اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

قیامت یقینی ہے

ہر انسان (بلااستثنا) اپنی خداداد فطرت سے، اچھے اور برے کام میں فرق کو محسوس کرتا ہے اور نیک کام کو (اگرچہ اس پر عمل نہ کرتا ہو)اچھا اور لازم العمل جانتا ہے اور برے کام کو(اگر چہ اس میں  پھنسا بھی ہو)برااورلازم الاجتناب جانتا ہے ۔اس میں  کسی قسم کا شک و شبہہ نہیںہے کہ اچھائی اور برائی ،نیکی اور بدی ان دو نوں صفتوں میں  موجود سزا اور جزاکی جہت سے ہے اور اس میں  کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں  کوئی ایسادن نہیں ہے جس میں  اچھے اور برے انسانوں کوان کی اچھائی اور برائی کی سزا اور جزا دی جائے، کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے نیک انسان اپنی زندگی انتہائی تلخی اور سختی میں  گزارتے ہیں اور بہت سے برے انسان جو گناہ اورظلم وستم میں  آلودہ ہیں لیکن پھر بھی خوشی اورآرام وآسائش میں  زندگی گزارتے ہیں ۔

اس بناپر ،کہ اگر انسان کے لئے اپنے مستقبل میں  اور اس دنیا کے علاو دوسری دنیا میں  ایک ایسا دن نہ ہو کہ جس میں  اس کے نیک اور برے اعمال کا حسا ب کر کے اسے مناسب سزا و جزا دی جائے ،یہ نظریہ (نیک کام اچھا اور واجب الاطاعت ہے اور برا کام برا اور واجب الاجتناب ہے)انسان کی فطرت میں  قرار پایا ہے ۔

 یہ تصور نہیں کیا جانا چاہئے کہ نیک کام کرنے والوں کی جزاجسے انسان اچھا سمجھتا ہے۔ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ معاشرہ کے انتظامات بر قرار ہوتے ہیں اور نیک لوگ زندگی کی سعادت حا صل کرتے ہیں اور نتیجہ میں  اس منافع کا ایک حصہ خودنیکی کرنے والے کو ملتا ہے اوراسی طرح بدکار اپنے نا مناسب کردار سے،معاشرہ کو درہم برہم کردیتا ہے اوراسکا نا مناسب کام آخرکار خود اس کو بھی اپنی لپیٹ میں  لے لیتا ہے،کیونکہ یہ تصور اگر چہ سماج کے پسماندہ اور مفلس طبقہ کے لوگو ں میں  کسی حدتک پایا جاتاہے .لیکن جو لوگ اپنی قدرت کے عروج پر پہنچے ہیں اور معاشرہ کا انتظام وخلل ان کی خوشبختی اور کامیابی میں موشر نہیں ہے،بلکہ معاشرہ میں  جس قدرافراتفری اورفساد ہو اور لوگوں کے حالات بدتر ہوںوہ زیادہ خوشحال اور کامیاب ہوتے ہیں اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ ان افراد کی فطرت نیک کام کو نیک اوربرے کا م کو برا جانے!یہ بھی تصورنہیں کرنا چاہئے کہ یہ لوگ اگر چہ اپنی چند روزہ زندگی میں  کامیاب رہے ہوں، لیکن کسی وجہ سے ان کا نام ہمیشہ کے لئے عام طور پر آنے والی نسلوں کی نظروں میں  ننگ و عار سمجھاجائے گا، کیونکہ ان کے نام کا ننگ وعار کی صورت میں  ظاہر ہو نا اور لوگوں کا ان کے بارے میں  خیال رکھنا اس وقت ہوگا، جب وہ مرچکے ہوں گے اور اس ننگ و عار کا ان کی اس دنیا میں گئے خوشحال او رلذت اندوز زندگی پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑے گا۔

اس صورت میں  کوئی دلیل نہیں ہوگی کہ انسان نیک کام کو اچھا جان کر اسے انجام دے اور برے کام کو براجان کراس سے پرہیز کرے،اور اس طرح مذکورہ نظریہ کا قائل ہو۔ اگر معاد کا وجود نہ ہو تو یہ اعتقاد قطعا ایک خرافائی اعتقاد ہوگا۔

لہذا ہمیں  خالق کائنات کی طرف سے ہماری فطرت میں ودیعت کئے گئے اس مقدس اورمستحکم اعتقاد سے یہ سمجھنا چاہئے کہ معاد کا ہوناضروری ہے اور انسان کے لئے ضرور ایک دن ایسا آئے گا، جس دن اسے خالق کائنات کے حضور اس کی رفتار و کردار کے حساب و کتاب کے لئے پیش کیا جائے گا جہاں پر اسے نیک کاموں کی جزااو ربرے کاموں کی سزادی جائے گی


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک

 
user comment