اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

ولایت اور ولایت پذیری کا سلطنت اور بادشاہی سے کیا فرق ہے؟

اجمالی جواب : 

ولائی نظام و اسلامی حکومت کے بادشاہی نظام و حکومت کے ساتھہ کچھہ بنیادی اختلافات ہیں اور یہ اختلافات چند جہات سے قابل بحث ہیں:

الف۔ جواز: ولائی نظام کا جواز خداوندمتعال کی تائید پر مبنی ہے، لیکن بادشاہی نظاموں کے جواز کی بنیاد و تائید، قوموں کی رسومات اور وراثتی نظام پر مبنی ہے-

ب۔ شرائط اور انتخاب کا طریقہ: ولائی نظاموں میں، رہبر اور ولی امر کو منتخب کرنے کے لیے سخت شرائط کو مد نظر رکھا گیا ہے اور اس کے انتخاب کے لیے بھی ایک خاص طریقہ کار { جیسے : معصومین علیہم السلام کے بارے میں خداوندمتعال کی طرف سے مقرر ہونا اور معصومین علیہم السلام کے جانشینوں کے بارے میں لوگوں کی طرف سے مصداق کا انتخاب کرنا} ہے، اس کے برعکس بادشاہی نظاموں میں قریب ترین خونی رشتہ، بعد والے بادشاہ کے انتخاب کا معیار ہے-

ج۔ عزل کا طریقہ کار: ولائی نظاموں میں اگر ولی فقیہ ایک ایسی غلطی کا مرتکب ہو جائے کہ رہبری کو جاری رکھنے سے معذور ہو جائے یا رہبری کی شرائط کو کھو دے تو وہ خودبخود اس عہدہ سے معزول ہوجاتا ہے- رہبر کے شرائط کھو دینے کی تشخیص کی ذمہ داری مجلس خبرگان کو ہے- لیکن بادشاہی نظام چونکہ زیادہ تر استبداد اور مطلق العنانیت پر مبنی ہوتا ہے اس لیے لوگوں میں سے کوئی شخص ملک کے بادشاہ کو برطرف نہیں کر سکتا ہے-

تفصیلی جواب : 

ولائی نظام یا دینی حکومت اس نظام کو کہا جاتا ہے جو دینی تعلیمات کے مطابق اور "دین" پر مبنی ہو اور کم از کم کسی سلسلہ میں دینی تعلیمات سے ناموافق نہیں ہونا چاہئیے- لیکن بادشاہی نظام ایک ایسے نظام کو کہا جاتا ہے، جس میں ایک شخص بادشاہ یا ملکہ کے عنوان سے حکومت کا سربراہ ہوتا ہے-

ولائی نظام و حکومت اسلامی اور بادشاہی نظام کے درمیاں بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہ اختلافات چند جہات سے قابل بحث ہیں:

الف۔ جواز:

اسلام میں ولایت اور حاکمیت، ابتدائی اور ذاتی طور پر خدا کا حق ہے اور صرف وہی، لوگوں پر ولایت کا حق رکھتا ہے، کیونکہ اس نے لوگون کو پیدا کیا ہے، انہیں روزی عطا کرتا ہے اور ان کے تمام نفسانی اور جسمانی حالات سے آگاہ ہے اور موت و حیات سب کچھہ اس کے ہاتھہ میں ہے-

خداوندمتعال کا ارشاد ہے: " حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے[1]-" "بس تمہارا ولی اللہ ہے[2]"

اس کے بعد خداوندمتعال نے ولایت و سرپستی، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ائمہ طاہرین علیہم السلام اور ان کے بعد ان مومنین کو سونپی ہے جن میں خاص شرائط پائے جاتے ہیں، جیسے: ایمان،علم،قدرت، عدالت وغیرہ- قرآن مجید میں اس سلسلہ میں ارشاد ہوا ہے: " بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے[3]" اور " ایمان والو بس تمہارا ولی، اللہ ہے اور اس کا رسول اور صاحبان ایمان ہیں[4]-" اس بنا پر، شیعہ، قطعی دلیل کی بنا پر، پیغمبر اکرم{ص} کے بعد ائمہ طاہرین علیہم السلام کو اسلامی معاشرہ کے امام و سرپرست مانتے ہیں، جو خداوندمتعال کی طرف سے اس عہدہ پر منصوب ہوئے ہیں، ان کے بعد شیعہ علماء غیبت کے زمانہ میں عقلی و نقلی دلیلوں کی بنا پر عادل اور فہم و فراست والے فقیہ کو شرع اور معصوم امام {ع} کی طرف سے اسلامی معاشرہ کی حکومت و سرپرستی کا مسئول جانتے ہیں- البتہ شارع مقدس کی طرف سے مقرر ہونا لوگوں کے انتخاب کے منافی نہیں ہے- جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں، ولی فقیہ کے مصداق کو حاصل کرنے کی ذمہ داری ایسے اہل خبرہ کو سونپی گئی ہے، جو خود لوگوں کی طرف سے براہ راست ووٹنگ کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں، یعنی لوگ ولی فقیہ کے مصداق کو معین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن سلطنتی حکومتوں میں اکثر استبدادی اور مطلق العنان حاکم ہوتے ہیں اور ان کا جواز اقوام و ملل کے رسومات پر مبنی ہوتا ہے- بادشاہ بغاوت کے ذریعہ یا وراثتی طور پر اس عہدہ پر مقرر ہوتا ہے اور بادشاہ کے انتخاب میں صلاحیت و شائستگی کا کوئی عمل و دخل نہیں ہوتا ہے[5]-

ب۔ انتخاب کا طریقہ:جواز کی تائید سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، کہ ولائی نظام کی شرائط اور انتخاب کا طریقہ کار بادشاہی نظام سے بالکل مختلف ہے- ولائی نظام میں ولی امر کے انتخاب کے لیے اعلیٰ ترین شرائط، یعنی معصوم ائمہ کے لیے "عصمت" اور فقہا کے لیے فقاہت، فہم و فراست اور عدالت ہے، جبکہ بادشاہی نظام میں بادشاہ، یا بغاوت کے ذریعہ کسی حاکم کا تختہ الٹ کر حکومت پر قابض ہوجاتا ہے یا وراثتی طور پر اس عہدے کو سنبھال لیتا ہے اور ممکن ہے یہ بادشاہ ان پڑھ اور پست ترین شخص ہو اور اس نظام میں گزشتہ بادشاہ سے خاندانی قربت کے علاوہ کوئی شرط اور معیار قابل اعتبار نہیں ہے-

برطانیہ کا بدشاہ جیمز اول کہتا ہے: " بادشاہ کا مقام بذات خود ایک رازو رمز کے مترادف ہے کہ نہ قانون دان اور فلاسفہ اس کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں اور نہ اس کے راز سے آگاہ ہو سکتے ہیں-" یعنی کوئی بھی شخص بادشاہ کے لیے شرائط معین کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے[6]-

ج۔ معاشرہ کے لوگوں سے برتاو کا طریقہ: ولائی نظام میں، ولی امر کو الہٰی قوانین و دستور کے مطابق اور نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتے ہوئے معاشرہ کے نظم و انتظام کو چلانا ہوتا ہے اور اگر وہ الہٰی احکام کو پامال کرے تو وہ خودبخود اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے- اس طرح اس نظام میں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی خدمت کی جانی چاہئیے- امام علی علیہ السلام ، مالک اشتر کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط، جو ولائی و اسلامی نظام کا ایک مکمل منشور ہے، میں حکومت کے لوگوں سے برتاو کے بارے میں فرماتے ہیں: " لوگوں کے ساتھہ ہمدردی اور مہربانی کو اپنا لائحہ عمل قرار دینا اور سب کے دوست اور مہربان بننا، ایسا نہ ہو کہ ایک درندہ حیوان کے مانند بن جاو اور ان کو کھانا غنیمت سمجھو۔ ۔ ۔ ۔ خدا، لوگوں اور اپنے رشتہ داروں کا قرب حاصل کرنا اور اپنی رعایا، جنہیں تم دوست رکھتے ہو سے عدل و انصاف کا برتاو کرنا[7]-"

لیکن شہنشاہی نظام میں عملی طور پر قوانین اور الہٰی احکام کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہے بلکہ عمل کا معیار بادشاہ اور ارباب حکومت  کی مرضی اور اس کے دستور ہیں اور ہر قانون میں آسانی کے ساتھہ مداخلت کی جا سکتی ہے-

د۔ عزل و برطرفی کی کیفیت:

ولائی نظام میں، معصوم {ع} کے مسند حکومت پر فائز ہونے کے علاوہ کہ معصوم عصمت کی وجہ سے ہر گناہ ، خطا و لغزش سے محفوظ ہوتا ہے، رہبر کے عزل اور برطرفی کے لیے کچھہ طریقہ کار معین ہیں- مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ کے نظام میں آئین کی دفعہ نمبر۱۱۱ کے مطابق اگر ولی امر رہبری کی شرائط سے عدول کرے تو مجلس خبرگان کو اسے معزول کرنے کا حق ہے-

لیکن بادشاہی نظام میں، جو استبدادی نظام ہے، غالباً اس قسم کی کسی چیز کا مشاہدہ نہیں کیا جاتا ہے اور لوگوں کو برسوں تک رنج و مصیبت برداشت کرنا پڑتا ہے اور مشکلوں اور سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد شاہ کو اقتدار سے معزول کرسکتے ہیں یا کوئی شخص جو زیادہ طاقت رکھتا ہے، بغاوت کے ذریعہ شاہ کو اقتدار سے معزول کر کے خود یا کسی دوسرے کو اس کی جگہ پر بٹھا دیتا ہے- 

یہ بادشاہی نظام اور ولائی نظام کے درمیان فرق کے کچھہ حصے تھے اور ہر انصاف پسند انسان ان دو نظاموں کے درمیان موازنہ کرسکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی موجود فرق کو معلوم کر سکتا ہے-   

[1] انعام، 57.

[2] مائده، 55.

[3] احزاب، 6.

[4] مائده، 55.

[5] شاکرین ،حمید رضا،حکومت دینی،ص99 و 102و 103.

[6] پازارگاد، بهاءالدین،‌ تاریخ فلسفه سیاسی، ج 2، ص 502، انتشارات زوار.

[7] امام علی علیه السلام، نهج البلاغه،‌ نامه 53.

 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
دعا كی حقیقت كیا ہے اور یہ اسلام میں مرتبہ كیا ...
اگر خون کا ماتم نادرست ہے تو کیا پاکستان میں اتنے ...
کیا اوصیاء خود انبیاء کی نسل سے تھے؟
کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں ...
حضرت امام مہدی (عج)کے اخلاق اور اوصاف کیا ہے ، اور ...
حقوق العباد کيا ہيں ؟
مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟

 
user comment