اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اخلاق اور اسلام

اخلاق بندگی انسان اگر چاہتا ہے کہ خدا کی رحمتیں اس پر نازل ہوں تو اس کو اخلاق اسلامی اور احکام الہی کی پابندی کرنی چاہئے۔ بنی نوع انسان کی ایک ایک فرد کے خدا سے رابطے کا انحصار اس میں ہے کہ اپنے عمل، اپنے کردار اپنے قلب اور اخلاق کو خدا کی پسند اور رضائے الہی کے مطابق بنائے۔ خود پسندی، دروغگوئی، تہمت اور فریب دہی سے دور رہے اور اپنی زندگی پر نفس اور نفسانی خواہشات کی حکمرانی قائم نہ ہونے دے۔ خدا پر توجہ، خدا کا ذکر، خدا کی یاد، خدا سے حقیقی توسل، نفس کے خلاف مجاہدت اور حقیقی عبادت کی اپنے انفرادی اور ذاتی عمل میں روز بروز تقویت کرے۔

اسلامی اخلاق کی بنیاد اسلام دنیا اور انسان کے بارے میں بہت ہی عمیق اور خردمندانہ نقطۂ نگاہ، خالص توحید، حکمت آمیز اخلاقی اور معنوی دستورالعمل، محکم اور ہمہ گیر سماجی و سیاسی نظام اور اصول و ضوابط انفرادی اور عبادی فرائض اور اعمال کی تعلیم دیکر، تمام افراد بشر کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے باطن کو بھی برائیوں، پستیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور باطن میں نور ایمان، خلوص، آزادی، اخلاص، محبت، امید اور نشاط و شادابی کو بڑھائیں اور اپنی دنیا کو غربت، جہالت، ظلم، امتیاز، پسماندگی، جمود، زور زبردستی، تسلط، تحقیر اور فریب سے نجات دلائیں۔

خدائی اور اسلامی حیات طیبہ خدا اور پیغمبر انسانوں کو پاکیزہ اور طاہر زندگی کی دعوت دیتے ہیں۔ پاکیزہ زندگی صرف کھانا، پینا اور لذت اٹھانا نہیں ہے؛ اس کے لئے خدا اور رسول کی دعوت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہر انسان کا نفس اس کو دوسرے جانداروں جیسی زندگی کے گر سکھانے کے لئے کافی ہے۔ تمام حیوانات اپنی غذا حاصل کرنے اور شہوانی خواہشات کی تسکین کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرنے اور تھوڑی دیر زیادہ زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ 

حیات طیبہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ زندگی خدا کی راہ میں اعلی اہداف کے حصول میں بسر ہو۔ انسان کا اعلی ہدف یہ نہیں ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو پیٹ بھر لے۔ یہ کمترین چیز ہے جس کو ایک حیوان اپنا ہدف قرار دے سکتا ہے۔ انسان کے لئے اعلی ہدف حق تک پہنچنے، تقرب خدا کے حصول اور اخلاق الہی اپنانے سے عبارت ہے۔ اخلاق الہی اپنانا، کسی دوسرے کام کی تمہید نہیں ہے جبکہ دوسرے کام خدائی اخلاق اپنانے اور انسانوں کے نورانی ہونے کا مقدمہ ہیں۔ عدل انسانوں کے اخلاق الہی کے مالک اور نورانی ہونے کا مقدمہ ہے۔ اسلامی حکومت اور پیغمبروں کی حاکمیت بھی اسی لئے ہے۔ "انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" 

اخلاق کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ اسلام میں لوگوں کے عقیدہ اور اخلاق کی نسبت لاتعلقی اور غفلت نہیں پائی جاتی۔ اسلام عدل و انصاف کی ترویج کو لوگوں کے عقائد اور اخلاق سے بھی مربوط قرار دیتا ہے۔ یعنی اگر جس شخص کی گمراہی کی روک تھام کی جاسکتی ہے، اس کی اس سلسلے میں مدد نہ کی جائے تو یہ اس کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ اگر کسی کی اخلاقی مسائل میں ہدایت اور تربیت کی جا سکتی ہے اور انسان یہ کام نہ کرے تو اس کے ساتھ بے انصافی اور ظلم کیا ہے۔ اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہ "من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض کانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا" پیغمبر اکرم فرماتے ہیں؛ جو کسی انسان کو ہلاکت اور آگ سے نجات دلائے، اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں کہ یا انسان کی ہدایت کرے، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ "ذلک تاویلھا الاعظم "؛ اس آیت کی سب سے برتر اور بہترتفسیر اور معنی یہی ہے کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرے یعنی اس کی گمراہی کے اسباب فراہم کرے، یا کسی کو زندہ کرے یعنی اس کی ہدایت کے اسباب فراہم کرے؛ تو " کانما احیا الناس جمیعا" ایک انسان کی ہدایت پوری بشریت کی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اس انسان اور تمام بشریت میں جوہر انسانی ایک ہے۔ جب آپ نے جوہر انسانی کی مدد اور ہدایت کی، چاہے عقیدے میں اور چاہے اخلاق میں، تو آپ نے گوہر انسانی کی مدد اور نصرت کی ہے۔ بنابریں اس کی اہمیت بھی وہی ہوگی ( یعنی پوری بشریت کی مدد کے برابر ہوگی) اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسانوں کی نجات میں مدد اور ہدایت ہر ایک کا فریضہ ہے۔ اسی طرح اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہ" فلینظرالانسان الی طعامہ" ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ یہ معنوی طعام ہے، یہ دینی غذا ہے، اخلاق ہے۔ طعام پر نظر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو کیا استعمال کر رہے ہو یا دوسرے تمہارے توسط سے کیا استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے معنوی غذا کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔

انسان کے اخلاق پر نماز کے اثرات نماز وہ بہترین وسیلہ ہے جو مسلم معاشرے کے تمام افراد کو اخلاقی پاکیزگی اور روحانی نیز معنوی بلندی تک پہنچا سکتی ہے۔ نماز نمازی کے دل اور روح کو اطمینان اور سکون جو زندگی کے تمام میدانوں میں کامیابی کی بنیادی شرط ہے عطا کرتی ہے اور تزلزل اور اضطراب کو جو اخلاق کی تقویت کے لئے مجاہدت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے دور کرتی ہے ۔

اخلاق اور ایران کا اسلامی انقلاب انسانی معاشروں میں انقلاب کا محرک کسی ملک میں انقلاب اس لئے آتا ہے کہ ملک کا سماجی نظام اور لوگوں کے حالات بدل دے، حکومت کو دگرگوں کر دے اور اقتصادی و سماجی روابط میں تبدیلی لائے، یہ انقلاب کا ہدف ہوتا ہے۔ لیکن سماجی حالات دگرگوں ہونے اور تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ کہ لوگوں کا کردار بدل جائے۔ اس لئے کہ ظالم، بدعنوان اور طاغوتی نظام میں انسانوں کو برا بنا دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں انسان مادہ پرست اور معنویت و حقیقت سے عاری ہو جاتا ہے۔ انسان وفا، صداقت اور اخلاص سے عاری ہو جاتے ہیں۔ انسان رحم، مروت، دوستی، تعاون اور ہمراہی کے جذبے سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک غلط اور فاسد سماجی زندگی کے آثار ہیں۔ انقلاب معاشرے کو بدلنے کے لئے آتا ہے اور معاشرے کو بدلنے کا مقصد انسانوں کے اخلاق کو بدلنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اچھے انسان تیار ہوں۔ سماجی انصاف ایک اصول ہے، ایک اعلی اور حقیقی ہدف ہے۔ لیکن سماجی انصاف معاشرے میں اس وقت قائم ہوتا ہے جب اس معاشرے میں پلنے والے افراد ظلم نہ کریں اور ظلم برداشت نہ کریں۔

اسلامی انقلاب کا اصلی ہدف نفسوں کی پاکیزگی حکومت الہی، حکومت حق اور سیاست الہی کے سائے میں ہی ممکن ہے۔ خدا نے دین کو سیاست سے عاری نہیں رکھا ہے۔ وہ بنیادی مسئلہ جو ایران کے اسلامی انقلاب میں اعلی ہدف سمجھا جاتا تھا اور اب بھی شمار ہوتا ہے، وہ انسانوں کی پاکیزگی ہے۔ ہر چیز انسان کی طہارت اور پاکیزگی کے لئے ہے۔ معاشرے میں عدل و انسانی معاشروں میں اسلامی حکومت، اگرچہ ایک بڑا مقصد ہے لیکن یہ بھی انسان کے رشد اور بلندی کا مقدمہ ہے جو انسان کے تزکیہ اور پاکیزگی میں پنہاں ہے۔ اس دنیا کی زندگی بھی سعادت و کامیابی کے لئے، تزکئے کی محتاج ہے اور معنوی و اخروی درجات کا حصول بھی تزکئے پر منحصر ہے۔ انسان کی کامیابی یعنی اعلی مقصد کا حصول تزکئے پر منحصر ہے۔

امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کام کی عظمت آپ کے نفس کی پاکیزگی اور خدا سے آپ کے رابطے سے تعلق رکھتی ہے۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) پاکیزہ انسان تھے۔ آپ کے اندرونی اور بیرونی دشمن بھی آپ کی اس خصوصیت کو قبول کرتے تھے اور اعتراف کرتے تھے کہ آپ مومن انسان تھے۔ وہ امریکی جو چوالیس دن تک ایران میں قید تھا اور فطری طور پر ان تمام باتوں کا ذمہ دار امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کو سمجھتا تھا، انٹرویو میں کہتا ہے کہ " میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت سے خوش ہیں۔ ان کے اپنے مخصوص اخلاقی اقدار و اصول تھے اور کوئی بھی ان کی سطح کا نہیں تھا۔

اخلاق اور مغربی دنیا اخلاقیات سے آزادی مغرب میں جن چیزوں کا نعرہ بہت لگایا جاتا ہے، ان میں سر فہرست آزادی نسواں ہے۔ آزادی کے معنی وسیع ہیں؛ اس کا مطلب قید سے آزادی بھی ہے اور اخلاقی اصولوں سے آزادی بھی ہے۔ اس لئے کہ اخلاقی اصول بھی ایک طرح سے قید و بند ہیں۔ اس مالک کے نفوذ سے آزادی بھی ہے جو عورت سے کم مزدوری پر کام لیکر اس کا استحصال کرتا ہے اور ان قوانین سے آزادی بھی مراد ہو سکتی ہے جو عورت کو شوہر کے تئیں وفاداری کا پابند بناتے ہیں، آزادی ان معنوں میں ہو سکتی ہے۔

مغربی لبرلزم میں اخلاق مغربی لبرلزم میں چونکہ حقیقت اور اخلاقی اقدار کا انحصار ماننے پر ہے لہذا آزادی لامحدود ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ آپ اگر بعض اخلاقی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ جو ان اقدار کی خلاف ورزی کرے ، اس کی ملامت کریں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ان پر یقین نہ رکھتا ہے۔بنابریں آزادی کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؛ یعنی معنوی اور اخلاقی لحاظ سے اس کی کوئی حد نہیں ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ آزادی لامحدود ہے ۔ کیوں؟ اس لئے کہ کوئی حقیقت مستقل نہیں ہے ، کیونکہ ان کی نظر میں حقیقت اور اخلاقی اقدار کا تعلق ماننے سے ہے۔

مادہ پرست مغرب، عقائد اور اخلاقی اصولوں کے تعلق سے ایک موقف اختیار کرتا ہے اور طاقت و دولت کے بارے میں جن سے اس کے نمایاں مادی مفادات جڑے ہوتے ہیں، اس کا موقف کچھ اور ہوتا ہے۔جہاں مغرب کو احساس ہوتا ہے کہ دولت و طاقت حاصل کرنے کی جگہ ہے یا اس کا کوئی مخالف موجود ہے ، وہاں تعصب اور تشدد کے ساتھ میدان میں آتا ہے اور ذرہ برابر نرمی اور عفوودرگذر سے کام نہیں لیتا۔ لیکن عقیدے اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں ، کم سے کم زبان سے کہنے ، دعوی کرنے اور تحریر کی حد تک ، نرمی، چشم پوشی اور لچک کا مظاہرہ کرتا ہے۔یعنی اس کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جس کا جو بھی عقیدہ ہو رکھے، جس کا جیسا بھی اخلاق و کردار ہو، ہوا کرے۔ البتہ بعض اوقات مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ثقافتی مسائل میں سخت تعصب سے کام لیتے ہیں؛ یعنی جہاں، ان کے اقتصادی یا سیاسی مفادات ، توسیع پسندی اور اقتدار پرستی کا تعلق ہوتا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثقافتی میدان میں بھی لچـک کے بغیر، تعصب اور تشدد کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔لیکن ان کا طریقۂ کار اور روش یہ ہے کہ عقائد اور ثقافتی مسائل میں حساسیت سے کام نہ لیں اور کوئی موقف اختیار نہ کریں۔ یہ وہی لادینیت ہے۔عقیدے اور اخلاقی امور میں کوئی موقف نہ رکھنا اور غیر جانبدار رہنا۔یہاں اخلاقی اقدار آزادی میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ جیسے امریکا میں ہم جنس پرستی کی تحریک، رائج تحریکوں میں سے ایک ہے ۔ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہیں۔ جریدوں میں ان کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔ فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ فلاں تاجر اور فلاں سیاستداں اس گروہ میں شامل ہے۔کسی کو بھی شرم نہیں آتی اور وہ اس سے انکار نہیں کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جو لوگ اس تحریک کی مخالفت کرتے ہیں ان پر بعض اخبارات و جرائد شدید ترین حملے کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہم جنس پرستی کی تحریک کے مخالف ہیں۔ یعنی اخلاقی اقدار آزادی کی حدود معین نہیں کرتی ہیں۔ 

یورپ میں جنگ پسندی یورپ والوں کے کردار میں ہر چیز پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا عجیب و غریب جذبہ بالکل نمایاں ہے۔ اسی بناء پر گزشتہ چند صدیوں کے دوران سخت ترین اور وحشیانہ ترین جنگیں یورپ والوں نے کی ہیں۔ یورپی ملکوں مثلا جرمنی اور فرانس میں سخت ترین اور وحشیانہ ترین جنگیں ہوئی ہیں۔ البتہ جب تک کسی غیر یورپی کا سامنا نہیں ہوا یہ آپس میں لڑتے رہے ہیں؛ لیکن غیر یورپی حریف کے سامنے آتے ہی آپسی جنگ ختم کرکے مل جاتے ہیں۔ یعنی جنگ کے دائرے ان کے اپنے اندر محدود ہیں۔ اب تک دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئی ہیں جو یورپ والوں نے لڑی ہیں۔ جغرافیائی تقسیم اور سرحدوں میں سب سے زیادہ تبدیلی بھی دونوں عالمی جنگوں کے بعد، خود یورپ میں بھی اور یورپ سے باہر مشرق وسطی، بلقان، افریقا اور عرب علاقوں میں بھی، یورپ والوں نے کی ہے۔ یہ پست اخلاقیات ہیں۔


source : http://urdu.khamenei.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خاندانی حقوق
امام حسن علیہ السلام نے انسانی معاشرے کوعظیم درس ...
دنیائے اسلام کا ممتاز مقام
اسلام ، ملیشیا میں
کربلا اور اصلاح معاشرہ
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
اسلامی بیداری 2
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان
عیسائیوں اور یہود یوں نے بے انتہا مسلمانوں کو قتل ...

 
user comment