اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

علم امام ـکے منابع ، مآخذ

(1)    کتاب الٰہی پر احاطہ کامل

(2)    پیغمبر  کی علمی وراثت اورتعلیم پیغمبرۖ

(3)    فرشتوں سے ارتباط

(4)    نورانیت و تائید الٰہی

1=علی کے علم کا اولین منبع کتاب الٰہی کا جامع علم ہے

۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے سورہ بقرہ کی آیت نمبر٤٦ میں بنی اسرائیل کے بعض لوگوں نے اپنے پیغمبر ۖ سے درخواست کی ابعث لنا ملکاً نقاتل فی سبیل اللہ…ہمارے لئے حکمران، وہبراورامیر متقین کریں تاکہ وہ ہماری قیادت کرے اورہم راہ خدا میں جنگ کریں خداوند متعال نے حضرت طالوت کو ان پرامیر متعین کیا۔توانہوں نے اعتراض کیا کہ طالوت وہ رہبر نہیں کیونکہ وہ فقیر ہے اورمعاشرہ میں اقتصادی مقام نہیں رکھتا ۔ تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ طالوت خدا کا برگذیدہ بندہ ہے اورخداوند متعال نے طالوت کو وسیع علم عطاکیا ہے اور جسمانی اورظاہری لحاظ سے بھی کافی قوت و طاقت رکھتا ہے۔

طرز فکر کا اختلاف یہ ہے کہ وہ لوگ فقر اورثروت کی کمی کو پیش کرتا ہے اوراپنے انتخاب کے مصار کوبیان کرتا ہے۔

پہلے بتایا گیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالبـ کے علم کا اولین منبع کتاب الٰہی کا وسیع و جامع علم ہے قرآن فرماتا ہے ۔

واذا جاء امرمن الامن اوالخوف أذا عوابہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ۔(نساء آیت نمبر ٨٣)

''جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فوراً نشر کردیتے ہیں حالانکہ اگر رسول اورصاحبان امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والی حقیقت حال کا علم پیداکرلیتے ''

مسلمان آیندہ درپیش حالات سے واقف نہیں لہٰذا اپنے معاملات کوخدا اوررسول اولی الامر کے حوالے کریں۔جن کوعلم دیا گیا ہے اورکلام خدا سے ہر حکم کو استنباط کرنے کا طریقہ جانتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبراکرمۖ کے ساتھ ساتھ تمام علوم احکام کو کلام الٰہی سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کیا یہ اولی الامر وہی ہے کہ جب اس سے کلمہ ابّاً کے مفہوم کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے ۔ تو معذرت کرتا ہے ؟ یا وہ شخصیت کہ جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں ۔

اشہدانک قدا قمت الصلوٰة واتیت الزکاة اولی الامر وہ ہستی ہے جو کتاب الٰہی سے تمام احکام کو استنباط کر سکتی ہو نہ کہ صرف ظاہر قرآن کا علم رکھتی ہو۔

شاطبی جو کہ اہل سنت عالم دین ہیں اور علم قرأت ، تجوید اور علوم ظاہری قرآن میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور جس قرأت کے ساتھ آج قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے وہ قرأت عاصم ہے اور عاصم نے وہ قرأت عبدالرحمن ثلمی سے سیکھی ہے اورعبدالرحمن نے قرأت و تجوید علی بن ابی طالبـ سے سیکھی ہے اورآج شیعہ و سنی اس قرأت پر متفق ہیں۔

وہ قرآن جو تمام اسلامی مخالف اورسعودی عرب میں چاپ ہوتا ہے سب کے سب حفص کے ذریعے قرأت عاصم اور یہ قرأت بقول شاطبی بلاواسطہ پر علی بن ابی طالبـ کی قرأت سے حاصل کی گئی ہے ۔اہل سنت میں تفسیر قرآن میں مشہور ترین شخصیت ابن عباس کی شخصیت ہے وہ کہتے ہیں ۔

جل ماتعلمت فی تفسیر القرآن من علی بن ابی طالبـ

''تفسیر قرآن کے بارے میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ علی بن ابی طالبـ سے ہی سیکھاہے''

وہ راتیں جن میں آپ ـ مجھے سحر تک بیدار رکھتے اورقرآن کی تفسییر سکھاتے تھے جب ایک رات مکمل ہوگئی ، تو صبح تک بسم اللہ کے حرف باء کی تفسیر و تشریح مکمل نہیں ہوتی تھی ۔ پس اولی الامر وہ ہستی ہے کہ جو ظاہر قرآن اورباطن قرآن سے مکمل طور پر آگاہ ہو ۔

اہل سنت مفسرین اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں ، مسلمانوں کے لشکر کے سربراہ اولی الامر ہیں ان کی اطاعت لازم ہے درحالانکہ یہ فرمانرواکس طرح احکام الٰہی کو قرآن سے استنباط کر تے ہیں قابل غور وفکر بات ہے ۔ ان کے اس عقیدہ کے مقابلہ میں ایک اورنظریہ ہے کہ اہل حل و عقد اولی الامر ہیں اوراگر یہ فرض قبول کرلیا جائے تو اس آیت شریفہ کی تفسیر کس طرح کی جائے گی ۔

ولو فضل اللہ علیکم ورحمہ الاتبعتم الشیطان فی الاقلیلاً

''یہ فضل ورحمت خدا ہے کہ ایسی شخصیت مسلمان معاشرہ میں موجود ہے اوراگر ایسی شخصیت نہ وہتی تو یقینا تم میں سے چند لوگوں کے علاوہ وہ سب لوگ شیطان کی پیروی کرتے ''

اس آیت میں دقت نظر کرنی چاہیے

بل ھو آیات بینات فی صدور الذین اوتو العلم ومایجحد بایاتنا الاالظالمون (عنکبوت٤٩)

''بلکہ وہ آیت روشنی ان لوگوں کے دلوں میں ہے جنہیں علم عطاکیا گیا ہے اورہماری آیات کا انکا صرف انکار صرف ظالم ہی کرتے ہیں ''

اوتو فعل مجہول ہے اسی سے مقصود یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے علم حاصل کیا ہے ۔ بلکہ مقصود وہ افراد ہیں جنہیں علم سکھایا گیا ہے اوران آیات سے متعین ہوجاتا ہے کہ علم ان برگذیدگان کے قلب مقدس پر نازل ہوا ہے اور انہون نے اس طرح حکمت کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ کلام خدا میں کونسل سینہ مراد ہے جس میں آیات الٰہی کو رکھا گیا ہے ؟ پیغمبرۖ سے منقول حدیث اس سوال کاواضع جواب فراہم کرتی ہے ۔ علی مع القرآن والقران مع علی

اور اس آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے ۔

فاسئوااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون

''اگر تم نہیں جانتے تواہل ذکر سے سوال کرو''

آیت میں بغیر کسی قید وشرط کے اہل ذکر سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتاکہ ممکن ہے کہ ان کی بات صحیح ہویا غلط ، وگراس صورت میں تحقیق و تحلیل کی محتاج ہوگی۔ بلکہ خطاب مطلق اورکلی صورت میں ہے اورعمومی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی فلاں کہے گا مجھے قبول ہے اس بات کا معنی یہ ہے کہ اس شخص کا قول حجت اورسند ہے ۔ البتہ اس شخص کی بات حجت ہے جو خطاو لغزش سے پاک ہواور مسلم ہے کہ جو شخص خطا کرتا ہے اوردینی غلطی پر عذر خواہی کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ کا رہبر و رہنما نہیں ہوسکتا ۔ لیکن جو شخص قرآن ، ذکر کے ساتھ ہے اس کی بات حجت الٰہی ہے پس علم کا اولین منبع قرآن کریم کے ظاہر ، باطن سے کامل آگاہی ہے۔

2=وراثت رسول اللہ ۖ

(ب)   علم امام کا دوسرا منبع پیغمبرۖ سے علمی وراثت ہے

مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ علیہ اپنی کتاب الغدیر کی چھٹی جلد میں اہل سنت مولفین کی ١٤٣کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ ان سب کا اتفاق ہے کہ پیغمبر ۖ نے فرمایا

قال رسول اللہ انا مدینة العلم وعلی بابھا

پیغمبرۖ نے فرمایا:'' میں علم کا شہر ہوں اورعلی کا اس کا دروازہ ہیں''

خدا نہ کرے کہ کبھی ہمارے لئے یہ دروازہ بندہوجائے ۔ حضرت علیـ خود ایک حدیث میں تصریح کرتے ہیں ۔

لقد علمنی رسول اللہ الف باب کل باب یفتح الف باب

''پیغمبر ۖ نے مجھے ہزار باب تعلیم دئیے تھے جن میں سے ہر ایک سے ہزار باب کھلتا ہے''

پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ انسان ان شیعہ و سنی ذرائع سے مسلم احادیث کو دیکھے اورپھر بھی اسے کے لئے یہ سوال درپیش ہو کہ علم امامـ کا ماخذ کیا ہے؟

ابوبصیر حضرت امام صادق ـ کے پاس حاضر ہوا اورعرض کی۔

جعلت فداک انی أسالک عن مسالة ھھنااحد یسمع کلامی ؟ قال فرفع ابوعبداللہ ستراً بنة و بین بیت آخر فاطلع فیہ ثم قال یا ابا محمد سل لمحابدالک قال قلت جعلت فداک ان شیعتک یتحدثون ان رسول اللہ علم علیاً باباً یفتح لہ منہ الف باب؟ قال فقال ابا محمد علم رسول اللہ ۖ علیا الف باب یفتح من کل باب الف باب قال قلت ھذا واللہ العلم قال فنکت ساعة فی الارض ثم قال انہ لعلم وما ھو بذاک قال ثم قال یا ابا محمد وان عندنا الجاھة واما یدریھم ما الجامعة ؟ قال قلت جعلت فداک واما الجامعة ؟ قال صحیفہ طولھا سبعون زراعاً بذراع رسول اللہ واملائہ من فلق فیہ وخط علی بیمینہ فیھا کل حلال و حرام و کل شی یحتاج الناس الیہ حتی الرش فی الخدش و ضرب بیدہ الی وقال تاذن لی یا ابا محمد ؟ قال قلت جعلت فداک انما انا لک فاضع ما شئت قال فغمز نی بیدہ و قال حتی ارش ھذا کانہ مغضب قال قلت ھذا واللہ اعلم قال انہ لعلم ولیس بذاک ثم سکت ساعة ثم قال وان عندنا الجغرومایدریھم ماالجفر؟ قال قلت وما الجفر؟ قال وعاء من آدم فیہ علم النبین والوصیین و علم العلماء الذین مضوا من بنی اسرائیل قال قلت ان ھذا ھو العلم قال انہ لعم ولیس بذاک ثم سکت ساعة ثم قالووان عندنا لمصحف فاطمة ومایدیھم ما مصحف فاطمہ قال قلت وما مصحف فاطمة ؟ قال مصحف فیہ مثل قرآنکم ھذا ثلاث مرات واللہ مافیہ من قرآنکم حرف واحد قال قلت ھذاواللہ العلم قال انہ لعلم وما ھو یذاک ثم سکت ساعة ثم قال ان عندنا علم ما کان و علم ماھو کائن الی ان لعلم ولیس بذاک قال قلت جعلت فداک فای شئی العلم؟ قال ما یحدث باللیل والنھار الا مربعد الالمر والشئی بعد الشئی الی یوم القیامة۔

''میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہاں کوئی میری آواز سن رہا ہے؟ توآپـ نے پردہ ہٹایا اورپردہ کے پیچھے دیکھا۔ پھر فرمایا اے ابوبصیر جو پوچھنا چاہو پوچھو ۔ میں نے عرض کی ۔ میں آپ پر قربان ہوں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ۖ نے علی ـ کو ہزار باب علم تعلیم دیا کہ جس سے اور ہزار باب کھلا۔ حضرت امام صادقـ نے کچھ دیر تأمل کیا اور اپنی انگلیوں کو زمین پر رکھا اورپھر فرمایا۔ ہاں یہ علم ہے لیکن علیـ کا علم صرف یہی نہیں ۔ ہمارے پاس جامعہ ہے کہ آپ شیعوں کو اس کامفہوم معلوم نہیں ، تو میں نے عرض کی۔ یابن رسول اللہ میں آپ پر قربان جامعة کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کا طول ستر زراع ہے۔ جو علی بن ابی طالبـ کا لکھا ہوا ہے اورپیغمبر ۖ کی طرف سے انشاء شدہ ہے جس میں ہر حلال و حرام اورہر حکم جس کے لوگ محتاج ہیں ۔ ذکر ہوا ہے اوربعنوان مواریث النبی ہمارے خاندان میں موجود ہے ۔ پھر امام صادق ـ نے ابوبصیر کا بازو پکڑ ا اورکچھ دباؤدیا اورپھر فرمایا اے ابوبصیر!جان لے کہ اتنی سی چوٹ کا جرمانہ بھی اس کتاب میں ذکر ہوا ہے ۔ ابوبصیر نے عرض کی۔ یابن رسول اللہ یہ عجیب علم ہے؟ کچھ دیر بعد حضرت امام صادقـ نے فرمایا ہمارے پاس علم جفر ہے اورکسی کوپتہ نہیں کہ جفر کیا ہے؟ میں نے پوچھا جفر کیا ہے؟ توآپ ـ نے فرمایا وہ ایسا علم ہے جس میں گذشتہ تمام انبیاء و اوصیاء علماء بنی اسرائیل کا علم موجود ہے پھر امام ـنے فرمایا۔ ہمارے خاندان کے پاس مصحف فاطمہ ہے لوگ نہیں جانتے کہ مصحف فاطمہ کای ہے؟ میں نے پوچھا یابن رسول اللہ مصحف فاطمہ کیا ہے؟ توآپ ـ نے فرمایا اس کا حجم قرآن سے تین گنا ہے اورپیغمبر ۖنے علی ـ کو جو کچھ بتایا ہے اورپیغمبر ۖ کے بعد صدیقہ طاہرہ کے لئے پیدا ہوا اس کتاب میں موجود ہے اورعلی ـاورآپ کے فرزندوں کاعلم اسی کتاب سے ماخوذ ہے''

(3)    فرشتوں سے ارتباط

(ج)    علم امام کا تیسرا ماخذ فرشتے کے ساتھ ارتباط ہے

کوئی مدعی نہیں کہ امام جبرائیل کو دیکھتے تھے ۔ کیونکہ پیغمبر ۖ کے بعد جبرائیل نازل نہیں ہوں گے ۔ لیکن فرشتے سے ارتباط کا معنی جبرائیل کا نزول اورجبرائیل سے ملاقات نہیں اوردرحقیقت فرشتے کی آواز سننے کے لئے نبوت کی ضرورت نہیں ۔ امیرالمومنین ـ اپنے خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں :

ولقد سمعت رنة الشیطان حین نزول الوحی علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ فقلت یا رسول اللہ ماھذا الرنة ؟ فقال ھذا الشیطان ألیس من عبادتہ انک تسمع ماأسمع وتری اری الانک لست بنیئ

''جب پیغمبر ۖ پر وحی نازل ہوتی تو میں نے شیطان کی فریاد سنی تو میں نے عرض کی یار سول اللہۖ یہ کیسی فریاد ہے جو میں سن رہاہوں؟ توحضرت ۖ نے جواب دیا یہ شیطان ہے جواپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے اے علی تو وہی سنتا ہے جو میں سنتا ہوں اوروہی کچھ دیکھتا ہے جو میں دیکھتا ہوں مگر تو نبی نہیںہے''

کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص نہج البلاغہ کو مانتا ہو لیکن یہ کہے کہ مجھے یہ حصہ قبول نہیں؟ یا تو نہج البلاغہ کو قبول کرے یا رد کرے دے نہج البلاغہ کی مضبوط ترین اورمسلّم اسناد موجود ہیں اوریہ کتاب مکمل طور پر امیرالمومنینـہے اوریہ حصہ پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے ۔ کیا نعوذ باللہ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ مولی الموحدین پیغمبرۖ کے فرمان میں کمی یا زیادتی کریں گے ؟ اے علی تو وہی دیکھتا ہے جو میں دیکھتا ہوں مگر تو نبی نہیں ہے لیکن تو میرا وصی ، وزیر ہے اورتیری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی جسے قرآن کریم بیان کرتا ہے اوراس سے قبل امیرالمومنینـفرماتے ہیں :

ولقد کتت اتبعہ ابتاع الفصیل اثرامہ یرفع لی فی کل یوم من اخلاتہ علماً یامرونی بالاقتداء بہ۔

''میں اونٹ کے بچے کی طرح پیغمبر ۖ کے ساتھ چلتا تھا اورپیغمبرۖ ہرروز مجھے اپنے اخلاق سے نیا علم سکھاتے اوراپنی اقتداء کا مجھے حکم دیتے''

(4)    نورانیت و تائید الٰہی

(د) علم امام ـ کا چوتھا مأخذ عنایات الہٰیہ سے حاصل ہونے والی نورانیت ہے قرآن فرماتا ہے

أفمن شرح اللہ صدرہ الاسلام فھو علی نور من ربہ فویل للقاسیة قلوبھم من ذکر اللہ اولئک فی ضلال مبین۔

''کیا وہ شخص جس کے دل کو خدا نے اسلام کے لئے کشادہ کردیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نورانیت کا حامل ہے گمراہوں جیسا ہوسکتا ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جن کے دل ذکر خدا کے لئے سخت ہوگئے ہیں تو وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں''

جوشخص بھی اسلام کے الٰہی حقائق سے گہری آشنائی رکھتا ہو خداوند متعال اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے اوروہ نور کے مطابق حرکت کر کتا ہے ۔ العلم نوریقذفہ اللہ فی قلب من یشاء علم وہ نور ہے جسے اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے''وہ نور علم جسے خداوند متعال جس کے دل میں ڈالنا چاہتا ہے ڈلتا ہے ۔ وہ وہی اشراقات الہیة ہیں پس ( امام ـ کے لئے) یہ تمام منابع علمی موجود ہیں۔

(١)     کتاب الٰہی پر احاطہ کامل

(٢)     پیغمبر ۖ کی علمی وراثت اورتعلیم پیغمبرۖ

ان دونوں کے مجموعہ کو قرآن وسنت کہا جاتا ہے اوریہ ا س حدیث کے مطابق ہے جس کو شیعہ و سنی نے پیغمبر اسلام ۖ سے نقل کیا ہے ۔

انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی

''میں نے تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں کتاب خدا اورمیری عترت''

پیغمبر ۖ علی اورفرزند علی ـ کو قرآن کے ساتھ ذکر فرماتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ جب تک قرآن ہے بے شک عترت بھی موجود ہے اوریہ پیغمبر ۖ کا وعدہ معجزہ ہے۔

(٣)    فرشتوں سے ارتباط

(٤)    نورانیت و تائید الٰہی

امیرالمومنینـ اہل بیتـ کے بارے میں فرماتے ہیں ۔

فالمتسواذالک من عنداھلہ فانھم عیش العلم وموت الجھل ھم الذین یخبرکم حکمھم عن علمھم وصمتھم عن منطقھم و طاہرھم عن باطنھم لایخالفون الدین ولایختلفون فیہ فھو بینھم شاھد صادق ، صامت ناطق

''تم اسے اس کے اہل لوگوں میں تلا ش کرو۔ پس وہ ( اہل بیتـ) علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں ۔ وہ وہی ہیں جن کی حکمت ان کے علم کی خبر دیتی ہے اورخاموشی ان کی گفتگو کی خبردیتی ہے اورظاہر باطن کی وہ کبھی دین کی مخالفت نہیںکرتے اورنہ ہی دین میں اختلاف کرتے ہین وہ ان کے درمیان سچا گواہ اورخاموش بولنے والا ہے''

خطبہ غدیر

معاشر الناس مامن علم الا وقد احصاہ اللہ فی وکل علم علمتہ فقد احصبتہ فی امام المتقین ومامن علم الاوقد علمتہ علیا وھو الامام المبین معاشر الناس لاتضلو عنہ ولا تنفروا منہ ولاتستنکفوا من ولایتہ فھو الذین یھدی الی الحق ولیعمل بہ ویزھق بالبلاطل وینھی عنہ ولاتاخذہ فی اللہ لومة لائم

''اے لوگو کوئی علم نہیں ہے جسے اللہ نے مجھے عطا نہ کیا ہو اورجوکشھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے میں ے وہ امام متقین علیـ کو عطا کیا ہے ۔ اے لوگو! علی سے جدانہ ہونا اوران کی ولایت سے انکار نہ کرنا کیونکہ حق کی طرف ہدایت دیتے ہیں اورحق پر عمل کرتے ہین باطل کو مٹانے والے اوراس سے روکنے والے ہیںاورراہ خدا میں کسی ملامت گر کی ملامت کو قبول نہیں کرتے ''


source : http://www.shiaarticles.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment