اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

موت کے وقت دوبارہ پلٹانے کی درخواست

«حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِي، لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ»[1]

کچھ انسان ایسے ہیں کہ جب انہیں مرنے کی آثاروشواہد اور قرائن کا علم ہوتا ہے تو یہ لوگ خدا وند متعالی سے یا قبض روح کرنے والے فرشتوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ دنیا کی طرف پلٹایا جائے«رَبِّ ارْجِعُونِي لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ» ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کیا یہ صرف کافروں سے مخصوص ہے یا بعض مومنین کا بھی یہ تقاضا ہے ،دوسرے الفاظ میں یوں بتایا جائے کہ صرف ایک گروہ ہے جو خدا سے یہ تقاضا نہیں کرتے یہ وہ افراد ہیں جو ایمان اورعمل صالح کے لحاظ سے کامل ہوں اور دنیا میںصالح اعمال انجام دیئے ہیں ،جب ان کی قبض روح ہوتی ہے تو یہ لوگ اپنے بہشت کو دیکھ لیتے ہیں اور دنیا میں پلٹ آنے کی کوئی درخواست نہیں کرتے ۔

آیہ کریمہ میں لفظ '' حتی'' ابتدائیہ ہے اورغایت کے لئے  نہیں ہے !بعض مفسرین نے اپنے آپ کو تکلف میں ڈال کر یہ بتایا ہے کہ یہ ''حتی'' اس سے ماقبل آیات میں موجود کلمات اورمطالب کے لئے غایت ہے ، لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے ! یہ حتی ابتدائیہ ہے ، فرماتا ہے  «إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمْ الْمَوْتُ»  جب موت آتی ہے ، یعنی انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اب موت آپہنچا ہے ، کہ انسان آخری چند لحظات میں سمجھ جاتا ہے کہ اب وہ مرنے والا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ اچانک موت واقع ہو جائے بلکہ موت سے پہلے انسان کو پتہ چل جاتا ہے کہ سورہ منافقون کی آیت ١٠ بھی اس کے لئے ایک قرینہ ہے  «مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِىَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ» اس آیت کا ظہوریہ ہے کہ جب موت آجاتی ہے ،تو انسان متوجہ ہوتا ہے اورسمجھ جاتا ہے کہ یہ حالت عام حالت نہیں ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اب وہ اس دنیا سے جارہا ہے ، جب اسے یہ حالت معلوم ہوتی ہے تواس وقت خدا سے یہ کہتا ہے ''ارجعونی'' وہ پہلے خدا کو مفرد کی صورت میںپکارتا ہے اور بعد میں جمع کی صورت میں پکارتا ہے ''ارجعون'' صیغہ جمع کے ساتھ پکارنے کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ یہ خدا سے مخاطب ہے اور مخاطب کی تعظیم کے لئے  صیغہ جمع استعمال ہوا ہے کہ سورہ منافقون کی آیت اس کے لئے موید ہے جس میں فرماتا ہے  «فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ»  

دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ''ارجعونی'' فرشتوں سے خطاب ہے وہ فرشتے جو اس شخص کے قبض روح پر مامور ہیں اور اصل میں یوں تھا ''یا ملائکة ربی ارجعونی '' لہذا صیغہ جمع کے ساتھ خطاب کیا ہے ۔

اگر یہی احتمال مراد ہو اور فرشتوں سے خطاب ہو تو اس بارے میں ایک روایت بھی ہے کہ عایشہ پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتی ہے  «إذا عاين المؤمن الملائكة»  جب  مومن  ملائکہ کو دیکھتا ہے توملائکہ اس سے کہتا ہے : کیا تمہیں دنیا کی طرف پلٹا دوں ؟ ''فیقول'' مومن کہتا ہے : «إذاعاين المؤمن الملائكة قالوا نرجعك إلي دار الدنيا» اگر مجھے غم و اندوہ اور پریشانی کی اس دنیا میں پلٹانا چاہتے ہو توایسا مت کرو  «فيقول إذا دار الهموم و الأحزان لا بل قدوماً علي الله»  لیکن اگر مجھے دار آخرت کی طرف لے جانا چاہتے ہو تو میں تیار ہوں  «أما الكافر فيقال له نرجعك» فرشتے کافر سے کہے گا : میں تمہیں دنیا کی طرف پلٹا دوں ؟  «فيقول إرجعوني»  وہ کہے گا: جی ہاں مجھے پلٹادو «فيقال له إلي أيّ شيءٍ ترقد إلي جمع المال بناء البنيان أو شقّ الأنحار"کافر سے کہے گا دنیا میں کہاں پر تمہیں پلٹادوں پلٹ کر دوبارہ مال کرو گے ، درخت لگاؤ گے ، عمارتیں کھڑی کرو گے وہ بولے گا : نہیں اب اگر دنیا کی طرف پلٹ جاؤں تو ان چیزوں کی فکر نہیں کروں گا  «لعلي أعمل صالحاً فيما تركت« اب میں اچھے کام انجام دینا چاہتا ہوں فيقول الجبار لا كلا»  اس وقت خداوند متعال فرما ئے گا،اب  ہرگز پلٹ نہیں سکو گے ۔

٣۔ مازنی کہتا ہے : «جمع الضمير ليدلّ علي التكرار»  کبھی ضمیرجمع تکرار کا نازل منزلہ ہے یعنی یہ کافر بولے گا: «إرجعني إرجعني إرجعني»  خداوند متعالی کافر کی کلمات کو بار بار دہرانے کے بجائے جمع کی صورت میں بیان فرمایا ہے «رب إرجعني»استعمال عرب میں ایسا پایا جاتا ہے ، لیکن اس پر اشکال یہ ہے کہ اس وقت یہ استعمال، مجازی ہو گا،ضمیرجمع ذکرہو لیکن مخاطب جمع ارادہ نہ ہو تو یہ مجازی ہے اورا س کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے ، اور یہاں کوئی قرینہ نہیں ہے ، لہذاان تین احتمالات میں سے پہلا احتمال زیادہ قوی ہے اور اس کی تائید میں یہ آیہ کریمہ بھی ہے «رب لو لا أخرتني».

اب وہ اگر دنیا میں پلٹ آنا چاہتا ہے تو وہ یہاں آکر کیا کرے گا؟ «لعلّي اعمل صالحاً في ما تركت» عمل صالح کو جو ترک کیا ہے اسے انجام دینا چاہتا ہوں ،اس ''ترکت'' کے بارے میں چند احتمالات ہیں ؛ ایک یہ ہے«فيما خلّفت من المال»  میں نے دنیا میں مال و دولت جمع کیا ہے اورانہیں خدا کے راہ میں خرچ نہیں کیا ہے ، اب میں جب اس عالم میں آیا ہوں تو میں دیکھ رہا ہوں کہ صدقہ دینے، زکات دینے، خمس دینے کے کتنے اثرات ہیں ،لہذا خدا سے کہتا ہے ؛خدایا! مجھے دنیامیں پلٹا دو تا کہ ان اموال سے کوئی اچھا کام انجام دوں ، سورہ منافقون میں بھی فرماتا ہے : «وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِىَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ» خدا فرماتا ہے : اور جو رزق ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے ،کیوں ؟ چونکہ اگر موت آجائے تو وہ یہ کہے گا: «فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ» پانچ منٹ کی فرصت دے دوتا کہ میں اپنے مال کی زکات ادا کر کے آؤں ۔ لہذا بعض مفسرین یہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں پلٹ جانے کی اصرار مال میں سے زکات دینے کے لئے ہے ۔

اس بارے میں ایک قصہ بھی نقل ہے کہ کوئی کہتا ہے :میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت انہوں نے کہا : «فقال من لم يزك و لم يحج سأل الرجعة»  دو گروہ ایسے ہیں جو کہتے ہیں '' رب ارجعوني '' پہلاگروہ وہ ہیں جنہوں نے دنیا میں زکات نہیں دی ہے اوردوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حج انجام نہیں دی ہے ! حج کے بارے میں ہمارے پاس کچھ روایات بھی ہیں کہ جو مسلمان حج کیے بغیر دنیاسے چلا جائے وہ  «مات يهوديّاً أو نصرانيّ»  یا یہودی موت مرتا ہے یا نصرانی ، یہ شخص بھی جب مررہا ہے تو وہ سمجھ جائے گاکہ یہودی یا مسیحی مررہا ہوں تو اس وقت وہ خدا سے التجا کرتا ہے کہ اسے دنیا میں واپس پلٹا دیں تا کہ حج بجالاوں۔

ابن عباس کے پاس کوئی شخص بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا : جس طرح آپ بیان کر رہے ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیہ کریمہ مسلمان کے بارے میں ہے لیکن آیت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار خدا سے پلٹ جانے کی تقاضا کررہا ہے ، ابن عباس اس کے جواب میں کہتا ہے : «فقال ابن عباس أنا أقرء عليك به قرآنا» اس آیت میں زکات اور حج مراد ہونے کے بارے میں میرے پاس قرآن سے دلیل ہے اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کرتا ہے  «وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِىَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنْ الصَّالِحِينَ»

اس کے بعد رسول اکرم (ص) سے ایک روایت کو نقل کرتا ہے  «قال رسول الله)ع(إذا حضر الإنسان الموت» جب انسان پرموت واقع ہوتی ہے اس وقت ہروہ مال جس کا حقوق ادا نہیں کیا ہو وہ سب اس کے پاس ظاہر ہوتا ہے اوردیکھتا ہے کہ اس مال میں سے زکات دینا چاہئے تھا ، فقراء کو دینا چاہیئے تھا،خمس دینا چاہیئے تھا،دوسری کی مدد کرنی چاہئے تھی ،اور ان  میں سے کچھ بھی نہیں کیا ہے ، اس وقت خدا سے التجا کرتا ہے خدایا ! مجھے واپس پلٹا دو تا کہ میں ان مالی حقوق کو ادا کروں ، ابن عباس کے قول کے مطابق  «لعلي أعمل صالحاً فيما تركت»  جس عمل صالح کو انجام دینا چاہتا ہے وہ یہی زکات اورحج ہے لیکن مکرراً بیان ہوا ہے اورآپ نے بھی سنا ہے کہ ابن عباس کا قول ہمارے لیے حجت نہیں ہے ، اگر ابن عباس کسی آیت کی تفسیر کرے تو یہ ہمارے لیے حجت نہیں ہے مگر وہ آیت کی تفسیر میں پیغمبر اکرم (ص) سے کسی کلام کو نقل کرے وگرنہ خود اس کی بات ہمارے لیے حجت نہیں ہے۔

٢۔ دوسرااحتمال یہ ہے کہ ''فیما ترکت''کا متعلق ذکر نہیں ہوا ہے ''فیما ترکت من الاموال'' نہیں بتایا ہے لہذا ہم ترکت کو خود دنیا قرار دیتے ہیں یعنی میں نے موت کی وجہ سے دنیا کو ترک کیا ہے ،ماترکت یعنی دنیا نہ کہ اس شخص کے اموال «رب إرجعوني لعلي اعمل صالحاً فيما تركت» یعنی فی الدنیا ، اس وقت ا س میں مالی واجبات ، مالی عبادات ،غیر مالی عبادات جیسے نماز ،روزہ سب شامل ہے ،میری نظر میں یہ احتمال پہلے احتمال سے زیادہ واضح ہے ۔

آیہ کریمہ میں ''فیما ترکت من الاموال'' نہیں بتایا ہے ، لہذا اس دوسرے احتمال کے مطابق ''فیما قصرت'' یعنی جن چیزوں میں تقصیر کی ہے وہ اعتقادات میں ہو، یا واجبات میں،مالی مسائل میں ہو یا دوسرے مسائل میں ،آیت کا ظاہر یہی ہے ۔

اس ''رب ارجعونی '' یعنی واپس پلٹنے کا تقاضا کرنے کا وقت کب ہے ؟ فخر رازی کہتا ہے اس کے بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے ! اکثر مفسرین کہتے ہیں  «يسأل في حال المعاينة»  جیسے ہی ملائکہ کو دیکھتے ہیں کہ اس کی قبض روح کے لیے آیا ہے اوراس عالم سے لے جانا چاہتا ہے اسی وقت یہ تقاضا کرتا ہے ،بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں : «عند معاينة النار في الآخرة» جب انہیں جہنم میں لے جانا چاہتا ہے اس وقت وہ لوگ یہ تقاضا کرتے ہیں  «قال رب ارجعوني لعلي اعمل صالحاً».

لیکن دوسرا احتمال بہت ہی ضعیف ہے چونکہ یہاں پرموت سے معلق ہوا ہے ،او ریہ نہیں بتایا ہے کہ روز محشر میں ایسا بولے گا البتہ ممکن ہے وہاں پر بھی ایسا بولے لیکن اس آیت میں مراد وہی ہے کہ موت کے وقت ایسا تقاضا کرے گا  «قال رب ارجعوني لعلي اعمل صالحاً». ۔

اس مطلب کو بھی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ آیہ کریمہ اورروایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مومن یا ہرانسان حتی کہ کافر  بھی اپنے موت کے واقع ہونے سے باخبر ہوتا ہے ، وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب اس دنیا سے جانے والا ہوں یعنی قبض روح سے پہلے وہ سمجھ جاتا ہے کیونکہ قبض روح  کے بعد وہ مر چکا ہے ، اس کی مثال ایسا ہے کہ کچھ افراد آئے ہیں تا کہ اسے گھر سے نکال دیں یہاں پر نکالنے سے پہلے سمجھ جاتا ہے ورنہ نکالنے کے بعد خود عمل واقع ہوا ہے ، اسی طرح انسان اس دنیا سے جانے سے پہلے متوجہ ہوتا ہے کہ اب جانے والا ہے ،اس وقت فرشتوں کو دیکھتا ہے ،اب وہ فرشتے یا خوبصورت شکل میں آیا ہے یابدشکل ہو کر حاضر ہوا ہے ، اس وقت تقاضا کرتا ہے مجھے واپس پلٹادویعنی مجھے مہلت دے دو اسی لیے سورہ منافقون کی آیت میں ''رب ارجعونی ''کے بدلے  «رب لو لا أخرتني» کہا گیا ہے ، یہ  «رب لو لا أخرتني»  وہی ''رب ارجعونی '' ہے ۔


source : http://www.fazellankarani.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment