اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حضرت امام باقرالعلوم علیہ السلام کے مکتب سے چند دلچسپ نکتے

اس میں شک نہيں ہے کہ خداوند متعال کسی کو بھی امامت کا رتبہ عطا نہيں فرماتا اور اس کو اپنے بندوں کے لئے واضح و آشکار حجت قرار نہیں دیتا جب تک کہ وہ پسندیدہ صفات اور اخلاق کی بزرگیوں میں کمال کے اعلی ترین مراتب پر فائز نہ ہوا ہو اور اس کا کلام اور عمل حق اور صلاح کے عین مطابق نہ ہوا ہو۔ 

امام محمد باقر علیہ السلام کی اخلاقی فضیلتیں

ابن شہر آشوب لکھتے ہیں: وہ سب سے زیادہ سچے، سب سے زيادہ کشادہ رو اور ہنس مکھ، سب سے زیادہ سخی اور بخشنے والے اور سب سے زیادہ صاحب علم و دانش تھے؛ ہمہ وقت ذکر اللہ میں مصروف تھے حتی کہ کھانا کھانا اور لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا بھی ذکر الہی میں رکاوٹ نہ تھا۔ آپ کی سخاوت و بخشندگی زبانزد عام و خاص تھی اور کبھی بھی دوستوں، بھائیوں اور ملاقات کے لئے آنے والوں کو صلہ اور ہدیہ عطا کرنے سے تھکتے نہیں تھے۔ بہت زيادہ خاضع و خاشع تھے اور اپنے اہل خانہ کو تلاوت قرآن کا حکم دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی قرآن کی تلاوت نہيں کرسکتا وہ ذکر الہی میں مصروف رہے۔ 

فرمان حق تعالی کے مطیع مطلق تھے حتی کہ منقول ہے کہ آپ کے گھر میں ایک بچہ مریض ہوگیا تو آپ بہت زیادہ پریشان تھے اور جب طفل دنیا سے رخصت ہوا تو آپ کشادہ روئی کے ساتھ لوگوں کے سامنے آئے۔ لوگ حیرت زدہ تھے، پوچھنے لگے: ہمیں اپنے اقرباء اور اہل خاندان کی زندگی عزيز ہے اور ہمیں امید ہے کہ وہ تندرست رہیں اور صحتمند ہوجائیں لیکن جب اللہ کا حکم ان کی وفات پر وارد ہوتا ہے  تو اللہ کی رضا پر راضی ہوتے ہیں اور اس کی خوشنودی پر خوشنود ہوتے ہیں۔

دوسروں کے ساتھ نہایت ادب و احترام کے ساتھ معاشرت فرمایا کرتے تھے؛ دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ مصافحہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: جب دو مؤمن مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے گناہ درختوں کے پتوں کی مانند گرتے ہیں اور خداوند متعال اس وقت ان پر نظر رکھتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے الگ نہيں ہوتے! لوگوں کے ساتھ سلوک میں بہت زيادہ عفیف اور پاکدامن تھے اور غریبوں اور مستضعفین کے ساتھ آپ (ع) کا طرز سلوک مہربانی اور ملائمت کے ساتھ تھا۔ جب آپ (ع) کوئی بھاری کام اپنے غلاموں کے سپرد کرتے خود بھی بسم اللہ کہتے اور ان کے ساتھ تعاون کرتے۔ [مشایخ، فاطمه، قصص الأنبیاء (قصص قرآن)، ص 775]۔

امام علیہ السلام کا رویہ اور مرد شامی کی وصیت 

مدینہ منورہ میں سکونت پذير ایک شامی مرد امام علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا اور عام طور پر امام (ع) سے کہتا تھا: "روئے زمین پر میں کسی سے بھی اتنا بغض نہيں رکھتا جتنا آپ سے رکھتا ہوں اور کسی کے ساتھ آپ اور آپ کے خاندان جتنا دشمن نہيں ہوں! اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ خدا اور رسول اور امیرالمؤمنین کی اطاعت آپ کی دشمنی میں مضمر ہے۔ اور اگر میں آپ کے پاس آتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بہت اچھے ادیب، سخندان و سخنور اور بہت خوش بیان ہیں!"۔ 

امام علیہ السلام اپنی سیرت کے مطابق رواداری سے پیش آتے تھے اور نرمی کے ساتھ بات کرت تھے۔

تھوڑا عرصہ ہی گذرا تھا کہ شامی مرد سخت بیمار اور اپنی زندگی سے ناامید ہوگیا اور اپنے اہل و عیال سے وصیت کی کہ میری میت پر نماز ابوجعفر محمد بن علی الباقر علیہ السلام سے پڑھوادیں۔ 

آدھی رات ہوئی تو گھر والوں نے شامی مرد کو مرا ہوا پایا اور نماز فجر کے وقت مسجد النبی (ص) پہنچے اور دیکھا کہ امام علیہ السلام نماز کے بعد تعقیبات میں مصروف ہیں اور امام (ع) کی خدمت میں پہنچ کر کہنے لگے: وہ شامی مرد مرچکا ہے اور اس نے وصیت کی ہے کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: نہیں! وہ نہیں مرا! عجلت سے کام نہ لو، جاؤ اور صبر کرو کہ میں بھی آجاؤں۔

پس امام علیہ السلام سے اٹھے اور تجدید وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھی اور بارگاہ حق تعالی میں دست بدعا ہوئے اور پھر سجدے میں چلے گئے اور سورج طلوع ہونے تک سجدے کی حالت میں رہے اور اس کے بعد شامی کے گھر پہنچے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو آواز دی اور اس نے جواب دیا؛ امام نے اس کو اٹھا کر بٹھا دیا اور اس کی پشت کو دیوار سے لگایا اور شربت طلب کیا اور اس کے منہ میں ڈال دیا اور اس کے اہل خانہ سے فرمایا: اس کو ٹھنڈی غذائیں کھلائیں اور اٹھ کر چلے گئے۔ 

کچھ دنوں میں مرد شامی شفایاب ہوا اور امام علیہ السلام ی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں پر اللہ کی حجت ہیں۔

[ شیخ طوسى، الأمالی، ص 410، انتشارات دارالثقافة، قم، 1414 هـ ق.]  

شراب نوشی تمام بدبختیوں کی کنجی

امام باقر علیہ السلام زیارت کی غرض سے بیت اللہ الحرام میں داخل ہوئے، خدا کے حرم کا طواف کرنے لگے۔ 

قریش میں سے بعض افراد مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے تھے کہ ان کی نظر امام (ع) پر پڑی اور ایک دوسرے سے کہنے لگے یہ کون ہیں جو اس کیفیت سے عبادت کررہے ہیں؟  

ایک شخص نے ان سے کہا: وہ عراقیوں کے امام محمد بن علی بن الحسین (ع) ہیں۔

ان میں سے ایک نے کہا: ہم ان کے پاس ایک آدمی بھجوادیتے ہیں تا کہ ان سے مسئلہ پوچھے۔ 

پس ان میں سے ایک نوجوان نے حامی بھری اور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا:

سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: شراب نوشی۔

نوجوان قریشیوں کے پاس واپس لوٹا اور اپنا سوال اور امام (ع) کا جواب ان کو سنایا۔

قریشیوں نے کہا: جاؤ یہی سوال ان سے دوبارہ پوچھو۔

نوجوان دوبارہ آیا اور وہی سوال دہرایا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: شرب نوشی سب سے بڑا گناہ ہے جو انسان کے ارادے اور عقل کو کمزور کرتی بلکہ نیست و نابود کرتی ہے اور جب عقل زائل ہوجائے تو انسان زنا، قتل، چوری، شرک باللہ اور دوسرے گناہوں کا مرتکب ہوجاتا ہے اور خلاصہ یہ کہ شراب نوشی تمام بدبختیوں کی کنجی ہے اور اس کے برے نتائج تمام دیگر گناہوں سے زیادہ ہیں جس طرح کہ انگور کا درخت تمام درختوں سے زیادہ اونچا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ [فروع كافى، ج 6، ص 429؛ بحارالا نوار، ج 46، ص 358؛ وسائل الشّیعة، ج 25، ص 316]

عشق و محبت کا معیارـ دل کا آئینہ دیکھو

یہ سوال سب کو پیش آسکتا ہے کہ ہم کس سے محبت کریں اور کس سے محبت نہ کریں؟ ہمیں کس سے محبت کرنی چاہئے کہ خدا ہم سے راضی ہوجائے اور ہم سے محبت کرے تا کہ ہم سعادت اور خوشبختی محسوس کریں؟ 

اس سوال کا جواب ہم ایسی شخصیت سے پوچھتے ہيں کہ تمام سوالات و مسائل کی چابیاں ان ہی کے پاس ہیں۔

قالَ الإمامُ ابوجَعْفَر محمّد بنِ علیّ باقرُ العلومِ صَلواتُ اللّه وَ سَلامُهُ عَلَیْه :

إذا أرَدْتَ أنْ تَعْلَمَ أنَّ فیكَ خَیْراً، فَانْظُرْ إلى قَلْبِكَ فَإنْ كانَ یُحِبُّ أهْلَ طاعَةِ اللّهِ وَ یُبْغِضُ أهْلَ مَعْصِیَتِهِ فَفیكَ خَیْرٌ؛ وَاللّهُ یُحِبُّك ، وَ إذا كانَ یُبْغِضُ أهْلَ طاعَةِ اللّهِ وَ یُحِبّ أهْلَ مَعْصِیَتِهِ فَلَیْسَ فیكَ خَیْرٌ؛ وَ اللّهُ یُبْغِضُكَ، وَالْمَرْءُ مَعَ مَنْ أحَبَّ۔ [اصول كافى، ج 2، ص 103؛ وسائل الشّیعة، ج 16، ص 183.]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اگر جاننا چاہتے ہو کہ تمہارے وجود میں خیر اور خوشبختی ہے یا نہیں ہے تو اپنے دل کی طرف دیکھ لو؛ اگر تم طاعت و عبادت والوں سے محبت کرتے ہو تو اور خدا کے نافرمانوں اور اہل گناہ سے محبت نہیں کررہے ہو پس تمہارے وجود میں خیر و سعادت ہے اور خدا بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ 

لیکن اگر تو نے اپنے قلب کی طرف رجوع کرکے دیکھا کہ طاعت و عبادت والے تمہارے لئے خوشایند نہيں ہیں اور تم ان سے متنفر ہو اور اہل گناہ سے محبت کررہے ہو تو تمہارے وجود میں کوئی خیر وسعادت نہیں ہے اور خداوند متعال بھی تم سے محبت نہیں فرما رہا۔ 

اور ہر انسان اسی شخص کے ساتھ محشور ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ 

خدا کی ناراضگی پر ناراض نہ ہونے کی سزا

امام محمد باقر علیہ السلام ایک نبی (ع) کی داستان نقل کرتے ہیں جس سے محبت اور دوستی کے معیار کا کھوج بھی لگایا جاسکتا ہے: 

قالَ الإمام باقر علیه السلام :

إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَوْحى إلى شُعَیْبٍ النَّبى صلى الله علیه و آله: إنّى مُعَذِّبٌ مِنْ قَوْمِكَ مِائَةَ ألْفٍ، أرْبَعینَ ألْفا مِنْ شِرارِهِمْ وَ سِتّینَ ألْفا من خِیارِهِمْ. 

فقال: یارَبِّ هؤُلاءِ الاْشْرار،فَما بالُ الاْخْیار؟ فَأوحىَ اللّهُ إلَیْهِ:إنَّهُمْ داهَنُوا آهْلَ الْمَعاصى وَ لَمْ یَغْضِبُوا لِغَضَبی۔ [فروع كافی، ج1، ص343؛ وسائل الشّیعة، ج 16، ص 146]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:  

خداوند متعال نے حضرت شعیب علیہ السلام کو وحی بھیجی اور فرمایا: میں تمہاری قوم کے ایک لاکھ افراد کو ہلاک کررہا ہوں جن میں ساٹھ ہزار افراد تو بہت برے اور شرپسند ہیں تاہم ان میں چالیس ہزار افراد اچھے لوگ ہیں۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے عرض کیا: پروردگارا! برے اور شرپسند لوگ تو تیرے عذاب کے مستحق ہیں لیکن ان اچھے لوگوں پر کیوں عذاب نازل فرما رہا ہے؟

خداوند عالم نے فرمایا: یہ اچھے لوگ بھی گنہگاروں کے حوالے سے بے اعتناء تھے اور میرے غضبناک ہونے پر غضبناک نہيں ہوتے تھے۔ 

یعنی یہ لوگ ان اعمال اور ان مسائل پر غضبناک نہيں ہوتے تھے جن پر میں غضبناک ہوا کرتا ہوں۔ 

آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالی ہم انسانوں سے چاہتا ہے کہ اپنے غضب اور محبت کا معیار اللہ کا غضب اور اس کی محبت، قرار دیں ان لوگوں سے محبت کریں جو خدا سے محبت کرتے ہيں اور ان لوگوں سے دشمنی کریں جو اللہ کے دشمن ہیں اور ان لوگوں سے محبت کریں جو اللہ کے محبوب ہيں اور ان سے دوری کریں جو اللہ کے منفور اور مغضوب و معتوب ہیں۔ 

شیعہ ہونے کا دعوی کافی نہیں ہے

جابر بن یزید جعفی امام روایت کرتے ہيں کہ: امام محمد باقر علیہ السلام نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

يا جابر أيكتفي من ينتحل التشيع  أن يقول بحبنا أهل البيت  ؟ فوالله ما شيعتنا إلا من اتقى الله وأطاعه ، وما كانوا يعرفون يا جابر إلا بالتواضع ، والتخشع ، والامانة ، وكثرة ذكر الله ، والصوم ، والصلاة ، والبر بالوالدين ، والتعاهد للجيران  من الفقراء ، وأهل المسكنة ، والغارمين ، والايتام ، وصدق الحديث ، وتلاوة القرآن ، وكف الالسن عن الناس إلا من خير ، وكانوا امناء عشائرهم في الاشياء . 

قال جابر : فقلت : يا ابن رسول الله ما نعرف اليوم أحدا بهذه الصفة . 

فقال : يا جابر لا تذهبن بك المذاهب حسب الرجل أن يقول : احب عليا وأتولاه ، ثم لا يكون مع ذلك فعالا .  فلو قال : إني احب رسول الله فرسول الله ( صلى الله عليه وآله ) خير من علي ( عليه السلام ) ثم لا يتبع سيرته ولا يعمل بسنته ما نفعه حبه إياه شيئا ، فاتقوا الله واعملوا لما عند الله ، ليس بين الله وبين أحد قرابة ، أحب العباد إلى الله عز وجل [ وأكرمهم عليه ] أتقاهم وأعملهم بطاعته ، يا جابر والله ما يتقرب إلى الله تبارك وتعالى إلا بالطاعة وما معنا براءة من النار ولا على الله لاحد من حجة ، من كان لله مطيعا فهو لنا ولي ومن كان لله عاصيا فهو لنا عدو ، وما تنال ولايتنا إلا بالعمل والورع . [الكافي - شيخ الكليني ، جلد 2 ، ص 74۔]    

ترجمہ: اے جابر! کیا اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی دعوی کرے کہ "میں شیعہ ہوں" اور کہہ دے کہ "میں اہل بیت (ع) سے محبت کرتا ہو؟"، خدائے سبحان کی قسم! ہمارا شیعہ نہیں ہے سوائے اس فرد کے جو تقوائے الہی اپنائے اور خدا کی فرمانبرداری کرے۔

اے جابر! وہ [شیعہ] اس خصلت [تشیع] کے عنوان سے پہچانے نہیں جاتے سوائے اس کے، کہ وہ تواضع اور انکسار، خوف خدا، امانت داری، اللہ کے ذکر کثیر، روزہ رکھنے، نماز پڑھنے، والدین پر احسان کرنے، پڑوسیوں ـ بالخصوص غریبوں، مسکینوں، مقروضین، یتیموں ـ کی نسبت ذمہ داری کا مسلسل احساس رکھنے، صداقت اور راست گوئی، تلاوت قرآن کرنے، لوگوں کی بدگوئی اور غیبت سے اپنی زبان روکنے اور صرف ان کی بہتری میں زبان کھولنے، جیسی صفات سے متصف ہوں اور تمام اور تمام معاملات میں اپنے خاندانوں کے امین ہوں۔

پس میں [جابر جعفی] نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا (ص)! آج ہم کسی کو بھی اس صفت سے نہيں جانتے۔

اور امام علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر لوگوں کے دعوے اور نعرے تمہاری گمراہی کا سبب نہ بنیں کہ کوئی کہہ دے کہ "میں علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہوں اور آپ (ع) کا پیروکار ہوں اور پھر وہ اس راہ میں فعالیت نہ دکھائے" [عملی طور پر پیروی ثابت کرکے نہ دکھائے] پس اگر اس نے دعوی کیا ہے کہ "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کرتا ہوں تو رسول اللہ (ص) علی (ع) سے بہتر ہیں اور پھر یہ شخص رسول اللہ (ص) کی سیرت پر عمل نہ کرے اور آپ (ص) کی سنت پر کاربند نہ ہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت اس کو ذرہ برابر فائدہ نہیں پہنچا سکے گی۔ پر تقوائے الہی اپناؤ [خدا سے ڈرو] اور ان احکام کی اطاعت کرو جو اللہ تعالی کے پاس ہیں، [جان لو کہ] خداوند متعال کسی کا رشتہ دار و قرابتدار نہيں ہے [جان لو] کہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین اور محترم ترین بندے، متقی ترین اور پرہیزگار ترین اور طاعت الہی پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے، ہیں۔ اے جابر! پس اللہ کی قسم! اللہ کی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی مگر اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے، اور ہمارے پاس بھی اللہ کی اطاعت سے دوری کرنے والوں کے لئے دوزخ سے برائت نہیں ہے اور کسی کے پاس بھی خدا پر حجت نہیں ہے، "جو مطیع ہے اللہ کے لئے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے، کوئی بھی ہماری ولایت تک نہیں پہنچتا سوائے اس کے کہ عمل کرے اور گناہ اور دنیا پرستی سے پرہیز کے راستے پر گامزن ہوجائے"۔ 

ایک خوشخبری پیروان اہل بیت (ع) کے لئے

الکافی میں ثقۃالاسلام محمد بن یعقوب الکلینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے جو اہل ادب کے مطابق ایمان کو تازہ کردیتا ہے اور نا امیدوں کے لئے امید کا سبب اور نوید بخش ہے۔

راوی حَكَمِ بْنِ عُتَیْبة ہیں، کہتے ہیں: 

میں امام محمد باقر  علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا اور کمرہ لبالب بھرا ہوا تھا کہ اچانک ایک عمر رسیدہ بزرگ دروازے پر آکھڑے ہوئے جو عصا کا سہارا لئے ہوئے تھے۔ 

بزرگ نے عرض کیا: السلام علیک یابن رسول اللہ (ص)! اور خاموش ہوگئے۔

امام علیہ السلام نے جواب دیا: علیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور پھر بزرگ نے حاضرین کی طرف رخ کیا اور سلام کیا۔ سب نے مل کر سلام کا جواب دیا تو بزرگ نے امام علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر عرض کیا: اے فرزند رسول اللہ (ص)! مجھے اپنے پہلو میں بٹھائیں میں آپ پر فدا ہوجاؤں!

خدا کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور ان لوگوں سے جو آپ سے محبت کرتے ہيں اور یہ محبت دنیاوی مفادات کے لئے نہیں ہے؛ میں آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور اس سے دوری کرتا ہوں اور خدا کی قسم کہ آپ کے دشمنوں سے نفرت ذاتی اختلافات کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ میری کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ [میں ان سے بیزار ہوں اس لئے کہ وہ آپ کے دشمن ہیں]۔

اللہ کی قسم! میں آپ کے حلال کو حلال سمجھتا ہوں اور آپ کے حرام کو حرام سمجھتا ہوں اور میں آپ [اہل بیت] کی حکومت عدل کے قیام کا منتظر ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی اس روش کی بنا پر نجات کی توقع رکھ سکتا ہوں؟

امام محمد باقر علیہ السلام نے بزرگ شخص کو دو بار اپنے پاس آنے کا فرمایا " إِلَيَّ إِلَيَّ" میرے پاس آؤ، میرے پاس آؤ۔

بزرگ شخص آگے بڑھے اور امام علیہ السلام نے انہيں اپنے برابر میں بٹھایا اور فرمایا: اے شیخ! ایک شخص میرے والد [امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام] کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے یہی سوال پوچھا جو تم نے مجھ سے پوچھا اور میرے والد نے اس سے فرمایا: جب تمہاری جان یہاں ـ گلے کی طرف اشارہ ـ پہنچے گی تو مطمئن قلب، پرسکون دل اور بہت زیادہ شوق کے ساتھ حساب و کتاب کے فرشتوں کا سامنا کروگے، اگر [اسی عقیدے کے ساتھ] دنیا سے رخصت ہوجاؤ تو رسول اللہ، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین اور علی بن الحسین (زین العابدین) علیہم السلام کی خدمت میں پہنچوگے اور خدا تمہارے دل کو ٹھنڈا کرے گا تمہارا استقبال روح و ریحان کے ساتھ ہوگا اور ہر صورت میں مراتب و مقامات عالیہ میں ہمارے ساتھ رہو گے۔ اور اگر زند رہوگے تو وہ سب کچھ دیکھوگے اور پاؤگے جو تمہاری آنکھوں کو روشن کرے گا اور ہمارے ساتھ درجات عالیہ میں رہو گے۔ 

بزرگ شخص کو اتنے لطف و کرم کی توقع نہيں تھی چنانچہ یہ سن کر تجسس کی انتہاؤں پر عرض کیا: كيف قلت: يا أبا جعفر؟ فأعاد عليه الكلام" اے ابا جعفر آپ نے کیا فرمایا؟

امام علیہ السلام نے اپنا کلام بزرگ شخص کے لئے دہرایا تو بزرگ شخص نے شوق و سرور کی حالت میں کہا: اللہ اکبر [اچھا تو] اگر میں مرجاؤں تو رسول اللہ، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین اور علی بن الحسین (زین العابدین) علیہم السلام کی خدمت میں پہنچوں گا اور جانکنی کی حالت میں مطمئن قلب، پرسکون دل اور بہت زیادہ شوق کے ساتھ حساب و کتاب کے فرشتوں کا سامنا کروں گا اور اگر میں [ظہور تک] زندہ رہوں تو خدا پر سرور زندگی مجھے عطا فرمائے گا اور آپ کے ساتھ درجات عالیہ پر فائز ہونگا؟

بزرگ شخص نے یہ کہا اور بلند آواز کے ساتھ رونے لگا اور حالت وجد و شوق میں ان پر بےخودی کی کیفیت طاری ہوئی اور اور زمین پر گر گئے؛ حاضرین مجلس بھی یہ سب دیکھ کر بآواز بلند رونے لگے اور امام علیہ السلام نے بھی اپنی انگلی سے اپنے آنسو پونچھ لئے۔ 

بزرگ آدمی نے امام علیہ السلام سے عرض کیا: اپنا دست مبارک میرے ہاتھ میں دیں چنانچہ امام (ع) اپنا دست مبارک ان کے ہاتھ میں دیا تو بزرگ شخص نے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنی آنکھوں اور چہرے پر مَس کیا اور کرتا اٹھا کر امام کا ہاتھ اپنے پیٹ اور سینے سے مس کیا اور اپنی جگہ سے اٹھے اور السلام علیکم کہہ کے امام علیہ السلام اور اہل مجلس سے وداع کیا۔

وہ جارہے تھے اور امام علیہ السلام ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور اسی حال میں اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: اگر کسی کو جنتی انسان دیکھنے کا اشتیاق ہے تو اس آدمی کو دیکھ لے۔

حَکَم بن عتیبہ (راوی) کہتے ہيں: میں نے کبھی بھی کسی مصیبت زدہ گھر کو بھی اس حالت میں نہيں دیکھا جس طرح کہ میں نے اس مجلس میں شریک افراد کو روتے ہوئے دیکھا۔

[الكافی کلینی ج 8، ص 77 ـ بحار الانوار، ج 46، ص 362 و ص 632.]

شادی شدہ حضرات کے لئے 

ایک روایت میں حکم بن عتیبہ سے مروی ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے گھر پر آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) کو ایک نہایت آراستہ پیراستہ کمرے ميں دیکھا جبکہ آپ رنگین لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ میں امام علیہ السلام کے کمرے اور لباس کی طرف گھور گھور کر دیکھ رہا تھا کہ اسی حال میں امام علیہ السلام نے فرمایا: اے حکم! جو کچھ دیکھ رہے ہو اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ 

میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا (ص)! میں آپ کے عمل کے بارے میں فیصلہ کیونکر دے سکتا ہوں، لیکن ہمارے ہاں صرف کم عمر نوجوان ایسا لباس پہنتے ہیں!

امام علیہ السلام نے فرمایا: اے حکم: "مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ"۔[سورہ اعراف آیت 32]۔

ترجمہ: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔

اے حکم: بہتر یہ ہے کہ جان لو کہ یہ کمرہ میری زوجہ کا ہے جس سے میں نے حال ہی میں نکاح کیا ہے۔ اور تم خود بہتر جانتے ہو کہ میرا اپنا خاص کمرہ کیسا ہے اور اس کی صورت حال کیا ہے!؟۔[كافى، ج 6، ص 446؛ بحارالا نوار، ج 46، ص 292]۔

امام علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا ہے: 

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ، أَشَدُّكُمْ إِكْرَاماً لِحَلَائِلِهِم ؛ 

ترجمہ: تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنی زوجات کی سب سے زیادہ تکریم کرے۔ [من لا یحضره الفقیه، ج 3، ص506؛ وسائل الشیعة، ج 21، ص311]۔

کھانا اس طرح کھانا

ابو لبید البحرانی نقل کرتے ہیں: میں مکہ معظمہ میں امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا: اے محمد بن علی (ع)! آپ ہر شیئے کے لئے حدود اور شرائط جانتے ہیں اور ہر چیز کے لئے آپ نے قوانین مقرر فرمائے ہيں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! میں کہتا ہوں کہ ہر چیز کے لئے خداوند حکیم نے حدود اور شرائط کا تعین کیا ہے چاہے وہ شیئے چھوٹی اور حقیر ہو چاہے بڑی اور عظیم ہو اور جو شخص ان حدود سے تجاوز کرے گا وہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرگیا ہے اور کفران نعمت کا مرتکب ہوا ہے۔ 

اس شخص نے پوچھا: وہ دسترخوان جس کے کنارے ہم بیٹھتے ہيں اس کے لئے کیا حدود اور شرائط ہیں؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: کھانے کے دسترخوان کی حد یہ ہے کہ جب تم کھانا کھانا چاہو تو اللہ کے نام سے شروع کرو اور جب دسترخوان کو لپیٹ دیا جائے تو اللہ کا شکر ادا کرو اور کھانے میں سے جو کچھ دسترخوان کے اطراف میں گرا ہے، جمع کرکے تناول کرو۔

اس شخص نے عرض کیا: پانی پینے کے برتن کی کیا حدود ہیں؟

فرمایا: اگر پانی پینے کے برتن کے کنارے ٹوٹے ہوئے ہوں تو اس سے پانی مت پیو اور اس کے دستوں کے جانب کے حصے سے بھی مت پیو کیونکہ یہ حصے شیاطین [جراثیم] جمع ہونے کی جگہیں ہیں؛ جب پانی کا برتن منہ پر رکھ کر پانی پینا چاہو تو پہلے اللہ کا نام زبان پر جاری کرو اور جب پانی پی چکو تو اللہ کا شکر ادا کرو۔  [الكافى : ج 6 ص 385 ح 6]


source : http://www.abna.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment