اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حضرت نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت کی تشبی

'' وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ اﷲَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ َھْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَھٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْھٰا غَرِقَ وَ مِثْلُ بٰابِ حِطَّةٍ ] فی [ بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَہُ کٰانَ آمِناً''

اے ابو ذر جان لو ! خداوند عز و جل نے میرے اہل بیت علیہم السلام کو میری امت میں نوح کی کشتی کے مانند قرار دیا ہے کہ جو بھی اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ہوا ، اسی طرح وہ بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' کے مانند ہیں ، جو اس دروازہ سے داخل ہوا وہ عذاب الہی سے محفوظ رہا ''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں تاکید اور کشتی نجات اور بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' سے ان کی تشبیہ ، ایک جذباتی موضوع نہیں ہے ، کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے عزیزوں سے محبت اس امر کا سبب ہے کہ آپ ۖ نے مسلسل ان کی دوستی اور محبت رکھنے کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے ،بلکہ یہ وصیت اور تاکید ایک عزیز کی محبت سے بالاتر ہے اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ آپ ۖ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو امت کیلئے نجات کی کشتی جانا ہے اور آپ معتقد ہیں کہ جو بھی گمراہ اور وادی حیرت کا سرگرداں شخص اس کشتی میں سوار ہوجائے گا وہ گمراہی اور انحرافات کے تلاطم سے نجات پائے گا ،کیونکہ نوح کی امت نے ان کی نجات کی کشتی میں سوار ہوکر عذاب الہی سے نجات پائی اور جنہوں نے من جملہ نوح کے فرزند نے روگردانی کی وہ نابود ہوئے ۔

اسلام کی دعوت کے آغاز پر ، جب امت مسلمہ میں کوئی اختلاف و افتراق نہیں تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ میرے اہل بیت ، نوح کی کشتی کے مانند ہیں ، جو ان سے رابطہ نہیں رکھے گا اور ان کی پیروی نہیں کرے گا ، وہ قوم نوح کی طرح ہلاک ہوجائے گا ۔ حقیقت میں یہ ان مسلمانوں کیلئے ایک تنبیہ و انتباہ ہے ، جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحلت پاتے ہی بغض و نفاق اور انحرافات کے دروازے کھول دیئے اور کچھ منافق جو پہلے سے موقع کی تاک میں تھے دوسروں پر سبقت لے گئے کے ساتھ ہی ایجاد شدہ انحرافات ، تعصب اور نفاق کی بنا پر فرصت سے استفادہ کرکے سبقت کی، تنہا اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علیہ السلام کی سرپرستی میں ،ا مت اسلامیہ کو خطرات ، ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرجانے سے نجات دلاکر ان کے انحرافات میں رکاوٹ بن سکتے تھے ان کے مقابل میں جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی سے روگردانی کرتے ہیں وہ منحرف ہوکر گمراہ ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اپنے اہل بیت کی بنی اسرائیل کے '' باب حطہ '' سے تشبیہ فرماتے ہیں ، ] یہ دوتشبیہ ( کشتی نوح اور باب حطہ کی تشبیہ ) بہت سی شیعہ و سنی روایتوں میں نقل ہوئی ہیں اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں [

جب بنی اسرائیل بے شمار ظلم و گناہ کی وجہ سے عذابِ الہی میں مبتلا ہوئے اور چالیس سال تیک '' تیہ '' نامی صحرا میں آوارہ رہے ، استغفار و ندامت کے نتیجہ میں خدائے متعال نے اپنے لطف و کرم سے ان پر توبہ کا دروازہ ( جسے حطہ کہا جاتا تھا ) کھولا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید فرماتا ہے : 

(وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا ھٰذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْھَا حَیْتُ شِئْتُمْ رَغَداً وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَ قُولُوْا حِطَّة نَغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِینَ ) ( بقرہ ٥٨)

اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے کہا کہ اس قریہ میںد اخل ہوجاؤ اورجہاں چاہو اطمینان سے کھاؤ اور دروازہ سے سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ کہتے ہوئے داخل ہوجائو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جز امیں اضافہ بھی کرتے ہیں ۔

جو شخص بھی '' حطہ '' کے د روازہ سے داخل ہوتا تھا، عزت و احترام پانے کے علاوہ اس کے گناہ بھی معاف کئے جاتے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ مثال پیش کرنے کا مقصداس امر کی وضاحت فرمانا تھا کہ چونکہ بنی اسرائیل کے مؤمنین باب توبہ و حطہ سے داخل ہوکر اپنے لئے دوجہاں کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلی تھی اسی طرح اگر مسلمان بھی اہل بیت علیہم السلام کے علم و معارف اور ان کی اطاعت کے دروازہ سے داخلہوجائیں اور ان کی راہ پر چلیں تو اپنے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کی ضمانت حاصل کرلیں گے ۔

لغت میں لفظ '' حطہ '' کا معنی گرانا اور نابودکرنا ہے ، بنی اسرائیل یہ لفظ کہہ کر خدا سے مغفرت اور اپنے گناہوں کونابود کرنے کی درخواست کرتے تھے ، خداوند عالم نے اسے ان کے گناہوں کی بخشش کیلئے ایک وسیلہ قرار دیا تھا ، لیکن ایک گروہ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتاتھا ، فرمان خدا کا مذاق اڑاتا تھا ، بعض روایتوں کے مطابق ' حنطہ '' ( گندم ) زبان بر جاری کرتا تھا ۔ خداوند عالم نے ان لوگوں کی نافرمانی اور توبہ و مغفرت سے انحراف کی بنا پر ان پر اپنا عذاب نازل کیا:

(فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَولاً غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزاً مِنَ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) ( بقرہ ٥٩)

مگر ظالموں نے ، جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے بدل دیا ( جو ان سے کہاگیا تھا اس کی جگہ پر ایک دوسرا لفظ رکھ دیا ) تو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانی کی بنا پر آسمان سے عذاب نازل کردیا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کا باب حطہ کے عنوان سے تعارف کرایا ، جن کی پیروی دونوں جہاں کی سعادت اورآخرت کے عذاب سے نجات پانے کا سبب ہے ، لیکن لوگوں نے آپ ۖ کی بات پر یقین نہیں کیا اور اہلبیت کے بجائے دوسروں کا انتخاب کیا اورعلی علیہ السلام اور دوسروں کے درمیان فرق کے قائل نہیں تھے اور تصور کرتے تھے جس طرح علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داماد تھے عثمان بھی آپ ۖکے داماد تھے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی خلیفۂ اول کے داماد تھے !

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس فرمائش کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ عبادت کے اصلی مراتب و مراحل ، قلبی امور اور اندرونی اعمال پر مشتمل ہیں ، یعنی کوئی بھی شخص تب تک عبادت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے جب تک وہ خدا و رسول ۖ کی معرفت اور ان پر ایمان نیز اہل بیت علیہم السلام کی محبت نہ رکھتا ہو ، لہذا عبادت ، ظاہری امور اور دکھاوے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ عبادت کی اصل اور حقیقت قلبی عقیدہ ہے اور تمام بندگیوں کا سرچشمہ قلب ہے ۔


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام

 
user comment