اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

اطاعت رسولۖ ہی محبت رسول ۖہے

اس بات پرامت مسلمہ میں کامل اتفاق پایاجاتا ہے کہ جس مسلمان کے دل میں  رسول اللہۖ کی محبت نہیں  ہے وہ اہل ایمان نہیں  ہو سکتا ہے۔اور محبت بھی ایسی ویسی نہیں ،ایسی اعلیٰ درجہ کی جو اس کو اپنا غلام بنا لے اوراس محبت پر کوئی دوسری محبت غالب نہ آ سکے۔کسی انسان کے اعمال و افعال کو دیکھ کر اگر یہ اندازہ ہو کہ یہ شخص رسول اللہۖ سے زیادہ کسی دوسرے انسان سے یا سامان سے یا دنیا سے یا دولت سے پیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایمان کا دعویٰ جھوٹا ہے۔اسی طرح اگر وہ شخص اپنی زندگی میں رسول اللہ ۖکے طریقے کو چھوڑ کر جو روز اول سے ثابت شدہ ، معتبر اور مقبول چلاآ رہا ہے، کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تب بھی اس کے ایمان کا دعویٰ جھوٹا قرار پائے گا۔محبت رسول ۖکی یہ وہ تشریح ہے جس سے ہر اہل ایمان اورہر اہل علم اتفاق کرتا ہے۔ اس میں  اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں  ہے۔ یہ بات مذکورہ ذیل حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔ ''رسو اللہ ۖ نے فرمایا: تم میں  سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں  ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے ماں  باپ، اپنی اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں  سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا نہ بن جائے۔''(بخاری مسلم)

محبت رسول کی وضاحت کے سلسلے میں  شدید اختلاف پایاجاتا ہے۔حالانکہ یہ مضمون بھی ایسا ہے جس میں  کسی اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں  ہے، لیکن بعض لوگوں  نے بعض اسباب سے اس مسئلہ میں  بھی اختلاف پیدا کر دیا ہے۔مختلف گروہوں  نے سنت رسول کی سیدھی اور آسان راہ چھوڑ کر اپنی پسند کے مطابق بعض باتوں  کوسنت رسولۖ اور محبت رسولۖ کا معیار بنا لیا ہے، جب کہ یہ باتیں  صحابہ و تابعین اورقرون اولیٰ کے اہل ایمان کے اعمال و اشغال سے ثابت نہیں  ہوتی ہیں ۔محبت رسول ۖکی سب سے مستند اور معتبر تشریح وہ ہے جو خودرسو اللہ ۖ کی درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔رسو اللہ ۖنے جو شریعت ہمارے لئے چھوڑی ہے اس کی زیادہ سے زیادہ اورمکمل پیروی ہی محبت رسولۖ کی دلیل اور شہادت ہے۔شریعت محمدیۖ سے غافل اوربیگانہ رہ کر یہ سمجھنا کہ یہ شخص رسول اللہۖ سے محبت رکھتا ہے ایک غلط اور بے اعتبار بات ہے۔

''رسو اللہ ۖ نے فرمایا: تم میں  سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں  ہو سکتا ہے جب تک وہ اپنی خواہشات نفس کو میری لائی ہوئی شریعت کا پابند نہ بنا دے۔''(مشکوة:شرح السنة)    

''ایک دن رسول اللہ ۖ نے وضو کیا تو آپ کے کچھ اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر چہرے پر ملنے لگے۔آپ نے پوچھا تمہارے اس عمل کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔نبیۖ نے فرمایا:جن لوگوں  کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کریں  تو انہیں  چاہئے کہ جب بات کریں  تو سچ بولیں ،اور جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو(بہ حفاظت )اس کے مالک کے حوالہ کردیں ، اور پڑوسیوں  کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔''(مشکوٰة)

مذکورہ بالا حدیث کے مطالعے سے اوپر بیان کی ہوئی بات زیادہ واضح اور مدلل وموکد ہو جاتی ہے کہ محبت رسول ۖکی شہادت کے لئے رسول اللہ ۖ نے جو اشغال بتائے ہیں  ان کو چھوڑ کراپنی پسند کی چیزوں  کو نیکی سمجھنا گمراہی کے سوا کچھ نہیں  ہے۔

عام آدمی کی کیا بات ہے، وقت کے جلیل القدر پیغمبر کی بات بھی رسول اللہ ۖکی بات کے مقابلے میں  کوئی حیثیت نہیں  رکھتی ہے۔جو لوگ رسول اللہ ۖکے طریقے کو چھوڑکر دوسرے لوگوں  کے طریقے کو اپنا تے ہیں  اور سمجھتے ہیں  کہ وہ رسول اللہ ۖکی پیروی کر رہے ہیں  وہ شدید مغالطے میں  ہیں ۔ایسا کرنے والے سے رسول اللہ ۖشدید غصہ ہوتے ہیں ۔

''رسول اللہ ۖ کے پاس حضرت عمر   آئے اور کہا کہ یہودیوں  کی کچھ باتیں  اچھی معلوم ہوتی ہیں  تو آپ کی کیا رائے ہے کیا ان میں  سے کچھ ہم لکھ لیں ؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : کیا تم بھی اسی کھڈ میں  گرنا چاہتے ہو جس میں  یہود و نصاریٰ اپنی کتاب کو چھوڑ کر گرگئے۔میں  ایسی شریعت لایاہوں  جو سورج کی طرح روشن اور آئینہ کی طرح صاف ہے، اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں  بھی میری پیروی کرنی پڑتی۔''(مسلم)

رسول اللہ  ۖکی شریعت کی پیروی کرنے والا اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں  عائد کر لے گا۔وہ ہر اس ناجائز اور حرام چیز سے پرہیز کرے گا جس سے اس کا ایمان خراب ہوتا ہو۔اس کی یہ روش دنیا داروں  کی طرح دنیا حاصل کرنے سے اس کو روکے گی اور نتیجے میں  اس کی زندگی بہت سادہ اور معمولی طریقے سے گزرے گی۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کوتنگ دستی کا شکار ہونا پڑے اور فاقہ کرنا پڑے ۔لیکن اس کے برعکس کوئی شخص چاہتا ہے کہ وہ دنیا والوں  کے سامنے پروانۂ رسولۖ ہونے کا دعویٰ بھی کر ے اور عام دنیا داروں  کی طرح دنیا بھی کمائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے رات اور دن کا ایک جگہ جمع کرنا۔اللہ کے نیک بندے جن کو بزرگ اور ولی کہاجاتا ہے انہوں  نے اپنی زندگی میں  یہی روش اپنائی تھی۔دنیا دار لوگوں  سے اور حاکم حکام سے وہ دور رہتے تھے۔اس با ت کا ثبوت درج ذیل حدیث سے ملتا ہے۔

''ایک شخص رسول اللہ ۖ کے پاس آیا اوربولا میں  آپ سے محبت کرتا ہوں ۔نبیۖ نے فرمایا:جو کچھ تم کہتے ہو اس پر غور کر لو۔ اس نے تین بار کہا بخدا میں  آپ سے محبت کرتا ہوں ۔آپ نے فرمایا: اگر تم اپنی بات میں  سچے ہوتو فقر و فاقہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار فراہم کر لو۔''(ترمذی)

دین پورا کا پورا ایک بار اور ایک ہی طرح سے نہیں  آیا ہے۔بہت سے احکام شروع میں  نازل ہوئے اور پھر ان کو دوسرے احکام کے ذریعہ ختم کر دیا گیا۔ایسے اعمال بھی ہیں  جو رسول اللہ ۖنے خود نہیں  کئے مگر دوسروں  نے کیے تو آپۖ نے انہیں  پسند فرمایا۔ایسے اعمال کی پابندی امت پر لازم نہیں  ہے۔کوئی چاہے تو کرے مگر دوسروں  سے اس کی پابندی کا مطالبہ کرنا غلط ہوگا۔فرض اور سنت موکدہ کے علاوہ کسی چیز کی پابندی کسی فرد سے کرانے کا حق امیر اور امام کو بھی نہیں  ہے۔ہمارے جلیل القدر فقہا نے امت کو اسی الجھن سے بچانے کے لئے فرض ،سنت اور مستحب اعمال کی وضاحت کر کے شریعت پر عمل کو آسان بنا دیا، مگر بعض نادانوں  نے اس کے خلاف اعمال کئے اور شریعت کو عوام کے لئے مشکل اور پیچیدہ بنا دیا۔درج ذیل حدیث اس امر کی حقیقت بتاتی ہے۔

''حضرت عائشہ صدیقہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے کوئی کام کیا پھر اس میں  رخصت عطافرمائی(یعنی ترک کر دیا)لیکن لوگوں  نے اس سہولت سے فائدہ نہیں  اٹھایا اور اس کام کو ترک نہ کیا۔ جب رسول اللہ ۖکے علم میں  یہ بات آئی تو آپۖ نے خطبہ دیااور حمد و صلوٰة کے بعد فرمایا کہ لوگ کس حال میں  ہیں ۔ جس کام کو میں  کرتا ہوں  وہ اس سے پرہیز کرتے ہیں ۔خدا کی قسم میں  اللہ تعالیٰ کو ان سے زیادہ جانتا ہوں اور اس سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں ۔ (بخاری مسلم)

امت کو عمل پر ابھارنے کے لئے قرآن کی آیتیں  اور صحیح حدیثیں  اتنی زیادہ ہیں  کہ ان کے ہوتے ہوئے حدیث کے نام پر کسی جھوٹی بات یا کسی دوسرے شخص کے قول کی ضرورت ہی نہیں  ہے۔مگر کچھ بے علم اور ناعاقبت اندیش لوگ قرآن اور حدیث کی جگہ لوگوں  کے اقوال کو بنیاد بنا کرتذکیر اور تبلیغ کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔ جوش تبلیغ میں  من گھڑت قصے کہانیاں  بھی بیان کرنے لگتے ہیں ۔یہ ساری چیزیں  نیکی نہیں  گناہ ہیں  اور اہل علم ان چیزوں  سے سخت پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔درج ذیل حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔

''حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:آخر زمانہ میں  ایسے جھوٹے دجال ہوں  گے جو ایسی احادیث بیان کریں  گے جو نہ تم نے کبھی سنی ہوں  گی اورنہ تمہارے آباو اجداد نے۔ لہذا تم ان سے بچو اور خود کو ان سے بچاؤتا کہ نہ تو وہ تم کو گمراہ کریں  اور نہ فتنہ میں  ڈالیں ۔ (مسلم)

دنیا پرست مولویوں  نے عوام کو اپنے مفاد کی خاطر گمراہ کر رکھا ہے۔کاش لوگ قرآن و سنت کے حوالے سے دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں  کیونکہ یہی وہ سیدھی راہ ہے جس پر چل کر اللہ کی خوشنودی اور رسول اللہ  ۖکی اطاعت کا ثواب اور اجر و انعام پایاجاسکتا ہے۔ (یو این این)

سیرت سرور عالمۖ   ایک معروضی مطالعہ

اہل یورپ نے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ یورپ کی ترقی سے پہلے دنیا میں  انسانیت، شرافت، تہذیب، شائستگی،علم و ادب کی پیش رفت، معاشی خوش حالی،تلاش و تحقیق کی سرگرمیاں  یعنی ترقی کی رفتار ناپید تھی۔انسان جہالت اور حیوانیت کے مہیب اندھیروں  میں  بھٹک رہا تھا۔ آج کے انسان کو موجودہ ترقی اور فلاح وبہبود کی منزل تک لانے کا سہرا اہل یورپ کے سر ہے۔ڈارون، مارکس اور فرائیڈ کے خیالات و تصورات کو فلسفے اور تحقیق کا جامہ پہنا کر ا س انداز سے پیش کیا گیا کہ گویا یہی انسانیت کے وہ عظیم محسن ہیں  جنہوں  نے آدمی کو اس کی جبلی اور فطری خصوصیات و ترجیحات سے روشناس اور واقف کرایا ہے۔ان سے پہلے انسان خود اپنے آپ سے واقف نہیں  تھا۔ یہی باتیں  اور ایسے ہی خیالات ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے اسکولوں  اور کالجوں  کی درسی کتابوں  میں  پڑھائے جا رہے ہیں  اور اس وقت کا تعلیم یافتہ حلقہ انہیں  خیالات و تصورات کی نمائندگی کر رہا  ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کریں  تو اس کے برعکس ایک دوسری ہی تصویر نظر آتی ہے۔ساتویں  صدی عیسوی کے اوائل میں  زمین پر ایران، روم، مصر،چین اور ہندوستان میں  ایسی انسانی آبادی موجود تھی جس کے پاس ایک منظم حکومت بھی تھی،ایک دستور حیات بھی تھا،مذہبی نظام بھی تھا،صنعت و حرفت میں  بھی ترقی ہو چکی تھی،علم و ادب کے میدان بھی موجود تھے،عمدہ اور عالی شان مکانا ت کی تعمیر بھی ہو چکی تھی، کشادہ سڑکیں  بن چکی تھیں ،پانی کا مناسب انتظام تھا اور صفائی ستھرائی پر خاص دھیان رکھا جاتا تھا۔انواع و اقسام کے لذیذ کھانے بھی تیا رکیے جاتے تھے۔ذوق جمال کی تسکین کے ئے آرٹ اور فن بھی پایا جاتا تھا۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لئے راستے اور سواریاں  بھی تیار کی جا چکی تھیں ۔ پیغامات بھی آتے جاتے تھے۔تجارت کو بھی فروغ حاصل تھا اور کاشت کاری بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی۔ گویا انسانی ترقی کا سورج جگمگا رہا تھا اور جہالت و حیوانیت کا اندھیرا دور ہو چکا تھا۔

مذکورہ بالا دونوں  باتیں  کتابوں  میں  موجود ہیں ۔موجودہ تعلیم یافتہ اور دانشمند طبقہ کے فکری دیوالیہ پن پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے جو حقائق کی طرف سے آنکھیں  بند کر کے یورپ کا کلمہ پڑھتا رہتا ہے۔اہل یورپ کا یہ سفید جھوٹ، مغالطہ آمیز بیان اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی بے ایمانی ایسا گھناؤنا اور سنگین گناہ ہے کہ اہل دنیا کو ان کا اعتبار ہی نہیں  کرنا چاہئے تھا اوران کا کوئی وقار ہی قائم نہیں   رہنا چاہئے تھا۔لیکن چونکہ وہ ایک طویل مدت تک دنیا کے حاکم رہے ہیں  اور پسماندہ اقوام ان کی غلام رہی ہیں  چنانچہ آزادی کی نعمت پانے کے باوجود اہل یورپ کی ذہنی غلام سے ان کو نجات نہیں  مل سکی ہے۔

اس دور کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ تویورپ اور امریکہ کی چکا چوند سے ایسا سحر زدہ ہے کہ انسانی ترقی کا ہر پیکرآنکھوں  پر ان کی چڑھائی ہوئی انہیں  کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہے۔ حسن و قبح کا معیار انہیں  کے بتائے ہو ئے پیمانوں  سے پرکھتاہے۔

اُس وقت عرب کی سرزمین میں  جو انسانی آبادی موجود تھی اس کے درمیان قبائلی نظام رائج تھا۔ یہ آبادی کسی مرکزی حکومت سے بے نیاز،مروجہ تہذیب و شائستگی سے الگ، کاشتکاری اور صنعت و حرفت کی عمومی سرگرمیوں  سے محروم لیکن آزادی اور زبان دانی کی عظیم نعمت سے مالامال خود سری اور مطلق لاعنانی کے ساتھ اپنے انداز سے جینے کی عادی تھی۔طاقت ہی ان کا اصل جوہر تھا۔ ان کے نزاعات کے فیصلے صرف تلوار سے ہوتے تھے۔قبائلی جنگیں ، خون خرابے اور نسل و نسب کے فخر و مباہات ان کا سرمایہ حیات تھے۔

ایسی ہی فضا میں ساتویں  صدی کی تیسری دہائی میں  اس امی آبادی کے درمیان ایک نبی مبعوث ہوتا ہے۔یہ نبی ایک عام انسان کی طرح اپنے عرصہ حیات کے چالیس قیمتی سال ان کے درمیان گزارتا ہے اور اپنی سچائی،امانت داری، انسانی ہمدردی، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور بے داغ چمکتے ہوئے کردار سے اپنا ایک منفرد اور ممتاز مقام بناتا ہے۔چالیس برسوں  کے بعد وہ اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے اور صنم پرستوں  کے درمیان ایک ان دیکھے خدا کی خدائی اور آخرت کی زندگی کا تصور پیش کر کے ایک انقلابی  پیغام دیتا ہے۔ایک اجنبی تصور، ایک انجانا خیال قوم کو چونکا دیتا ہے اور حیرت کے سمندر میں  ڈال دیتا ہے۔مظاہر پرستی کے عادی دماغ اور مادی  زندگی کے قائل دلوں  کو غائب معبود کے وجود اور مرنے کے بعد برپاہونے والی ایک دنیا کی بات انہونی اور طلسماتی لگتی ہے۔پیغمبر انسانیت کی ہزار کوششوں  کے باوجود یقین و اعتماد کے دروازے ان دلوں  اور دماغوں  پر کھلتے ہی نہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مٹھی بھر سعید روحوں  کی ہم نوائی کے علاوہ پوری قوم مخالفت پر کمر بستہ ہو کراپنی جاہلانہ قومی حمیت اور مذہبی عصبیت کے دفاع کے لئے پوری طرح بر سر پیکار ہوجاتی ہے۔عداوتوں  اور مخالفتوں  کا طوفان اٹھتا ہے۔ظلم و تشدد کی آندھیاں  چلتی ہیں ۔مصائب و مشکلات کا سیلاب آتا ہے اور آزمایشوں  کے زلزلے اس نئی تحریک کے علم برداروں  کے پائے ثبات کو اکھاڑنے کی آخری کوششیں  کرتے ہیں ۔لیکن یہ نوزائیدہ تحریک مٹنے کی جگہ ہر روز پروان ہی چڑھتی چلی جاتی ہے اور تناور درخت کا سماں  پیش کرنے لگتی ہے۔

نبی معصوم اپنے کمزور اورناتواں  ہم نواؤں  کے ساتھ تیرہ برس تک ہر طرح کی صعوبتیں  اور اذیتیں  جھیلتے رہتے ہیں مگر رحم کی کوئی درخواست نہیں  کرتے ہیں ۔گھٹنے ٹیکنے اور کوئی سمجھوتہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا ہے۔آخر کار جان لینے اور دینے کا مقام آپہنچتا ہے اور اشارہ غیبی کے تحت نبی معصوم اور ان کے ساتھی اپنے وطن عزیز کو الوداع کہتے ہیں  اور ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ کوچ کر جاتے ہیں ۔ اس کے بعد مکہ کے خود سر، مغرور اور سرکش سردار اور لڑاکے اس نئی تحریک کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر مدینہ کی چھوٹی سی ریاست پر حملہ آور ہوتے ہیں  اور مٹھی بھر توحید پرستوں  سے شکست کھاجاتے ہیں ۔یہ معرکہ آرائی اور اس کا انجام سب کو حیرت میں  ڈال دیتا ہے اور اس کا یقین ہی نہیں  ہوتا ہے۔مسلسل دس برسوں  تک یہ معرکہ آرائی چلتی رہتی ہے اور آخر کار پورا عرب مغلوب ہوجاتا ہے۔صنم پرستی کی اجارہ داری ختم ہوتی ہے اور ایک ان دیکھے خدا کی حاکمیت پورے عرب پر قائم ہوجاتی ہے۔ایک نیا دین، ایک نئی تہذیب اور ایک نیا معاشرہ وجود میں  آتا ہے۔اور اس کی برکتوں  اور نعمتوں  سے اس مقام کی انسانی آبادی پہلی بار زندگی کی راحتوں  اور لذتوں  کا مزہ چکھتی ہے۔پھر آئندہ پندرہ سال کے اندر یہ نئی تحریک عرب سے نکل کر ایران تک پھیل جاتی ہے اور ایران جیسی منظم اور طاقت ور حکومت اس نئے نظام کے ماتحت آجاتی ہے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں اس وقت کی دوسری عظیم طاقت روم بھی اس سے ٹکرانے کی ہمت نہیں  کر پاتی ہے۔

اس پوری داستان کو پڑھنے اور سننے کے بعد ایک باشعور اور بالغ ذہن کے سامنے دو ہی زاویے آتے ہیں ۔ یاتو اسے نبی معصوم کا معجزہ کہا جائے یا پھراسے ایک انتہائی ہوشیار، آزمودہ کار،دانشمند،صاحب فہم و فراست اور پیکر عزیمت و حکمت کی اعلیٰ ترین تدبیر اور منصوبہ بند مسلسل جدو جہد کا نام دیا جائے۔آج کا جدید ذہن معجزات اور کرشمہ و کرامات کا قائل نہیں  ہو سکتا ہے۔چنانچہ لا محالہ اسے انسانی تدبیر اور کوشش کا نتیجہ ہی ماننا پڑے گا۔

آئندہ سطور میں  ہم انہیں  کوششوں  کا جائزہ پیش کرنے کی اور جاننے کی کوشش کریں  گے کہ نبی معصوم نے وہ کون کون سے طریقے اختیار کیے جن کی وجہ سے وہ اور ان کے مٹھی بھر ساتھی وقت کی عظیم طاقتوں  سے ٹکرا کر فتح یاب ہوئے اور ان کے افکار و نظر یات ڈیڑھ ہزار سال کے طویل عرصے کے بعد بھی آج تک دنیا میں  جاری و ساری ہیں  اور ان کی آب و تاب میں  کوئی کمی نہیں  ہو پائی ہے۔ساتھ ہی انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس کی مخلصانہ پیروی کو اپنی خوش بختی سمجھتا ہے اور ان اصولوں  کی پاسداری کے لئے مصروف عمل ہے۔

نظریاتی سرمایہ:

کسی بھی قوم یا گروہ کو دنیا میں  پیش رفت کے لئے ایک فکری اور نظریاتی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت عطا کرتا ہے اور عمل پیہم کی تحریک بھی دلاتا ہے۔یہ فکری سرمایہ اگر بودا اور کمزور ہو اور نتائج کے اعتبار سے بے فیض نظر آئے تو اس کے حاملین کا یقین اس پر سے متزلزل ہونے لگتا ہے اور اس کے ساتھ وفاداری اور جاں  نثاری کی روش ختم ہونے لگتی ہے۔اس کے برعکس اگر یہ مستحکم اور جاندار ہو تو اس کے حاملین کا اعتماد و یقین ہر حال میں  قائم رہتا ہے۔

نبی معصوم نے جو تصور الٰہ دیا اور اس کی قدرت اور طاقت کا جو ادراک کرایا اور اس کی نصرت و حمایت کا جو یقین دلا یا اور  اس تصور کے جو مشاہدات اور تجربات سامنے آئے اس نے اس نئے گروہ کے اندر پہاڑ جیسا عزم و ارادہ پیدا کر دیا، جس سے دوسری قومیں  محروم تھیں ۔مابعد زندگی ایک دوسری زندگی کے سامنے آنے کا تصور اور وہاں دنیا کی کوششوں  کا بھر پور اور بہترین انعام و اکرام پانے کا یقین ایسا محرک بنا جس نے دنیا کی ناکامیوں  اور محرومیوں  کو تودہ خاک بنا کر ذلیل و حقیر کر دیا۔پوری دنیا اور مکمل حیات دنیا ایک حقیر اور بے وقعت شے بن کر رہ گئی۔اس کی حیثیت صرف ایک ایسے آلے کی ہو گئی جس کے استعمال سے بہترین نتائج توپیدا کیے جاسکتے ہیں  مگر اس کی محبت دلوں  پر غالب نہیں  ہونے پاتی ہے۔

عملی سرگرمی کا وظیفہ:

وقت کا بہترین استعمال اور عمل کی بے پناہ قوت ہی انسانی ترقی کی راہیں  کھولتی ہے۔نبی معصوم نے جو گروہ تیار کیا تھا وہ عمل کے میدان میں  کسی نوعیت سے پیچھے رہنا جانتا ہی نہیں  تھا۔دن رات صرف اپنے مقصد کو پانے کی دھن اور مسلسل کام کرتے رہنے کی عادت نے اس گروہ کو میدان عمل میں  اتنا آگے بڑھایا کہ دوسری قومیں  اس کے مقابلے میں  پیچھے رہ گئیں ۔

ایثار و قربانی کا بے مثال جذبہ:

دنیا کی کوئی قوم ایثار و قربانی کے بغیر ترقی نہیں  کر سکتی ہے۔ واقعات شاہد ہیں  کہ نبی معصوم کے پیروؤں  نے اپنے مقصد اور نصب العین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریزنہیں  کیا۔ بلکہ انتہائی خوش دلی کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اس میں  حصہ لیتے رہے۔ دولت، جائداد اور مادی راحت و آسائش انسان کی فطری کمزوری ہے۔مگر اس گروہ کی ایسی تربیت کی گئی تھی کہ وہ ان چیزوں  کواپنے مقصد کے مقابلے میں  خاطر میں  لاتا ہی نہیں  تھا۔

ہمدردی، خیر خواہی ،امداد باہمی:

کسی بھی نظریاتی گروہ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں  کے ساتھ حد درجہ کی ہمدردی اور خیر خواہی کرے اور ایک دوسرے کا ہر حال میں  سہارا بنے۔اس کے بغیر کوئی نظریاتی گروہ دنیا میں  زندہ رہ ہی نہیں  سکتا ہے اور اپنی منزل کی جانب ایک قد م بھی نہیں  بڑھ سکتا ہے۔خوب معلوم ہے کہ نبی معصوم کا تیار کردہ گروہ آپسی ہمدردی، خیر خواہی اور امداد باہمی کے پہلو سے تمام عالم انسانیت میں  بام عروج پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔دنیا کی کوئی دوسری قوم اس معاملہ میں  اس کا مقابلہ کر ہی نہیں  سکتی ہے۔

عام انسانی ہمدردی کا مظاہرہ:

کوئی تحریک جب اٹھتی ہے تو اس کے کارندے اپنے درمیان تو محبت و اعانت کا خیال رکھتے ہیں  لیکن دوسروں  کے تئیں  ان کا رویہ بیگانے پن کا ہوتا ہے اور اپنے دشمنوں  کے لئے تو وہ موت کا پیغام بن جاتے ہیں ۔ لیکن نبی معصوم کے ساتھیوں  نے یہاں  ایک نہایت ہی نرالا اور انوکھا نمونہ پیش کیا۔ وہ ساری انسانیت کے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔نہ صرف انسانوں  کے بلکہ حیوانوں  اور درختوں  اور پودوں  کے بھی ہمدرد تھے۔قدرت کی بخشی ہوئی کسی بھی دولت کو ضائع کرنا تو وہ جانتے ہی نہیں  تھے۔ان کا تصور یہ تھا کہ روئے زمین کی ہرنعمت اور دولت خدا کی ملکیت ہے ۔ انسانوں  کو ان سے خود بھی فائدہ اٹھانا چاہئے اور دوسروں  کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہئے ۔ یہ ایک مشترکہ جائداد ہے جو سب کے لئے ہے۔ اس میں  عقیدے اور نظریے کی کوئی قید نہیں  لگائی جا سکتی ہے۔ان کے رویے نے انہیں  غیروں کے درمیان بھی ہر دل عزیز بنا دیا۔اور وہ خیر امت کے لقب کے جائز حقدار بن گئے۔

سماجی برابری:

انسان کی بہت بڑی خرابی اور کمزوری یہ ہے کہ وہ محض اپنی انا ، مادی مفادات اور جھوٹی شان کی خاطر انسانوں  کے درمیان چھوٹے اور بڑے ، اونچے اور نیچے کی تفریق پیدا کرتا ہے۔اس کی وجہ سے آپس میں  بغض و عناد اور نفرت و عداوت کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔نبی معصوم نے بتایا کہ سارے انسان ایک خاندان کے لوگ ہیں ، آپس میں  بھائی بھائی ہیں  اور یہ صرف زبان سے کہا ہی نہیں  بلکہ اس کو عملاً زندگی میں  برت کر بھی دکھا دیا۔اس روش اور رویے نے اس نوزائیدہ گروہ کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا جس سے ٹکرا کر وقت کی عظیم ترین طاقتیں  پاش پاش ہو گئیں ۔

عدل و انصاف کی فضا:

انسانی آبادی کے لئے جو چیز زہر ہلاہل بن جاتی ہے وہ ہے سماجی ناانصافی اور ظلم و استحصال کا ماحول۔نبی معصوم نے جو معاشرہ قائم کیا  تھا اس میں  ہر طرف عدل و انصاف کی باد بہاری چلتی تھی۔ظلم و زیادتی اور جبر و جور کا کہیں  نام ونشان بھی نہیں  تھا۔اس چیز نے اس معاشرے کو وہ سازگار فضا دی جس میں  ہر طرح کی انسانی صلاحیتوں  کو فروغ پانے کا بھر پور موقع ملا اورانسان کی تعمیری لیاقتوں  کا مزیدار پھل پورے معاشرے نے چکھا۔

اجر و انعام اور بدلے سے بے نیازی:

انسانی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ہر عمل اور کوشش کا اجر اور انعام لینا چاہتا ہے۔اگر اس کی خواہش کے مطابق اس میں  کمی ہو تو وہ خود کو محروم سمجھتا ہے اور بے چینی کے مرض میں  مبتلا ہو جاتا ہے۔نبی معصوم نے اپنے ساتھیوں  کے اندر یہ اعتقاد پیدا کیا تھا کہ تمہاری ہر طرح کی کوششوں  کا بھر پور اور بہترین بدلہ اور انعام صرف خدا سے مل سکتا ہے۔یہ محتاج اور مجبور دنیا تمہاری کوششوں  کا بدلہ دے ہی نہیں  سکتی ہے۔اس جذبے نے بے لوث خدمت کی ایسی لگن ان کے دلوں  میں  پیدا کر دی تھی کہ یہ چیز ان کے علاوہ دنیا میں  کہیں  دکھائی دیتی ہی نہیں  ہے۔اور ان کی اسی روش نے ان کو غیروں  اور بیگانوں  کی آنکھوں  کا تارہ بنا دیا تھا۔

لینے والے نہیں  دینے والے:

انسانی کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ لینا زیادہ اور دینا کم چاہتا ہے۔ اور یہی روش اور رویہ انسانوں  اور انسانوں  کے درمیان نزاع و جدال کا سبب بنتا ہے۔اور اسی کی وجہ سے قوموں  اور گروہوں  میں  باہمی کشاکش اور خونریزی تک ہوجاتی ہے۔نبی معصوم نے اپنے ساتھیوں  کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ تمام دنیا کے سامنے دینے والے بن کر ابھرے تھے لینے والے نہیں ۔انہوں  نے دنیا کو صرف دینا سیکھا تھا دنیا سے لینا وہ جانتے ہی نہیں  تھے۔جن لوگوں  کا یہ طریقہ ہو بھلا ان سے دنیا میں  کون نفرت کرے گا۔وہ تو نہ صرف محبوب بن جائیں  گے بلکہ پوجے بھی جائیں  گے او ر سر آنکھوں  پر بٹھائے جائیں  گے۔ 

معیار مطلوب کون تھا ؟ :

انسانی کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی نمونہ اور معیار چاہتا ہے جس کو سامنے رکھ کر وہ اپنا ہدف اورنشانہ طے کرے اور اس کو پانے کی جد و جہد کرے۔نبی معصوم کے ساتھیو ں  کے سامنے روم اور ایران کی سلطنت اور ان کی شان و شوکت موجود تھی۔ ان کا ترقی یافتہ معاشرہ اور اس کی چمک دمک بھی سامنے تھی۔لیکن وہ ایسے خدا مست اور آخرت کے انعام و اکرام سے ایسے سرشار تھے کہ دنیا والوں  کی اس چمک دمک کی طرف ا ن کی نگاہ جاتی ہی نہیں  تھی۔

نمونہ کے طور پر یہ چند باتیں  سامنے لائی گئی ہیں ۔اگر غور و فکر سے کا م لیا جائے تو ایسی اور بھی بہتیری صفات گنائی جا سکتی ہیں  جن کی بدولت یہ خیر امت گروہ دنیا میں  کامیابی و کامرانی اور سربلندی سے ہم کنا ر ہوا تھا۔

مسلمانوں  کی موجودہ روش :

اس وقت مسلمانوں  کے قائدین اور دانشور مسلمانوں  کو تعلیمی اور معاشی ترقی کا درس دے رہے ہیں  اور سمجھا رہے ہیں  کہ جب تک وہ یورپ، امریکہ اور جرمن و جاپان کے نقش قدم کی پیروی نہیں  کریں  گے کامیابی ان کے قدم نہیں  چومے گی۔بہ الفاظ دیگر کامیابی اور کامرانی کا معیار یہی لوگ ہیں ۔ مسلمانوں  کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اسی فلسفہ پر ایمان رکھتا ہے،نیز اسی کی کوشش میں  دن رات لگا ہوا ہے۔مسلمانوں  کی غالب اکثریت جہاں  غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہیں  اس کا ایک قابل ذکر طبقہ اعلیٰ تعلیم اور معاشی خوشحالی کی نعمتوں  سے بھی بہرہ ور ہے۔مگر سب جانتے ہیں  کہ اعلیٰ تعلیم اور معاشی خوشحالی کے باوجود یہ طبقہ سماجی وقار اور خود مختاری کی دولت سے محروم ہے۔  غلام چاہے کیسی ہی شاندار زندگی گزارے بہر حال غلام ہی رہتا ہے۔ آزادی وہ قیمتی نعمت ہے جس کا بدل کوئی دوسری چیز ہو ہی نہیں  سکتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں  کہ اس وقت مسلم ملت ساری دنیا میں  خود مختاری اور آزادی کی نعمتوں  سے محروم ہے۔اورخود مختاری و آزادی کی نعمتوں  سے محروم لوگ عزت و عظمت کی باوقارزندگی نہیں  گزار سکتے ہیں ۔

یہ بھی ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ مسلمانوں  کے اس خوش حال طبقہ سے کوئی فیض اور فائدہ عام مسلمانوں  کو نہیں  پہنچ رہاہے۔ سیاست کے ایوانوں  میں ،سرکاری ملازمتوں  میں  اور دوسرے اداروں  میں  جو مسلمان ہیں  وہ بچ بچا کر انفرادی طور پر کسی مسلمان کی مدد تو کر دیتے ہیں  لیکن بحیثیت مجموعی مسلم ملت کو خاطر خواہ فائدہ نہیں  پہنچا رہے ہیں ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اعلیٰ عہدوں  پر پہنچ جانے کے باوجود وہ غلام ہی ہیں ۔اور غلام اپنی غلام برادری کا کوئی بھلا نہیں  کر سکتا ہے۔ یہی قانون قدرت ہے اور یہی انسانی تاریخ کی داستان ہے۔

مسلمانوں  کی زندگی کا اصل مقصد اگر دنیا میں  عیش و آرام سے رہنا ہے تو یہ چیز تو موجودہ روش سے کسی حد تک حاصل ہو جائے گی،ہو گئی ہے اور ہو رہی ہے لیکن اگر یہ ملت آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنی تہذیب اور اپنے دینی اصولوں  کے ماتحت جینا چاہتی ہے تو اس کے لئے موجودہ روش کار آمد نہیں  ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے اس کو کچھ اور ہی راہیں  تلاش کرنی ہوں  گی۔

یہاں  یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ موجودہ مسلم ملت نے نبی معصوم کو اپنا آئیڈئیل نہیں  بنایا ہے۔وہ نبی معصوم کی پیروی صرف نماز، مسواک، داڑھی، رفع الیدین، آمین بالجہر،صلوٰة و سلام اور آخرت کی نجات تک ہی کرنا چاہتی ہے۔زندگی کے عملی شعبوں  میں  اس نے نبی معصوم کو اپنا رہبر بنایا ہی نہیں  ہے۔ اور اس کی وجہ شاید ذہن کے گوشے میں  کہیں  نہ کہیں  یہ شبہہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے انسان کو آج کے حالات میں  رہبر کیسے بنایا جا سکتا ہے  ؟ جبکہ نبی معصوم قیامت تک کے لوگوں  کے لئے ہر پہلو سے نمونہ اور آئیڈئیل ہیں ۔

کہاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں  اور ان کے قائدین نے پیروی رسول کی حکمت کو سمجھا ہی نہیں ۔نبی معصوم کی پیروی ان انقلابی اصول و آداب میں  کرنی ہے جن کا ذکرقدرے تفصیل سے اوپر کیا گیا ہے۔یہ وہ زریں  اصول ہیں  جو کسی بھی گروہ کو سربلندی اور جاہ و اکرام کی اونچائی پر پہنچاتے ہیں ۔ صحابہ کرام نے انہیں  اصولوں  کو اپنا کر زندگی کی بلندیاں  حاصل کی تھیں  اور موجودہ مسلم ملت نے انہیں  اصولوں  کو نظر انداز کر کے ذلت اور مسکنت کا طوق اپنی گردن میں  ڈال لیا ہے۔مذکورہ صفات یکساں  انداز سے افراد کو بھی اور ملتوں  کو بھی مقام محمود عطا کرتی ہیں ۔اس مضمون کا مدعا اور ماحصل وہی ہے جو علامہ اقبال نے اپنی پوری شاعری میں  ملت مرحوم کو دیا ہے۔

ہمالیائی غلطی :

مسلمان جب اپنے بھائیوں  کو خوش حالی اور ترقی کا درس دیتے ہیں تو وہ اس وقت قرآن کی تعلیمات اور نبی معصوم کی ہدایات کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ۔اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ان سے واقف نہیں  ہیں ۔ نہ تو ان کو یہ تعلیمات دی گئی ہیں  اور نہ ہی انہوں  نے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔عام مسلمانوں  کا معاملہ الگ ہے لیکن جب نائبین رسول اور علمائے کرام بھی یہی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں  تو سخت تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں   کو کیا ہو گیا۔اور انجام کار یہی سمجھ میں  آتا ہے کہ یہ حضرات بظاہر تو دین کی تعلیم رکھتے ہیں  لیکن اس کی روح سے یہ بھی خالی ہیں ۔یہ احساس صرف مجھ جیسے لوگوں  کا نہیں  بلکہ وقت کے ایک عظیم دانشور کا ہے جس نے کبھی کہاتھا کہ      

گلا تو گھونٹ دیا پیر مدرسہ نے ترا    کہاں  سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

قرآن کی آیتیں  بتاتی ہیں  کہ تنگی اور خوش حالی انسان کی کوشش اور کوتاہی کی بدولت نہیں  بلکہ اللہ کی حکمت کے تحت ملتی ہے۔وہ جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپی تلی روزی عطا کرتا ہے۔جس کے مقدر میں  نپا تلا رزق ہے اسے کشادگی کوئی دوسرا شخص کہاں  سے دے سکتا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ عزت و اکرام اور ذلت و پستی بھی اللہ کے فیصلے سے ہی ملتی ہے۔ اس کے ملنے اور چھن جانے میں  بھی کسی انسانی کوشش کو دخل نہیں  ہے۔احادیث نبوی بتاتی ہیں  کہ انسان اپنے مقدر کا حال نہیں  جانتا ہے۔اس لئے اسے اپنی بساط بھر محنت اور کوشش کرنی چاہئے۔ حرص و ہوس کے بغیر ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ محنت و مشقت کے ذریعہ اپنا رزق حلال کمانے کی تدبیر کرتے ہوئے جو زیادہ یا کم مل جائے اسے اپنی تقدیر سمجھ کر ہنسی خوشی اس پر قانع اور صابر رہنا چاہئے ۔ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا بھی کرتے رہنا چاہئے۔کشادہ رزق بھی مانگنا چاہئے اور زندگی میں  آسانیوں  اور آسائشوں  کا طلبگار بھی رہنا چاہئے۔ ساتھ ہی آزمائشو ں  اورہر طرح کی صعوبتوں  سے پناہ بھی مانگتے رہنا چاہئے۔زندگی کی راہوں  میں  سرگرم عمل رہنے اور کامیابی کی منزلوں  تک پہنچنے کا اس سے بہتر اور حقیقی و یقینی نسخہ کیمیا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں  سکتا ہے۔مگر افسوس کہ مسلمان نہ اس نسخہ کو آزمانا چاہتے ہیں  اورنہ اس کے فیوض و برکات سے آگاہ ہیں ۔اس کے برعکس وہ خواب دیکھتے ہیں  جس کی تعبیر پریشانی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں ۔

قرآنی آیات یہ بھی بتاتی ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں  کو اپنے فضل خاص سے نوازا ہے وہ اپنے ضرورت مند اور محتاج بھائیوں  کا خیال کریں ۔لیکن اس وقت مسلمانوں  کا خوش حال طبقہ اپنی ضرورت مند برادری کا ذرا بھی خیال نہیں  کرتا ہے۔زکوٰة کے سوا کوئی دوسری رقم محتاجوں  کے لئے نکالی ہی نہیں  جاتی ہے۔اور یہ زکوٰة بھی بیچارے مستحقین تک نہیں  پہنچتی ہے۔کچھ خیر خواہوں  کو اس میں  مزہ آتا ہے کہ مسلمانوں  کی خوشحالی کے لئے ادارے قائم کیے جائیں  اور اجتماعی کوششیں  کی جائیں ۔اس چکر میں  وہ اپنے انفرادی اور شخصی فرائض کو یکسر بھول جاتے ہیں  اور نظر انداز کردیتے ہیں ۔شاعر مشرق نے ملت کی نبض شناسی کرتے ہوئے تشخیص کر دی تھی کہ            

سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے   زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں 

سیرت رسول کے معروضی مطالعہ کا پیغام اس کے سوااور کیا ہو سکتا ہے کہ:

کی محمدۖ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں  ـیہ جہاں  چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں 


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment