اسلام ميں عورت،ميراث ميں سے مجموعی طورپر ایک حصہ اور مرددوحصے ليتا
ہے ( جيسا کہ روایت ميں ہے)اس کا سبب یہ ہے کہ عورت کی زندگی کا خرچہ مرد(شوہر) کے ذمہ ہے اور اس حکم کا سر چشمہ بهی عورت کا جذباتی ہو اور مرد کا استدلالی ہونا ہے ۔
وضاحت:ہر زمانہ ميں زمين پر موجود سرمایہ ایک نسل سے متعلق ہو تا ہے جو اس زمانہ ميں زندگی کرتی ہے اور بعد والی نسل پہلی نسل کی جا نشين بن کر اس سرمایہ کو ميراث
کے طورپر حاصل کرتی ہے اور چونکہ مجموعی طور پر عورتوں اورمردوں کی آبادی ہميشہ ٣حصہ عورت کا / ٣حصہ مرد کا اور ١ / متفاوت رہی ہے اور اسلام کی نظر ميں عمومی ثروت کا ۴ ہوتا ہے اوردوسری طرف سے مردکے عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے عورت ٣حصہ اپناحصہ رکهتی ہے اور نتيجہ / اپنے خرچ ميں مرد کے حصہ ميں شریک ہوتی ہے جبکہ ١ ٣حصہ مرد کے اختيار / ٣ حصہ خرچ کے طور پر عورت کے اختيار ميں اور ١ / کے طورپر سرمایہ کا ٢ ٣ حصہ جذبات کا اور / ميں قرار پاتا ہے ،نتيجہ کے طورپر خرچ کے لحاظ سے سرمایہ کا ٢ ٣حصہ استدلال کا ہوگا اور یہ بذات خود ایک بہترین اور عادلانہ تقسيم ہے ،اس کے علاوہ یہ /١
ترتيب خاندان کی تشکيل ميں گہرے اور نفع بخش اثرات رکهتی ہے ،چنانچہ بندء ١١ کے جواب ميں اشارہ کيا جائے گا ١
١۔ص ١۴٣ ۔ص ١۴۵ کی طرف رجوع کيا جائے۔
source : http://www.alhassanain.com