اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

نماز ۔۔۔ کي اہميت اور فوائد

علامہ محمد اقبال۲ نے فلسفہ نماز کچھ اس طرح بيان فرمايا ہے کہ اس خوبصورت اور پرُ تاثير شعر پر سبحان اللہ کہنے کو دل چاہتا ہے۔۔

وہ ايک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے ديتا ہے آدمي کو نجات

حقيقت يہي ہے ۔ اس لئے کہ نماز دين کا ستون اور زمين و آسمان کي روشني ہے۔ نماز مومن کي معراج ہے اور دعا مومن کا اسلحہ ہے۔ نما ز اور دعا کے ذريعے بندہ اپنے آقا سے ہم کلام ہوتا ہے ، راز و نياز کرتا ہے اور اس ذاتِ واحد سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرتا ہے، جس نے کہا ہے کہ ’’جب مير ابندہ مجھے پکارتا ہے تو ميں اسے جواب ديتا ہوں۔‘‘

راز و نياز ، سوزو گداز کي کيفيت تبہي پيدا ہوسکتي ہے اور نماز خالق و مالک سے ہم کلامي کے شرف کي بناپر ’’معراجِ مومن‘‘ تب بن سکتي ہے جب انسان روح و بدن کے ساتھ محضرِ الٰہي ميں حاضر ہو اور اس کے بدن کا رواں رواں اس کي زبان سے ادا ہونے والے کلمات کي شہادت دے رہا ہو۔ اور يہ اس وقت تک ممکن نہيں جب تک انسان اپني زبان سے ادا ہونے والے کلمات کے معني سے واقف نہ ہو۔ يہ بے حد ضروري ہے تاکہ مومنين اپني عبادات ميں سوزِ عشق اور گداز روح کي کيفيت پيدا کرکے صحيح معنوں ميں اپنے رب سے ہم کلام ہوکر ’’الصلوٰۃ معراجِ مومن‘‘ اور ’’الدّعا سلاح المومن‘‘ کي کيفيت سے آشنا ہوسکيں۔

نماز کس طرح انسان سازي کرتي ہے، يہ اگر لوگ جان جائيں تو کبھي نماز ترک نہ کريں۔ نماز کس طرح کے انسان بناتي ہے، يہ ہميں اگر ديکھنا ہو تو ہم اپنے پيارے نبي کريم رحمۃ للعالمين ، شفيع امذنبين ، سيد المرسلين آنحضرت محمد مصطفي ۰ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے والي ہستيوں کو ديکھيں۔ ان کي آل پاکٴ اور صحابہ کرام کي زندگي کا مطالعہ کريں۔ ہم ديکھيں گے کہ نماز کا قيام عين دين ہے۔

قرآن پاک ميں ارشادِ باري تعاليٰ ہے:

’’خدا کي مسجدوں کو صرف وہي شخص (جاکر) آباد کرسکتا ہے جو خدا اور روزِ آخرت پر ايمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ ديتا رہے اور خدا کے سوا (اور ) کسي سے نہ ڈرے تو عنقريب يہي لوگ ہدايت يافتہ ہوجائيں گے۔‘‘(سورہ توبہ)

رسول اکرم احمدِ مجتبيٰ محمد مصطفي ۰ نے فرمايا:

’’جس کي نماز قبول ہوگئي ، اس کے ديگر اعمالِ حسنہ بھي قبول ہوگئے اور جس کي نماز رد ہوگئي ، اس کے ديگر اعمالِ حسنہ بھي رد ہوگئے۔‘‘

ايک اور مقام پر ارشادِ رحمتہ للعالمين۰ ہے:

’’نماز ميري آنکھوں کي ٹھنڈک ہے۔‘‘

بابِ مدينۃ العلم حضرت علي نے ارشاد فرمايا:

’’مومن کي زندگي کے تين اوقات ہوتے ہيں۔ ايک ساعت ميں وہ اپنے رب سے راز و نياز کرتاہے اور دوسرے وقت ميں اپنے معاش کي اصلاح کرتا ہے اور تيسرے وقت ميں اپنے نفس کو ان لذتوں سے آزاد چھوڑ ديتا ہے جو حلال اور پاکيزہ ہيں۔‘‘

جناب کوثر نقوي نے سجدے اور رب تعاليٰ کے وجود کے حوالے سے کيا بہترين شعر کہا ہے۔ سبحان اللہ۔

کافي ہے بس حسينٴ کے سجدے کا انہماک

اب حاجتِ دليل وجود خدا نہيں

يہ تو ہے ايک مختصر جائزہ نماز کي اہميت اور ان گنت خصوصيات کا اور اب آتے ہيں نماز کے بے شمار فوائد اور ثمرات کي طرف، گوکہ دونوں ہي کا بيان کرنا سمندر کو کوزے ميں بند کرنے کے مترادف ہے۔

اب سے صديوں پيشتر مسلمان ايمان کے معاملے ميں آج کے دور کے مسلمان سے بدرجہا بہتر تھے۔ ان کا ايمان بالغيب تھا۔ اللہ اور رسول اکرم ۰ کے احکامات کو بلاچون چرا مانتے تھے ، جب کہ آج ميڈيکل سائنس نے بيشتر احکامات کي توجيہہ پيش کرکے ثابت کرديا کہ دينِ اسلام کي تمام پابنديوں ميں خلقِ خدا ہي کي بہتري پوشيدہ ہے۔ وضو کرکے ايک ايک عمل کي صحت و سائنس کے حوالوں سے وضاحتيں آچکي ہيں۔ نماز کے ہر ہر رکن کي تشريح مغربي سائنس دان کرچکے ہيں۔ حال ہي ميں ايک چيني سائنس دان نے ذيابيطس (Suger)کا ايک حيران کن علاج دريافت کيا ہے۔ اس کي تحقيق کے مطابق رکوع کي حالت ميں قيام کرنا شوگر کا يقيني علاج ہے۔ اس سے بھي زيادہ حيرن کن بات يہ کہ صبح سورج نکلنے کے بعد اگريہ عمل کيا جائے تو بجائے فائدے کے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ کتني حيرت کي بات ہے کہ انہي دو اوقات ميں نماز نہ پڑھنے کا حکم آيا ہے۔

امريکا کي ايک يونيورسٹي کي تحقيقي ٹيم نے تمام دنيا کا سروے کرکے يہ پتا چلانا چاہا کہ ذہني و دماغي امراض(پاگل پن) دنيا کے کن خطوں يا کن قوموں ميں زيادہ پائے جاتے ہيں۔ انہيں پتا چلا کہ مسلم ممالک ميں ان امراض کي شرح في صد سب سے کم ہے۔ مسلمانوں کے عمل ديکھے گئے تو پتا چلا کہ نماز کے پابند افراد ميں مرض نہ ہونے کے برابر ہے۔

آخر انہوں نے اس کا بھي بھيد پاليا کہ دماغ کي وہ باريک رگيں جہاں خون اپنے بہاو کي قوت سے نہيں پہنچ پاتا ، وہاں سجدے کي حالت ميں پہنچ کر دماغ کے حساس حصوں کو تازہ و خون فراہم کرتاہے۔

آج سے پہلے کے مسلمانوں کا يہ ايمان تھا کہ حضور اکرم ۰ کے حکم کے مطابق چھينک کے آنے پر الحمدللہ کہنا چاہيے۔ اگر چہ وہ اس کي وجہ کو نہيںجانتے تھے ، بس ايک حکم تھا۔ جو سر آنکھوں پر تھا۔ ليکن 1400سال بعد آج ميڈيکل سائنس نے بتاديا ہے کہ جب دل کي دھڑکنيں مدہم پڑنے لگتي ہيں تو دماغ کو اطلاع ہوجاتي ہے۔ وہ ناک کے اندروني حصوں ميں گدگدي پيدا کرنے کاحکم ديتا ہے۔ جس کے نتيجے ميں زوردار چھينک آتي ہے۔ اور اس کا دھچکا اتنا زبردست ہوتاہے کہ دل پہلے کي طرح دھڑکنے لگتاہے۔ گويا ايک نئي زندگي ملتي ہے۔ اور ا س موقع پر الحمد للہ کہنا دراصل حيات نو پر اللہ تعاليٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ سائنس دانوں نے چھينک کي رفتار کو جديد ترين آلات کي مد د سے ناپا ہے جس کے مطابق ايک عام سي چھينک کي رفتار کم از کم 100ميل يا 162کلو ميٹر في گھنٹہ ہوتي ہے۔ بارٹ اٹيک کے وقت مريض کے سينے پر گھونسے مارنا يا بجلي کے جھٹکے دينا دراصل اسي چھينک کا نعم البدل ہے۔

وہ ايمان والے لوگ جن کے لئے اللہ اور اس کے رسول کريم ۰ کا حکم ہي ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ سنت کي بجا آوري کے لئے زمين پر سوتے تھے۔ وہ اس کي حکمت سے واقف نہيں تھے، ليکن آج کا ايک پرائمري درجے کا طالب علم بھي جانتا ہے کہ آکسيجن ہوا سے 16گنا بھاري ہونے کي وجہ سے سطح زمين سے 6انچ تک تہہ بناکر بہتي رہتي ہے۔ اور زمين پر سوئے ہوئے شخص کے نتھنوں ميں داخل ہوکر خالص آکسيجن خون ميں شامل کرکے اسے چمکيلا بناتي ہے۔

آج کي جديد تحقيق نے يہ بھي بتايا ہے کہ اگرٹخنوں کو آکسيجن ملتي رہے تو جنسي قوت ميں اضافے کا باعث ہے۔ مردوں کو ٹخنے کھلے رکھنے کاحکم ہے، جب کہ عورتوں کو ڈھکنے کا حکم ديا گيا ہے۔ (سبحان اللہ)

بيماريوں کے جراثيم منہ اور ناک کے ذريعے ہمارے جسم ميں داخل ہوتے ہيں ،اسي لئے وضو کرتے وقت ناک ميں پاني ڈالنا اور جماہي ليتے وقت منہ پر ہاتھ رکھنا اور کھانا کھاتے وقت منہ بند رکھنا ضروري قرار ديا گيا۔ کان سے بھي داخل ہوسکتے ہيں ، ليکن کان ميں ايک زہريلا ليس دار مادہ رکھ کر اس انديشے کو بھي ختم کرديا گيا۔

غورکرنے کا مقام يہ ہے کہ اللہ اور رسول اکرم ۰ کا ہر حکم سراسر ہمارے ہي فائدے کے لئے ہے توپھر اللہ تعاليٰ کي وہ عبادات جنہيں ہم روز، نماز اور حج کے تناظر ميں ديکھتے ہيں ، وہ کيا چيز ہيں؟ اس کي ساري عبادتيں ہمارے ہي فائدوں کے لئے ہيں۔ اور ہم اپنے ہي فائدے کے لئے جو عمل کرتے ہيں ، اس کي جزا بھي آخرت ميں رکھ دي ہے۔ واہ سبحان اللہ۔

کيسي دکان داري ہے جتنا سامان اٹھاسکو ، وہ تمہارا ہوگيا اورجتنا سامان اٹھايا، اس کي قيمت بھي روزِ محشر مل جائے گي۔ اللہ تعاليٰ کو نہ ہماري عبادتوں کي ضرورت ہے نہ ہماري رياضتوں کي حاجت۔ ہم جو کچھ کرتے ہيں ، اپني ذات کے لئے کرتے ہيں۔ وہ رحمن و رحيم اس کا بھي اجر ہميں دينے کے لئے تيار رہتا ہے۔ وہ تو بہانہ ڈھونڈتاہے ہميں بخشنے کا، ہم کوئي ايسا عمل کريں تو سہي۔

وہ تو بے نياز ہے۔ اس کي عبادت کے لئے ملائکہ ، حجر و شجر اور اس کائنات کے ذرہ ذرہ اپنے اپنے حساب سے عبادت ميں مصروف ہے۔ وہ تو ہميں کسي بہانے سے جنت واصل کرنا چاہتا ہے ليکن ہم اس کے اس قدر ناشکرے ہيں کہ کبھي دورکعت نفل اس شکرانے کے نہ پڑھے ہوں گے اے اللہ تو نے ہميں آنکھيں ديں ، جن سے ہم تيري کائنات کو ديکھتے ہيں۔

شايد ہي کبھي ہم نے يہ کہا ہو کہ اے اللہ تيرا شکر ہے ، ہماري دو ٹانگيں سلامت ہيں۔ ذرا غورکيجئے، اگر کوئي (خدانخواستہ) ايک نعمت بھي ہم سے واپس لے لي جائے تو ہم کس قدر محتاجي کي زندگي گزاريں گے۔ شکرانے کي نمازيں تو چھوڑئيے ، ہم ميں سے کتنے ايسے ہوں گے جو پانچ فرض نمازيں پڑھ ليتے ہوں گے۔ جب کہ اب ہم پر يہ بات واضح ہوچکي ہے کہ يہ ہمارے ہي فائدے کي چيز ہے۔ ہم اپنے کسي علاج کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہيں ، جو ہميں علي الصباح آدھ گھنٹے واک کا مشورہ ديتا ہے۔ ہم اپني ساري نينديں بھلا کر ساري مصروفيات چھوڑ کر بڑي پابندي سے آدھ گھنٹے کي مشقت برداشت کرتے ہيں ليکن جو حکيم الحکمائ نے ہماري صحت کے لئے تجويز کيا ہے اس کے لئے دس منٹ نکالنا بھي ہماري طبيعت پر گران گزرتا ہے۔

وہ لوگ اتنا کچھ نہيں جانتے تھے، جتنا اب ہم جانتے ہيں ، پھر بھي اللہ اور رسول کريم ۰ کا حکم ان کے لئے ايمان کا درجہ رکھتا تھا۔ آج ہم اس قدر گمراہ ہوگئے ہيں کہ اب جانتے اور سمجھتے ہوئے بھي نما ز، روزے اور ديگر ديني احکام کي بجاآوري سے غفلت برت رہے ہيں۔

شاعر نے خوابِ غفلت سے جگانے کے لئے کيا خوب کہا ہے۔

ملتا ہے کيا نماز ميں سجدے ميں جاکے ديکھ لے

ہوگا خدا کے سامنے سر کو جھکاکے ديکھ لے

رنج و الم نہ کوئي غم، ہوگا تجھے تري قسم

تھوڑي سي دير کے لئے سر کو جھکاکے ديکھ لے

بے شک سب سے بہتر ذکر اللہ کا ذکر ہے۔ اور سچا سکون اور روحاني مسرت صرف نماز ميں حاصل ہوتي ہے۔ دلوں کا اطمينان تو اللہ کے ذکر ميں ہے۔ حضوراکرم ۰ کي شفاعت يعني سفارش کسي ايسے شخص کو نصيب نہيں ہوگي، جو نماز کو معمولي چيز سمجھتا ہو۔ نماز سے زيادہ شيطان کي ناک رگڑنے والي کوئي چيز نہيں ہے، لہٰذا نماز پڑھيے اور شيطان کي ناک رگڑيے۔ نماز بے حيائي اور برے کاموں سے روکتي ہے۔

آپ حضور اکرم رحمۃ للعالمين ، سيد مرسلين، شفيع المذنبين آنحضرت محمد مصطفي ۰ پر درود شريف تو بھيجتے ہي رہتے ہوں گے، اگر آپ ان کي چشمِ مبارک کو ٹھنڈا رکھنا چاہتے ہيں تو يہ حديث ہميشہ يادر کھئے۔

’’نماز ميري آنکھوں کي ٹھنڈک ہے۔‘‘

اللہ تعاليٰ مجھے اور آپ سب کو خشوع و خضوع کے ساتھ نمازيں ادا کرنے کي توفيق عطا فرمائے اور دعا کريں اللہ تعاليٰ اپني رحمت سے ہماري نمازوں اور ديگر عبادات کو اپنے نصيب کريم خاتم البنين ، رحمۃ العالمين ، مراد المشتاقين آنحضرت احمد مجتبيٰ محمد مصطفي ۰ کے صدقے ميں قبول فرمائے۔(آمين)

جواني ميں عدم کے واسطے سامان کر غافل

مسافر شب کو اٹھتے ہيں جو جانا دور ہوتا ہے


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟
شیطانی وسوسے
مودّت فی القربٰی

 
user comment