اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

شب قدر کا امام زمانہ (عج) سے رابطہ

خدا وند عالم سورہ قدر کی چوتھی آیت میں فرماتا ہے:

تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر، (۱) اس رات ملائکہ اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے نازل ہوتے ہیں۔

'تنزل" فعل مضارع ہے جو استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے

یا سورہ دخان کی آیت ''فیھا یفرق کل امر حکیم'' (۲) میں بھی یفرق باب " تفعل" سے ہے کہ جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ تفریق امور ہر سال انجام پاتا ہے جیسا کہ نزول ملائکہ ہر سال ہوتا ہے۔

رسول خدا (ص) کے زمانے میں نزول ملائکہ کا مرکز آپ (ص) تھے اور آپ کے بعد ہر شب قدر کو کوئی ایسا ہونا چاہیے جو افق نبوت سے اتنا قریب ہو کہ فرشتےاس کے پاس آ سکیں۔

اصل ولایت اور رسول اسلام (ص) کی وصایت و جانشینی اور امامت کو قبول کرنا اسی بناد پر قائم ہے۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

اے ہمارے شیعو! سورہ " انا انزلنا " کے ساتھ ہماری امامت کے مخالفین کےساتھ مجادلہ کرو ان پر حجت قائم کرو تاکہ کامیاب ہو جاؤ۔ خدا کی قسم یہ سورہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد خدا کی حجت ہے لوگوں پر۔ یہ سورہ تمہارے دین کا سردار اور ہمارے علم و آگاہی کی انتہا ہے۔اے ہمارے شیعو!سورہ " حم و الکتاب المبین، انا انزلنا ہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین" کے ذریعے ہمارے دشمنوں کے ساتھ مناظرہ کرو۔ اس لیے کہ یہ آیتیں رسول اسلام کے بعد امر امامت سے مخصوص ہیں۔

جو شخص قرآن کو کلام خدا ہونے کے عنوان سے قبول کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام سوروں اور آیات کو قبول کرتا ہے اور ایک واقعی مسلمان بھی وہی ہے کہ جو قرآن کریم کے سامنے تسلیم کامل ہو۔ پر مسلمان کو مجبوراً سورہ قدر ، اس کے ساتھ ساتھ شب قدر  اور اس کا ہمیشہ تکرار ہونا اور اس آیت " تنزل الملائکۃ" کے ضمن میں فرشتوں کےنزول کو قبول کرنا پڑے گا۔ کہ شب قدر کو فرشتے اللہ کے حکم سے ولی خدا  اور وارث دین کے پاس  آتے ہیں ۔ اور سورہ دخان کی آیتوں کے مطابق کہ "  اس رات میں ہر حکم اس کی حکمت کے مطابق صادر ہوتا ہے ہماری جانب سے اور ہم ہمیشہ اس حکم کو نازل کرنے والے ہیں"۔ شب قدر تکرار ہوتی ہے اور ہر سال یہ کام انجام پاتا ہے فرشتے احکام خدا کو لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ پس ہمیشہ ایک شخص ایسا روئے  زمین پر ہونا چاہیے کہ جس کے پاس ملائکہ ان امور کے ساتھ نازل ہوں۔  اور وہ وہی جانشینان پیغمبر آئمہ معصومین (ع) میں کی ایک فرد ہے۔ کہ جس کی اطاعت تمام اہل زمین  پر واجب ہے۔

اسی وجہ سے ہر کسی نے یہ دعوی کیا کہ میں ولی امر ہوں ۔ پس اگر اس کے پاس فرشتے نازل ہوتے رہے ہیں یا ہو رہے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن معصوم کے علاوہ کوئی اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا کہ فرشتے اس کے پاس آتے ہیں۔ پیغمبر کے معصوم اوصیاء  میں سے ایک شخص ہمیشہ روئے زمین پر باقی ہے جو اس بات کی صلاحیت اور لیاقت رکھتا ہے۔

شب قدر اور امام زمانہ (ع)

زیر بحث آیت قرآن کریم کی ایک محکم ترین آیت ہے اس بات پر کہ ایک ولی امر کا وجود خدا کی جانب سے ہمیشہ روئے زمین پر ہونا چاہیے کہ جو حکم الٰہی کی حفاظت ، پاسداری اور اسے اجراء کرتا ہو۔ اوروہ وہی امام معصوم ہے۔

اور جو شخص بھی شب قدر میں فرشتوں کے ہمیشگی نزول کو قبول کرتا ہے اگر قرآن پر ایمان رکھتا ہے اسے یقینی طور پر ایک ولی امر کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ ورنہ قرآن کے بعض کی نسبت مومن اور بعض کی نسبت کافر کہلائے گا۔ اور اس صور ت میں قرآن ہی کے بقول کافر واقعی ہو گا۔

رسول اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: شب قدر پر ایمان لاؤ اس لیے کہ یہ رات میرے بعد علی بن ابی طالب (ع) اور ان کی اولاد سے گیارہ افراد کی امامت کی دلیل ہو گی۔

جیسا کہ سورہ نساء کی ۱۵۰ ویں اور ۱۵۱ ویں آیات میں ارشاد ہے:

"إنّ الّذين يكفرون بالله و رسله و يريدون ان يفرّقوا بين الله و رسله و يقولون نؤمن ببعض و نكفر ببعض و يريدون أن يتّخذوا بين ذلك سبيلاً ٭ أولئك هم الكافرون حقّاً و أعتدنا للكافرين عذاباً مهينا؛

بیشک وہ لوگ جواللہ اور رسول کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور رسول کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان میں سے کوئی نیا راستہ نکالیں ۔ تو در حقیقت یہ لوگ کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے بڑا رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ خدا ان لوگوں کو جو قرآن کی بعض آیات کو قبول کرتے ہیں اور بعض کے منکر ہیں کافر کہتا ہے۔

اس بنا پر مومن واقعی وہ ہے جو شب قدر کے قیامت تک باقی رہنے پر ایمان رکھے اور اس کے ساتھ ایک حجت خدا کے ہر زمانے میں موجود ہونے پر ایمان لائے کہ جو امر خدا کو اس رات قبول کرتا ہے اور اس کا محافظ اور نافذ کرنے والا ہوتا ہے یعنی وہی بزرگوار جسے ہم اس زمانے میں بقیۃ اللہ الاعظم امام مھدی (ع) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا جیسا کہ شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ہے:

من انکر المھدی فقد کفر (۳)

جسنے مھدی کا انکار کیا وہ کافر ہے۔

شیعوں کی کتابوں میں اس قسم کی بہت ساری احادیث ہیں اور ان میں سے ایک امام صادق (ع) کی حدیث ہے کہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار سے انہوں نے اپنے پدر بزگوار سے یہاں تک کہ رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

القائم من ولدي اسمه إسمي و كنيته كنيتي و شمائله شمائلي و سنّته سنتي يقيم النّاس علي ملتّي و شريعتي و يدعوهم إلي كتاب الله عزّوجلّ، من أطاعة أطاعني و من عصاه عصاني، و من أنكره في غيبته فقد أنكرني، و من كذبه فقد كذّبني، و من صدّقه فقد صدّقني، إلي الله اشكو المكذّبين لى فى أمره، و الجاهدين لقولي والمضلّين لأمتّي عن طريقته و سيعلم الذين ظلموا ايّ منقلبٍ ينقلبون(۴)

قائم میری اولاد میں سے ہے اس کا نام میرا نام (محمد) اس کی کنیت میری کنیت(ابوالقاسم) اور اس کی شکل  وصورت میری شکل و صورت جیسی ہے اس کی سیرت میری سیرت  ہے۔ میرے دین اور آئین کو لوگوں کے درمیان پھیلائے گا اور انہیں کتاب خدا کی طرف دعوت دیگا۔ جو شخص اس کی اطاعت کرے گا  گویا اس  نے میری اطاعت کی ہے اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اس نے میری نافرمانی کی ہے جس نے اس کا  اس کی غیبت کے دوران انکار کیا در حقیقت اس نے میرا انکار کیا ہے اورجس نے اس کو جھٹلایا در حقیقت اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی ۔ اور  جولوگ مجھے اس کے بارے میں جھٹلاتے ہیں اور میری بات کو اس کے سلسلے میں قبول نہیں کرتے اور میری امت کو اس راستے سے گمراہ کرتے ہیں  میں ان لوگوں کی بارگاہ خدا وندی میں شکایت کروں گا۔ اور عنقریب  جن لوگوں نے ستم کیا  جان لیں گے کہ ان کی بازگشت کہاں ہو گی اور ان کا سر انجام کیا ہوگا۔

اس حدیث میں امام مھدی کا انکار اور تکذیب پیغمبر اکرم (ص) کا اانکاراور ان کی تکذیب بیان ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم (ص)کی تکذیب کا مطلب تمام انبیاء(ع) کی تکذیب ہے کہ جس کا نتیجہ کفر اور جہنم ہے۔

علی بن ابراہیم قمی نے شب قدرفرشتوں کے نزول کی تفسیر میں لکھا ہے:

فرشتے اور روح القدس شب قدر کو امام زمانہ (ع) پر نازل ہوتے ہیں اور اگلے سال تک انسانوں کی جو سرنوشت مقرر ہوتی ہے اسے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

اور پھر امام محمد باقر (ع) سے ایک حدیث میں نقل کیا ہے: کہ جب آپ (ع) سے پوچھا گیا: کیا آپ جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر کون سی رات ہے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا:

کیسے نہ جانیں  حالانکہ شب قدر فرشتے ہمارے اوپر نازل ہوتے ہیں اور ہمارا طواف کرتے ہیں۔(۵)

امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

"ہم نے قرآن کو شب قدر اتارا ہے۔" شب قدر فاطمہ ہیں اور قدر خدا ہے۔ پس جو شخص جناب فاطمہ کو جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے پہچانے اس نے شب قدر کو درک کر لیا ہے۔

امام سجاد علیہ السلام نے اس سلسلے میں فرمایا:

ہر سال شب قدر کو تمام کاموں کی تفصیل امام وقت کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

حوالہ جات

1- ماخوذ از تحقيقي درباره ليلةالقدر و رابطه آن با امام عصر ارواحنافداه، ص 149 ـ 132،

2- سوره دخان (44)، آيه 4.

3- علامه  مجلسي، بحار الأنوار، ج 51، ص 51 / منتخب الاثر، فصل 10، ب 1، جز 1، ص 492.

4- علامه  مجلسي، بحارالانوار، ج 51، ص 73 / منتخب الاثر، فصل2، ب 3، ح 4 ، ص 183.

5- امراء هستي، ص 190/ تفسير القمي، ص 731/ علامه مجلسي، بحارالانوار، ج 97، ص 14، جز 23.


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

 
user comment