اردو
Tuesday 19th of March 2024
0
نفر 0

ہم یہ کیوں کہیں کہ اشیائے عالم کو خدا نے خلق کیا ہے ؟

سوال کرنے والے کے سوال میں برہان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے٬ لیکن اس کے صحیح معنی کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے ـ دوسری جانب سے گمان کیا گیا ہے کہ واجب الوجود کی صفات کو مادی اور محدود مخلوقات پر منطبق کیا جا سکتا ہے اور اس طرح خدا کے وجود سے انکار کیا جا سکتا ہے ـ اس لئے ضروری ہے کہ اولاً: ہم تسلسل کے محال ہونے کے برہان کے اصلی معنی سے واقف ہوجائیں ـ ثانیاً: خدا کے وجود کے معنی واضح ہوجائیں اور وضاحت کی جائے کہ اس قسم کے موجود کا مصداق ایک مادی مخلوق میں محدود نہیں ہو سکتا ہے:

1ـ اصطلاحی تسلسل کا مراد لامتناہی امور کا مرتب ہونا ہے اور فلاسفہ اس تسلسل کو ناممکن جانتے ہیں٬ جس کے حلقات حقیقی طور پر مرتب ہو کہ وجود میں آئے ہوں ـ

فارابی نے علل حقیقی میں تسلسل کے محال ہونے کے بارے میں یوں استدلال کیا ہے کہ اگر علل و معلولات کے سلسلہ میں ہر علت اپنی نوبت پر کسی دوسری علت کی معلول ہوتو اس پورے سلسلہ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ تمام علتیں کسی دوسری علت کی محتاج ہیں٬ پس سلسلہ کے آخر پر ایک ایسی علت کو ثابت کیا جانا چاہئے جو کسی دوسری علت کی معلول نہ ہو٬ اس بناپر علتوں کے اس سلسلہ کا کوئی سرآغاز ہوگا ـ

اصالت الوجود اور وجود معلول کی کسی دوسری علت سے ذاتی وابستگی کی بناپر برہان٬ صرف علتوں کے ہستی بخش پر قائم ہوسکتا ہے٬ اس طرح اگر ماورائے سلسلہ علل٬ کہ ان میں سے ہر ایک عین وابستگی ہے٬ ایک مستقل موجود نہ ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ بدون طرف وابستگیاں٬ وابستگی محقق ہوئی ہے ـ

2ـ خدا٬ یعنی ایک ایسا وجود٬ جو قدیم اور واجب الوجود ہے٬ اس کی ذات میں نیازمندی نہیں پائی جاتی ہے ... پس ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ایسے کرہ تک پہنچ جائیں گے کہ جو مظہر اور جسم ہے لیکن کسی دوسری موجود کی محتاج نہیں ہے جبکہ ہر جسمانی مخلوق محتاج ہوتی ہے٬ کیونکہ اسی بناپر اجزا و غیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ـ

بہ عبارت دیگر٬ تسلسل کے ممتنع ہونے کے برہان کے ذریعہ ہم واجب الوجود کے ثبوت تک پہنچنے ہیں٬ یعنی ایک واجب الوجود مستقل٬ قائم بالذات علت سے بے نیاز ہستی٬ جس سے تمام غیر مستقل موجودات متکی ہیں٬ اور اس خصوصیت کو کرہ جیسے جسم کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے٬ کیونکہ کرہ ارض جسم ہے اور جسم ایک ممکن الوجود ہے اور ممکن الوجود شے واجب الوجود ہستی سے متکی ہوتی ہے ـ

تفصیلی جواب :

 سوال کرنے والے کے سوال میں برہان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے٬ لیکن اس کے صحیح معنی کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے ـ دوسری جانب سے گمان کیا گیا ہے کہ واجب الوجود کی صفات کو مادی اور محدود مخلوقات پر منطبق کیا جا سکتا ہے اور اس طرح خدا کے وجود سے انکار کیا جا سکتا ہے ـ اس لئے ضروری ہے کہ اولاً: تسلسل کے محال ہونے کے برہان کے اصلی معنی سے واقف ہو جائیں ـ ثانیاً: خدا کے وجود کے معنی واضح ہوجائیں اور وضاحت کی جائے کہ اس قسم کے موجود کا مصداق ایک مادی مخلوق میں محدود نہیں ہو سکتا ہے ـ 

مقدمہ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ اصطلاحی تسلسل کا مراد لامتناہی امور کا مرتب ہونا ہے اور فلاسفہ اس تسلسل کو ناممکن اور محال جانتے ہیں کہ جس کے حلقات حقیقی طور پر مرتب ہو کر وجود میں آئے ہوں[1] ـ

تسلسل کے محال اور ناممکن ہونے کے سلسلہ میں کچھـ برہان پیش کئے گئے ہیں کہ ذیل میں ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے: 

فارابی نے اسد اخصر نامی اپنے برہان میں یوں استدلال کیا ہے:

اگر ہم مخلوقات کے ایک سلسلہ کے بارے میں فرض کریں کہ ان کے حلقات میں سے ہر ایک حلقہ دوسرے پر متوقف ہے٬ اس طرح کہ جب تک نہ پہلا حلقہ موجود ہو تو اس سے وابستہ حلقہ بھی محقق نہیں ہوگا٬ اس کا لازمہ یہ ہے کہ یہ پورا سلسلہ ایک دوسری موجود سے وابستہ ہو٬ کیونکہ فرض یہ ہے کہ اس کے تمام حلقات میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور مجبوراً اس سلسلہ کے آخر پر ایک ایسے موجود کا فرض کرنا چاہئے کہ جو کسی دوسری چیز سے وابستہ نہ ہو اور جب تک نہ وہ موجود محقق ہو تب تک اس سلسلہ کے حلقات وجود میں نہیں آئیں گے٬ پس یہ سلسلہ آغاز کے لحاظ سے لامتناہی نہیں ہو سکتا ہے اور بہ عبارت دیگر علل میں تسلسل محال ہے ـ

صدرالمتالہین نے حکمت متعالیہ میں ہستی بخش کی علتوں میں تسلسل کے محال اور ناممکن ہونے کے سلسلہ میں٬ اسی کے مانند برہان پیش کیا ہے جو یوں ہے: اصالت وجود کی بناپر اور معلول کے وجود کا ہستی بخش علت سے مربوط ہونے کی وجہ سے٬ ہر معلول اس کے وجود میں لانے کی علت کی بہ نسبت٬ عین مربوط و وابستگی ہے اور بذات خود کوئی استقلال نہیں رکھتا ہے اور مفروضہ علت کسی بالاتر علت کی بہ نسبت معلول ہو تو یہی حالت اس کی بہ نسبت بھی ہوگی٬ پس اگر ہم علل و معلول کے ایک سلسلہ کا فرض کریں کہ ہر ایک علت کسی دوسری علت کی معلول ہے تو تعلقات اور وابستگی کا ایک سلسلہ ہوگا اور واضح ہے کہ کوئی وابستہ وجود کسی مستقل وجود کے بغیر محقق نہیں ہوگا پس مجبوراً اس ربط و تعلقات کے سلسلہ کے ماوراء میں ایک مستقل وجود ہونا چاہئے کہ تمام موجودات اس کی روشنی میں محقق ہوجائیں٬ اس بناپر اس سلسلہ کو آغاز اور مستقل اور مطلق وجود کے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا ہے ـ[2]

اس وضاحت کے پیش نظر واضح ہوا کہ: ہم ایک ایسے وجود کے محتاج ہیں جو کسی دوسری علت کا معلول نہ ہو اور مستقل و مطلق ہو اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں اور فلاسفہ اسے واجب الوجود کہتے ہیں ـ

بہ عبارت دیگر٬ اصل بحث یہ ہے کہ ہر موجود٬ حلقات و معلولات کا سلسلہ نہیں ہو سکتا ہے٬ یہ موجود وابستہ اور محتاج نہیں ہونا چاہئے٬ تا کہ دوسری مخلوقات کے لئے پناہ گاہ بن جائے ـ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے٬ کہ کیسے ایک ایسے کرہ ارض تک پہنچا جا سکتا ہے جو جسم اور ممکن الوجود ہے٬ لیکن اس کی ذات میں محتاجی نہ ہو ـ کیا اس کا قدیم ہونا اس کو ممکن الوجود کی حالت سے خارج کر سکتا ہے اور اس میں حدوث ذاتی نہ ہو؟!

وضاحت: 

1ـ موجود کی دو قسمیں ہیں٬ واجب الوجود اور ممکن الوجود ـ واجب قدیم ذاتی ہے٬ لیکن ممکن بھی اپنے لحاظ سے دو قسموں پر مشتمل ہے: قدیم زمانی اور حادث زمانی اور جو چیز علت کی محتاج ہے وہ امکان ذاتی ہے نہ حدوث زمانی[3]٬ یعنی شئے چونکہ اپنی ذات کے لحاظ سے وجود کا تقاضا نہیں کرتی ہے اس لئے علت کی محتاج ہے نہ اس لحاظ سے کہ ایک زمانہ میں نہیں تھی اور بعد میں پیدا ہوئی ہے[4] ـ

2ـ جو چیز جسم اور جسمانیات سے ہو وہ واجب اور ممکنات کی پناہ گاہ نہیں ہو سکتی ہے[5]٬ یعنی اس میں امکان اور ذاتی حدوث نہ ہو باوجودیکہ قدیم زمانی ہو ـ جسم ہونا فراوان محدودیتوں اور نیازمندیوں کا لازمہ ہے٬ جیسے٬ جسم کے لئے اجزا کی نیازمندی و غیرہ ـ جبکہ واجب٬ لامتناہی اور اس کی کوئی حد نہیں ہے اور محدود نہیں ہے اور بسیط ہے اور خارجی اور ذہنی اجزاء کا مرکب نہیں ہے ـ حد و قید و محدویت٬ مغلوب ہونے اور معلولیت کے مساوی ہے٬ جبکہ واجب الوجود٬ مطلق اور بے انتہا ہوتا ہے[6] ـ

نتیجہ کے طور پر تسلسل کے ممتنع ہونے کے ذریعہ ہم واجب الوجود کو ثابت کرتے ہیں٬ یعنی ایک مستقل اور قائم بالذات اور علت سے بے نیاز وجود٬ جو غیر مستقل مخلوقات کے لئے پناہ گاہ ہوتا ہے اور اس خصوصیت کو کرہ ارض جیسے جسم و جسمانیت کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے٬ کیونکہ کرہ ارض جسم ہے اور جسم ممکن الوجود ہے اور ممکن الوجود٬ واجب الوجود پر متکی ہوتا ہے ـ

[1]ملاحظہ ہو: مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش فلسفه، ج 2، ص 80، چاپ دوم، سازمان تبلیغات اسلامی، 1366 ه ش..

[2]ان دو برہانوں کا فرق اس میں ہے کہ پہلا برہان حقیقی علتوں کی منطق میں جاری ہوتا ہے وہ علتیں جو لازمی طور پر معلول کے ہمراہ ہوتی ہیں٬ لیکن دوسرا برہان ہستی بخش علتوں سے مخصوص ہے اور علل تامہ میں بھی جاری ہوتا ہے٬ اس لئے کہ ہستی بخش علتوں پر مشتمل ہے ٬ ملاحظہ ہو: آموزش فلسفه، ج 2، صص 81-82.

[3]حدوث زمانی٬ یعنی چیز مسبوق بہ عدم زمان ہو اور اس کے مقابل میں حدوث ذاتی ہے٬ یعنی شئے کی علت ہو. طباطبایی، سید محمد حسین، نهاية الحكمة، صص 231- 233. موسسه النشر الاسلامی، قم

[4]طباطبایی، سیدمحمدحسین/ مطهری، مرتضی،   اصول فلسفه، ج 5، ص 150.

[5] (كل متعلق الوجود بالجسم المحسوس يجب به لا بذاته) الجسم المحسوس هو الأجسام النوعية و متعلق الوجود به ينقسم إلى ما يتعلق وجوده .... و المقصود أن الأعراض الجسمانية كلها ممكنة بذاتها واجبة بغيرها ( قوله و كل جسم محسوس فهو متكثر بالقسمة الكمية و بالقسمة المعنوية إلى هيولى و صورة) و المقصود بيان أن كل جسم ممكن و كبرى القياس قوله فواجب الوجود لا ينقسم في المعنى و لا في الكم .... ملاحظہ ہو: شیخ الرئیس ابوعلی سینا/ نصیر الدین محمد بن حسن طوسی، شرح الإشارات، ج 3، صص 60- 61، طبع دوم، دفتر نشر الکتاب، 1403 ه ق.

[6] ملاحظہ ہو: نهايةالحكمة، الفصل الرابع في أن الواجب تعالى بسيط غير مركب من أجزاء خارجية و لا ذهنية ، صص 276-278.


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ازدواج کے کیا شرائط ہیں؟ کیا مرد و عورت کی دلی ...
کیا نوروز اسلامی عید ہے؟
سوال کا متن: نمازِ امام رضا عليہ السلام؟
خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟
جب غدیر میں رسول نے علی ولی اللہ کی گواہی دے دی تو ...
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
قرآن مجید کی نظر میں مجسّمہ سازی اور نقاشی کے ھنر ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ پہلا حصہ
کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟
عورت کا جہاد؟

 
user comment