اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (۱) / امام سجاد علیہ السلام کے تربیتی اسلوب (۱)

روی زمین پر انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو تمام اچھی خوبیوں اور نیک صفتوں سے مالامال ہوجانے کی صلاحیت کی حامل ہے ۔ لیکن اسکے حصول کیلئے ایک لازمی شرط ہے وہ یہ کہ صحیح اور بہترین تربیت اور پرورش کے زیر سایہ زندگی بسر کرے ورنہ ان خوبیوں کو حاصل کر پانا ممکن نہیں ہے ۔ لہذا '' قرب الی اﷲ ''(خداوند متعال سے قریب ہونا ) جیسے عظیم ہدف کی رسائی کیلئے تربیت کا بہترین طور

طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے ۔! اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر زمانے میں مذکورہ قسم کے بہترین اور عظیم اسلوب و طرائق کے  فقط وہی افراد اور اشخاص حامل ہوتے ہیں جو پاکیزہ شخصیت  اور انسان کامل کے مالک ہوں تاکہ انکے قول و عمل یعنی علمی زندگی اور عملی سیرت میں ایسی مطلوبہ چیزیں تلاش کی جاسکیں ۔ یہ بھی اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ پر زمانے میں اسطرح کے انسان کامل انبیا ء کرام اور ائمہ معصومین  رہے ہیں ۔ ! یہاں پر ہماری گفتگو بھی انہی میں سے ایک انسان کامل امام زین العابدین  کی  مبارک زندگی کے  تربیتی پہلو سے متعلق  ہے جو آپ  کے تربیتی اہداف اور مقاصد کی شناخت کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے جو کہ آپ  کے'' صحیفہ سجادیہ '' ،دعائے ابوحمزہ ثمالی کے تربیتی نکات اور عملی سیرت پر مشتمل ہے ! ۔

تربیت کا ہدف اور مقصد :

     خداوند متعال کی عبادت اور بندگی کرنا لیکن جو اسکی شناخت اور پہچان کی صورت میں ہو ۔انبیاء کرام کے بعثت کا فلسفہ اور اولیاء الٰہی کے امور میں ایک اہم کام بشر کی تربیت اور پرورش کرنا ہے ۔ !  امام سجاد علیہ السلام کی امامت اور قیادت کے زمانہ میں آپ  کے تربیتی مقاصد اور اہداف کو تین اہم مرکزی اور بنیادی پہلوؤں میں مختصر طور پر بیان کیا جا سکتا ہے ۔

۱۔ ) حق کی ہدایت و رہنمائی اور حق کی باطل سے جدائی ۔

۲۔ ) اسلامی معاشرے کی اصلاح اور پاکیزہ زندگی (حیات طیبہ ) کا حصول ۔

۳ ۔) توحید کو مرکزیت اور بنیاد قرار دینا ۔

١۔ ) حق کی ہدایت و رہنمائی اور حق کی باطل سے جدائی :

    امام سجاد علیہ السلام نے اس مقصد کو عملی جامہ پہناننے کیلئے مختلف طریقہ کار استعمال کیئے ۔ ایک دن امام علی علیہ السلام کے خطبات بیان فرماتے تھے تو دوسرے دن دعا کی تعلیم اور وعظ و نصیحت ، کبھی اصحاب کی پرورش کرتے تھے تو کبھی امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا پر گریہ زاری اور عزاداری ۔

۲ ۔) اسلامی معاشرے کی اصلاح اور پاکیزہ زندگی (حیات طیبہ ) کا حصول :

جسطرح مام حسین  اس مقصد کی تاکید فرماتے تھے ۔ اسی طرح امام سجاد  بھی اس ہدف کا عملی صورت دینے کیلئے خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں۔

(۱) امام سجاد  خدای متعال کے بتائے ہوئے واجبات پر عمل اور محرمات سے دوری کرنے کی صورت میں ہی اپنی زندگی کی پاکیزگی اور امّت کی اصلاح ، کو ممکن سمجھتے ہیں  اور اس کیلئے پروردگار عالم سے دعا ہیں '' فا حینی حیٰوةً طیبةً تتنظمُ بما ارید و تبلغ ما احبّ من حیث لا اتی ما تکرہ ولا ارتکبُ ما نھیتُ عنہ '' یعنی (خدایا) مجھے پاکیزہ حیات کے ساتھ زندہ رکھ اسطرح کہ ہراس  چیز کو  پسند یا طلب کروں  جو تجھے پسند ہے اور اسے انجام نہ دوں جس سے تو نے منع کیا ہے ۔ '' (٢)

٣۔ ) توحید کو مرکز اور بنیاد بنانا  :

 یہ تمام  انبیاء الٰہی و اولیاء  اور مربیوں (بشر کی تربیت کرنے والے ) کا مشترکہ مقصد ہے ۔ امام سجادعلیہ السلام توحیدکی بنیاد پر تربیت کی تاکید فرماتے ہیں اسی وجہ سے بندگی ،خدا کی شناخت ، ایمان اور پرہیزگاری جیسے مفاہیم و مطالب پر انحصار کرتے ہیں ۔

تربیتی اسلوب سے  ہماری مراد یہاں پر وہ طریقے ہیں جو شاگرد( تربیت پانے والا ) کیلئے مطلوبہ مقاصد تک رسائی کیلئے مؤثر ثابت ہوں اور اس کیلئے انکو بروئے کار لایا جا سکے ۔ یہاں پر بیان کردہ تربیتی قوانین، عقل یا وحی کے اصولوں کی بنیاد پر اخذکیئے گئے ہیں ۔

 مثال کے طور پر اسلام کے تربیتی نظام میں '' ولقد کرمّنا بنی آدم '' ( اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے ) (٣)  آیت کریمہ کے اس حصہ سے انسان کا ذاتاً محترم ہونے اور زیر تربیت شاگرد کی حرمت نفس کا قائل ہونے ، کو اخذ کیا ہے ۔ (اسی طرح سارا اسلامی تربیتی نظام ایسی ہی دوسری آیات پر استوار ہے ) ۔ اس قانون تربیت کو عملی جامہ پہناننے کیلئے چشم پوشی ، بخشش او رمحبت جیسے مختلف طریقوں کو ذریعہ بناسکتے ہیں ۔ استاد (مربی) انکی مدد سے اپنے مخاطب (شاگرد) کو تحت تأثیر قرار دے سکتا ہے اور یہ شاگرد کے اچھے رفتارکو اپنانے اور برے کردار سے دوری اختیار کرنے کیلئے اسکے ولولہ و جذبہ اور رغبت و شوق بڑھانے میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں ۔ یہاں پر اسی طریقہ کار کے ضمن میں چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے کلام پاک اور سیرت مبارک کو بیان کیا جارہا ہے ۔

 ١ ۔  بصیرت اور آئیڈیالوجی دینے کا طریقہ :

  بصیرت ایک قسم کا باطنی طور پر درک کرنا اور سمجھنا ہے جو انسان کو مطلوبہ حقیقت سے ملاتا ہے ۔ انبیاء کرام کے اہم مقاصد میں انسان کو اپنی اور دنیا کی صحیح بصیرت اور پہچان کرانا ہے ۔ اپنے اعمال اور کردار کے سلسلہ میں انسان کی بصیرت اسوقت مکمل ہو سکتی ہے جب وہ اپنے آپ اور اپنے اطراف و اکناف کا  علم اور معرفت رکھتا ہو ۔ اسوقت یہ روش انسان کی باطنی تبدیلی اور اندرونی انقلاب کی بنیاد پر استوار ہو سکتی ہے ۔ (٤)

امام سجاد  نے اس طریقہ کار کو تین حصؤں میں تقسیم کیا ہے ۔

الف ۔ دنیا کے سلسلہ میں آئیڈیولوجی اور بصیرت عطا کرنا ۔

ب ۔ انسان کے بارے میںآئیڈیولوجی اور بصیرت عطا کرنا۔

ج ۔ غفلت اور لاپرواہی سے دوری اختیار کرنا ۔

الف ۔ دنیا کے سلسلہ میں ائیڈیالوجی اور بصیرت عطا کرنا :

 قرآن کریم کی رو سے دنیا ایک میدان امتحان اور خداوند عالم کی طرف سے گذر جانے کا ایک راستہ ہے ۔ یہ عالم طبیعت آفات ومصائب ،آرزؤوں اور تمناؤں کا گھر ہے جسکی پونجی اور مال و متاع انسان کے دھوکھے کھانے ، خود فریبی اور مغرور ہونے کا سبب بن جاتے ہے ۔  '' ... فما متاعُ الحیاة الدنیا فی الاخرةِ الّا قلیل ''یعنی یاد رکھو کہ آخرت میں اس دنیا کے متاع زندگانی کی حقیقت بہت قلیل ہے(٥) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام  دعاؤں میں دنیا اخروی مقصد تک پہنچنے کیلئے ایک ذریعہ اور واسطہ ہے اور عالم آخرت کے سفر کیلئے ایک منفردگذگاہ ہے ۔  ''... وارزقنی الرغبةَ فی العملِ لک لاخرتی ... حتیٰ یکونَ الغالبُ علیَّ الزھد فی دنیای ''یعنی (خدایا) اپنی خاطر میری رغبت و چاہت اور میرا رزق و روزی اس کام میں قرار دے جو میرے آخرت کیلئے مفید ثابت ہو ۔ ..یہاں تک کہ دنیا کی بے رغبتی اور دوری مجھ پر غالب آجائے ۔ (٦)

 دعاے ابو حمزہ ثمالی بھی دنیا کے بارے میں صحیح بصیرت توجہ اور اہمیت کی حامل ہے ۔حُب دنیا تمام گناہوں کا سرچشمہ اور منبع (امّ السیّئات) ہونے کے رو سے امام  خداوند عالم سے طلب امداد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ''سیّدی اُخرج حب الدنیا من قلبی '' یعنی میرے مولا میرے دل کو حُب دنیا سے خالی (پاک)کردے ۔ (٧) یہ تربیتی طریقہ ، کمال کی رسائی کیلئے نمونہ عمل () ہے جسکی بنا پر انسان دنیا سے کوئی دلبستگی ، دوستی اور لو نہیں رکھے گا بلکہ انسان کیلئے اس دنیا کو روح کی پرورش اور خداوندمتعال کی رضامندی اور  مقام خلیفہ خداوندی کے حصول کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ بنائے گا ۔

  دوسرے حصہ میں خداوند عالم سے دنیوی امور میں قناعت شعاری پیدا کرنے کی دعا طلب کرتے ہیں : '' الّٰہمّ صلِّ علی محمد و اٰل محمد واختم لی بخیرٍ واکفنی ما اہمّنی من امر دنیا ی و آخرتی ... '' یعنی خدایا تو درود نازل فرما محمد ۖ و آل محمد  پر اور میرا خاتمہ بالخیر اور میرے لئے دنیا اور آخرت کے اہم امور میں کافی ہوجا ۔  (٨)

ب ۔ انسان کے بارے میں آیڈئیولوجی اور بصیرت عطا کرنا :

 امام سجادعلیہ السلام کی دعاؤں میں انسان مختلف حالات اور متعدد تربیتی جلوے رکھنے والی مخلوق ہے ۔اسے اپنی صلاحیتوں اور حدوں کو جان لینا چاہیے تاکہ انہیں اپنے کمال اور ترقی کی راہ میںبروئے کار لا سکے ۔ اامام سجادعلیہ السلام کی نظر میں انسان بہت ساری ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے کہ اپنی صحیح شناخت اور بصیرت کے نتیجے میں وہ صلاحیتیں نیک کردار اپنانے کیلئے زمینہ فراہم کر سکتی ہیں ۔ اسی وجہ سے انسان کو اپنی درست شناخت و بصیرت حاصل کرنا ایک تربیتی طریقہ سمجھا جاتا ہے ۔ (٩)

 اسی طرح قرآن کریم کی نگاہ میں انسان فقیر اور ضعیف مخلوق ہے جبکہ پرودگارعالم کی ذات صاب دولت اور قابل حمد و ثناء ہے ۔ (١٠)

امام سجادعلیہ السلام بھی انسان کی ضعیفی اور ناتوانائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ : '' یا غنیَ الغنیاء ھا نحنُ عبادک بین یدیک وانا افقر الفقراء الیک  فأجبر فاقتنا بوسعک ... ''یعنی اے سب سے بے نیازترین اور غنی ترین ، اسوقت ہم تیرے بندے تیرے دربار میں ہیں اور میں سب سے زیادہ میں تیرا محتاج ہوں پس اپنی بے نیازی اور وسعت (رحمت) سے ہماری احتیاج اور ضرورت برطرف فرما ۔ (١١)

اسی طرح آپ  دعائے ابوحمزہ ثمالی میں بھی اپنے اپکو خداوندعالم کی حمایت اور مدد کا محتاج سمجھتے ہیں اور پروردگارعالم کی حمایت کے زیر سایہ اپنی حفاظت طلب کرتے ہیں : '' الّٰھمّ احرسنی بحراستک واحفظنی بحفضک  ''  یعنی خدایا مجھکو اپنی پناہ میں لیلے اور مجھکو اپنی حفاظت سے محفوظ فرما ۔ (١٢)

ج ۔ غفلت اور لاپرواہی سے دوری کرانا :

    امام سجاد  مربیوں (تربیت کے اساتید) کو اس تعلیم سے بھی نوازتے تھے کہ کسطرح انکے شاگرد اپنے کردار اور رفتار کی بھی شناخت و بصیرت حاصل کرسکتے ہیں ۔ زہری یوں کہتے ہیں : '' میں نے ایک دن امام  کو سردی کی ایک رات میں کچھ آٹا اور لکڑی اٹھائے ہوئے دیکھا ۔ میں نے پوچھا :آپ کیا لئے ہوئے ہیں ؟ فرمایا : مجھے سفر پرجانا ہے اور (اس کیلئے) زاد راہ اور توشہ سفر لئے ہوں ۔ میں نے کہا : میرا غلام حاضر خدمت ہے وہ آپ کے بدلے یہ اٹھائے گا ۔ فرمایا : نہیں میں خود ہی اٹھاؤں گا اور وہ چیز جو مجھے اس سفر میں نجات دلائے گی یہاں پر نہیں چھوڈوں گا ۔ چند دنوں کے بعد امام  کو دیکھا اور عرض کیا کہ جس سفر کی آپ  نے خبر دی تھی میں نے آپ  کو ایسا سفر کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ فرنایا : میرا مقصود آخرت کا سفر (موت) تھا ۔ ''

امام سجادعلیہ السلام نے اپنے اسی کردار و رفتار کے ذریعہ زہری (جیسے شاگرد) کو موت و حیات کی صحیح بصیرت عطا فرمائی ۔(١٣)

(٢) عفو و بخشش کا طریقہ :

  عفو و بخشش یعنی انسان کے قلبی اور باطنی ارادے میں آگاہانہ طور پر ایسی تبدیلی رونما ہوجائے جس میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہوں انہی کے نتیجے میں مطلوبہ تبدیلی حاصل ہوتی ہے ۔

١۔برے افکار کو نیک خیالات سے بدلنے کیلئے کامیاب جدوجہد کرنا ۔

٢۔ خطاکار کے ساتھ ہمدردی اور دلجوئی کے اظہارکا احساس کرنا ۔

٣۔ خطاکار کی غلطی کو اس عنصر کے تناظر میں معاف کرنا کہ اسمیں شاگرد کے روحی سکون اور اسکے تربیتی پہلو کو یا خداوند متعال کی خوشنودی کے حصول کو پیش نظر رکھا جائے ۔

 نیک اخلاق (مکارم الخلاق) میں سے دوسروں کی غلطی کو معاف کرنا اور بخشنا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : '' خُذالعفوَ و أمرہ بالعُرفِ... ''  یعنی آپ عفو کا راستہ اختیار کریں اور نیکی کا حکم دیں ۔ (١٤)

 عفو و بخشش اسوقت اہمیت رکھتی ہے جب انسان انتقام لینے کی طاقت رکھتا ہو ورنہ انسان کا کسی بات پر سکوت اختیارکرنا عفو و بخشش کے مصادیق میں سے نہیں ہے بلکہ غصہ پی جانے ''کظم غیض '' کے موارد میں شامل ہوگا۔ غصہ پینا اور سکوت اختیار کرنا اگر مجبوری کی وجہ سے ہو تو وہ کینہ ، سوء ظن ، حسد ، غیبت اور تہمت کا باعث بن جاتا ہے ۔ (١٥)

خداوندعالم سب سے پہلا مرّبی اور معلم ہے جس کو اپنے ابتدائی شاگردوں (بندوں) یعنی حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو بخشنے سے''  عفُوّ '' کا نام دیا گیا ۔ اسی وجہ سے دنیا میں عفو و بخشش کا مسئلہ خلقت انسان کے زمانے سے ہی موجود ہے ۔ حضرت زین العابدین علیہ السلام و صحیفہ سجادیہ کی سولویں دعا میں خداوندعالم کو '' عفُوّ( معاف کرنے والی ذات تعالی  )'' کرکے پکارتے ہیں ۔ اسیطرح انسانی روح کی پرورش فقط فقط خداوندعالم کی جانب سے بندے کے گناہوں کو معاف کرنے کی صورت میں ہی ممکن سمجھتے ہیں ۔ امام  یہ سکھا رہے ہیں کہ شاگرد کو اپنے استاد کے سامنے انکساری کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے ۔ '' الّٰہمّ ان تشأ تعفُ عنّا فبفضلک ، وان تشأ تعذّبنا فبعدلک یا غنی الاغنیاء ، ھا نحنُ عبادک بین یدیک ، وانا افقر الفقراء الیک ، فأجبر فاقتَنا  بوسعک ولا تقطع رجائنا نمنعک ''یعنی خدایا اگرمجھے معاف کرنا چاہے تو یہ تیرا فضل و کرم کے سبب ہے اور اگر مجھے سزا دینا چاتے ہو تو یہ تیری عدالت کے سبب ہے ۔ اے (خدایا) جو تمام بے نیازوں سے غنی ہے ، ہم بندے تیری بارگاہ میں حاضر ہیں ، اور میں دوسرے نیازمندوں کی بہ نسبت زیادہ (تیری عفو کا) محتاج ہوں ، پس (خدایا) ہماری مفلسی اور ناداری کو اپنی (رحمت کی )وسعت سے پورا کر اور ہماری آرزؤں کو اپنی دوری سے منقطع نکر ۔(١٦)

 اس حصہ میں امام  ہدایت کے عنوان سے یہ سکھا رہے ہیں کہ شاگرد کو اپنی غلطی پر نادم اور شرمندہ ہوجانا چاہیے اور غلطی کی تکرار (یہ سوچ کر)  نہ کرنا چاہیے کہ پھر اسے معاف کردیا جائے گا استاد اپنے شاگرد کو معاف بھی کرسکتا ہے یا اگر اس کی تربیت کیلئے نقصاندہ ثابت ہو تو اسکو معاف نہ کر نے کے بجائے تنبیہ بھی کرسکتا ہے ۔ امام سجاد  بھی دعائے ابوحمزہ ثمالی میں استاد سے شاگرد کی معافی مانگنے کی تعلیم کے ضمن میں رحمت خداوندی کی صفت بیان کرتے ہوئے گناہگاربندوں کو امید دلا رہے ہیں تاکہ تربیت پانے کی راہ میں مایوس نہ ہوں اور اپنی کوشش کو آگے بڑھاتے رہیں ۔ '' أنت یا الٰہی أوسع فضلاً و أعظم حلماً من أن تُقایِسنَی بفعلی و خطیئتی ، فالعفو العفو العفو سیّدی سیّدی سیّدی ''یعنی اے  میرے خدا تو اس سے وسیع فضل والا اور اس سے عظیم حلم والا ہے کہ میرے فعل اور گناہ کا مجھکو بدلہ دے ، اے میرے سردار ،اے میرے سردار ، اے میرے سردار مجھکو معاف کردے معاف کردے معاف کردے ۔ (١٧)

 سید السّاجدین امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت پاک بھی دوسروں کو معاف کرنے  پر تاکید کرتی ہے ۔ آپ  اس روش کو اپنے رشتہ داروں ، غلاموں ، شیعوں اور مخالفوں کے سامنے بروئے کار لاتے تھے ۔ عمادالدین طبری یو ں رقمطراز ہیں : '' ایک روز امام  کے اعزاء اور اقرباء میں سے ایک آدمی بنام حسن بن حسن آپ  کے پاس آئے اور آپ  کو اس نے بدکلام کہا ۔امام  نے اسکے جواب میں خاموشی اختیار کی جونہی حسن وہاں سے چلا گیا ، امام  نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے افراد سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ :'' تم لوگوں نے سنا اس آدمی نے کیا کہا ؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ آئیں تاکہ جو جواب میں اسے دینا چاہتا ہوں آپ بھی سنیں ''۔ امام  نعلین پہن کر وہاں سے چل پڑے اور فرمایا کہ : ''والکاظمین الغیظَ العافین عن الناس واﷲ یحبُّ المحسنین '' یعنی اور (جو لوگ)غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں (انہوںنے یہ ان پر احسان کیا ہے )اورخدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔(١٨) جب حسن کے گھر پہنچ گئے تو امام  نے فرمایا : اسے کہو سجاد آیا ہے ۔ حسن باہر نکلا ، وہ یہ سوچ رہا تھا کہ امام زین العابدین علیہ السلام اسکی بدسلوکی کے بدلہ لینے کیلئے میرے پاس آئے ہیں ۔ علی ابن الحسین علیھما السلام نے فرمایا : '' یا اخی أِن کُنتَ قُلتَ ما فیَّ استغفِرَ اﷲَ مَنہ ، أِن کُنتَ قُلتَ ما لیس فیَّ فغفرَ اﷲُ لک '' ؛ یعنی اے میرے بھائی جو تم نے کہا اگر وہ مجھ میں پایا جاتا ہے میں خدا سے اسکی مغفرت چاہتا ہوں اور اگر میرے اندر یہ چیز نہیں پائی جاتی ہے جو تم نے کہی توخداوندعالم تمہیں معاف کردے ۔

 حسن ( اس نیک رفتار کو دیکھ کر) امام  کے پاؤں تلے گرا اور بوسہ دیا اور کہا : ''  استغفِرُاﷲَ بل قُلتُ فیکَ ما لیس فیکَ و أنا احقَّ بہ ''یعنی میں اﷲ سے استغفار کرتا ہوں میں نے وہ بات کی ہے جو آپ میں نہیں پائی جاتی ہے اور میں خود اس کا زیادہ حقدار ہوں ۔(١٩)

 اس قصہ میں امام  نے اپنے سکوت اور حسن کے گھر جانے سے عفو وبخشش کے کردار کو اپنے مقصّر شاگرد اور دوسروں کو سکھایا ۔

عفو وبخشش کے بہت سارے اخلاقی فوائد اور اثرات ہونے کے علاوہ جوکہ آیات اور احادیث میں ذکر ہوئے ہیں ، خداوندعالم نے بھی اپنے آپ کو اس صفت سے یاد کیا ہے ۔ اسکے علاوہ انسان کے عمل میں بھی ایک اہم عنصر کے طور پر لوگوں کے درمیاں آپسی تعلقات کے توازن اور روحی تسکین کو برقرار رکھنے میں بھی مفید و مؤثرثابت ہوتا ہے ۔

 معاف کرنا اور بخشنا ایک طرف سے اجتماع میں لوگوں کے تعلقات کو بہتر بنانے اور اختلافات کو کم کرنے کے علاوہ روحی و نفسیاتی ، سلامتی کی فراہمی کیلئے اضطراب اور پریشانی ، ناراضگی،  عداوت اور اسیطرح احساساتی عیوب اور کرداری کی خرابیوں میں کمی لانے میں بہت ہی مفید ومؤثر ہے دوسری طرف سے خود اعتمادی (Self Confidence) اور اولاد کی علمی ترقی میں مزید اضافہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

  ہم اس مقالے کے دوسرے شمارے میں امام سجادعلیہ السلام کی حیات طیبہ سے نعمت کی یادہانی اور تذکر ، غفلت ، لاپرواہی اور تغافل و چشم پوشی وغیرہ جیسے دوسرے تربیتی طریقہ کاروں کو بیان کریں گے ۔                 

حوالہ جات :

١۔) صحیفہ سجادیہ ، شمارہ دعا ٤٧ ۔

٢۔) واحد مطالعات و تحقیقات سازمان اوقاف و امور خیریہ ، ترجمہ صحیفہ سجادیہ ، شمارہ دعا ٤٧ ۔

٣۔) قرآن کریم / سورہ مبارکہ الاسراء / ٧٠۔

٤ )۔خسرو باقری ، نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی ، ص ٧٤ ۔

٥ ۔)قرآن کریم / سورہ مبارکہ الاسراء / آیہ کریمہ ٣٨  ۔

٦۔)صحیفہ سجادیہ ، شمارہ دعا ٣٢ ۔

٧۔)دعاے ابو حمزہ ثمالی ، ص ٣٥٠ ۔

٨۔)دعاے ابو حمزہ ثمالی ، ص ٣٤٣ ۔

٩ ۔) خسرو باقری ، نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی ، ص٨١ ۔

١٠۔)قرآن کریم / سورہ مبارکہ الاسراء / آیہ کریمہ ١٥۔

١١۔)صحیفہ سجادیہ ، شمارہ دعا ١٠ ۔

١٢۔)دعاے ابو حمزہ ثمالی ، ص ٣٤٤ ۔

١٣۔)محمد تقی سپھر ، ناسخ التواریخ ، ج ا ، ص ٩١ ۔

١٤۔)قرآن کریم / سورہ مبارکہ الاسراء / آیہ کریمہ ١٩٩ ۔

١٥۔) محمد رضا مہدوی کنی ، نقطہ ھای آغاز در اخلاق عملی ، ص ٥٩٩ ۔

١٦۔) صحیفہ سجادیہ ، شمارہ دعا ١٦ ۔

١٧۔) دعاے ابو حمزہ ثمالی ، ص ٣٤٢ ۔

١٨۔) قرآن کریم / سورہ مبارکہ الاسراء / آیہ کریمہ ١٣٤ ۔

١٩۔) عماد الدین طبری ،مناقب الطاہرین ، ترجمہ حسین درگاھی ، ج ٢ ،ص ٢٣ ٦ ۔


source : http://basharatkmr.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment