اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

قول و فعل میں یکسانیت اورزبان پر کنٹرول

جس کا قول اس کے فعل کے مطابق ہو ، اس نے سعادت کی شکل میں اس کا پھل پالیا ہے اور جس کے قول و فعل میں ہم آہنگی نہ ہو وہ جزا پاتے وقت اپنی سرزنش کرے گا “ 

اکثر لوگ بات کرتے وقت اچھے اور نیک کام کا حوالہ دیتے ہیں، اس کی انجام دہی پر تاکید کرتے ہیں اس کی اہمیت ، قدرومنزلت اور انسانی کمال میں مومن ہونے کا ذکر کرتے ہیں لیکن عمل کے موقع پر ، ان کے قول و فعل میں ہم آہنگی نہیں ہوتی ہے ایسے بہت کم لوگ ہیں جن کے قول و فعل میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔

اگر قول و فعل کی ہم آہنگی کو ایمان کے درجات سے وابستہ جان لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جو ایمان کے لحاظ سے جتنا کامل ہے وہ گفتار میں اتنا ہی صادق ہے اور ان کے قول و فعل میں زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے حقیقت میں ان کی رفتار ان کے گفتار کی تصدیق کرتی ہے ۔

آیہٴ مبارکہ ․․< ․ اُولٰئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُونَ >(بقرہ / ۱۷۷) کی تفسیر میں مرحوم علامہ طباطبائی ۺ فرماتے ہیں : ” صداقت “ ایک ایسی صفت ہے جس میں علم و عمل میں موجود تمام فضیلتیں پائی جاتی ہیں کیونکہ صدق اخلاق کی وہ صفت ہے جس میں تمام اخلاقی فضائل ، جیسے : عفت ، شجاعت ، حکمت ، عدالتکی شمولیت ہے ، انسان کو اس کے اعتقاد اورقول و فعل سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے انسان کے صادق ہونے کا مفہوم و معنی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ ، قول و فعل ایک دوسرے کے مطابق ہوں ، یعنی جس چیز کا عقیدہ رکھتا ہے اور کہتا ہے اس پر عمل بھی کرتا ہے ۔

انسان کی فطرت کا ، حق کو قبول کرنے اور اسکے سامنے باطنی طور پر تسلیم ہونے کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے خواہ وہ اس کے برخلاف بھی اظہار کرے پس اگر انسان نے حق کا اعتراف کرلیا اور اس اعتراف میں وہ سچا تھااور جو کچھ وہ اس کے بارے میں اعتقاد رکھتا تھا وہی کہتا تھا اور جو کچھ کہتا تھا اسی پر عمل کرتا تھا تو ایسی صورت میں اس کا ایمان خالص ہو گیا ہے اور اس کا اخلاق و عمل صالح آخری مرحلہ پر پہنچتے ہیں۔

وہ فرماتے تھے : یہ جو اللہ تعالی بعض لوگوں کو ” صدیق “ --- جو صیغہٴ مبالغہ ---کہتا ہے اس لحاظ سے ہے کہ صدیقین کی رفتار ، ان کی گفتار کی تصدیق کرنے والی ہے جس کی گفتار اس کے اعتقاد کے ساتھ ہم آہنگ ہو وہ بھی صادق ہے لیکن صدیق کا مقام بلند تر ہے کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف اس کا قول اس کے اعتقاد کے مطابق ہے بلکہ اس کے عمل کے موافق بھی ہے وہ بھی تمام مواقع پر ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں: جس کا قول اس کے فعل کے ساتھ ہم آہنگ ہو ، وہ سعادت حاصل کرتا ہے اس قسم کا انسان اگر کوشش کرے کہ اس کا قول و فعل اور اعتقاد ہمیشہ ہم آہنگ ہوں تو وہ صدیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اس کے بر عکس جو انسان اپنے قول پر عمل نہیں کرتا ہے وہ منافق اور جھوٹا ہے جیساکہ قرآن مجیدمنافقین کے بارے میں کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی زبانی گواہی دیتے اور دل میں اس کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں کو کاذب اور جھوٹاقرار دیتا ہے فرماتا ہے:

< اِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ اللهِ وَ اللهُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاللهُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ >( منافقون / ۱)

پیغمبر ! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ الله کے رسول ہیں اور الله بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں ․ لیکن الله گواہی دیتا ہے یہ منافقین اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں “

منافقین کی باتوں کے جھوٹ ہونے کی دلیل یہ ہے :

<․․یَقُولُونَ بِاَفْوَاھِھِمْ مَّالَیْسَ فِیْ قُلُوبِھِمْ وَ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا یَکتُمُونَ > (آل عمران / ۱۶۷)

زبان سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا اور اللہ ان کے پوشیدہ امور سے باخبر ہے “

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: جو اپنے کہنے پر عمل نہیں کرتا اسے اپنے آپ کی ملامت کرنی چاہیئے کیونکہ اس کی بات اس امر کی دلیل ہے کہ اس نے حق اور اپنے فریضہ کو پہچانا ہے نتیجہ کے طورپر اس پر حجت تمام ہوئی ہے، فطری بات ہے کہ ایسا شخص جس نے حقیقت کو پہچانا ہے حتی دوسرو ںکو بھی اسکی سفارش کرتا ہے لیکن خود اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتا ہے اسے صرف اپنے آپ کی ملامت کرنی چاہیئے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث دوسروں سے زیادہ مقررین اور واعظین سے مخاطب ہے کہ انہیں اپنی باتوں پر پابند رہنا چاہیئے اور ان کا عمل ان کے قول اور اعتقاد کا انعکاس ہونا چاہیئے۔

خداوند عالم قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی ملامت و سرزنش کرتا ہے اور فرماتا ہے:

< اٴَتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَونَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ اَفَلَا تَعقِلُونَ>(بقرہ /۴۴)

کیا تم ، لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کوبھولے ہوئے ہو جب کہ کتاب خدا کی تلاوت بھی کرتے ہو ، کیا تمہارے پاس عقل نہیں ہے ؟

( ” بھول جانا “ یاد نہ آنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس معنی میں ہے کہ اپنے قول پر عمل نہیں کرتے ہیں کیونکہ ممکن ہے اپنی بات انسان کو یاد ہو لیکن اس پر عمل نہ کرے )

جب انسان ہمدردی کے ساتھ دوسروں کو نصیحت کرتا ہے کہ یہ کام انجام دو اور وہ کام انجام نہ دے تو خود کو کیسے بھول جاتا ہے ! کیا وہ اپنی نسبت دوسروں کیلئے زیادہ ہمدرد ہے ؟ کیا وہ اپنی نسبت دوسروں کو زیادہ دوست رکھتا ہے ؟ ایسی چیز نا قابل یقین ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

” الله الله فِیْ اٴَعَزَّ الْاَنْفُسِ عَلَیْکُمْ وَ اَجَبَّھَا اِلَیکُمْ “ ۱#

خدا سے ڈرو ، خدا سے خوف کھاوٴ! اپنے عزیز ترین اور محبوب ترین اشخاص کے بارے میں “

حضرت کی مراد یہاں پر یہ ہے کہ تم لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ دوست رکھتے ہو اوراگر دوسروں سے محبت کرتے ہو ، تو وہ اس لئے ہے کہ وہ تمہاری کوئی خدمت کرتے ہیں تمہارے لئے لذت ، رفاہ اور سعادت کا وسیلہ فراہم کرتے ہیں اور تم ان کے ساتھ مصاحبت ، گفتگو اورنشست و برخاست میں لذت کا احساس کرتے ہو ، لہذا اصل خود تمہاتی ذات ہت اور تم اپنے لئے دوسروں کو چاہتے ہو اب کس طرح ہمدردی کے ساتھ دوسروں کی نصیحت کرتے ہو ،لیکن خود کو بھول جاتے ہو اور اپنے حال پر ہمدردری نہیں دکھاتے اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل نہیں کرتے ؟!

خداوند تعالی کا ارشاد ہے :

<یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفعَلُونَ کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُولُو مَا لَا تَفْعَلُونَ > ( صف ۳۔۲)

ایمان والو ! آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ؟ الله کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے “

رزق سے محروم ہونے کے سلسلہ میں گناہ کا اثر :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رزق سے محروم ہونے میں گناہ کے رول کے بارے میں حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

” یَا اَبَاذر ! ان الرجل لیحرم رزقہ بالذنب یصیبہ “

اے ابوذر ! انسان گناہ انجام دینے کی وجہ سے اس کے مقدر میں لکھی گئی روزی سے محروم ہوجاتا ہے ۔

یہ اس دنیا میں انسان کیلئے گناہ کے برے اثرات اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی محرومیتوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کا ایک اور بیان ہے ۔

---------------------------------------------------

۱۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خطبہ ، ۱۵۶ ، ص ۴۹۴۔

روایتوں اور موعظوں سے مربوط معرفتوں کے فرق کے مطابق ہر انسان ایک خاص بیان میں گفتگو کرتا ہے اگر کوئی محبت کے مقام پر پہنچتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے تم کیسے عاشق ہو کہ اپنے معشوق کی مخالفت کرتے ہو ؟ عاشق ہمیشہ اس فکر و تلاش میں ہوتا ہے کہ اس کا معشوق اس سے کیا چاہتا ہے تاکہ اسے انجام دے او رکونسی چیز اسے بری لگتی ہے تا کہ اسے ترک کرے، یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کا معشوق اسے کھلم کھلا کہے کہ اس کام کو انجام دو اور اس کام کو ترک کرو ، اور وہ نافرمانی کرے ! جو لوگ خداوند عالم اور اولیائے خدا کی محبت سے مستفیض ہورہے ہیں ان کو گناہ سے روکنے کا یہ بہترین طریقہ ہے ۔

اہل بیت اطہار علیہم السلام سے محبت رکھنے والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ گناہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی ناراضگی کا سبب ہے نیز ان کے نزدیک قابل نفرت اور نا پسندیدہ امر ہے ،گناہ بدبودار مردار کے مانند ہے اور چشم بصیرت اور قوی باطنی حس رکھنے والا انسان اس کی بدبو کو دور سے محسوس کرتا ہے اب جبکہ ایک محب اہل بیت ﷼ کہ جو ان کے تقرب کا خواہاں ہیں وہ کیسے اپنے آپ کو ایک ایسی چیز سے آلودہ کرے گا جس سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو نفرت ہو ؟

اگر کوئی شخص اپنے دوست کی ملاقات کیلئے جاناچاہتا ہو تو وہ پہلے اپنے منہ اور بدن سے بدبو دور کرتا ہے خود کو صاف وپاک او رمعطرکرتا ہے تا کہ اس کا دوست اس سے ناراض نہ ہو گناہ ہمارے وجود میں بدبو اور آلودگی پیدا کرنے کا سبب ہے اگر ہم اہل بیت اطہار علیہم السلام کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، تو ہمیں اپنی روح کو آلودگیوں سے پاک کرنا چاہیئے تا کہ وہ ہمارے ساتھ رابطہ برقرار کرنے پر رضامندی کا اظہار کریں پس خداوند عالم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے محبت رکھنے والوں کو گناہ سے پرہیز کرنے کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے بہترین راستہ یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ان کی محبت کے جذبات کو بر انگیختہ کیا جائے ۔

بے شک واضح ہے کہ واجبات کو انجام دینے والے اور محرمات کو ترک کرنے والے اللہ تعالی کی اساسی محبت رکھتے ہیں لیکن معرفت کے درجات کے لحاظ سے ان کی محبتوں میں فرق ہے : بعض افراد میں یہ محبت شدید ہے بعض میں متوسط اور بعض میں ضعیف کبھی یہ محبت اس حد تک پہنچتی ہے کہ انسان معشوق سے وصال کی راہ میں تمام چیزوں حتی بہشت سے بھی چشم پوشی کرتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے :

” فَھَبْنِیْ یَا اِلٰھی وَ سَیِّدِی وَ مَولایَ وَرَبِّی صَبَرْتُ عَلٰی عَذَابِکَ فَکَیْفَ اَصْبِرُ عَلٰی فِرَاقِکَ “ ( دعای کمیل )

تجھے معلوم ہے اے میرے معبود اے میرے سردار ، اے میرے مولا اے میرے پروردگار میں عذاب پر تو صبر کرلوں گا لیکن تیری جدائی پر کیونکر صبر کروں گا

”مناجات خمسة عشر“ کی نویں مناجات میں ہم پڑھتے ہیں :

” اِلٰھِی مَنْ ذَا الَّذِی ذَاقَ حَلاَوَةَ مَحَبَّتکَ فَرَامَ مِنْکَ بَدَلا“

اے میرے پروردگار ! کون ہے جو تیر ی محبت کا مزہ چکھ لے پھر کسی اور کا انتخاب کرے ؟

اگر کوئی محبت میں اس حد تک نہ پہنچا ہو کہ خداوند عالم اور معصومین علیہم السلام کا عشق اسے گناہوں سے روکے تو اسے گناہ کے عواقب اور انجام سے ڈرانا چاہیے اس کے سامنے عذاب جہنم سے دوچار ہونے ، سعادت و بہشت سے محروم ہونے اور گناہ کے دیگر دنیوی و اخروی برے اثرات کو پیش کرے ۔ جو چیز انسان کو کسی کام کو انجام دینے یا کسی کام کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ ” خوف و رجاء “ ہے یعنی یہ امید کہ اسے کوئی فائدہ پہونچے یا کسی نقصان سے نجات ملے ،پس انسان کی ہدایت کیلئے بہترین اور نزدیک ترین راستہ ، دنیا و آخرت میں گناہ کے برے اثرات کی طرف اس کی توجہ مبذول کرانا ہے ۔

اب اگر کسی کا ایمان آخرت کے بارے میں ضعیف ہو ، تو اسے گناہ سے بچانے کیلئے بہترین راہ یہ ہے کہ اسے گناہ کے دنیوی انجام سے آگاہ کیا جائے یہ وہی روش ہے جس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث کے اس حصہ میں اختیار کیا ہے ۔

چونکہ بعض لوگ آخرت کو دور دیکھتے ہیں جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے آخرت نزدیک اور دست رس میں ہے ،چنانچہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے 

< اِنَّھُمْ یَرَونَہُ بَعِیداً و نَراہُ قَرِیباً > ( معارج / ۶۔ ۷)

”یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں “

گناہ کے دنیوی نقصانات میں سے ایک رزق سے محروم ہونا ہے رزق کے مصادیق میں خوراک اور پوشاک بھی شامل ہے ۔

بہت سی روایتوں میںآیا ہے کہ خداوند عالم نے ہر جاندار کیلئے ایک رزق مقدر فرمایا ہے اور یہ تقدیر کبھی قطعی اور کبھی معلق ہے ،یعنی بعض اعمال کے اثر سے اس میں کمی و زیادتی واقع ہوتی ہے بعض نیک اعمال روزق کے زیادہ ہونے اور بعض برے اعمال ، رزق میں کمی ہونا کا سبب بنتے ہیں ۔

اگر ہم یہ جان لیں کہ جورزق ہمارے لئے مقررہوا ہے۔ کبھی سعی و کوشش کے ذریعہ ہاتھ آتا ہے اور کبھی بغیر زحمت و کوشش کے ملتا ہے ۔ گناہ کے سبب ہم سے چھین لیا جاتا ہے ، تو ہم گناہ کے پیچھے بہت کم جائیں گے۔

گناہ علت و عوامل کی ایک کڑی :

گناہ ضابطوں کو بدلتا ہے اور ظاہری اسباب کو بے اثر کرکے رکھتا ہے قرآن مجید ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ ظاہری اسباب کے علاوہ اور بھی کچھ اسباب جن کا ان کے مسببات سے رابطہ ہمارے لئے محسوس نہیں ہے ۔ قرآن مجید فرماتا ہے :

< وَ مَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ > ( شوریٰ / ۳۰)

”اور تم تک جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہے“

حقیقت میں جس کائنات میں ” علت و معلول “ کا نظام حاکم ہے اس میں کسی بھی مظہر کو بدون علت شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور دوسری طرف سے مصیبتوںکو خداوند عالم سے نسبت نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ محض خیر ہے پس یہ انسان ہے جو مصیبتوں کو خود مول لیتا ہے

خداوند عالم ایک اور جگہ فرماتا ہے :

<․․․․ فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَھُم فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیبَھُم عَذَابٌ اَلِیمٌ> ( نور / ۶۳)

لہذا جو لوگ حکم خد کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس امر سے ڈریں کہ ان تک کوئی فتنہ پہنچے یا ان کے لئے کوئی درد ناک عذاب نازل ہو ،پس قرآن مجید کی آیتیں اس حقیقت کی دلیل ہیں کہ بہت سی مصیبت اور محرومیت گناہ کی پیدا وار ہیں ، چنانچہ نیک اعمال او ر تقویٰ برکتوں اور نعمتوں کے نازل ہونے کا سبب ہیں :

< وَ لَو اَنَّ اَھْلَ الْقُریٰ آمَنُوا وَ اتَّقَو لَفَتَحْنَا عَلَیھِمْ بَرَکاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ الاَرْضِ > ( اعراف / ۹۶)

اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کیلئے زمین اور آسمان کے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “

بعض مواقع پر گناہ اور اس سے وجود میں آئی ہوئی مصیبت کے درمیان رابطہ کم و پیش قابل درک ہوتا ہے ۔

جیسے بعض گناہوں کا انجام کچھ بیماریاں ہوتی ہیں ، لیکن یہ رابطہ تمام مواقع پر محسوس نہیںکیا جاتا ہے : کبھی گناہ کے ایسے اثرات بھی ہوتے ہیں جو انسان کیلئے قابل ادراک نہیں ہیں ؛ مثال کے طورپر ایک غذا تیار تھی او رکھانے کے موقع پر ایک ناپاک چیز اس میں گرگئی اور اسے ناقابل استعمال بنادیا ، ایک غذا آمادہ ہوتی ہے اچانک انسان اسکو کھانے سے محروم ہوجاتا ہے اس رزق کو کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ بھی وسعت دی جا سکتی ہے کیونکہ تمام نعمتیں رزق ہیں،گھر رزق ہے ، گاڑی رزق ہے ، اس کے علاوہ ہر وہ چیز جس سے انسان استفادہ کرتا ہے ، رزق ہے ، ان سے محروم ہونا، بہت سے مواقع پر گناہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے ہے ۔

رزق کو معنوی ارزاق تک وسعت دینی چاہیے کیونکہ جس قدر ہماری روح عروج کے منازل طے کرے ، وہ بھی رزق ہے ، علم و ایمان بھی رزق ہیں ، عبادت کی توفیق بھی رزق ہے ۔

بعض اوقات گناہ میں مبتلا ہونا اس امر کا سبب بنتا ہے کہ انسان عبادت کی انجام دہی سے محروم ہوجائے ایک روایت میں آیا ہے کہ ممکن ہے انسان گناہ کے سبب نمازشب پڑھنے سے محروم ہوجائے اگر چہ وہ سعی بھی کرتا ہے اور اپنے آپ کوآمادہ کرتا ہو کہ بروقت نیند سے اٹھ جائے لیکن یا نیند سے بیدار ہوتا ہے مگر سستی اور کاہلی اس کیلئے مانع ہو جا تی ہے یا بالکل نیند سے بیدار ہی نہیں ہوتا ہے پس عبادت سے سلب توفیق ہونا بھی گناہ کے انجام میں سے ایک ہے ۔

بہر حال گناہ کے برے نتائج کی طرف توجہ کرنا انسان کو گناہ سے روکنے کا سبب بن سکتا ہے یعنی انسان غور کرے کہ گناہ اس کی اقتصادی سعی و جستجو کو ناکام بناکر اسے اس کے رزق سے محروم کردیتا ہے ۔

محرومیوں اور مصیبتوں کا گناہ کے ساتھ ارتباط کے پیش نظر جب کبھی بعض بزرگوں کو کسی مصیبت کا سامنا ہوتا تھا تووہ غورو فکر کرتے تھے کہ کونسی خطا کے مرتکب ہوئے ہیں جو اس مصیبت کا سبب بنی ہے ،نقل کیا گیا ہے کہ ایک دن ایک معلم اخلاق ،تہران میں ایک سڑک کو عبور کررہے تھے ایک حیوان نے انھیں لات ماری ، وہ اسی جگہ پر بیٹھ گئے اور فکر کرنے لگے کہ میں نے کیا کیا ہے جس کی وجہ سے اس حیوان کی طرف سے اذیت و آزار کا سزاوار ہوا !

زبان پر کنٹرول اور بیہودہ کاموں سے اجتناب

” یَا اٴَبَاذَرٍ ! دَعْ مَالَسْتَ مِنْہُ فِیْ شیٴٍ وَلَا تَنْطِقْ فِیْمَا لَا یَعْنِیْکَ وَ اخْزَنْ لِسَانَکَ کَمَا تَخْزَنُ وَ رِقَکَ “ ۱#

اے ابو ذر ! جس کام میںتمھارافائد نہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس کلام میں تمھاراکوئی فائدہ نہ ہو اس کیلئے لب کشائی نہ کرو اور اپنی زبان کو زر و جواہر کے مانند کہ جس کی حفاظت کی تم کوشش کرتے ہو محفوظ رکھو ۔

حدیث کے اس حصہ میں جو مطلب بیان ہوا ہے وہ انسان کو گناہ سے دور رکھنے کیلئے گزشتہ بیانات کا تکملہ ہے جو اپنے آپ کوگناہوں سے بچانا چاہتا ہے اسے اپنے لئے ایک حد مقرر کرنی ہوگی چنانچہ کہا گیا ہے : ” وَ من حام حول الحمی اوشک ان یقی فیہ “ جو کسی چٹان کی چوٹی پر چل رہا ہو اسے ڈرنا چاہیے کہ کہیں نیچے نہ گرجائے ، جو گناہ سے بچنا چاہے اسے اس کے مقدمات سے دوری اختیار کرنی چاہیے اور بعض مباح کاموں کو ترک کرنا چاہیے تاکہ گناہ میں گرفتار نہ ہوجائے ۔

مثال کے طور پر اگر حرام نظر اور نا محرم پر نگاہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے بعض محارم پر نگاہ نہیں ڈالنی چاہیے ،اگر حرام موسیقی کو سننا نہیں چاہتا ہے تو اسے بعض جائز موسیقیوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، اگر چاہتا ہو کہ جھوٹ اور غیبت کا مرتکب نہ ہو تو اسے ایسی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں جھوٹ اور غیبت کا احتمال ہے لیکن انسان کیلئے یہ مشکل ہے کہ ان تمام مباحات سے پرہیز کرے جو اسے گناہ میں مبتلا کرنے کا امکان فراہم کرتے ہیںخاص کر اس کیلئے زیادہ مشکل ہے جوابتدائی مرحلہ میں ہے ، لیکن جو لوگ تکامل نفس کے مراحل میں ہیں ، انہیں خواہ نخواہ اس مرحلہ کو طے کرنا چاہیے۔

 

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر ۻسے نصیحت کرتے ہیں کہ لغو اور بیہودہ کاموں سے اجتناب کرو، چنانچہ قرآن مجید فلاح و کامیابی کو لغو سے دوری اختیار کرنے میں مضمر جانتا ہے:

<قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ ھُمْ فِی صَلَاتِھِمْ خَاشِعُونَ وَ الَّذِین ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ > (مومنون / ۱۔۳)

یقینا صاحبان ایمان کامیاب ہوگئے ، جو اپنی نمازوں میں گڑ گڑا نے والے ہیں اور لغو باتوں سے

-------------------------------------------

۱۔جو روپیہ یا پیسہ گزشتہ زمانے میں رائج تھا وہ سونے اور چاندی کا بنا ہوتا تھا ۔

اعراض کرنے والے ہیں “

جو انسان فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے ، اسے ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جو اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے جس بات میں فائدہ نہ ہو اسے زبان سے نہ کہے حتیٰ ، اگر چہ وہ مباح بھی ہو اور اپنی طاقت کو مفید اور ثمر بخش امور میں صرف کرے ۔

جناب ابوذر ۻ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری سفارش یہ ہے کہ اس گفتگو سے اجتناب کرے جس میں اس کیلئے کوئی فائدہ نہ ہو ۔

انسان کو اپنی زبان کے بارے میں ہوشیا رہنا چاہیے ، حتیٰ مباح گفتگو کرنے سے بھی دوری اختیار کرے کیونکہ کبھی زبان سے ایک ایسا لفظ بھی نکل جاتا ہے جس کے دنیا اور آخرت میں برے نتائج نکلتے ہیں ۔ یہ جو روایتوں میں زیادہ سے زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اپنی زبان کو کنٹرول کرے جو بات ضروری نہیں ہے یا تم سے مربوط نہیں ہے اسے زبان پر جاری نہ کرے ، یہ اس لئے ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی زبان پر کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے جھوٹ ، غیبت ،دوسروں کا مذاق اڑانے اور اسی طرح کی دوسری آفتوں میں مبتلا ہوجاتاہے اسی لئے بعض بزرگان حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ خاموش رہیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جس طرح تم پیسوںا ور سونے کے سکوں کی حفاظت کرتے ہو، اسی طرح اپنی زبان کے تحفظ کی بھی کوشش کرو ، اپنے پیسوں کو تم کیسے محافظت کرتے ہو، انہیں صندوق میں تالا لگاکر بند کرتے ہو اورا سے ایک محفوظ جگہ پر رکھتے ہو ، اسی طرح اپنی زبان ----جو پیسے سے زیادہ قیمتی ہے ---- کی بھی حفاظت کرو ، خداوند عالم نے تمھاری زبان کیلئے حفاظتی دیوار عطا کی ہے ، اس کیلئے دانت اور اس کے سامنے ہونٹ قرار دیئے تا کہ تم اپنی زبان کو ان دیواروں کے درمیان محفوظ رکھو ،پس انسان کو سعی و کوشش کرنی چاہیے تا کہ یہ زبان آزادنہ رہے حتی ایسی مباح گفتگو کرنے سے بھی پرہیز کرے کہ جس میںاس کے لئے کوئی فائدہ نہ ہو اگر تم نے اپنی طاقت کو بیہودہ طورپر خرچ کیا ہے تو ممکن ہے رفتہ رفتہ مشتبہ اور مکروہ اور آخر کا ر محرمات اور گناہان کبیر ہ میں مبتلاہوجاوٴ : دوسروں کے بارے میں گفتگو کرنے اور اس کی غیبت کرنے میں کتنا فاصلہ ہے ؟ مباح گفتگو اور غیبت کے درمیان کہ جو ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ اپنے محارم سے خانہ کعبہ میں ستر بار زنا کرنے سے بد تر ہے کوئی فاصلہ نہیںہے اور ہم اس فاصلہ کو رفتہ رفتہ ختم کررہے ہیں اور اس خطرنا ک گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں ۔


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment