اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله)کے ذریعه کس طرح مکه فتح هوا؟

حدیبیہ کے عہد و پیمان اور صلح کے بعد کفّار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کو نظر اندز کردیا ۔ اور پیغمبر کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیادتی کی،آپ کے حلیفوں نے آنحضرت سے شکایت کی تو رسول اللہ نے اپنے حلفیو ں کی مدد کرنے کا ارادہ کر لیا۔
اور دوسری طرف مکہّ میں بت پر ستی، شرک اور نفاق کا جو مر کز قائم تھا اس کے ختم ہونے کے تمام حا لات فراہم ہو گئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ہر حالت میں انجام دینا ضروری تھا“ اس لیے پیغمبر خدا کے حکم سے مکہّ کی طرف جانے کے لیے آمادہ ہو گئے۔
فتح مکہّ تین مراحل میں انجام پائی:۔
پہلا مر حلہ مقد ماتی تھا،یعنی ضروری قواء اور توا نائیوں کو فرا ہم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی رو حانی قوّت وتوانائی کی مقدار و کیفیّت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کر نا تھا۔
دوسرا مر حلہ، فتح کے مرحلہ کو بہت ہی ماہرانہ اور ضا ئعات وتلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آ ثار و نتا ئج کا مرحلہ تھا۔
۱۔ یہ مرحلہ انتہائی دقت،باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا،خصوصاََ رسول اللہ نے مکہّ ومد ینہ کی شا ہراہ کو اس طرح سے قرق کر لیا تھا کہ اس عظیم آماد گی کی خبر کسی طرح سے بھی اہلِ مکہّ کو نہ پہنچ سکی ۔اس لیے انہو ںنے کسی قسم کی تیاری نہ کی،وہ مکمل طور پرغفلت میں پڑے رہے اور اسی وجہ سے اس مقدّس سر زمین میں اس عظیم حملے اور بہت بڑی فتح میں تقریباََ کوئی خون نہیں بہا۔
یہاں تک کہ وہ خط بھی، جو ایک ضعیف الایمان” مسلمان حا طب بن ابی بلتعہ“نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ ”مز ینہ“ کی ایک عورت ”کفود“یا ”سارہ“ نامی کے ہاتھ مکہ ّ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم کے لیے آشکار ہو گیا۔علی علیہ السلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ تیزی سے اس کے پیچھے روانہ ہوئے،اُنہونے اس عورت کومکہّ و مدینہ کی ایک در میانی منزل میں جا لیااوراس سے وہ خط لے کر خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے،جس کی داستان سورہ ممتحنہ کی پہلی آیت کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہے 
بہر حال پیغمبراکرم مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقر ر کرکے ہجرت کے آٹھویں سال ماہِ رمضان کی دس تاریخ کو مکہّ کی طرف چل پڑے،اور دس دن کے بعدمکہّ پہنچ گئے۔ 
پیغمبر اکرم نے راستے کے وسط میں اپنے چچاعباسۻ کو دیکھا کہ وہ مکہّ سے ہجرت کر کے آپ کی طرف آرہے ہیں۔ حضرت نے ان سے فر مایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ہمارے ساتھ چلیں،اور آپ آخری مہاجر ہیں۔
۲۔آخر کار مسلمان مکہّ کے قریب پہنچ گئے اور شہر کے باہر،اطراف کے بیانوں میں اس مقام پر جسے ”مرّالظہران“ کہا جا تا تھا اور جو مکہّ سے چند کلو میٹر سے زیادہ فا صلہ پر نہ تھا ،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لیے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے ) وہاںآگ رو شن کر دی ۔اہلِ مکہّ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے ۔
ابھی تک پیغمبر اکرم اور لشکرِاسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنہا ں تھیں۔اس رات اہلِ مکہّ کا سر غنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سر غنے خبریں معلوم کرنے کے لیے مکہّ سے باہر نکلے۔اس موقع پر پیغمبر اکرم کے چچا عباس ۻ نے سو چا کہ اگررسول اللہ قہر آلودہ طریقہ پر مکہّ میں وارد ہوئے تو قریش میںسے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔انہوں نے پیغمبر اکرم سے اجازت لی اور آپ کی سواری پر سوار ہو کر کہا کہ میں جاتا ہوں، شاید کوئی مل جا ئے تو ا س سے کہو ں کہ اہل مکہّ کو اس ماجرے سے آگاہ کر دے تاکہ وہ آکر امان حاصل کرلیں۔
عباس وہاں روانہ ہو کربہت قریب پہنچ گئے۔اتفا قاََاس موقع پرانہوںنے”ابو سفیان “ کی آواز سنی جو اپنے ایک دوست ”بدیل “ سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نہیں دیکھی ۔”بدیل نے“ کہا : میرا خیال ہے کہ یہ آگ قبیلہ ”خزاعہ“ نے جلائی ہوئی ہے ابو سفیان نے کہا:قبیلہ خزاعہ اس سے کہیں زیادہ ذلیل و خوار ہیں کہ وہ اتنی آگ رو شن کریں۔
اس موقع پر”عباس“نے ” ابو سفیان “ کو پکارا۔ابو سفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کہا سچ سچ بتاؤکیابات ہے؟عباس نے جواب دیا یہ رسول اللہ ہیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمہاری طرف آرہے ہیں۔ابو سفیان سخت پریشان ہوا اور کہا:آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں۔ 
عباس نے کہا: میرے ساتھ آؤاور رسول اللہ سے امان لے لو ورنہ قتل کر دیے جا ؤ گے ۔اس طرح سے عباس نے” ابو سفیان “ کواپنے ہمراہ رسول اللہ کی سواری پر ہی سوار کر لیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ کی خدمت میںپلٹ آئے ۔وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یہی کہتے کہ یہ توپیغمبر کے چچا ہیں جو آنحضرت کی سواری پر سوار ہیں کوئی غیر آدمی نہیں ہے۔یہا ں تک وہ اس مقام پرآئے جہاںعمر ابنِ خطابۻ تھے ۔جب عمر بن خطاب ۻ کی نگاہ ابوسفیان پر پڑی تو کہا:خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ (ابو سفیان)پر مسلط کیا ہے ،اب تیرے لیے کوئی ا مان نہیں ہے اور فوراََہی پیغمبر کی خدمت میں آکر آپ سے (ابو سفیان) کی گردن اُڑانے کی اجازت مانگی۔
لیکن اتنے میں عباس بھی پہنچ گئے اور کہا : کہ اے رسول ِ خدا میں نے اسے پناہ دے دی ہے ۔پیغمبر اکرم نے فر مایا: میںبھی سر ِدست اسے امان دیتا ہوں۔کل آپ اسے میرے پاس لے آئیں۔اگلے دن جب عباسۻاسے پیغمبر کی خدمت میںلائے تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا :”اے ابو سفیان !وائے ہو تجھ پر،کیا وہ و قت ابھی نہیں آیا کہ تو خدا ئے یگانہ پر ایمان لے آئے۔ اس نے عرض کیا :ہاں!اے رسول ِخدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے ،اگر بتوں سے کچھ ہو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا ۔
آپ نے فرمایا:”کیا وہ موقع نہیںآیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔“اس نے عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوںابھی اس بارے میں میرے دل میںکچھ شک و شبہ موجود ہے۔لیکن آخر کار ابو سفیان اور اس کے ساتھیوںمیں سے دو آدمی مسلمان ہو گئے۔
پیغمبر اکرم نے عباس ۻکو فر مایا:
”ابو سفیان کو اس درہ ّمیں جو مکہّ کی گزر گاہ ہے ،لے جاؤتاکہ خدا کالشکر وہاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے۔“عباسۻ نے عرض کیا:”ابو سفیان ایک جاہ طلب آدمی ہے،اس کو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے۔پیغمبر نے فرمایا:”جو شخص ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے ،جو شخص مسجد الحرام میںپناہ لے لے وہ امان میں ہے ،جو شخص اپنے گھر کے اندررہے اور دروازہ بند کر لے وہ بھی امان میں ہے۔“
بہر حال جب ابو سفیان نے اس لشکرِعظیم کو دیکھاتو اسے یقین ہو گیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہی اور اس نے عباس کی طرف رخ کرکے کہا :آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی ہو گئی ہے۔عباس نے کہا :وائے ہو تجھ پریہ سلطنت نہیں نبوت ہے۔
اس کے بعد عباس نے اس سے کہاکہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہّ والوں کے پاس جاکر انہیں لشکراسلام کامقابلہ کرنے سے ڈرا۔ 
ابو سفیان نے مسجد الحرام میںجا کر پکار کر کہا:
”اے جمعیت قریش محمّد اد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمہاری طرف آیا ہے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔اس کہ بعد اس نے کہا:جو شخص میرے گھرمیں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے ،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ہے اورجو شخص اپنے گھر میںرہتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کرے وہ بھی امان میں ہے ۔
اس کے بعداس نے چیخ کر کہا :اے جمعیت قریش اسلام قبول کر لو تاکہ سالم رہواور بچ جاؤ،اس کی بیوی ”ہندہ“نے اس کی داڑھی پکڑلی اور چیخ کر کہا:اس بڈھے احمق کو قتل کر دو۔ابو سفیان نے کہا:میری داڑھی چھوڑدے۔خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تُوبھی قتل ہو جائے گی،جاکر گھر میں بیٹھ جا۔اس کے بعد پیغمبر اسلام لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے اور”ذوی طوی “ کے مقام تک پہنچ گئے،وہی بلندمقام جہاںسے مکہّ کے مکا نات صاف نظر آتے ہیں،پیغمبر کو وہ دن یاد آگیا جب آپ مجبور ہوکر مخفی طور پرمکہ ّ سے باہر نکلے تھے،لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں ،توآپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی اور سجدہ شکر بجا لائے۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم ”حجون“میں( مکہّ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جہاں خدیجہ کی قبر ہے)اُترے ،غسل کر کے اسلحہ اور لباسِ جنگ پہن کر اپنی سواری پر سوار ہوئے،سورہ فتح کی قرات کرتے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آواز تکبیر بلند کی ۔لشکر اسلام نے بھی نعرئہ تکبیر بلند کیا تواس سے سارے دشت وکوہ گونج اٹھے
اس کے بعد آپ اپنے اُونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لیے خانہ کعبہ کے قریب آئے۔آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سر نگوں کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:”جاء الحق وزھق ا لباطل ان الباطل کان زھوقا”حق آگیا اور باطل مٹ گیا،اور باطل ہے ہی مٹنے والا“۔
کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپرنصب تھے ،جن تک پیغمبرکا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا۔آپ نے امیرالمو منین علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپدوش مبارک پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتو ں کوزمین پر گرا کر توڑ ڈالیں۔علی نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔ 
اس کے بعد آپ نے خانہ کعبہ کی کلید لے کردروازہ کھولااور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانہ کعبہ کے اندر درو دیوار پر بنی ہوئی تھیں،محور کر دیا۔
۳۔اس سریع اور شاندار کامیابی کے بعد پیغمبر نے خانہ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ہاتھ ڈالا اور وہاں پر موجود اہلِ مکہّ کی طرف رخ کر کے فرمایا:
”اب بتلاؤ تم کیا کہتے ہو؟اور تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے بارے میں کیاحکم دوں گا؟انہو ں نے عرض کیا:ہم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سوااور کوئی توقع نہیں رکھتے !آپ ہمارے بزرگوار بھائی اور آپ ہمارے بزر گوار بھائی کے فر زند ہیں۔آج آپ برسرِاقتدارآگئے ہیں ،ہمیں بخش دیجئے۔پیغمبر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اور مکہّ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے ۔پیغمبر اکرم نے فر مایا:”میں تمہارے بارے میںوہی بات کہتا ہوںجو میرے بھائی یوسف نے کہی تھی کہ آج تمہارے اوپر کسی قسم کی کوئی سر ز نش اور ملامت نہیں ہے،خدا تمہیں بخش دے گا،وہ ارحم الراحمین ہے۔“ 
اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کر دیا اور فر مایا:”تم سب آزاد ہو،جہاں چا ہو جا سکتے ہو۔
یہا ں تک کہ جب آپنے یہ سنا کہ لشکرِاسلام کے علمدار”سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ:الیوم یوم الملحمة”آج انتقام کا دن ہے“تو پیغمبر نے علی علیہ السلام سے فرمایا۔۔۔۔۔جلدی سے جاکر اس علم کو لے لو اور اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاوٴکہ : الیوم یوم المرحمة“ آج عفو و بخشش اور رحمت کا دن ہے“۔ 
اور اسی طرح مکہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہو گیا ،، عفو و رحمت ِ اسلامی کی اس کشش نے، جس کی انہیں بالکل توقع نہیں تھیں ، دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ گروہ آکر مسلمان ہو گئے، اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جاپہنچی۔
اسلام کی شہرت ہرجگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ہرجیت سے دھاک بیٹھ گئی۔ 


source : http://urdu.makarem.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment