امید ہے کہ ہم سب بالخصوص ہمارے قارئین و صارفین حضرت حجت صلوات اللہ علیہ کے سچے منتظرین میں سے ہوں۔
ویسے تو ہمارے ہزاروں کام ہوتے ہیں اور ہر کام کے لئے کوئی وقت بھی نکالتے ہيں لیکن کیا ہم نے واقعی سوچا ہے کہ ہم زندہ اور حی و حاضر امام کے پیروکار ہيں جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں لیکن در حقیقت کسی خوبصورت اور سر سبز و شاداب جزیرے کی بجائے ہمارے بیچ زندگی بسر کررہے ہیں اور جب ظہور کریں گے تو ہم میں سے کئی لوگ کہیں گے کہ انھوں نے امام علیہ السلام کی زیارت کی تھی۔
ہم واقعی اپنے اس امام کے لئے اپنے مشاغل اور مصروفیات میں سے کوئی وقت نکالتے ہيں؟
کیا امام زمانہ صلوات اللہ علیہ ہمارے روزمرہ کے مسائل کا حصہ ہیں؟
کیا آپ کا انتظار، آپ کے بارے میں جاننا اور پڑھنا اور پڑھانا، ہمارے روزمرہ روٹین کا حصہ ہے؟
چلئے ایک چھوٹی سی دلچسپ حکایت ہی دیکھ لیجئے:
ہم جانتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ و علی نبینا و آلہ الصلواة والسلام نے بتوں کو توڑ دیا اور ثابت ہوا کہ یہ کام ان ہی کا ہے تو سفاک بادشاہ نمرود نے انہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا۔
ایک شہد کی مکھی اڑتی ہوئی آئی منہ میں قطرہ بھر پانی تھا جو اس نے آگ کے اوپر انڈیل دیا۔
خلیل اللہ (ع) نے شہد کی مکھی سے فرمایا: کیا کررہی ہو؟ کیا تم ڈرتی نہيں ہو کہ کہیں جل نہ جاؤ؟
شہد کی مکھی نے کہا: آگ بجھانے کے لئے آئی ہوں۔
پیغمبر خدا (ع) نے ہنس کر فرمایا: کیا تم نہيں سمجھتی ہو کہ تمہارے چھوٹے منہ کا پانی اس عظیم آگ کو بجھانے میں مؤثر نہیں ہوسکتا؟
شہد کی مکھی نے کہا: ہنستے کیوں ہیں اے ابراہیم (ع)! میرا اس سے کیا کام کہ میری کوشش سے آگ بجھتی ہے یا نہیں بات تو یہ ہے کہ اگر کسی دن مجھ سے پوچھا جائے کہ جب ابراہیم کو آگ میں پھینک دیا گیا تو تو کیا کررہی تھی تو میں بھی کہہ سکوں کہ میں بھی آگ بجھانے کے کام میں شریک تھی۔۔۔
اب مجھ اور آپ کو بھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ اگر ہم سے پوچھا جائے کہ "جب امام زمانہ پردہ غیبت میں تھے اور مؤمنین کو انتظار کا حکم دیا گیا تو تم کیا کررہے تھے؟ تو ہمار جواب کیا ہوگا؟
source : http://www.abna.ir