اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

عظمت حضرت زہرا(س)

حضرت صدیقہ طاہرہ(س) کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ''' انا اعطیناک ال

کوثر''' کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں ۔اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا ، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا '' خیر''' بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ''خیر کثیر'' ۔

حضرت زہرا (س)اور ھضرت علی گھر کے کاموں کو ایک دوسرے کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے تھے لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ رسول خدا ۖ اس بارے میں اظہار نظر فرمائیں ۔لہذا رسول خدا ۖ سے عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ فرمائیں گھر کا کون سا کام علی کریں اور کون سا فاطمہ (س) انجام دیں ؟ رسول خدا ۖ نے گھر کے اندر کے کام زہرا (س) کے سپرد کئے اور گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری علی کو سونپ دی۔حضرت زہرا (س) فرماتی ہیں کہ میری خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ میرے بابا نے مجھے گھر کے باہر کے کاموں سے سبک دوش کیا ۔ عالم و با شعور عورت کو ایسا ہونا چاہئے جسے گھر سے باہر نکلنے کی حرص و حوس نہ ہو ۔

ہمیں دیکھنا چاہئے کہ زہرا(س) کی شخصیت کس پائے کی ہے؟ان کے کمالات اور صلاحیتیں کیسی ہیں ؟ان کا علم کیسا ہے ؟ان کی قوت ارادی کس قدر ہے ؟ اور انکی خطابت و بلاغت کیسی ہے؟

حضرت زہرا(س) جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور انکے دش

من اس قدر زیادہ تھے ۔ ان کے علمی آثار بہت کم ہم تک پہونچے ہیں لیکن خوش قسمتی سے انکا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ہوا ہے جسے صرف شیعوں نے ہی نقل نہیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے ۔ یہی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ہوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ہو سکتی ہے۔

حضرت زہرا کا خطبہ توحید کے بیان میں نھج البلاغہ کی سطح کا ہے ۔ یعنی اس قدر بلند مفاہیم کا حامل ہے کہ فلاسفہ کی پہنچسے بالاتر ہے ۔ جہاں ذات حق اور صفات بارئے تعالیٰ کے بارے میں گفتگو ہے وہاں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کا

ئنات کی سب سے بڑی فلسفی محو سخن ہے۔پھر فلسفہ احکام بیان کرتی ہیں :خداوند عالمنے نماز کو اسلئے واجب کیا ،روزہ کہ اس مقصد کے تحت واجب قرار دیا ، حج و امر بالمعروف و نہی از منکر کے وجوب کا فلسفہ یہ ہے ۔ پھر اسلا م سے قبل عربوں کی حالت پر گفتگو کرتی ہیں کہ تم عرب لوگ اسلا م سے پہلے کس حالت میں تھے اور اسلام نے تمہاری زندگی میں کیسا انقلاب برپا کیا ہے۔مادی اور معنوی لحاظ سے انکی زندگی پر اشارہ کرتی ہیں اور رسول خدا ۖکے توسط سے انہیں جو مادی اور معنوی نعمتیں میسر آیئں انہیں یاد دلاتی ہیں اور پھر دلائل کے ساتھ اپنے حق کے لئے احتجاج کرتی ہیں ۔

مجموعہ آثار ج۔١٧ص٤٠٣ تا ٤٠٦

 


source : http://fazael.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت فاطمہ زہر(س) خواتین عالم کیلئے نمونہ عمل
قرآن و سنت میں حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کا احترام
پیغمبر اسلام
حضرت امام علی علیہ السلام
حسین علیہ السلام وارث حق
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
حسین علیہ السلام وارث حق
امام زین العابدین علیہ السلام کے مصائب
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
جعفر صادق باني مکتب عرفان

 
user comment