد میں اُنھیں کم افراد کے چھوٹے سے گروہ کی مدد سے آنحضرت(علیہ السلام)  بڑی بڑی مشکلوں پر فائق آگئے۔

حقیقت یہ ھے کہ سابق خلفا میں سے کسی ایک نے بھی ایسے مشکل حالات میں منصب خلافت کو نھیں سنبھالا۔ کچھ مدت کے بعد جو لوگ عمر کی خلافت کے آخری ایام سے اس عھدہٴ خلافت پر قبضہ کرنے کی  فکر میں پڑ گئے تھے اور عثمان کے دور ھی سے اپنے آپ کو آمادہ کررکھا تھا۔ مخالفت کا پرچم بلند کردیا۔ اس مخالفت کی تاخیر کی وجہ لوگوں کی وسیع اور قاطع اکثریت کا خوف تھا جو حضرت علی(علیہ السلام) کے گرد جمع ھوگئے تھے ا ور اگر آپ کے علاوہ کوئی اور شخص بھی ھوتا اور منصب خلافت کو سنبھالتا ، تب بھی یہ افراد مخالفت کے لئے اُٹھ کھڑے ھوتے۔ کیونکہ معاشرہ ھی غیر منظم اور بکھرا ھوا تھا۔ گویا تمام کے تمام، یا کم از کم معاشرہ میں نفوذ رکھنے والے، خود کو اس معاشرہ میں گم کئے ھوئے تھے۔ نہ تووہ خود ھی کو اور نہ ھی اپنی حیثیت کو ھی پھچانتے تھے اور نہ تو اپنی حیثیت کے مطابق اپنے آپ سے اور اپنے معاشرے سے ھی کوئی توقع رکھتے تھے۔[3]

بہ عنوان نمونہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے مخالفین کے سرداروں کو مدنظر رکھئے۔ کیا ایسا نھیں ھے کہ وہ اپنی لیاقت اور قابلیت سے اونچی یھاں تک کہ اپنی ذاتی شخصیت سے بھی زایادہ توقع رکھتے تھے اور اگر حضرت علی(علیہ السلام) سے ان کی مشترک مخالفت حاکم اور خلیفہ کے عنوان سے نہ ھوتی تو پھر وہ ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے ھوجاتے۔ کیا یھی طلحہ و زبیر نھیں تھے جنھوں نے جنگ جمل میں لشکر کے امام جماعت بننے کے لئے ایک دوسرے کی عبا کو کھینچ ڈالا ۔اور اپنے گھوڑوں کے چھرے پر تازیانے مارے ؟[4]اور کیا اصحاب جمل میں سے مروان ابن حکم نھیں تھا جو طلحہ کے قتل اور اس سے انتقام لینے پر متھم تھا اور کم از کم یہ تھا کہ ُاس کے مرنے پر اس نے خوشیاں منائی تھیں؟[5] آیا معاویہ ان لوگوں کو اور وہ لوگ معاویہ کو برداشت کرسکتے تھے؟ اس کے علاوہ آیا یہ احتمال موجود نھیں تھا کہ بااثر لوگ غیر جانب دار افراد جن لوگوں نے نہ حضرت علی(علیہ السلام) کی بیعت کی اور نہ حضرت(علیہ السلام)  کے مقابل صف آراء ھوئے اگر کوئی دوسرا شخص منصب خلافت پر فائز ھوتا تو ایسی صورت میں یہ بے طرف اور معاشرہ میں نفوذ رکھنے والے افراد اس کے مدمقابل شمشیر بکف نظر آتے؟ لیکن یہ حضرت علی(علیہ السلام) کی شخصیت اور آ پ کا بے نظیر سابقہ تھا جو ایسے قیام سے مانع ھوا چاھے جتنا وہ لوگ حضرت کے ساتھ اور ان کے حامی نہ رھے ھوں۔[6]

جیساکہ ھم بیان کر چکے ھیں کیا کہ مسئلہ معاشرتی ، اخلاقی اور روحی انتظام کے بکھر جانے کا تھا۔ خود کو اپنے آپ کے گُم کردینے کا مسئلہ اورقابلیتوں اور صلاحیتوں کے مشتبہ ھوجانے سے متعلق تھا حتی خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسئلہ یہ نھیں ھے کہ حضرت علی(علیہ السلام) اس وقت کے ا ن نامناسب اور بکھرے ھوے حالات کو منظم نہ کرسکے۔ دوسرا کوئی بھی شخص اس نامنظم اور بکھرے ھوئے اور خود پرچم بغاوت بلند کیئے ھوئے معاشرے کو منظم نھیں کرسکتا تھا۔ بلکہ اس کے لئے مسلسل سعی و کوشش اور ناکوں چنے چبانے کی ضرورت تھی تب جاکر وہ بے نظم معاشرہ نظم اور حکومت کو برداشت کرپاتا۔ البتہ افسوس کی بات ھے کہ اس نشیب و فراز کے بعد معاویہ کے ذریعہ معاشرہ میں یہ نظم و نسق برقرار ھوگیا۔

حضرت اس زمانہ کے حالات اور معاشرہ میں بے شمار تبدیلیوں کو اپنے ایک مختصر اور پُرمعنی جملہ میں یوں بیان فرماتے ھیں:”حضرت علی(علیہ السلام) کے دورخلافت میں ایک روز کسی نے آپ کو طعنہ دیتے ھوئے کھا۔ آخر اتنے سارے لوگوں نے آپ کے متعلق اختلاف کیا حالانکہ پھلے دو خلفا پر ان کا اتفاق تھا؟ حضرت(علیہ السلام)  نے جواب میں ارشاد فرمایا:” چونکہ وہ لوگ مجھ جیسے افراد پر حکومت کرتے تھے اور میں تجھ جیسے افراد پر حکومت کرتا ھوں۔“[7]

روحی پریشانیاں

حقیقت کچھ ایسی ھی تھی۔ حالات بالکل بدل گئے تھے۔ حضرت علی(علیہ السلام) کی اکثر مشکلات بھی انھیں حالات کی تبدیلیوں کی پیدا وار تھیں۔ ایک فقیر و محدود اور مسدود معاشرہ پر، جدید آفاق کا کھل جانا اور ایک مقامی ا ور محدود حکومت کا ایک وسیع و عریض مملکت و سلطنت میںتبدیل ھو جانا جو ایران کی شھنشاھیت کو مکمل طورپر اور روم کی بادشاھت کے ایک وسیع حصے کو اپنے اندر سموئے ھوئے تھی، نہ فقط نئی مشکلات اور سخت وسنگین حالات اپنے ھمراہ لائی تھی بلکہ اس سے کھیں زیادہ اھم یہ تھا کہ اس نے ابتدائی دور کے مسلمانوں کے اخلاق و افکار اور معنویات و توقعات اور آرزوٴں اور تمناووٴں کو بھی اپنے زیراثر قرار دیا تھا۔ اب اس کے بعد وہ لوگ نھیں چاھتے تھے اور شاید ان خصوصیات کی بناپر جس کو انھوں نے حاصل کیا تھا وہ لوگ دینی قوانین، احکام اور معیار کے آگے اپنا سر جھکا دیں۔ بلکہ وہ لوگ اس دین کو چاھتے تھے جس کی ان لوگوں نے خود تفسیر کی ھو۔ ایک ایسے دین کو چاھتے تھے جو ان کے مقاصد اور ان کی تمناوٴں کو پورا کرسکے نہ کہ اس کے برعکس اور چونکہ ایسا ھی تھا یعنی ان کی آرزووٴں اور چاھتوں کے بر خلاف تھا۔ لہٰذا وہ علی ابن ابی طالب+ جیسی شخصیت کو برداشت نھیں کرسکتے تھے حسب ذیل نمونہ اس مسئلہ کو پوری طرح بیان کررھا ھے۔

جنگ صفین کے وقت، امام(علیہ السلام)  اور آپ(علیہ السلام)  کے برجستہ اصحاب اس کوشش میں تھے کہ کسی بھی طرح جنگ کو روک دیں۔ان میں سے جس نے اس بات کی سب سے زیادہ کوشش کی تھی وہ عمار تھے انھوں نے کوشش کی تاکہ مغیرہ ابن شعبہ کو وعظ و نصیحت کریں اور امام کی حقانیت کو اس پر واضح کردیں ۔لیکن وہ انجان بن رھا تھا اور حقیقت کو قبول کرنے پر تیار نھیں تھا (مغیرہ امام(علیہ السلام)  کو اور آپ(علیہ السلام)  کے تمام سابقہ حالات کو بخوبی جانتا تھا یھاں تک کہ آپ کی خلافت کے شروع میں ھی اس نے حضرت سے کھا کہ طلحہ و زبیر اور معاویہ کو ان کے عھدوں پر باقی رکھئے تاکہ لوگ آپ کی بیعت پر متفق ھوجائیں اور اتحاد و اتفاق بر قرار اور محفوظ رہ جائے اور پھر آکا جیسے جی چاھے حکومت کیجئے۔ اور جب یہ دیکھا کہ امام (علیہ السلام) نے اس کی بات اور اس کے مشورہ کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو وہ دوسرے روز آکر اس طرح کھنے لگا: ”میں نے غورو فکر کے بعد یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ میں نے کھا تھا اس میں مجھ سے غلطی ھوگئی ھے اور حق وھی ھے جو آپ نے سوچا ھے۔“[8] امام(علیہ السلام)  نے عمار کو مخاطب کرکے فرمایا:” اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دو! کیونکہ وہ دین سے کچھ نھیں لیتا مگر وھی چیز جو اس کو دنیا سے نزدیک کردے۔ وہ مسئلہ کو عملی طورپر اپنے اوپر مشتبہ کرلیتا ھے تاکہ ان شبھوں کو اپنی خطا کے واسطے عذر قرار دے“۔[9]

البتہ یہ کھنا ضروری ھے کہ وہ لوگ نہ صرف یہ امام(علیہ السلام)  کو تحمل نھیں کرسکتے تھے ،بلکہ کسی دوسرے شخص کو بھی برداشت نھیں کرسکتے تھے۔ ان کی مشترک مخالفت صرف اس بناپر تھی کہ قدرت اورمنصب امام(علیہ السلام)  کے ھاتھ میں تھا اور ان کی زیادہ تر ناجائز خواھشات کے پوری اور عملی نہ ھونے سے امام(علیہ السلام)  بالکل بے توجہ تھے ، اسی سبب نے ان کے اندر اتحاد پیدا کردیا تھا اور کم از کم ان میں آپس کے اختلا ف کو آشکار ھونے سے مانع تھا۔ البتہ خاص حساس مواقع پر اس اتحاد کا شیرازہ بکھر جاتا تھا۔ یہ وحدت ٹوٹ جاتی اور اختلاف و کشمکش نمایاں ھوجاتا تھا۔[10]

بھرحال آنحضرت(علیہ السلام)  اپنے پورے دورخلافت میں اس بات پر مجبور ھوگئے کہ وہ اپنے مخالفین سے  مقابلہ کریں اور وہ لوگ جو جنگ کے لئے آمادہ ھیں، ان سے مقابلہ کے واسطے اُٹھ کھڑے ھوں۔ یہ جنگیں ان نقصانات کے ظاھر ھونے کا فطری نتیجہ تھیں کہ اپنی گذشتہ تاریخی سابقہ جو اسلام سے ماقبل ھے اس تک پھونچتی تھی اور یہ مسئلہ عمر کے دورخلافت کے درمیانی ایام میں پیدا ھوا۔ اور آھستہ آھستہ (اندر اندر) پکتا رھا اور یہ دور بھی امام(علیہ السلام)  کی شھادت [11]اور معاویہ کے حکومت حاصل کرنے پر ختم ھوگیا۔

 وہ افراد بھت زیادہ ھیں جو یہ کھتے ھیں کہ امام(علیہ السلام)  کی یہ مشکلات آپ(علیہ السلام)  کے ایام خلافت میں دین و عدالت کی بنیادپر مبنی دقیق اور سخت رویہ کی وجہ سے وجود میں آئی تھیں۔ اگرچہ یہ بات درست ھے مگر حقیقت یہ ھے کہ تمام مشکلات کی بنیاد یہ نھیں تھی۔ بلکہ ان میں سے بھت سے مشکلات کی بنیاد کو اس زمانے کے بدلتے ھوئے حالات اور ماحول میں تلاش کرنا چاہئے۔ ایک ایسا ھمہ گیر اور گھرا بدلاوٴ پیدا ھوا تھا جس نے اپنے اندر ھر چیز اور ھر شخص کو غرق کردیا تھا۔ فقط چند باایمان ا ور بااخلاص مسلمان تھے جو ان حالات کے بھاوٴ میں غرق نھیں ھوئے تھے۔ وھی لوگ جو حضرت علی  (علیہ السلام) سے متحد اور ھم آھنگ اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک آپ کی ھمراھی میں اور آپ کے ھم رکاب رھے اور ان میں سے بھت سیافراد تینوں جنگوں میں درجہٴ شھادت پر فائز ھوگئے۔[12]

معاشرہ اور سماج کا درھم برھم ھونا

اس درھم و برھم حالات کو نہ صرف یہ کہ حضرت علی(علیہ السلام) بلکہ کوئی دوسرا بھی منظم نھیں کرسکتا تھا۔ قدیم اور جدید صاحبان قلم کے قول کے بالکل برعکس اگر بالفرض پھلے دونوں خلفا بھی آنحضرت (علیہ السلام) کی جگہ ھوتے تب بھی حالات میں اتنی تبدیلی نھیں آسکتی تھی۔[13]ان دونوں کی کامیابی معاشرتی انسجام اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں ،اس زمانہ کے حالات کی مرھون منت تھی نہ کہ ان کی ذاتی خصوصیات یا ان کی مجموعی سیاست کا ثمرہ رھی ھوں۔ بغیر کسی شک شبہہ کے اگر امام(علیہ السلام)  کو گذشتہ خلفا کے دور میں مسند خلافت پر بٹھا دیا جاتا تو ان دونوں سے کھیں زیادہ وہ کامیاب ھوتے ۔یہ بات کسی حدتک عثمان کے بارے میں بھی صحیح ھے۔ ان کی ناکامی فقط ان کی غلط خصوصیات کی بناپر وجود میں نھیں آئی تھی ۔احتمال قوی کی بناپر یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ اگر ان (عثمان) کے ماقبل دونوں خلفا میں سے کوئی بھی ان کی جگہ برسر اقتدار آتا، تب بھی حالات کی تبدیلی میں کوئی خاص فرق نہ پڑتااور اسے بھی کم و بیش انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جن سے عثمان دوچار ھوئے ھیں۔

وہ موٴرخین یہ بھول بیٹھے کہ پھلے ھی در جہ میں عثمان کی مشکلات انھیں مشکلات کا سلسلہ تھیں جن سے خود عمر اپنی خلافت کے آخری دور میں دست و گریباں تھے اور یہ ساری مشکلات اس نئے ماحول اور حالات ضمنی عوا ر ض کا نتیجہ تھے جو جدید فتوحات کے ذریعہ پیدا ھوئے تھے۔ عمر نے اپنی عمر کے آخری ایام میں یہ احساس کرلیا تھا کہ وہ اپنے نفوذ و اختیارات سے ھاتھ دھو بیٹھے ھیں اور اب خلافت کے ابتدائی سالوں کی طرح قدرت اور رعب و دبدبہ کے ساتھ حکومت نھیں کرسکتے۔ اس حقیقت کا قبول کرنا ان کے واسطے بھت مشکل امر تھا جیسا کہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا ھے کہ انھوں نے کئی مرتبہ موت کی تمنا کی۔

لیکن گویا امام علی(علیہ السلام) پر تنقید کرنے والے یہ سب مسائل بھول گئے ھیں اور اس کا سبب یہ ھے کہ انھوں نے اپنی تجزیہ و تحلیل میں تیز گام بنیادی انقلابات اور حالات میں تیزی کے ساتھ بدلاوٴ کو نظر انداز کردیا اور خلفا میں ھر ایک کی کامیابی کی مقدار کو فقط فردی سیاستوں، خصلتوں اور خصوصیات کی بنیادپر چھان بین کی ھے۔ [14]

چنانچہ معاویہ بھی جو مدارات، ھوشیاری(کیاست) اور سیاست میں مشھور تھا اگر بلافاصلہ قتل عثمان کے بعد حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ھاتھ میں لے لیتا ، اسے بھی ایسے ھی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جن سے حضرت علی(علیہ السلام) دوچار تھے۔[15] بیشک اصحاب جمل علی(علیہ السلام) کی بہ نسبت معاویہ کے ساتھ زیادہ شدو مد اور سختی کے ساتھ جنگ کے لئے اُٹھ کھڑے ھوتے کیونکہ وہ آنحضرت(علیہ السلام)  کی دینی اور ذاتی لیاقت اور یھاں تک کہ ٓاپ کی عمومی بیعت کے شرعی اور قانونی ھونے کا یقین رکھتے تھے اور صرف بھانہ تراشی کرتے تھے۔ وہ لوگ خود ان چیزوں کو جانتے تھے اسی وجہ سے عائشہ نے چند مرتبہ پلٹ جانے کا پکا ارادہ کیا لیکن ھر بار لوگوں نے جھوٹ بو لکر ان کو اس کام سے روک دیا۔[16] بعد میں وہ خود اپنے اس کام سے سخت پشیمان ھوئیں۔[17]زبیر بھی جنگ کے آخری لمحوں میں محاذ جنگ کو ترک کردیا اور وہ اس بات کے لئے تیار نہ ھوئے کہ حضرت علی(علیہ السلام) سے جنگ کریں۔[18]لیکن معاویہ ان لوگوں کی نظر میں نہ یہ کہ فقط ھر قسم کی لیاقت و خوبی سے عاری تھا بلکہ وہ لوگ خود کو اس سے بھتر اور برتر سمجھتے تھے۔ اس سے بھی قطع نظر، ظن غالب کی بنیاد پر سعد ابن ابی وقاص اور ان کے جیسے دوسرے لوگ جو نہ تو امام(علیہ السلام)  کی حمایت کے لئے اور نہ ھی آپ کی مخالفت میں کھڑے ھوئے، وہ معاویہ کے خلاف اٹھ کھڑے ھوتے ان لوگوں کے لئے قابل قبول نہ تھا کہ وہ لوگ اس (معاویہ) کو عثمان کے بعد بلافاصلہ مسند خلافت پر بیٹھا دیکھیںاور وہ لوگ اس کے تابع رھیں معاویہ اپنی مطلقہ قدرت اور حکومت پانے کے ایک عرصہ کے بعد بھی ان سے ڈرتا تھا اور ان لوگوں کو یزید کی ولیعھدی کی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ سمجھتا تھا۔[19]

اور یہ کلام ایک دوسری طرح سے ان لوگوں کے بارے میں بھی صحیح ھے جنھوں نے خلافت امام(علیہ السلام)  کے آگے سرتسلیم خم کردیا تھا۔ قیس ابن سعد ابن عبادہ کے ایسے لوگ، قطعی طورپر اگر امام(علیہ السلام)  میدان خلافت و سیاست میں موجود نہ بھی ھوتے، تب بھی وہ معاویہ اور اس کے جیسے دوسرے افرادکے مقابلہ میں کھڑے ھوجاتے۔ ان لوگوں کی مخالفت معاویہ کے ساتھ اس بنا پر نہ تھی کہ وہ امام (علیہ السلام)  کے دوستوں کی صف میں آگئے تھے اور امام(علیہ السلام)  معاویہ کے مد مقابل اٹھ کھڑے ھو ئے تھے ان لوگوں کی معاویہ سے ایک سنجیدہ اور بنیادی مخالفت تھی۔ کیونکہ وہ لوگ امام(علیہ السلام)  کو خلیفہ بر حق جانتے تھے، لہٰذا آپ(علیہ السلام)  کے پرچم تلے اس کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے اور اگر ایسا علم اور پرچم نہ بھی ھوتا تب بھی مسئلہ میں کوئی تبدیلی نہ آتی کیونکہ معاویہ امام(علیہ السلام)  کی شھادت کے بعد بھی ان لوگوں سے ڈرتا تھا۔[20]

اسی طرح خوارج جیسی مشکل بھی خواہ مخواہ وجود میں آگئی۔ خوارج داستانِ حکمیت کی پیداوار نھیںھیں یہ حادثہ زخم کو تازہ کرنے کا ایک سبب تھا کہ حتی زمانہٴ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  میں بھی جس کا وجود تھا۔ وہ لوگ خشک اور تند مزاج بدّو تھے کہ بنیادی طورپر دین کے متعلق ایک دوسرا نظریہ رکھتے تھے( دین کے متعلق تنگ نظری اور سخت گیری کے شکار تھے۔ )اور اپنی اسی کج فھمی ا ور ایسے ادراک کی بنیاد پر خود پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی ذات پر بھی اعتراض کربیٹھے۔ مشھور ھے کہ ایک روز قبیلہ بنی تمیم کے افراد میں سے ایک شخص جو بعد میں خوارج کے سرداروں میں سے ھوگیا اور جنگ جمل کے معرکہ میں مارا گیا(ذوالخو یصرہ) جس وقت آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مال غنیمت تقسیم فرمارھے تھے، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  پر اعتراض کربیٹھا اور کھنے لگا ”اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عدالت کی کیوں رعایت نھیں کی؟“ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  غضب میں آگئے اور فرمایا: ”میں نے عدالت کی رعایت نھیں کی! تو میرے علاوہ عدالت کو کھاں پائے گا؟“ اس کے بعد فرمایا یھی لوگ وہ گروہ ھونگے جو دین سے خارج ھو جائیںگے ا س وقت ان لوگوںکے خلاف جنگ کرنے کے لئے اُٹھ جانا۔[21]

ضروری تھا کہ ایک زمانہ گذرجائے اور حالات تبدیل ھو جائیں تاکہ رفتہ رفتہ یہ کج فکر بچکانہ ذھنیت رکھنے والے بدو سخت گیر افراد ایک گروہ کی شکل میں جمع ھوکر موجودہ نظام کے مقابلہ میں کھڑے ھو جائیں ۔یہ تصور کرنا بالکل غلط ھے کہ یہ لوگ جنگ صفین اور داستانِ حکمیت کی پیداوار ھیں۔ یہ لوگ اسلامی معاشرہ کے اندر ایک سرطانی غدہ کی حیثیت رکھتے تھے کہ آخرکار ایک نہ ایک روز اس کو پھوٹنا ھی تھا البتہ حضرت علی(علیہ السلام) کے زمانہ میں حالات کچھ اس طرح ھوگئے تھے کہ اس کا مناسب ترین موقع اس دور میں آپھونچا۔ [22]

قطعی طورپر اگر معاویہ حضرت علی(علیہ السلام) کی جگہ قرار پاتا تو یہ لوگ زیادہ قدرت اور قوت کے ساتھ وسیع پیمانہ پر میدان میں نکل آتے، ان کا اعتراض حضرت علی ابن ابی طالب+ پر یہ تھا کہ کیوں تم نے حکمیت کو مان لیا اور اب اپنے اس عمل سے توبہ کرو۔ صرف یھی ایسا ایک اعتراض تھا جو وہ کرسکتے تھے، کیونکہ ان کی نظر میں حضرت علی(علیہ السلام) کبھی بھی اسلام کے صراط مستقیم اور عدالت سے خارج نھیں ھوئے اور یھی وجہ تھی کہ ان خوارج میں سے بھت سے امام(علیہ السلام)  اور ان کے اصحاب کی توضیحات سے اپنی راہ سے عدول کرگئے ، نھروان کی جنگ میں، جنگ سے منھ موڑ کرچلے گئے ۔لیکن کیا ان کا یہ رویہ معاویہ کے ساتھ بھی ایسا ھی ھوتا؟

معاویہ جیسا شخص خوارج کی نظر میں ظلم و بربریت اور کفر و بے دینی کا مظھر تھا ۔جیساکہ وہ لوگ (خوارج) اِس(معاویہ) کے قدرت میں آنے کے فوراً بعد اُس کے اور اس کے ناخلف اخلاف کے مدمقابل کھڑے ھوگئے۔ یہ کھنا ضروری ھے کہ اس راہ میں انھوں نے شجاعت اور بھادری کی یادگار قائم کردی   عباسیوں کے ابتدائی دور تک ان کی جنگ اور استقامت اور صف آرائی جاری رھی اور آخرکار وہ بغیر کسی فوجی طاقت کا مقابلہ کئے ھوئے، حالات کے بدل جانے سے نابود ھوگئے اور وہ لوگ بھی جو باقی رہ گئے تھے انھوں نے اپنے باقی فکر و عمل اور اعتقاد میں اس طرح کی اصلاحات اور اعتدال پیدا کر لیا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے مانند ھوگئے۔[23]

مشکلات کا سرچشمہ

نتیجہ یہ کہ علی ابن ابی طالب+ کی مشکلات کا سرچشمہ صرف ان کی عدالت خواھی ھی نہ تھی۔ بلکہ ان میں سے اکثر مشکلات اس زمانے کے حالات کی طرف پلٹتی ھیں۔ اگر حضرت علی(علیہ السلام) کی جگہ کوئی اور بھی ھوتا تب بھی ان مشکلات سے روبرو ھوتا۔ اگر بعد میں معاویہ تک حکومت اور قدرت پھونچ گئی پھر بھی زیادہ ترمشکلات ان حالات کی بناپر ھے جو حضرت علی(علیہ السلام) کے دور خلافت کے بعد رونما ھوئیں نہ معاویہ کی ذاتی اور شخصی خصوصیات کی بناپر۔ اور خلافت کے عموماً بڑے دعویدار اور معاویہ کے رقیب امام(علیہ السلام)  کے مد مقابل صف آرا ھوکر قتل ھوگئے تھے۔ اور اس زمانے کے تلخ تجربوں نے لوگوں کو خستہ و فرسودہ کردیا تھا اور اب مائل نہ تھے کہ نفوذ رکھنے والے اور خلافت کے دعویداروں کی آواز پر لبیک کھیں ۔گویا اس معاشرہ میں سکون حاکم ھوچکا تھا اور وہ خود بخود رام ھوگیا تھا اور اس کا مد و جزر تھم چکا تھا اور ایک ایسی قدرت کی جستجو میں تھا جو ان کے لئے امن و امان کا نوید لائے اور اس زمانے کے لوگوں کی نظر میں یہ فقط معاویہ ھی تھا جو اپنے اندھے و بھرے اور اندھی تقلید کرنے والے شامی اطاعت گزاروں کی مدد سے یہ کام کر نے پر قادر ھوگیا تھا۔ اگرچہ بعد میں اس نے لوگوں کو قبرستان جیسے امن و سکون کے تحفہ سے نوازا جو تمام آزادیوں اور انسانی کرامتوں کو سلب اور تمام اصول و اسلامی معیاروں کو پامال کرنے کے مترادف تھا۔[24]یہ علی ابن ابی طالب+ کے خلافت تک پھنچنے اور آنحضرت(علیہ السلام)  کے ساتھ ھونے والی مخالفتوں کی اجمالی داستان تھی۔ عثمان کی بے لیاقتی، کینہ توزی، خاندان پرستی اور ان کے فوجی سرداروں کی ظلم و زیادتی اور لاپرواھی نے لوگوں کی چشم امید کو آنحضرت(علیہ السلام)  کی طرف مبذول کر دیا تھا اس حدتک کہ لوگوں نے بیعت کرنے کے واسطے ایسا ھجوم کیا کہ آپ کے دونوں فرزند اس ھجوم اور بھیڑ میں پِس کر زخمی ھوگئے۔ لوگ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لپکے اور ان کی طرف دوڑے (نہ کہ حضرت نے چاھا اور ان کو اپنی طرف بلایا ھو ۔) اب اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ ھم کھیںکہ آنحضرت(علیہ السلام)  لوگوں کی طرف سے قبول کر  لئے گئے۔ انھوں نے بیعت سے پھلے ھی، اپنا انتخاب کرلیا تھا۔

البتہ اس کے علاوہ بھی دوسرے اسباب موجود تھے مثلاً” مونٹ گمری واٹ“ معاویہ کی کامیابی اور حضرت(علیہ السلام)  علی (علیہ السلام) کے لئے پیش آنے والی مشکلات سے روبرو ھونے کے بارے میں اس طرح کھتا ھے: ”معاویہ کی حمایت ان شامی عربوں کے ذریعہ ھوتی تھی۔ جو کئی سال سے اس کے فرمانبردار اور اطاعت گذار  تھے عام طورپر وہ صحرا سے نھیں آئے تھے بلکہ وہ ایسے خاندان سے متعلق تھے جو ایک یا دو نسل سے شام ھی میں مقیم تھے لہٰذا وہ ان بدّوٴں کی بہ نسبت زیادہ پائیدار اور بھروسے مند تھے جوعلی ابن ابی طالب+ سے وابستہ تھے۔شامی عربوں کی بھترین کیفیت معاویہ کی کامیابی کی ایک بھت بڑی دلیل تھی۔“[25]

آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے مخالفین اور معارضین (مقابلہ کرنے والے) حقیقت میں دھشت گرد اور شدت پسند تھے فقط انھیں کے ساتھ نھیں بلکہ جو بھی آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی جگہ پرھوتا وہ لوگ اس کی بھی مخالفت کرتے۔ ان لوگوں کا اعتراض صرف یہ تھا کہ حکومت میں ان لوگوں کا کوئی خاص عھدہ یا مقام کیوں نھیں ھے۔ وہ چیز جس نے ان لوگوں کو ایک متحدہ محاذ پر لاکر کھڑا کردیا تھاوہ امام(علیہ السلام)  سے مخالفت تھی نہ یہ کہ ھم عقیدہ ا ور ھم مسلک ھونے کی بنیاد پر۔ یھی وہ لوگ تھے جنھوں نے پروپیگنڈے ، دھمکیوں اور لالچ دینے(تطمیع) کا سھار الیکر عوام الناس کی صف اتحاد میں تفرقہ اندازی کرکے چاھے ان لوگوں کے درمیان  تفرقہ اندازی کرتے جنھوں نے امام سے براہ راست بیعت کی تھی یا پھر ان کو قانونی طورپر اپنا برحق خلیفہ تسلیم کرتے تھے، ا ان لوگوں کے درمیان اختلاف کا بیج بویا اور آخر کار ایک گروہ کو اپنا پیرو بنا ھی لیااور امام   (علیہ السلام)کے مدمقابل کھڑا کردیا۔ ورنہ حقیقت یہ ھے کہ چند لوگوں کے علاوہ سب نے امام کی خلافت کو قبول کرلیا تھا اور ھم یھاں تک کہہ سکتے ھیں کہ لوگوں کا امام بعنوان خلیفہ منتخب کرلینا گذشتہ دونوں خلفا کی بہ نسبت زیادہ وسیع اور اکثریت کا حامل تھا۔[26]

البتہ ھم پھلے یہ بیان کرچکے ھیں کہ علی ابن ابی طالب+ کی خلافت پر پھنچنے کی داستان پھلے تین خلفا سے مختلف تھی اگرچہ عمومی طورپر لوگوں نے آپ کی بیعت کرکے آپ کے گرد جمع ھوگئے تھے اور گذشتہ خلفا کی طرح آپ(علیہ السلام)  کو دیکھتے تھے اور یہ چاھتے تھے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ان کے دنیاوی امور کی بھی ذمہ دار ھوں لیکن آپ(علیہ السلام)  کے ماننے والوں اور پیروی کرنے والوں میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جنھوں نے آپ سے بیعت اس واسطہ   کی تھی آپ(علیہ السلام)  کو وہ پیغمراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے برحق جانشین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے منسوب اور منصوص جانتے تھے۔ (یعنی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے خاص طورپر آپ کو جانشین بنایا تھا) آپ کی بیعت اس وجہ سے نھیں تھی کہ ان کا کوئی رھبر ھو جو ان کے دنیاوی امور کی دیکھ بھال کرے اور اس کے انتظام کو اپنے ھاتھوں میں لے لے، بلکہ آپ کی بیعت اس لحاظ سے کی تھی کہ وہ لوگ اپنے دنیاوی اور دینی امور میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے صحیح جانشین کی بیعت کئے ھوئے ھوں۔ یعنی ایسے شخص کی بیعت جو وسیع اور عمیق معنوں میں منصب امامت کی لیاقت رکھتا ھو ۔ایسی امامت جو نبوت اور رسالت ھی کا ایک سلسلہ ھو بلکہ یہ امامت، رسالت و نبوت کا فطری اور منطقی نتیجہ ھے۔ اگرچہ ایسے (مخلص) افراد کی تعداد بھت کم تھی لیکن وہ لوگ سایہ کی طرح ھمیشہ امام(علیہ السلام)  کے ھمراہ تھے اور لوگوں کو امام کی طرف بلاتے رھے اور آنحضرت کے ساتھ جنگوں میں بھت اساسی کردار ادا کیا اور عموماً انھیں جنگوں میں درجہٴ شھادت پر فائز ھوگئے۔[27]

حقیقت کی بدلتی ھوئی تصویر

خلفائے راشدین کی تاریخ کی حقیقت یہ تھی جیساکہ وہ محقق ھوئی۔ اگر اس کا پھلا حصہ چین و سکون کے ساتھ اور اس میں کسی قسم کی کشیدگی نھیں پائی جاتی ھے تو وہ صرف بیرونی خطرات میں لوگوں کی توجھات کے مشغول ھوجانے کی بناپر ھے، ابتدائی زمانہ میں بیرونی خطرات کی طرف توجہ کے مرکوز ھونے کے ساتھ ساتھ اندرونی دھمکیاں اور معاشرہ کا فقر اور اس کی محدودیت نے اپنے میں مشغول کر رکھا تھا، اگر اس کے بعد کا زمانہ پُرآشوب اور بحرانی ھے تو بھی اس کی پیدائش کا واحد سبب وہ حالات ھیں جو اکثر بیرونی خطرات کے ختم ھوجانے اور ثروت کی بھرمار کی بنا پر پیدا ھوئے ھیں۔ خلفا کا انتخاب عام لوگوں کی نظر میں اس زمانہ میں ایک معمولی چیز تھی۔ ان لوگوں کی نظر میں یہ لوگ (خلفا) بھی معمولی افراد تھے اور ان کا منصب بھی کوئی خاص فضیلت نھیں رکھتا تھا اور خود وہ(خلفا) بھی اپنے کو کسی اور زاویہٴ نظر سے نھیں دیکھتے تھے۔

جس وقت ابوبکر کھتے تھے کہ ” مجھ کو چھوڑ دو(سمجھنے کی کوشش کرو) میں تم میں سے بھتر نھیں ھوں“ اور یا کہ وہ کھتے تھے :” میرے اوپر ایک شیطان مسلط ھے“ اور میں کھیں راستہ سے کج ھوگیا (راہ راست سے بھٹک گیا) تو مجھے راہ مستقیم پر لگادو تو یہ مذاق نھیں فرمارھے تھے اور نہ ھی تواضع و انکساری کررھے تھے۔ وہ واقعاً ایسا ھی سوچتے تھے اور دوسرے لوگ بھی ان کو اسی نظر سے دیکھتے تھے۔ جس وقت عمر کھتے تھے: مجھ سے ھوشیار رھو اگر میں نے کھیں غلطی کی ھو تو مجھے ٹوک دو ۔“ یہ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کھتے تھے اور جس وقت فلاں عرب اُٹھ کر کھتا تھا :”خدا کی قسم اگر تم کج رفتاری کرو گے تو تمھیں شمشیر کے ذریعہ سیدھا کردیں گے۔“ حقیقت میں یہ چیز اس زمانہ کے لوگوں کا خلیفہ کے ساتھ برتاوٴ کے طریقے اور بنیادی طورپر مقامِ خلافت کے متعلق لوگوں کے نظرئے کو بیان کرتی ھے۔[28]

لیکن بعد میں ،جیساکہ ھم بیان کریں گے، ایک دوسرے طریقہ سے دیکھا گیا اور اس کی تصویر کشی کی گئی۔ رفتہ رفتہ انسانی، مادی اور دنیاوی رنگ کو کھوکر معنوی اور روحانی حاصل کرلیا یھاں تک کہ دینی تقدس کے رنگ میں رنگ گیا۔ وہ دور جو صدر اسلام کے مسلمانوں کی تاریخ کا دور تھا درحقیقت خود اسلام کی تاریخ کی تمامیت اور خالصیت کی صورت میں پیدا ھوگیا لہٰذا مختلف اسلامی ادوار کی تاریخ میں بلکہ خود دین کے مقابلہ میں اس کا ھم پلہ قرار دیاگیا یھاں تک کہ وہ تاریخیں دین کی مفسر اور مبین ھوگئیں اور دوران پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی منزلت کے برابر منزلت حاصل کرلی اب مسئلہ یہ ھے کہ یہ حالات میں تبدیلی کیوں اور کیسے وجود میں آئی؟ اور اس کے نتائج کیا ھوئے؟

 معاویہ کے مطلق العنان ھو نے کے بعد امام حسن(علیہ السلام) بھی خاموشی پر مجبور ھوگئے، اس کے بعد معاویہ نے کچھ ایسے اقدامات کے لئے ھاتھ پیر مارے جن کی بناپر بعد میں تاریخ اسلام میں اھم تغیرات رونما ھوئے یھاں تک کہ اسلام کے متعلق مسلمانوں کے فھم و ادراک میں بھی تبدیلی پیدا ھوگئی۔ اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ وہ خود جانتا تھا کہ اس کے ان اقدامات کا نتیجہ کیا ھوگا۔ شاید وہ اپنے حدتک دوسرے مقاصد کی تلاش میں رھا ھو ،لیکن بھرحال اس کے اقدامات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے فھمی و کلامی اور اعتقادی ڈھانچہ پر بھت زیادہ اثر انداز ھوا۔ اس طرح کہ اگر ھم کھیں کہ ان اقدامات کی طرف توجہ کئے بغیر جامع اور مکمل اسلام کی متعلق مسلمانوں کے فھم و ادراک میں تبدیلی کو سمجھا نھیں جاسکتا تو ھماری یہ بات غلط گوئی نہ ھوگی۔ (یعنی معاویہ کے اقدامات نے اھم تحولات پیدا کئے اور مسلمانوں نے انھیں اسلام سمجھا اگر ان کو نظر انداز کردیا جائے تو مسلمانوں کی فھم او ر ان کی کلامی و اعتقادی بنیاد میں کمی واقع ھوجائے گی۔)[29]

معاویہ کی قدرت و طاقت کے اوج کے وقت بھی اس کے حائز اھمیت مخالفین موجود تھے البتہ وہ ان لوگوں کی کامل اور دقیق شناخت بھی رکھتا تھا۔ وہ حسب ذیل افراد تھے: عبداللہ ابن زبیر، عبدالرحمن ابن ابوبکر، عائشہ، سعد ابن ابی وقاص، عبداللہ ابن عمر، قیس ابن سعد ابن عبادہ اور تمام انصار اور علی ابن ابی طالب+ کے خالص شیعہ۔ لیکن بجز شیعوں اور خوارج کی مخالفت کے کہ اس میںاعتقادی پھلو تھا بقیہ تمام مخالفین اور ناسازگاریاں سیاسی پھلو رکھتی تھیں۔ وہ اتنا ھوشیار، چالاک، لوگوں کی پھچان رکھنے والا اور موقع شناس انسان تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلہ کے لئے اٹھ سکے اور ان کو لالچ دیکر یا ڈرادھمکا کر سکوت پر آمادہ کر سکے لہٰذایہ لوگ اس کے لئے قابل تحمل تھے ۔ وہ چیزجو اس کے لئے برداشت کے قابل نہ تھے یھاں تک کہ وہ ان سے ڈرتا تھا وہ علی ابن ابی طالب+ کا سنگین سایہ اور آپ(علیہ السلام)  کا قدرت مند جاذبہ تھا۔

 البتہ امام(علیہ السلام)  اس وقت درجہٴ شھادت پر فائز ھو گئے تھے وہ خود حضرت علی(علیہ السلام) سے نھیں ڈرتا تھا بلکہ آپ کی شخصیت سے ڈرتا تھا ایسی شخصیت جو اس کی حکومت و سلطنت کی شرعی اور قانونی اور اس کے مطلق العنان ھونے میں رکاوٹ اور سنگ راہ تھی اگر وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی شخصیت اور تقدس کے حریم کو نابود کر سکتا، وہ اپنا اور اپنے خاندان کا تاریخی انتقام بھی لے لیتا، اپنے اور اپنے خاندان کے غلبہ کو باقی رھنے اور اسکی مشروعیت کو حاصل کرنے کا جو سب سے بڑا مانع تھا اسے بھی درمیان سے ھٹا دیتا۔[30]

حضرت علی(علیہ السلام) سے مقابلہ آرائی

سب سے پھلا اقدام امام(علیہ السلام)  پر سب ولعن کا  رواج دے نا تھا۔ لیکن کچھ مدت گزر جانے کے بعد میں جان لیا کہ فقط یہ کافی اور کارساز نھیں ھوسکتا لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ ایک آئین نامہ کے ذریعہ اپنے حکام سے یہ چاھے کہ جو مناقب علی ابن ابی طالب+ کے بارے میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  سے نقل کئے گئے ھیں انھیں کے مشابہ فضیلتیں دوسروں کے بارے میں گڑھ کر ان کی ترویج کریں اور ٹھیک یھیں سے تحول اور تبدیلی کا آغاز ھوتا ھے۔ صدر اسلام اور اس کے افراد کو تقدس کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ مدح صحابہ، عصر صحابہ، خلفائے ثلاثہ، خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ، ازواج پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اور صدر اول کی اھم اور صاحبان نفوذ شخصیتوں کے بارے میں حدیثیں گڑھی جانا شروع ھوجاتی ھیں۔ یہ حدیثیں عام لوگوں کے دل و دماغ اور یھاں تک کہ علما اور محدثین کے ذھن اور ان کے دماغ میں گھرکر گئیں اور کبھی بھی ان کے ذھن سے یہ بات نھیں نکلی اور نہ ھی اس میں شک و شبہہ پیدا ھوا کیونکہ اس بات کے ذھن سے نکلنے یا اس میں شک کے لئے کوئی راستہ نہ تھا اور یھاں تک کہ یہ عقاید بعد کے زمانہ میں بھی کچھ اسباب کے تحت جن کا ذکر ھم بعد میں کریں گے وہ قوی ھوگئے ۔

ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں ایک فصل تحریر کرتے ھیں جس کو” اھل بیت(ع)پر ڈھائے جانے والے بعض مظالم اور اذیتوں کے بیان“ کے عنوان کے تحت اس سے متعلق ایک مفصل حدیث امام محمد باقر(علیہ السلام) سے نقل کرتے ھیں جس میں آنحضرت(علیہ السلام)  جو کچھ شیعوں کے ائمہ اور ان کے ماننے والوں پر گذری ھے اس کو مختصر طورپر بیان فرمایا ھے :” ھم ھمیشہ مورد آزار واذیت اور ظلم واقع ھوئے اور قتل کئے گئے ، ھمیشہ قید و بند، تحت تعقیب اور محرومیت میں مبتلا رھے ھیں ۔میری اور میرے چاھنے والوں کی جانیں محفوظ نہ تھیں۔اسی حال میں جھوٹی حدیثیں گڑھنے والے اور حقیقت سے نبردآزما لوگ میدان میں کود پڑے ان کے جھوٹ بولنے اور حقیقت سے نبردآزمائی کی بناپر ان لوگوں نے برے امیروں، قاضیوں اور حکام کے نزدیک ھر شھر میںاپنی حیثیت بنالی۔ وھی لوگ حدیثیں گڑھ کے اس کو شائع کرتے تھے ۔ جو ھم نے انجام نھیں دیا تھا اور اس کے بارے میں نھیں کھا تھا اس کی نسبت ھماری طرف دے دی گئی یعنی ھم سے روایت کرڈالی تاکہ ھم کو لوگوں کے درمیان بدنام کریں اور ان کی دشمنی کی آگ ھمارے خلاف بھڑکائیں اور یہ ماجرا امام حسن(علیہ السلام) کی رحلت کے بعد معاویہ کے زمانے میں شدید ھوگیا۔“[31]اس روایت کو نقل کرنے کے بعد مدائنی کی معتبر کتاب الاحداث سے ایک دوسری بات نقل کرتے ھیں کیونکہ وہ بھت زیادہ فوائد پر مشتمل ھے لہٰذا ھم اس کا ایک اھم حصہ بیان کریں گے:حضرت علی(علیہ السلام) کی شھادت کے بعد جب معاویہ کی خلافت مستقر ھوگئی، اُس(معاویہ) نے اپنے والیوں کو اس طرح لکھا: ”میں نے اپنے ذمہ کو اس فر دسے جو ابوتراب اور ان کے خاندان کے فضائل بیان کرتا ھے بری کر لیا ھے۔ اتنا کھنا تھا کہ دور و نزدیک تمام علاقوں میں ھر منبر سے ھر خطیب نے مولائے کائنات حضرت علی  (علیہ السلام) پر لعنت کرنا شروع کردیا اور ان سے اظھار بیزاری کرنے لگے خود ان کے اور ان(علیہ السلام)  کے اھل بیت(علیہ السلام)  کے خلاف زبان کھولنے لگے اور ان پر لعن وطعن کرنے لگے۔ اسی درمیان کوفہ تمام علاقوں سے زیادہ مصیبت میں گرفتار ھوگیا چونکہ زیادہ تر شیعہ اسی شھر میں ساکن تھے۔ معاویہ نے زیاد ابن سمیہ کو اس کا والی بنایا اور بصرہ کو بھی اسی سے متصل کردیا اس نے بھی شیعوں کو ڈھوڈنا شروع کیا اور چونکہ حضرت علی(علیہ السلام) کے دور میں وہ خود بھی آپ(علیہ السلام)  کے شیعوں میں سے تھا لہٰذا ان کو اچھی طرح پھچانتا تھا ان کو جھاں بھی پاتا قتل کردیتا تھا ایک عظیم دھشت پھیل گئی تھی ان کے ھاتھ پاوٴں کاٹ دیتا اور آنکھوں میں سلاخیں ڈال دیتا اور درخت خرمہ کے تنے پر ان کو سولی دے دیتااور عراق سے ان کو نکال کر ان لوگوں کو ادھر ادھر منتشر اورتتر بتر کردیا اس حدتک کہ اب کوئی معروف شخصیت وھاں باقی نہ رہ جائے۔

معاویہ نے دوسری نوبت میں اپنے کارندوں کو لکھا کہ کسی ایک بھی شیعہٴ علی اور ان سے وابستہ لوگوں کی شھادت (گواھی) کو قبول نہ کرو۔ اپنی توجہ کو عثمان اور اس کے شیعوں کی طرف موڑ دو اور جو لوگ اس کے فضائل اور مناقب کو بیان کر تے ھیں انھیں اپنے سے نزدیک کرو ان کو اکرام و انعام سے نوازو۔ ان سے مروی روایات اور خود ان کے ناموں، ان کے باپ اور خاندان کے ناموں کو لکھ کر میرے پاس ان کی فھرست بھیجو۔

اس کے کارندوں نے ایسا ھی کیا یھاں تک کہ عثمان سے متعلق فضائل بھت زیادہ ھوگئے اور ھر جگہ پھیل گئے اور یہ معاویہ کے مختلف ھدیوں کی بدولت تھا عبا اور زمین سے لیکر دوسرے بھت سارے قیمتی تحفے، تحائف تک کہ جو عربوں اور دوستوں کو بخشا تھا ۔وہ دنیا کو پانے کے واسطہ ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں مشغول تھے۔ کوئی بیکار اور فضول شخص بھی ایسا نہ تھا جو معاویہ کے گورنر کے پاس گیا ھو اور کوئی روایت عثمان کی فضیلت میں نقل نہ کی ھو مگر یہ کہ اس کا نام لکھا جا ئے اور اس کی قدردانی کی جاتی تھی اور وہ شخص مقام و منزلت پا جاتا تھا اور ایک مدت اسی طرح گزر گئی۔

کچھ دنوں کے بعد معاویہ نے اپنے والیوں کو لکھا کہ عثمان کے بارے میں احادیث بھت زیادہ ھوگئی ھیں اور تمام علاقوں میں پھیل گئی ھیں۔ جس وقت میرا خط تم تک پھنچے لوگوں کو دوسرے صحابہ اور پھلے دونوں خلفا کے فضائل بیان کرنے کی دعوت دو۔ جیسی فضیلتیں مسلمانوں نے ابوتراب(علیہ السلام)  کے بارے میں نقل کی ھیں ویسی ھی فضیلتیں صحابہ کی شان میں جعل کر کے میرے پاس بھیج دو۔ کیونکہ اس امر کو میں بے حد پسند کرتا ھوں اور میری آنکھیں اس سے روشن ھوجاتی ھیں اور وہ خلفائے راشدین کی فضیلتیں ابوتراب اور ان کے شیعوں کی دلیلوں کو بھتر طورپر باطل کرتی ھیں اور ان لوگوں پر عثمان کے فضائل بیان کرناسخت اور دشوار کام ھے۔

 اس(معاویہ) کے خطوط لوگوں کے سامنے پڑھے گئے۔ بلا فاصلہ اسی کے ساتھ ساتھ بھت زیادہ اخبار و احا دیث صحابہ کی فضیلت میں بیان ھونے لگیں کہ تمام کہ تمام جھوٹی اور جعلی تھیں ،لوگ اس راہ پر چلنے لگے یھاں تک کہ یہ روایتیں منبروں سے پڑھی جانے لگیں اور مدرسہ کے منتظمین اور اس میں پڑھانے والے اساتذہ کو دیدی گئیں انھوں نے ان روایات کو بچوں کو تعلیم دینا شروع دیا اور یہ احادیث اس قدر پھیل گئیں اور اھمیت کی حامل ھوگئیں کہ ان(احادیث) کو قرآن کی طرح سیکھ لیا اپنی لڑکیوں، غلاموں، کنیزوں اور عورتوں کو تعلیم دے دی گئیں۔

اس کے بعد ایک دوسرا خط لکھا اور اپنے کارندوں سے چاھا کہ جس شخص پر علی  (علیہ السلام) کی دوستی کا الزام ھو اس کو زیرنظر اور اس پر دباوٴ بنائے رھیںاس کے گھر کو خراب کرد یں۔”۔۔ اس طرح بھت سی احادیث جعل کر کے منتشرکر دی گئیں۔ فقیھوں، قاضیوں اور امیروں نے بھی یھی راستہ اختیار کیا۔ اسی درمیان ریاکار جھوٹے راوی اور زھد فروش حقیر اور مقدس نما، افراد اس مسابقہ میں بازی جیت لے گئے اور سب سے زیادہ اپنے آپ کو اس سے آلودہ کرلیا تاکہ اس راہ سے مال و متاع اور مقام ان کے ھاتھ لگے اور وہ حکام سے نزدیک ھوجائیں ۔یھاں تک کہ یہ احادیث متدین افراد اور سچ بولنے والوں کے پاس پھو نچ گئیں جو لوگ نہ تو جھوٹ بولتے تھے اور نہ ھی فطری طورپر اس بات کا یقین کر نے پر قادر تھے کہ دوسرے لوگ بعنوان محدث و راوی جھوٹ بولیں گے۔ لہٰذا ان سب کو قبول کرکے اورسچ سمجھ کر روایت کرنے لگے ۔اگر وہ جانتے کہ یہ احادیث جھوٹ اور باطل ھیں تو نہ ان کو قبول کرتے اور نہ ھی ان کو نقل کرتے۔۔۔“[32]

اس کے بعد ابن ابی الحدید نے ابن نفطویہ جو کہ برزگ محدثین میں سے ھیں، ان سے ایک جملہ نقل کرتے ھیں مناسب ھے کہ ھم بھی اس کو نقل کردیں:”اکثر جعلی حدیثیں جو صحابہ کے فضائل میں گڑھی گئیں وہ بنی امیہ کے زمانہ میں گڑھی گئیں ھیں، تاکہ اس کے ذریعہ ان کا تقرب حاصل کریں یہ خیال کرتے ھوئے کہ اس طرح بنی ھاشم کی ناک زمین پر رگڑ دیں گے۔[33]

حقیقت یہ ھے کہ معاویہ اور اس کے بعد بنی امیہ نے، مختلف وجوھات اور دلائل کے تحت ایسے اقدام کئے۔ وہ اپنی موقعیت اور مشروعیت کو ثابت کرنے اور اپنے سب سے بڑے رقیب و مخالف، بنی ھاشم اور ان میں بھی سرفھرست ائمہ معصومین(ع)کو میدان سے ھٹانے کے لئے مجبور تھے کہ خود کو عثمان کے شرعی اور قانونی وارثوں کی حیثیت سے پھچنوائیں اور حضرت علی(علیہ السلام) کے ھاتھ کو اس کے خون سے آلودہ بتائیں اگر ان کاموں میں وہ کامیاب ھوجاتے تو وہ اپنے مقاصد تک پھنچ جاتے ،اسی وجہ سے خاص طورپر شعرا اور ان کی مدح و سرائی کرنے والوں نے عثمان کے فضائل بیان کرنے اور ان کو بے گناہ قتل ھونے اور یہ کہ بنی امیہ اس کے خون کے حقیقی وارث ھیں اور اس کی طرف سے یہ خلافت ان تک پھنچی ھے، اس کے لئے ان لوگوں نے داد سخن دی ھیں۔[34]

گولڈزیھر (Goldziher) اس بارے میں اس طرح کھتا ھے:”تاریخ کے نقطہٴ نظر سے یہ چیز تقریباً مسلم ھے کہ بنی امیہ نے خود کو عثمان کا قانونی اور شرعی جانشین کھلوایا اور اس کے خون کا انتقام لینے کے عنوان سے حضرت علی(علیہ السلام) اور ان کے شیعوں کے خلاف بنی امیہ دشمنی پر تل گئے ۔ اسی سبب سے عثمانی ایک ایسا عنوان ھوگیا تھا جو اموی خاندان کے سر سخت طرفداروں پر اطلاق ھوتا تھا۔[35]

یہ سب اس بات کا مرھون منت ھے کہ عثمان جس قدر، منزلت پاسکتے ھوں پالیں۔ ایسی منزلتیں جو ان کو ھر اس تنقید سے بچاسکتی تھیں جو تنقید یں ان پر کی جاسکتی تھیں اور اس میں چند اھم نتیجہ پائے جاتے تھے۔ پھلا یہ کہ اس کے ذریعہ کوئی سوچ بھی نھیں سکتاکہ وہ کیوں اور کن لوگوں کے ذریعہ اور کن تھمتوں کی وجہ سے قتل کئے گئے ؟ وہ فضائل جو ان(عثمان) کے لئے نقل ھوتے تھے ان کی حقیقی شخصیت اور ان کے اعمال و کردار کے اوپر ایک ضخیم پردہ کی حیثیت رکھتا تھا اورھالہ کی روشنی کے سبب ان کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیتا تھا۔ دوسرے: یہ ثابت کرتا تھا کہ ایک ایسا شخص جواپنی زندگی کے آخری لمحہ تک حق و حقیقت کے سوا کسی اور راہ پر نہ تھا لہٰذا وہ مظلومانہ طور پر شھیدکیاگیا ھے اور اس کے قاتل، بے دینوں اور بددینوں کا ایک گروہ تھاالبتہ پروپیگنڈے سے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتے تھے کہ علی(علیہ السلام) کا اس حادثہ میں ھاتھ تھا بلکہ ان کا اھم کردار تھا۔ تیسرے : اس خون ناحق کا انتقام لیا جائے اور اس کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ اور بنی امیہ کے علاوہ کون سب سے زیادہ حق دار ھوسکتا ھے! معاویہ عثمان کے خون کا ولی اور وارث ھے اور صرف اسی کو اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اُٹھنا چاہئے اور صرف اسی کو اس کا جانشین ھونا چاہئے لہٰذا معاویہ کی خلافت اور جانشینی بھی مشروعیت پارھی تھی اور علی(علیہ السلام) سے اس کی مخالفت اور آپ سے جنگ بھی شرعی اور قانونی  قرار پارھی تھی۔ اتفاقاً اس طرح کے استدلال اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے قابل درک تھے کیونکہ وہ لوگ ابھی تک دوران جاھلیت کے میراث کے قانون سے متائثر تھے اور بنی امیہ بھی اپنی پوری طاقت و قوت کے ساتھ انھیں زندہ کرنے کے لیئے کمر بستہ تھے اور وہ لوگ اس کو درک کرتے تھے۔ کیونکہ جاھل معاشرہ میں ثار کے قانون کی بنیاد پر مقتول کے وارثوں پر لازم ھے کہ اس کا انتقام قاتلوں سے لے لیں۔ اصل (اس قانوں میں) فقط انتقام لینا ھے دوسری کسی اصل کی رعایت نھیں ھے نہ کہ کسی اور دوسری اصل (قاعدہ) اور حدود کی رعایت کرنا۔[36]

اب تک جو کچھ بھی بیان ھوا اس کا بھترین ثبوت جنگ صفین میں عمرو ابن عاص اور ابو موسیٰ اشعری کے ذریعہ حکمیت کے بارے میں موافقت نامہ کا تحریر کرنا ھے۔ ایک ایسا نمونہ جس کی بعد میں معاویہ اور سارے خلفائے بنی امیہ اس کی پیروی کرتے تھے۔ ان دونوں کی بھت سی بحث و گفتگو کے بعد عمرو عاص نے اپنے ساتھی سے چاھا جس چیز پر ھم توافق کرتے جائیں وہ کاتب کے ذریعہ لکھوایا جائے۔ کاتب اسی عمرو کا بیٹا تھا، خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت اور پھلے دو خلفا(ابو بکر وعمر) کی حقانیت کی گواھی لکھنے کے بعد عمرو ابن عاص نے اپنے بیٹے سے کھا لکھو: کہ عثمان، عمر کے بعد تمام مسلمانوں کے اجماع اور صحابہ کی مشورت اور ان کی مرضی سے خلافت کے عھدہ پر فائز ھوئے اور وہ مومن تھے۔“ ابوموسیٰ اشعری نے اعتراض کیا اور کھا: یھاں اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے نھیں بیٹھے ھیں، عمرو نے کھا:” خدا کی قسم یا وہ مومن تھے یا کافر تھے۔

ابوموسیٰ نے کھا :”مومن تھے۔“

عمرو نے کھا ”ظالم قتل ھوئے یا مظلوم؟“

ابوموسیٰ نے کھا ”مظلوم قتل ھوئے ھیں۔“

 عمرو نے کھا :”آیا خداوندعالم نے مظلوم کے ولی کو یہ اختیار نھیں دیا کہ اس کے خون کا بدلہ لے؟ “

ابوموسیٰ نے کھا: ”کیوں نھیں“

عمرو نے کھا: ”آیا عثمان کے واسطے معاویہ سے بھتر کوئی ولی جانتے ھو؟“ ابوموسیٰ نے کھا ”نھیں“

عمرو نے کھا:”آیا معاویہ کو اتنا بھی حق حاصل نھیں ھے کہ وہ عثمان کے قاتل کو جھاں بھی ھوں اپنے پاس طلب کرے تاکہ یا تو اس کو قتل کردے یا اس کے مقابلہ سے وہ عاجز ھوجائے؟ “

ابوموسیٰ نے کھا :”کیوں نھیں، ایسا ھی ھے“

عمرو نے کھا:” ھم ثبوت پیش کرتے ھیں کہ علی نے عثمان کو قتل کیا ھے۔[37]

اور ان تمام باتوں کو اس عھد نامہ کا جز قرار دیا مقام صحابہ کا اتنا اھم ھوجانا

یہ ان حالات کا ایک گوشہ ھے جس میں عثمان اور گذشتہ خلفا اور صحابہٴ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے نفع میں حدیث کا گڑھے جانے کا کام انجام پایا۔ معاویہ اپنے مقاصد تک پھنچنے کے لئے مجبور تھا کہ عثمان کی حیثیت اور  شخصیت کو بڑھائے لہٰذا مدائنی کے نقل کے مطابق کہ (معاویہ نے) بلا فاصلہ خلافت پر پھنچنے کے بعد حدیثیں گڑھنے کا حکم صادر کردیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ اقدام فقط شخص عثمان تک محدود نھیں رہ سکتا تھا۔ کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے، جن میں سے بعض نے عثمان اور ان کے پھلے والے خلفا کو دیکھا تھا یہ ان لوگوں کے لئے قابل درک وہضم نھیں تھا کہ اس (عثمان) کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ھو اور اس کے پھلے والے خلفا اور دوسرے صحابہٴ نامدار کی یہ منزلت نہ ھو۔ یہ مسئلہ عثمان کے فضائل کے بارے میں مختلف قسم کے سوالات اور شک وشبہہ ایجاد کرسکتا تھا یھی وجہ تھی کہ وہ (معاویہ) مجبور ھوگیا کہ عثمان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی شان و شوکت اور مقام و منزلت بلند کریں اور ایسا ھی کیا۔

اس ضرورت کے علاوہ اس عمل کے دوسرے نتائج بھی تھے۔ ان میںسے اھم ترین نتیجہ یہ تھا کہ ایک ایک صحابہ کی قدر و منزلت کو آشکار کرنے کے ذریعہ بلند ترین قدر ومنزلت رکھنے والے صحابی کی معروف ترین شخصیت اور حیثیت کو دبانے اور کم کرنے میں مدد کررھے تھے۔[38] یہ کہ جو معاویہ نے کھا:” ابوتراب کی کسی بھی فضیلت کو جو کسی مسلمان نے نقل کی ھو اسے ھرگز نہ چھوڑنا مگر یہ کہ اس کے خلاف صحابہ کی شان میں  حدیث میرے پاس لاوٴ۔“ درحقیقت اس کا مقصد حضرت علی(علیہ السلام) کی حیثیت اور شخصیت کو کم کرنا تھا۔ یھی وجہ تھی کہ اس نے صراحت کے ساتھ کھا:” اس بات کو میں دوست رکھتا ھوں اور وہ میری آنکھوں کو روشن کرتا ھے جو ابوتراب اور ان کے چاھنے والوں (شیعوں)اور ان کی دلیلوں کو بھتر طورپر باطل کرتا ھے۔“ البتہ ان دلیلوں کے تحت جن کا ھم بعد میں تذکرہ کریں گے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ھو گیا۔

بھرحال نتیجہ یہ ھوا کہ دوسروں کی سطح بھی اوپر آگئی اس حد تک کہ بسا اوقات پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی سطح کے نزدیک قرار پاگئی اور صدر اول کی تاریخ ایک شان او ر قدر منزلت اور تقدس کی حامل ھوگئی اور اس کی قدر و منزلت خود اسلام کے ھم پلہ ھوگئی اور اس طرح اسلام کی ھمزاد ھوگئی کہ بغیر اس کی طرف توجہ دیئے اسلام کا سمجھنا ممکن نہ تھا۔ [39]

------------------

[1] یہ معروف جملہ ھے جس کو مختلف مناسب مواقع پر عمر سے نقل کیا گیا ھے۔ اس کے لئے آپ  تحریر الاعتقاد کے ص/۲۴۵، پر رجوع کریں؛ اور شرح ابن ابی الحدید کی ج/۲، ص/۲۶پر رجوع کریں۔

[2] ”۔۔۔ جن لوگوں نے علی(علیہ السلام) کی بیعت کی تو ان کی بیعت کرنے کا اصلی سبب یہ تھا کہ آپ کو مسلمانوں کے درمیان مقام خلافت کے لئے سب سے بھتر پاتے تھے جیساکہ گذشتہ زمانہ کے مسلمان ابوبکر کو مقام خلافت کے لئے سب سے بھتر سمجھتے تھے، اسی لئے اس کا انتخاب بھی کرلیا اور یکے بعد دیگرے عمر اور عثمان کو منتخب کرتے رھے (۲۲۰) اسلام بلا مذاھب ص/۱۱۰۔

[3] ان توقعات کے نمونوں میں سے ایک نمونہ ابوموسیٰ اشعری کی تجویز ھے جس کو آپ مروج الذھبکی ج/۲، ص/۴۰۹، پر ملاحظہ کریں۔

[4] طلحہ و زبیر کا جنگ جمل سے پھلے امام جماعت اور لشکر کی قیادت کے سلسلہ میں اختلاف اس کے لئے آپ ”نقش عائشہ در تاریخ اسلام“ کی ج/۲، ص/۴۸۔ ۶۵پر  رجوع کریں۔

[5] طلحہ کا جنگ جمل کے دوران مروان کے ھاتھوں قتل کئے جانے اور اس کے مدارک میں تنقیدی چھان بین کے بارے میں آپ اسی کتاب کے ص/۱۷۳۔ ۷۵ ۱پر رجوع کریں، نیز العواصم من القواصم فی الذب عن سنةابی القاسم کے ص/۲۴۰۔ ۲۴۱،پر اور خاص طورپر اسی طرح آپ محب الدین خطیب کے شدید تکلیف دہ جواب کے لئے ان کے حاشیوں میں رجوع کریں۔

[6] اس کے باوجود کہ سعد ابن ابی وقاص کے ایسا انسان علی(علیہ السلام) کے ساتھ نہ تھا لیکن وہ یہ بھی نھیں چاھتا تھا کہ وہ آپ(علیہ السلام)  سے مقابلہ کرے، وہ اس جملہ کو اپنی زبان پر لاتے ھوئے کہ” میں جنگ نھیں کروں گا کہ مجھے تلوار دو اور وہ میرے بارے میں یہ سوچیں اور دیکھیں اور یہ کھیں کہ یہ راہ راست اور دوسرا خطا پر ھے۔“ حضرت علی(علیہ السلام) کی مددسے انکار کردیا الفتنة الکبریکےٰ ص/۵پر، لیکن اس کے باوجود امام(علیہ السلام) کی تعریف میں یہ کھا: ”پس پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے جو باتیں علی  (علیہ السلام) کے بارے میں میں نے سنی ھیں اگر میرے سر پر آرہ رکھ کر ان کو برا بھلا کھنے کے لئے کھیں کہ ان کو برا بھلا کھوں تب بھی میں ان کو برا بھلا نھیں کھوں گا۔“ کنز العمال اس روایت کو مختلف نقلوں اور سندوں کے ساتھ بیان کرتی ھے۔ ج/۱۳، ص/۱۶۲۔ ۱۶۳۔

[7] الخلافة و الامامة عبد الکریم الخطیب‘ ص/۱۲۱۔

[8] مقدمہ ابن خلدون‘ ج/۱، ص/۲۹۸۔

[9]شرح ابن ابی الحدید‘ ج/۲۰، ص/۸۔

[10] اس خود پسندانہ تفسیر اور اس من چاھی اور ناجائز توقعات کے بھترین نمونہ کو علی(علیہ السلام) سے طلحہ و زبیر کے مجادلات میں دیکھا جاسکتا ھے اس کے لئے آپ”نقش عائشہ در تاریخ اسلام“ کے ص/۳۵۔ ۴۱، پر رجوع کریں۔

[11] بیشک حضرت علی(علیہ السلام) اپنی خلافت کے وقت جن مخالفتوں سے روبرو ھوئے اس کے چند اصلی اسباب تھے ان میں سے ایک سبب خاندان قریش کا آپ سے قدیمی کینہ تھا۔ امام(علیہ السلام)  نے بارھا مختلف مواقع پر اس کی طرف اشارہ کیا ھے۔ اور قریش والوں کی شکایت کی۔ ایک بار آپ(علیہ السلام)  نے فرمایا: ”تمام وہ کینہ جو قریش نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے لئے اپنے دل میں رکھتے تھے مجھ پر ظاھر کردیا اور بعد میں میری اولاد سے بھی اس کینہ کا اظھار کریں گے۔ مجھ کو قریش سے کیا سروکار! خدا اور اس کے رسول کا حکم تھا جس کے باعث میں ان (قریش) سے لڑا۔ کیا خدا و رسول کی اطاعت کرنے والے کی جزا یھی ھے، اگر یہ لوگ مسلمان ھیں۔“ الشیعة و الحاکمون ص/۱۷۔ قابل توجہ بات تو یہ ھے کہ دوسرے لوگ بھی اس نکتہ کی تہہ تک پھونچ گئے تھے۔ ایک دن عمر نے عباس سے اس طرح کھا:” اگر ابوبکر کی رائے اپنے مرنے کے بعد کے خلیفہ کے بارے میں نہ ھوتی تو بیشک و شبہہ یہ قدرت تمھارے پاس پھونچ جاتی اوراگر ایسا ھوجاتا تو اپنی قوم سے تمھیں چین کا سانس لینا نصیب نہ ھوتا۔ وہ تم کو اس طرح دیکھتے ھیں جس طرح ذبح ھونے والی گائے قصاب کو دیکھتی ھے۔“ ایک دوسرے مقام پر ایک جلیل القدر صحابی ابن التیھان نے حضرت علی(علیہ السلام) سے کھا: ”قریش کا حسد آپ کی بہ نسبت دو طرح کا ھے۔ ان میں کے اچھے لوگ چاھتے ھیں کہ آپ ھی کی طرح ھوجائیں اور آپ ھی کی طرح معنوی اور روحانی حیثیت بڑھانے میں آپ سے رقابت کریں لیکن ان میں کے جو برے لوگ ھیں وہ آپ(علیہ السلام)  سے اس قدر حسد کرتے ھیں جو دل کو سخت بنادیتا ھے اور عمل کو نابود کرنے والا ھے۔ جب وہ دیکھتے ھیں کہ آپ(علیہ السلام)  کن نعمتوں سے مالا مال ھیں جو آپ(علیہ السلام)  کی خوشنودی اور ان کی محرومی کا باعث ھے۔ وہ چاھتے ھیں کہ آپ(علیہ السلام)  کے برابر ھوجائیں اور آپ(علیہ السلام)  سے آگے نکل جائیںکہ وہ اپنے مقصد کو حاصل نھیں کرپاتے ھیں اور ان کی کوشش بے نتیجہ ھوجاتی ھے چونکہ وہ کامیاب نھیں ھوتے ھیں لہٰذا وہ آپ(علیہ السلام)  سے مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑے ھوتے ھیں۔ خدا کی قسم آپ(علیہ السلام)  تمام قریش سے زیادہ ان کے نزدیک قدردانی کے مستحق ھیں۔ کیونکہ آپ(علیہ السلام)  نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کی مدد کی اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی رحلت کے بعد ان کے حق کو ادا فرمایا۔ خدا کی قسم ان کی سرکشی میں صرف انھیں کا نقصان ھے۔ انھوں نے اس کے ذریعہ خدا کے عھد کو توڑ دیا اور اس (خدا وند عالم) کا ھاتھ تمام ھاتھوں سے برتر ھے۔ لیکن ھم انصار کے ھاتھ اور زبانیں آپ(علیہ السلام)  کے ساتھ ھیں۔۔۔“ الفکر السیاسی الشیعی کے ص/۲۰۴۔ ۲۰۶،پر رجوع کریں ؛خاص طورپر آپ زیاد ابن الغم شعبانی کے نظریات میں رجوع کریں (متوفی۱۵۶) اور اسی طرح شعبی نے بھی اسی باب میں محب الدین خطیب العواصم من القواصم نامی کتاب کے حاشیہ کے ص/۱۶۸۔ ۱۶۹، سے نقل کیا ھے۔ واقعیت یہ ھے کہ قریش کی مخالفت صرف حضرت علی(علیہ السلام) تک محدود نہ تھی یہ خود پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کو بھی شامل تھی کہ اس کے نمونے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی عمر کے آخری حصہ میں باربار دیکھے جاسکتے ھیں۔ شیخ مفیدۺ، امام صادق(علیہ السلام) سے روایت نقل کرتے ھیں کہ اس میں کا کچھ حصہ اس طرح ھے: ”پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کو خبر ملی کہ قریش کے بعض لوگوں نے اس طرح کھا ھے: کیا تم لوگوں نے نھیں دیکھا کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  نے کس طرح قدرت کو اپنے اھل بیت کے لئے مستحکم اور استوار بنادیا ھے ان کی وفات کے بعد اس قدرت کو ھم ان (اھل بیت) سے دوبارہ لے لیں گے اور اسے دوسری جگہ پرمقرر کردیں گے۔۔۔“ امالی، ص/۱۲۳۔ قریش کے طعنہ دینے کے باب میں اور ان میں سے سرفھرست ابوسفیان تھاجو بنی ھاشم کو حتیٰ زمان پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  میں بھی طعنہ دیا کرتا تھا اس کے لئے عبداللہ بن عمر کی روایت کو اقتضاء الصراط المستقیم، نامی کتاب مصنفہ ابن تیمیہ کے ص/۱۵۵ سے ماخوذ ھے اس پر ملاحظہ فرمائیں اور ایسے ھی ابوسفیان کے کلام کی طرف بھی جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے چچا حضرت حمزہ کی قبر کو مخاطب کرتے ھوئے کھا قاموس الرجال، نامی کتاب کی ج/۱۰، ص/۸۹، پر رجوع فرمائیں۔

[12] اس زمانہ کے رائج دین کی تبعیت میں ڈاکٹر طہ حسین صاحب کے اقتصادی بدلاؤ کے بارے میں تحلیل و تجزیہ کو الفتنة الکبریٰ، نامی کتاب میں رجوع کریں۔

[13] نمونہ کے واسطے ابوحمزہ کے خطبہ البیان والتبیین، کی ج/۲، ص/۱۰۰۔ ۱۰۳، پر رجوع کریںاور یہ کہ پھلے والے دو خلیفہ اور حضرت علی تعارف کس طرح سے کرایا گیا۔

[14] نظریة الامامة لدی الشیعة الاثنا عشر، نامی کتاب کے، ص/۲۸۰ پر، ان تنقیدوں کے خلاصہ کو تلاش کیا جاسکتا ھے۔

[15] معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں اور اس کی اتباع میں پھلے زمانہ کی دینی، سیاسی اور فکری تبدیلیاں اس قدر گھری اور تیز تھیں کہ معاویہ کے جیسے بلا کے سیاسی انسان کو بھی عاجز وناتواں بنادیا۔ اس نے اپنے مرض الموت کے خطبہ میں اپنی ناتوانی اور عاجزی کا اعتراف کرتے ھوئے کھا تھا: ”اے لوگو! ھم بھت ھی سخت اور گیرودار اور فتنہ سے بھرے ھوئے زمانے میں واقع ھوئے ھیں۔ ایسا زمانہ جس میں ایک صالح انسان گنہگار شمار کیا جاتا ھے اور ظالم اپنی سرکشی میں اور اضافہ کردیتا ھے۔۔۔“ عیون الاخبار، ج/۲، ص/۲۵۹۔

[16] حقیقت تو یہ ھے کہ عائشہ بھت زیادہ مصمم نھیں تھیں اور حتیٰ کہ حضرت علی(علیہ السلام) سے جنگ کرنے کے لئے مائل نھیں تھیں چند بار ارادہ کیا میدان جنگ میں نہ جائیں زیادہ تر عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجہ تھے، حضرت عائشہ کو ان کے قطعی ارادہ سے روک دیا۔ اس کے لئے آپ نقش عائشہ در تاریخ اسلام، نامی کتاب کی ج/۲، ص/۵۱۔ ۵۲ کی طرف رجوع کریں۔

[17] عائشہ جنگ جمل کے بعد اپنے کئے پر سخت پشیمان ھوئیں اور انھوں نے اسے مختلف طرح سے اظھار اور بیان کیا۔ ان میں سے ایک معاویہ کے ذریعہ حجر بن عدی کی شھادت کے بعداس طرح کھا: ”میں یہ چاھتی ھوں حجر کے خون کے بدلہ لینے کے لئے قیام کروں (اس کا بدلہ لوں) لیکن ڈر اس بات کا ھے کہ کھیں جنگ جمل کی تکرار نہ ھوجائے: الفکر السیا سی الشیعی، ص/۲۹۱۔

[18] زبیر کا محاذ جنگ چھوڑ کر چلے جانے کا بڑی ھی باریکی سے جائزہ لینے کے لئے عائشہ در تاریخ اسلام، نامی کتاب کی ج/۲، ص/۱۶۰۔ ۱۷۰ پر ملاحظہ کیجئے۔

[19] بطور نمونہ الامامة والسیاسة، نامی کتاب کے ص/۱۷۷، ۱۸۹،۱۹۱ پر رجوع کریں۔

[20] حقیقت یہ ھے کہ انصار کی حضرت علی بن ابی طالب+ کی حمایت اور معاویہ اور امویوں کی مخالفت کے بھت سے دلائل اور وجوھات موجود ھیں۔ سب سے زیادہ مخالفت یہ تھی کہ ان لوگوں کو اپنی موافقت کے لئے کھینچ لیا اور یہ سبب مستقل برقرار رھا۔ یھی وجہ تھی کہ معاویہ نے مختلف مواقع پر ان لوگوں کو اس بات کا طعنہ دیا اور یزید اور تمام امویوں نے بھی ایسا ھی کیا یھاں تک کہ ان کے قتل عام کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے۔ محمود صبحی، مسعودی کے قول سے اس طرح حکایت کرتا ھے: ”جس وقت امام حسن(علیہ السلام) نے معاویہ سے صلح، قیس بن سعد نے معاویہ سے جنگ کرنے پر اصرار کیا اور اپنے افراد کو اختیار دیا کہ یا تو امام حسن(علیہ السلام) کی طرح صلح پر قائم رھیں یا پھر بغیر امام(علیہ السلام)  کی اجازت کے جنگ کو جاری رکھیں۔“ اس کے بعد وہ خود اضافہ کرتا ھے: ھاں اس نے اچھے طریقے سے امویوں کو انصار پر امویوں کی حکومت کے مفھوم کو جان لیا تھا۔ نظریة الامامة لدیٰ الشیعة الاثنا عشریة، ص/۴۴۔ایک دوسری جگہ قیس بن سعد ایک خط (نامہ) کے ضمن میں جو نعمان بن بشیر کو لکھا تھا کہ وہ خود انصار میں سے تھے لیکن خاندان اور قبیلہ کے درمیان اختلاف کی بنا پر انصار سے جدا ھوکر معاویہ سے مل گیا تھا، اس طرح لکھا: ”اگر تمام عرب معاویہ کی حمایت میں جمع ھوجائیں، تب بھی انصار اس سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ھونگے انصار اور امویوں کی گھری جڑیں رکھنے والی مخالفت کے بارے میں آپ، الامامة و السیاسة،کی ج/۱، ص/۱۷۷۔ ۲۲۰۔ پر رجوع کریں اور اسی طرح معاویہ اور انصار کے درمیان رقابت کے بارے میں بھی البیان و التبیین، کی جلد/۱، ص/۱۲۹ پر رجوع کریں۔

[21] اس داستان کو عموماً کتب تاریخ واحادیث نقل کرتی ھیں۔ اس کے لئے آپ ، حاشیہ ملل ونحل، ج/۱، ص/۱۱۶ پر رجوع کریں۔ یھاں پر مزے کی بات تو یہ ھے کہ اس کو ابن تیمیہ جیسا شخص بھی السیاسة الشرعیہ، کے ص/۴۶ پر نقل کرتا ھے: اس باب میں وہ احادیث جو خوارج کے بارے میں وارد ھوئیں ھیں ان کے بارے میں کنزالعمال، کی،ج /۱۱، ص/۲۸۶۔ ۳۲۳ پر رجوع کریں۔

[22] خوارج کے وجود میں آنے اور ان کی پیدائش اور بقا کی کیفیت کے بارے میں بھترین کتاب مصنفہ نایف الخوارج فی العصر الاموی کی معروف نیز قدیمی ترین کتاب الخوارج والشیعة، مولفہ ولھازن، ترجمہ عبدالرحمن بدوی میں کسی طرف بھی رجوع کریں۔

ان کے بارے میں بھترین اور جامع ترین تعریف توصیف کو خود امام(علیہ السلام) نے بیان کیا ھے۔ نھروان کی جنگ کے تمام ھونے کے بعد امام (علیہ السلام) سے پوچھا گیا کہ یہ لوگ کون تھے؟ اور کیا یہ لوگ کافر تھے؟ آپ نے فرمایا: ان لوگوں نے کفر سے فرار کیا۔ ان لوگوں نے پھر پوچھا کیا یہ لوگ منافق تھے؟ آپ(علیہ السلام)  نے فرمایا: منافق لوگ خدا کو بھت کم یاد کرتے ھیں۔ حالانکہ یہ لوگ خدا کی یاد کثرت سے کرتے ھیں۔ پھر آپ سے یہ سوال کیا گیا کہ آخر وہ کون لوگ تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ایک ایسا گروہ تھا جو فتنہ میں مبتلا ھو گیا۔ لہٰذا وہ لوگ اندھے اور گونگے ھوگئے۔ المصنف شمارہ/۱۸۶۵۶ /ونیز قرائة ج-دی-دة ف-ی م-واق-ف ال-خ-وارج وف-ک-ر وادبھم کے ص/۷۵۔ ۸۲ پر بھی رجوع کریں۔

[23] بطور نمونہ ابوحمزہ کے اس خطبہ کو جس مقام پر وہ معاویہ، یزیداور بنی مروان کا تعارف کراتا ھے اس کے لئے آپ البیان التبیین، کی ج/۲، ص/۱۰۰۔ ۱۰۳، پر رجوع کریں۔ بعد میں خوارج کی جانب سے کی گئی اصلاحات اور ان کے درمیانہ اقدام کو آپ ملاحظہ کریں اباضیہ کے فقہ و کلام میں خاص طور پر ازالة الاعتراض عن مخفی آل اباض، و الاصول التاریخیة للفرقة الاباضیة، نامی کتابوں میں رجوع کریں۔

[24] حقیقت یہ ھے کہ متعدد مواقع پر بنی امیہ کی سیاست ایک ایسی سیاست تھی جو قھر وغلبہ، دباؤ، دھمکی آمیز انداز، خوف کا ماحول بنانے اور بلا وجہ ایک شخص کو دوسرے پر ترجیح دینے اور جبری دین کا لبادہ پھنے ھوئے تھی، نمونہ کے طور الامامة و السیاسة، کی ج/۱، ص/۱۹۱۔ ۱۸۳ یزید کے لئے بیعت لینے کے موقع پر معاویہ کے کلام کی طرف رجوع کریں۔ اور زیاد بن سمیہ کا اھل بصرہ سے وحشت ناک خطاب جس کو البیان والتبیین، کی ج/۲، ص/۵۸۔ ۶۰ پر، اپنے باپ مروان کے مرنے کے بعد عبدالملک کا خطبہ جس کو انساب الاشراف، نامی کتاب کی ج/۱، ص/۱۶۴ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ھے۔ مصعب بن زبیر کے قتل کرنے کے بعد خود اسی کا خطبہ جس کو الامویون والخلافة، کے ص/۱۲۰ پر بھی رجوع کریں۔ اور اسی طرح سے طبری، ج/۷، ص/۲۱۹ میں بھی ملاحظہ کریں۔ یزید بن عبدالملک کا اپنے دو بیٹوں کی ولایت عھدی کے بارے میں ان کے نام خط اور اسی طرح حجاج کے متعدد خطبے جس کو جاحظ نے البیان والتبیین، نامی کتاب کی جلد دوم میں بیان کیا ھے۔ خاص طورپر عراق کے لوگوں سے اس کا خطاب اسی کتاب کے ص/۱۱۴ و ۱۱۵ پر رجوع کریں، خاص طورپر آپ، الامویون والخلافة، نامی کتاب کی طرف مصنفہ، حسین عطوان کی طرف رجوع کر یں۔ سب سے بھتر اور سبق آموز مطلب کے لئے آپ، عبداللہ بن مروان کی داستان کی طرف رجوع کریں جو بنی امیہ کے آخری خلیفہ کا بیٹا تھا، اپنے خاندان کی حکومت کے ختم ھوجانے کو نئے بادشاہ کے عنوان سے اپنی زبانی منصور سے نقل کرتا ھے بادشاہ نے امویوں کی داستان کو سن کر عبداللہ سے یہ کھا: ”یھی وجہ ھے کہ خدا وند عالم نے تمھارے گناھوں کے سبب تم سے عزت اور بزرگی کو چھین لیا اور لباس ذلت پھنا دیا ھے اور انتقام خدا ابھی تمھارے اوپر ختم نھیں ھوا ھے اور میں ڈرتا ھوں کہ کھیں اسی وقت میرے ھی ملک میں خدا کا عذاب تم پر نازل ھوجائے اور تمھاری وجہ سے وہ عذاب مجھ پر بھی آجائے۔۔۔“ مقدمة ابن خلدون، ج/۱، ص/۳۹۷ اور ۳۹۸۔

[25] W. M. Watt, the Majesty That was Islam,p.18.

شامیوں اور عراقیوں کے فرق کے باب میں جعفری بھی واٹ کے نظریات کی تاکید کرتا ھے۔

[26] لوگوں (عوام الناس) نے میری بیعت کی۔ وھی افراد جنھوں نے ابوبکر وعمر وعثمان کی بیعت  توجہ کی ضرورت ھے کی اسی چیز پر ان لوگوں کی بیعت کی تھی۔۔۔ الیٰ آخرہ“ شرح نھج البلاغہ، ج/۳، ص/۸۔

[27] علامہ امینی مختلف روایتوں کو ان انگشت شمار اصحاب کے بارے میں نقل کرتے ھیں جو لوگ حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ جنگ صفین میں تھے۔ ایک روایت کی بناپر حاکم نے مستدرک میں روایت کی ھے، وہ ۲۵۰/افراد جنھوں نے بیعت رضوان میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے ھاتھ پر بیعت کی تھی جنگ صفین میں حضرت علی(علیہ السلام) کے ھم رکاب تھے اور ایک دوسری روایت کی بنا پر ۸۰۰/آدمی تھے، ان میں سے ۳۶۰/آدمی شھید ھوگئے۔ جیسا کہ جنگ بدر میں حضرت(علیہ السلام)  کے ھمراہ شرکت کرنے والے صحابہ ۷۰ و۸۰ یھاں تک کہ ۱۰۰/افراد کو بھی نقل کیا گیا ھے۔ خود حضرت علی(علیہ السلام) نے ۱۴۵/صحابہ کے نام ذکر کئے ھیں عموماً یھی امام(علیہ السلام)  کے باوفا ساتھیوں میں سے تھے جو حضرت کے لئے اسی شان اور حیثیت کے قائل تھے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  نے حضرت(علیہ السلام)  کے بارے میں فضیلت بیان کی ھے۔ ان میں سے بھت سے لوگ اس جنگ میں شھید ھوگئے اور امام اپنے آخری ایام میں بارھا ان سے بچھڑنے کو یاد کرکے گریہ فرماتے تھے اور یہ آرزو فرماتے کہ جتنی جلدی ھوسکے ان سے ملحق ھوجائیں۔ الغدیر، ج/۹، ص/۳۶۲۔ ۳۶۸ ۔

تسمیة من شھد مع علی حروبہ ان لوگوں کے اسامی جو امیر المومنین(علیہ السلام) کے ھمرکاب جنگ میں شھید ھوگئے تراثنا، مجلہ کے تسمیات نامی مقالہ کے شمارہ، ۱۵، کے ص/۳۱ پر ملاحظہ ھو۔

[28] اس طرح کے بیانات پھلے دو خلفا نے بھت زیادہ دئیے ھیں اور تاریخی اور مختلف روائی مآخذ میں کثرت کے ساتھ وارد ھوئے ھیں۔ اس کے لئے تجرید الاعتقاد، نامی کتاب موٴلفہ محمد جواد جلالی کے حاشیہ کے ص/۲۴۱۔ ۲۵۴ پر رجوع کریں۔

[29] معاویہ کے اقدامات ایسے موثر اور دیرپا تھے کہ بھت سے اھل سنت کے نزدیک اس نے اموی خاندان کو ایک بھت بلند مرتبہ عطا کردیا۔ ”کیونکہ امویوں کا مسئلہ اور ان کا دفاع ھمیشہ سنیوں کی سیاسی فکر کے عنوان سے باقی رھا۔“ ضحی الاسلام کی ج/۳، ص/۳۲۹  پر رجوع کریں۔

[30] اضواء علی السنة المحمدیة، کے ص/۲۱۶ کا ملاحظہ کریں۔ اور یہ کہ ابوھریرہ نے معاویہ کی خوشامد کے واسطے امام علی(علیہ السلام) کے خلاف کس طرح بھت سی روایات جعل کیں اور معاویہ کا قدرت پر پھنچنے کے بعد کوفہ میں لوگوں کے سامنے ان کو پڑھا اور اس نے اس کے بابت ایک بھت بڑا انعام حاصل کیا۔

[31] بھت سی ان باتوں (نکات) کو حاصل کرنے کے لئے جو روایت میں موجود ھیں اور شیعوں کے ایک صدی کے حالات کی عکاسی کرتی ھیں۔ اس کے لئے شرح نھج البلاغہ کی ج/۱۱، ص/۴۳ پر رجوع کریں۔

[32] حوالہ سابق (شرح نھج البلاغہ) ج/۱۱، ص/۴۴۔۴۶۔

[33] حوالہ سابق (شرح نھج البلاغہ) ج/۱۱، ص/۴۶۔

[34] بطور نمونہ اموی شعر کے اشعار کو ملاحظہ کیجئے الامویون والخلافة، کے ص/۱۵۔ ۲۱ پر اور عباسی شعرا کے رد کے ساتھ، مروج الذھب، کی ج/۳، ص/۴۳پر موازنہ کریں۔

[35] Goltziher, Muslim Studies Vol.2nd P.115.

[36] اموی لوگ کھتے تھے خلافت ھمارے جملہ حقوق میں سے ایک حق ھے اور انھوں نے اس کو عثمان سے ورثہ میں حاصل کیا ھے۔ عثمان نے شوریٰ کے ذریعہ اس کو حاصل کرلیا لیکن مظلوم قتل ھوگیئے اور ان کا حق پائمال ھوگیا۔ خلافت ان کے خاندان سے باھر چلی گئی اور دوسروں کی طرف منتقل ھوگئی۔ یہ ان کا فریضہ ھے کہ اس کو واپس پلٹانے کے لئے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ھوں۔ امویوں کی طرفداری میں رطب اللسان شعرا اس بات کو مختلف مواقع پر کھا کرتے تھے: الامویون والخلافة، ص/۱۳اور تبلیغ کرتے تھے کہ امویوں نے خلافت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  سے وراثت میں حاصل کی ھے۔ حوالہ سابق ص/۱۷۔

یہ تبلیغات اس حد تک موثر ھوگئیں کہ امویوں کی حکومت کے زوال تک ایسا اعتقاد، کم سے کم ان کی اپنی سرحد میں یعنی شام میں کامل شائع تھا۔ مسعودی اس موقع پر روایت کرتے ھیں: ”اس کے بعد کہ مروان، آخری اموی خلیفہ، قتل ھوگیا عبداللہ بن علی شام آئے اور وھاں کے ثروت مند لوگوں کے ایک گروہ کا انتخاب کرکے سفاح کے پاس بھیجا۔ انھوں نے سفاح کے نزدیک قسم کھائی کہ وہ لوگ امویوں کے علاوہ کسی کو پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے اھل بیت نھیں جانتے تھے تاکہ آنحضرت سے میراث حاصل کریں۔ اس مجلس میں ابراھیم بن مھاجر نے ایک شعر پڑھا جس کی بعد میں عباسیوں کے چاھنے والے شعراء نے متابعت کی اور امویوں کے طعنہ دینے کے ضمن میں، بنی عباس کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے ورثہ داروں کے نام سے یاد کیا۔“  اس کے لئے آپمروج الذھب، کی ج/۳، ص/۴۳ پر رجوع کریں۔

[37] اس داستان کی تفصیل کوکتاب مروج الذھب کی ج/۲، ص/۴۰۶۔ ۴۰۹ پر ملاحظہ کیجئے۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ استاد سبحانی اس داستان کا اصلی سبب خلفا کی حقانیت کا عقیدہ جانتے ھیں۔ ”جبکہ یہ عقیدہ تینوں خلفا کے زمانے میں دکھائی نھیں دیتا ھے مھاجرین وانصار کسی فرد کے ذھن میں خطور نھیں کرتا تھا کہ اس کی یا اس کی خلافت کا عقیدہ رکھنا واجب ھے اور جو ان کی خلافت کا معتقد نھیں ھے وہ مومنین کی جماعت سے خارج اور بدعت گزاروں کی جماعت میں داخل ھوگیا ھے۔ اس قاعدہ کو سیاست نے وجود دیا تاکہ علی(علیہ السلام) کو طعنہ دیں اور خون عثمان کے انتقام کے سلسلہ میں معاویہ کے خروج کو مشروعیت بخشے۔ شاید عمرو ابن عاص پھلا شخص تھا جس نے اس طرزتفکر کا بیج بویا۔“ اس کے بعد داستان کو مفصل طور پر نقل کرکے اس قسم کا نتیجہ نکالتا ھے: ”یہ داستان اور اسی کی طرح دوسری داستانیں اس بات کی حکایت کرتی ھیں کہ خلفا کی خلافت کا اعتقاد دشمنی اور رقابت کی مسموم فضا میں پیدا ھوا یھاں تک کہ وہ مکار اور ھوشیار مرد شیخین کی خلافت کے اعتقاد کو وسیلہ بنا کر عثمان کی حقانیت کا اقرار لینا قرار دے۔۔۔“ الملل والنحل،کی/۱، ص/۲۶۵۔ ۲۶۶ پر رجوع کریں۔

[38] اس طرح کے واقعہ کے نمونہ کو رجال حول الرسول نامی کتاب میں ملاحظہ کریں۔ اس واقعہ نے حتی ایک آزاد خیال اور خالد محمد خالد کے جیسا تجدد پسند انسان، جو اس کتاب کے موٴلف بھی ھیں ان کو بھی متاٴثر کردیا ھے۔

[39] بربھاری جو ابن حنبل کی کتاب السنة، کی شرح ھے اس میں کھتے ھیں: ”اس بات کو دل وجان سے ماننا ضروری ھے کہ عمر اور ابوبکر عائشہ کے حجرہ میں مدفون ھیں۔ پس جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کی قبر کے نزدیک آؤ تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کو سلام کرنے کے بعد ان دونوں پر سلام کرنا واجب ھے۔“ طبقات الحنابلة، نامی کتاب کی ج/۲، ص/۳۵ سے ماخوذ ھے۔

صحابہ نامی مقالہ سے موازنہ کریں شارٹر انسائکلوپیڈیا آف اسلام میں

Shorter Encyclopaedia of Islam.p.88

اور اسی طرح العواصم والقواصم فی الذب عن سنة ابی القاسم، کی ج/۳، ص/۲۳۔ ۲۳۰ پر بھی ملاحظہ کریں۔


source : http://www.balaghah.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment