اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

قرآن میں کیا ہے؟ (۱)

"لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین"  آپ نے اپنی زندگی میں یہ آیت بہت بار سنی ہوگی ۔ہم میں میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خشک و تر یعنی دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن میں نہ ہو۔ اس کے بارے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کسی روایت میں ہے کہ اس آیت میں "کتاب مبین" سے مراد قرآن ہے۔اس سوال کے جواب کے لئے جب ہم قرآن کی تفسیریں دیکھتے ہیں تو ہمیں تفسیر کی کسی کتاب میں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی ہے  جس میں کہا گیا ہو کہ یہاں کتاب مبین کا مطلب قرآن ہے۔ پھر کتاب مبین کیا ہے۔

معصومین علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ  اس سے مراد "لوح محفوظ" ہے ۔ لوح محفوظ بھی آسمان میں لٹکی ہوئی کسی لکڑی یا لوہے کے ٹکڑے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ خدا کا علم ہے جس میں دنیا کی ہر چیز موجود ہے اور اس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ درخت پر اُگنے اور اس سے گرنے والے ہر پتے، بارش کی ہر بوند، سورج ، چاند اور ستاروں کے پھیلائی ہوئی روشنی اور انسانوں کی ہر بات، ہر کام، آنکھوں کے اشاروں، چہروں کےا تار چڑھاؤ اور ان کےدلوں میں چھپے ہوئے ہر ارادے کو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ 

اگر ہم اس پوری آیت کو پڑھیں تو ہمارے لئے یہ بات بالکل صاف ہوجائے گی۔ یہ سورہ انعام کی ۵۹ ویں آیت ہے جس میں خدا فرما رہا ہے :" اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے -کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو وہ اسے جانتا ہے" خدا اپنے علم کو بیان کرتےہوئے فرماتا ہے "  زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو" ۔ اس آیت سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ کتاب مبین سے مراد قرآن نہیں ہے۔ 

بہت سے لوگ اسی آیت کو بیس بنا کر ہر نئی رسرچ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے اس کے لئے انہیں قرآن کے معنی ہی کیوں نہ بدلنے پڑے۔ جب ڈارون نے "Theory of evolution" پیش کی تھی  اور دنیا میں اس نظریہ کوسو فیصد صحیح سمجھ لیا گیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اس نظریہ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کی تھی اور قرآن نے انسان کی پیدائش کی جو اسٹیج بیان کی ہیں اسے اس نظریہ کے مطابق بتایا تھا۔ تھیوری آف اوولوشن کو بعد میں سائنسدانوں نے غلط ثابت کردیا لیکن اگر غلط ثابت نہ بھی کیا ہوتا تب بھی اسے قرآن سے بہرحال ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ اتنا ہی غلط ہے جتنا "اللہ نور السموات والارض" سے بجلی کی ایجاد ثابت کرنا۔ 

آیت کی اسی تفسیر کی وجہ سے کسی بچہ نے اپنے ٹیچر سے پوچھا کہ جب قرآن میں سب کچھ ہے تو کمپیوٹر کا ذکر تو ضرور ہوگا کیونکہ کمپیوٹر ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن میں نہ ہو تو ٹیچر نے جواب دیا کہ بالکل ہے۔ کمپیوٹر compute  سے ہے جس کا مطلب Calculation  ہے اور قرآن میں کیلکولیشن کا بہت ذکر ہے۔ خدا نے اپنے بارے میں بھی کہا ہے کہ اس سے زیادہ حساب و کتاب رکھنے والا کوئی اور نہیں ہے۔اتنی بہت سی آیتوں میں کمپیوٹر ہے۔  بچہ کی سمجھ میں تو نہیں آیا لیکن خاموش ہوگیا۔ 

اسی طرح بہت سے لوگوں کو ہر نئی رسرچ کے بارے میں یہ کہنے کا شوق ہوتا ہے کہ "یہ تو چودہ سو سال پہلےسے ہماری کتاب میں ہے"۔ اور یہ جملہ اتنے طنز کے لہجہ میں کہا جاتا ہے جیسے دسیوں سال کی رسرچ کرنے والوں کی محنت کو ایک پھونک میں اڑا دیا گیا ہو اورایک جملہ میِں ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہو۔ 

ان ساری باتوں کا جواب  وہ واقعہ ہے جسے جارج جرداق نے دنیا بھر میں مشہور اپنی کتاب "انسانی انصاف کی آواز" میں لکھا ہے کہ عرب ملک کا کوئی لیڈر کسی وسٹرن کنٹری گیا اور جب Civil rights  پر بات ہونے لگی تو اس عرب لیڈر نے کہا کہ آج تم  نے اپنی عوام کو جو رائٹس دئیے ہوئے ہیں یہ ہمارے لئے کوئی نئے نہیں ہیں ہم تم سے بہت آگے ہیں کیونکہ آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے ایک بہت بڑے اسکالر "علی (ع) اپنی کتاب نہج البلاغہ میں یہ رائٹس بیان کرچکے ہیں۔ وہ لیڈر کہتا ہے کہ پھر تو تم ہم سے آگے نہیں ہو بلکہ چودہ سو سال پیچھے ہو کیونکہ تم اس کے ہوتے ہوئے بھی ابھی تک ہمارے برابر نہیں آسکے اور  اپنی عوام کو وہ رائٹس نہیں دے سکے ہو جو ہم نے دئیے ہیں۔

کچھ لوگ جناب ابن عباس کا یہ قول بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر میرے گھوڑے کا چابک کھو جائے تو میں اسے قرآن سے ڈھونڈتا ہوں۔اس کا مطلب ہے کہ قرآن میں سب کچھ ہے یہاں تک کہ ان کے چابک کا پتہ بھی ہے۔ بس انسان کے پاس اتنا علم ہونا چاہئے کہ اس سے سب کچھ نکال سکے۔

اگر انہوں نے یہ کہا ہےاور اس روایت کا یہی مطلب ہے  تب بھی جناب ابن عباس بہت اہم شخصیت ہیں اور بھروسہ مند راوی ہیں لیکن ان کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ وہ معصوم سے روایت کریں۔ انہوں نے رسول اللہ (ص) اور حضرت علی (ع) یا دوسرے اہلبیت کو جو کرتے ہوئے دیکھا ہے یا کہتے ہوئے سنا ہے اسے بیان کردیں ۔ جب ہم نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور اصول کافی جیسی کتابوں میں قرآن کے بارے میں وہ حدیثییں دیکھتے ہیں جنہیں معصومین علیہم السلام نے بیان کیا ہے تو ہمیں اس میں قرآن کی تعریف، اس کی تفسیر او راس کا مقصد بیان کرنے والی ایسی عظیم حدیثیں دکھتی ہیں جن کی ہم جناب ابن عباس سے امید بھی نہیں رکھتے ہیں لیکن اِن میں ایسی کوئی بات نہیں دکھائی دیتی ہے۔ 

کچھ روایتوں میں کہا گیا ہے کہ قرآن میں گزرے ہوئے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور فیوچر کی بھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ پچھلے نبیوں اور گزری ہوئی قوموں کے حالات بتائے گئے ہیں اور فیوچر  کی باتوں میں کچھ پیشین گوئیاں ہیں اور قیامت  کی خبر دی گئی ہے اور اس کے حالات بتائے گئے ہیں۔  ورنہ قرآن میں تو سارے نبیوں کا بھی  ذکر نہیں ہے  اور جن کا ہے ان کی بھی پوری زندگی نہیں ہے صرف زندگی کے کچھ واقعات ہیں۔ 

تو کیا ایسا ہے کہ ہم ان ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے نام اور حالات نہیں سمجھ سکتے ہیں لیکن معصومین سمجھ سکتے ہیں؟ وہ قرآن سے ان نبیوں کے نام اور ان کی قوموں کے حالات نکال سکتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ 

پھر قرآن میں ہے کیا؟!! 

کیا ان سب چیزوں کے قرآن میں نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن مکمل نہیں ہے، incomplete  ہے اور اس میں کمی ہے؟

اس سوال کا جواب ہمیں اُسی وقت مل سکتا ہے جب ہم یہ سمجھ جائیں کہ قرآن کس لئے نازل ہوا ہے، قرآن کی کیا ذمہ داری ہے اور اس  نے لوگوں کو کیا پیغام دیا ہے۔ ان سوالوں کے جواب ہم "مریم" کے اگلے اشو میں پیش کریں گے۔


source : http://www.alhaider.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کون ہیں؟
کیا لگاتار ۳ جمعے نہ پڑھنے والا کافر ہے؟
مھربانی کرکے شیعھ عقیده کی بنیاد کی وضاحت فرما کر ...
شیعوں کی روایتوں میں آیا ہے کہ، امام تمام دنیا کی ...
زکات کے مسائل کی تفصیل بیان کر دیجیے
اگر کوئی شخص ماہ مبارک رمضان میں روزہ توڑنے کی ...
کیا ناگوار طبیعی حوادث ، عذاب الھی ھے یا مادی علل ...
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟

 
user comment