اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

امام موسیٰ کاظم (ع) اور بشیر حافی

آپ نے بشیر حافی کا واقعہ سنا ہے کہ ایک روز امام علیہ السلام بغداد کے ایک کوچے سے گزر رہے تھے ۔ اچانک آپ کو رقص و سرود اور ناچ گانے کی آواز سنائی دی۔ اتفاق سے اسی گھر سے ایک نوکرانی باہر نکلی کہ گھر کا کوڑا کرکٹ ایک جگہ پر پھینکنے۔ آپ نے اس کنیز سے فرمایا کہ کیا یہ گھر کسی آزاد شخص کا ہے یا کسی غلام کا؟ سوال بڑا عجیب تھا وہ کنیز بولی آپ مکان کی ظاہری خوبصورتی اور زیبائش و آسائش کو نہیں دیکھ رہے کہ یہ کس شخص کا گھر ہو سکتا ہے۔ یہ گھر بشیر حافی کا ہے ۔بغداد کا امیر ترین ےہ شخص …… یہ سن کر فرمایا ہاں یہ گھر کسی آزاد ہی کا ہے۔ اگر بندہ ہوتا تو اس کے گھر سے موسیقی، راگ رنگ کی آوازیں بلند نہ ہوتی؟ عجیب تاثیر تھی امام کے جملوں میں……جب وہ نوکرانی کوڑا ڈال کر واپس اپنے مالک کے گھر گئی تو اس نے نوکرانی سے تاخیر کی وجہ پوچھی‘ تو اس نے کہا کہ ایک شخص نے مجھ سے عجیب و غریب بات کہی ہے۔ بشیر بولا وہ کیا؟ بولی کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ گھر کسی آزاد کا ہے یا غلام کا……میں نے کہا آزاد کا ہی گھر ہے۔ اس شخص نے کہا ہاں واقعی وہ آزاد ہے۔ اگر بندہ ہوتا تو رقص و سرود کی آوازیں اس کے گھرسے بلند نہ ہوتیں۔ بشیر نے پوچھا اس شخض کی کوئی خاص نشانی؟ کنیز نے جب اس کی وضع قطع بتائی تو سمجھا کہ آپ موسیٰ بن جعفر (ع) ہی تھے۔ بشیر نے پوچھا پھر وہ شخص کہاں گیا؟ اس نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ بزرگ اس طرف جارہے تھے۔ چونکہ وقت کم تھا اگر جوتا پہنتا تو شاید امام علیہ السلام آگے جا چکے ہوتے ۔لہذا وہ پابرہنہ امام علیہ السلام کے پیچھے دوڑ پڑا ۔ آقا کے اس جملے نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ کہ اگر وہ بندہ ہوتا تو اس قسم کا گناہ نہ کرتا۔ یہ ہانپتا کانپتا امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا۔ مولا (ع) آپ نے جو کچھ فرمایا سچ فرمایا ہے۔ میں اپنی غلطی پر خدا سے توبہ کرتا ہوں اور واقعی طور پر اس کا بندہ بننا چاہتا ہوں۔امام علیہ السلام نے اس کے حق میں دعا کی اور وہ توبہ تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کے صالح ترین بندوں میں شامل ہو گیا۔ جب اس طرح کی خبریں ہارون الرشید تک پہنچیں تو وہ اپنے اندر حساس خطر کرنے لگا۔ دل ہی دل میں کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے گویا وہ کہہ رہا تھا کہ ” وجودک ذنب“ کہ اے موسیٰ ابن جعفر آپ کا زندہ رہنا میرے نزدیک گناہ ہے ۔امام علیہ السلام نے فرمایا میں نے تمہارا کیا بگاڑا؟ میں نے کونسا انقلاب برپا کیاہے؟ میں نے ایسا کونسا کام کیا ہے کہ تم مجھ سے گبھراتے ہو؟ ہارون جواب نہ دے سکا لیکن دل میں کہہ رہا تھا کہ آپ کا موجود رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ امام علیہ السلام یہ باتیں اپنے تحفظ اور دفاع کی خاطر کرتے تاکہ مومنین ہوشیار رہیں اور حکومتی ہتھکنڈوں میں پھنس کر اپنا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ ہارون کو ہر وقت آپ سے اور آپ کے ماننے والوں سے خطرہ لاحق رہتا تھا۔ اس لیے وہ امام اور ان کے چند خاص موالیوں کے خاتمہ کیلئے مشیروں سے مشورہ کرتا رہتا تھا۔


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment