اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

وسوسوں سے جنگ

میرے عزیزو! روح و جان کے آرام و سکون کی بات ہورہی تھی ، وہی گرانبہا گوہر جس کوپانے کیلئے خلیل اللہ کبھی آسمان کے ملکوت طرف نگاہ کرتے تھے اور کبھی زمین کی طرف توجہ کرتے تھے اور اسے باعظمت جہان میں تلاش کرتے تھے:
وکذلک نری ابراھیم ملکوت السموات و الارض و لیکون من الموقنین(1

اور کبھی چار پرندوں کو جن کے بارے میں بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ ان چاروں پرندوں میں انسان کے مذموم صفات پائے جاتے تھے(مور جو کہ خود نمائی اور غرور کا مظہرہوتا ہے، مرغا جس میں جنسی تمایلات بہت زیادہ ہوتی ہیں، کبوتر جو لہو و لعب کا مظہر ہے اور کوا جو بہت آروزو اور امیدیں رکھتا ہے!)حضرت ابراہیم نے ان سب کو ذبح کرکے ان کے گوشت کو آپس میں ملا دیا ، تاکہ ان کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ان کو معاد(قیامت)کا یقین ہوجائے اور اپنی دلی آرزو(لیطمئن قلبی)(2)تک پہنچ جائیں ۔
اس گرانبہا گوہر یعنی آرام و سکون کو کیسے حاصل کیا جا سکتا؟ اوراسے کس جہان میں تلاش کیا جا سکتا ہے؟
اسے حاصل کرنا آسان ہونے کے ساتھ مشکل بھی ہے ، اس مثال کو غور سے سنیے:
آپ کبھی ہوئی جہاز پر اس وقت سوار ہوئے ہیں جب آسمان پر بادل ہوں؟ جہاز آہستہ آہستہ اوپر جاتا ہے اور آہستہ آہستہ بادلوں کے درمیان سے ہوتا ہوا بادلوں کے اوپر پہنچ جاتا ہے، وہاں پر سورج اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ چمکتا ہوا ہوتا ہے اور تمام چیزوں کو روشن و منور کئے ہوتا ہے ، وہاں پر سال کے کسی بھی حصہ میں کالا بادل نہیں ہوتا اور سورج کا چہرہ کسی بھی وقت حجاب میں نہیں جاتا کیونکہ اب وہ بادلوں سے بہت اوپر ہے ۔
خالق جہاں کی مقدس ذات ایک سورج کی طرح ہے جو تمام چیزوں پر نورافشانی کر رہی ہے اور بادل وہی حجاب ہیں جو ہمیں اس کے جمال کا مشاہدہ نہیں کرنے دیتے، اس کے اور ہمارے درمیان مانع ہوجاتے ہیں ۔ یہ حجاب ہمارے وہی بد اعمال ہیں ، ہماری وہی امیدیں اور آرزوئیں ہیں ۔
اور امام العارفین(علیہ السلام) کے بقول : ”انک لا تحتجب و من خلقک الا ان تحجبھم الاعمال دونک(3)
حجاب وہی شیاطین ہیں جو ہمارے اعمال کی وجہ سے ہمارے اندر رسوخ کرگئے ہیں اور انہوں نے اچھی طرح سے ہمارے قلوب کا احاطہ کرلیا ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے : ”لولا ان الشیاطین یحومون علی قلوب بنی آدم لنظروا الی ملکوت السماوات۔
اگر شیاطین ، بنی آدم کے دلوں کا احاطہ نہ کرتے تو وہ آسمان کے ملکوت کو دیکھ سکتے تھے۔
یہ حجابات ایسے مختلف بت ہیں جن کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور شہوت و خواہشات کے پیچھے پڑ کر دل کے بت خانہ کے سپرد کر دیا ہے اور بقول بزرگان: ”کل ما شغلک عن اللہ فھو صنمک“۔ہر وہ چیز جو تجھے خدا کی یاد سے روک دے وہ خود ترا بت ہے ۔
بت ساختیم در دل و خندیدیم بر کیش بد برہمن و بودا را !
اے عزیز ! حضرت ابراہیم کی طرح ایمان و تقوی کے تبر کو اٹھا کر ان بتوں کو توڑ ڈالوو ، تاکہ ملکوت آسمان کی طرف نظر کر سکو، اور ”موقنین“ میں سے ہوجاؤ، جیسا کہ ابراہیم ہو گئے: ”و لیکون من الموقنین“(4
خواہشات و ہوائے نفس کے غبار نے ہماری فضا کو مکدر کردیا ہے اور ہمارے باطن کی آنکھوں کے لئے مانع ہوگیا ہے ، ہمت کرو اور اس غبار کو ہٹا دو تاکہ نظر کر سکو۔
اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے نفس سے زیادہ ہم سے قریب ہے ، لیکن ہم کیوں اس سے دور ہیں؟ وہ ہمارے ساتھ ہے ہم کیوں اس سے دور ہیں؟ جی ہاں ہمارا محبوب ہمارے گھر میں ہے اور ہم اسے دنیا وجہان میں تلاش کررہے ہیں!
اور یہی ہماری سب سے بڑی مشکل اور سب سے بڑا درد ہے اور سب سے بڑی حرماں نصیبی ہے ، اگر چہ اس کا علاج بہت روشن ہے ۔

1۔ سورہ انعام ، آیت ۷۵ ۔

2۔ سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۰ ۔

3۔ دعائے ابوحمزہ ثمالی ۔ ۲۔ بحارالانوار ، ج ۵۹، ص ۱۶۳۔

4۔ سورہ انعام، آیت ۷۵۔

 


source : http://makarem.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment