اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

یوم خواتین اور خواتین کا مقام اسلام و مغرب کی نظر میں۔

ہر سال آٹھ مارچ کو مغربی تہذیب سے متاثرہ دنیا حتی کہ اکثر اسلامی ممالک  بشمول پاکستان ماسوائے  ایک اسلامی ملک کے یوم خواتین منایا جاتا ہے۔۔حالانکہ اسلام نے بحثیت ماں بہن و بیوی عورت کوچودہ سو سال پہلے وہ حقوق عطا کئے،جس کا مغرب تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ مغرب نے ہمیشہ عورت کی تذلیل کرکے اس کو ایک کاروباری شو پیس کی طرح پیش کیا۔

یہاں ان مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے کبھی دیکھا ہے کہ مغرب نے اسلامی ایام جیسے عید الفطر عید الاضحی ہمارے ساتھ ہمارے طریقے پر منائیں ہیں؟

اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ہم کیوں مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔۔۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام نعوز باللہ مکمل ضابطئہ حیات نہیں یا پھر مغرب اسلام سے آگے ہیں۔ یہاں ہم چند مغربی خواتین بالخصوص برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلئیر کی نو مسلم سالی لوئرن بوتھ سمیت ناروے کی ایک نو مسلم خاتون کی انٹرویو کا حوالہ اور تفصیل دے کر کہیں گے کہ اسلاممیں خواتین کا کتنا مقام ہے اور مغرب میں کتنا مقام ہے اور یوں دودہ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی جیسے عظیم شخصیت نے انقلاب اسلامی برپا کرنے کے بعد بیس جمادی الثانی یوم ظہور پرنور خاتون جنت سیدہ النسا العالمین کو عالمی یوم خواتین قرار دے کر ثابت کردیا کہ اسلام ذندہ دین اور تمام مسائل کا حل دینے والا مکمل ضابطئہ حیات ہے۔ اسلام قبول کرنے والی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سالی لاورن بوتھ (جس کی قبول اسلام کے بعد پردے و حجاب میں تصویر اور قبول اسلام سے پہلے بے حجاج تصویر منسلک ہے اور اسلام و مغرب میں خواتین کے مقام کی آئینہ دار ثبوت ہے)نے، کہا ہے کہ اسلام کا احترام اور اس میں دلچسپی ان کے دورہ غزہ سے شروع ہوئی۔

انھوں نے کہا: چھ ہفتے قبل جب میں ایران آئی اور قم میں کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے حرم مشرف ہوئی تو وہاں میں نے پہلی بار اللہ کے ساتھ ربط و تعلق محسوس کیا اور یہ اللہ کے ساتھ میرے رابطے کا پہلا تجربہ تھا۔

لاورن بوتھ نے کہا کہ حضرت معصومہ (س) کے حرم میں میں ضریح کی جانب گئی اور اپنے ہاتھ سے اسے چھوا تو میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے "اللہ تیرا شکر"۔

انہوں نے کہا کہ یہ الفاظ غیرارادی طور پر میرے منہ سے نکلے کیونکہ میں مسلمان نہیں تھی، میں نے اس سفر پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس کی وجہ سے مجھے اس حرم کی زیارت نصیب ہوئی۔

لاورن بوتھ نے فارس نیوز ایجنسی کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے قبول اسلام قبول کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ پہلی بار جب میں نے اسلام کو سمجھا اور اس کے لئے احترام کی قائل ہوئی تو وہ غزہ میں 2005 کا سال تھا۔

انھوں نے کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے خلاف جد و جہد کے لیے فلسطینی عوام متحد ہوجائیں۔

اسی طرح

اسلام قبول کرنے والی ناورے کی ایک خاتون کی یادیں

میرا مسلمان ہونا میرےاہل خانہ کے لیۓ قابل قبول نہ تھا ۔ میری ماں نے مجھے گھر سے نکال دیا اور میں کئ دنوں تک ناروے کے مسلمان گھروں میں رہی۔  فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اوسلو میں مقیم مونیکا ہانگسلم نے "اقرا ء،، ٹیلی وژن پر اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوۓ کہ اس نے کیوں اسلام قبول کیا کہا کہ میں نہ صرف پردے کو  عورت کی توھین  نہیں سمجھتی بلکہ میں اسے عورت کی سہولت اور آسانی کے لۓ انتہائی ضروری سمجھتی ہوں ۔ مونیکا کہتی ہیں میں نے اتفاقا اسلام قبول نہیں کیا ھے بلکہ یہ مسئلہ چند سال پرانا ھے میں اس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں مرد رات کو نشہ میں دھت  گھر آتے ہیں اور اپنی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی اور اس کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں ۔ میں نے اسلام کو ایک امن ، صلح اور رحمت  کا دین سمجھ کر انتخاب کیا ھے اس سے پہلے کہ میں اسلام کو قبول کرتی میں نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا اور اس کا انجیل سے موازنہ کیا اس کے بعد میں قرآن کی الہی تعلیمات کی مجزوب ہو گئي مونیکا کے بقول اس نے نہ صرف قرآن مجید کا مطالعہ کیا بلکہ فقہ اور سیرت پیغامبر سے بھی آشنائي پیدا کی۔ نومسلم مو نیکا کہتی ہیں یورپ میں لوگ انجیل کا نام تو لیتے لیکن بدقسمتی سے اس پر  عمل نہیں کرتے لیکن جن مسلمانوں نے مجھے اسلام اور قرآن سے آشنا کیا وہ خدائی اور قرآنی تعلمات پر عمل پیرا ہیں اور جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ھے اس کا خاص خیال  کرتے ہیں ۔ یہ وہ چند اھم چیزیں تھیں جن کو دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا ۔

مونیکا  کہتی ہیں انجیل کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی میں اس کے مطالب کو نہ تو صحیح سمجھ سکی اور نہ وہ قابل عمل تھے لہذا میں نے انجیل کو کنارے پر رکھ کر قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا ۔ قرآنی مطالب نے مجھے حیران کر دیا اور  میں نے ان سے بہت ذیادہ استفادہ کیا۔ میں سورہ توحید کے مطالعے اور تلاوت کوقرآن سے عشق کا آغاز اور اپنے لیے امن و سلامتی سمجھتی ہوں مونیکا کہتی ہیں  میں اس پر بہت ذیادہ خوش ہوں کہ اس وقت میری بہت سی سہلییاں  بھی اسلام قبول کر چکی ہیں اور میں بھی ایک مسلمان ہوں مونیکا اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے خاندان کے رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہتی ہیں میرے گھرانے کے لیۓ میرا اسلام قبول کرنا ناقابل قبول تھا ۔ میری ماں نے مجھے گھر سے نکال دیا میں کافی عرصے تک مسلمان گھروں میں رہتی رہی۔ اس میں کوئي شک نہیں میرا مسلمان ہونا شروع میں میرے گھر والوں کے لیئے ایک بڑی مصیبت اور بحران کی مانند تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے حقیقت کو تسلیم کر لیا اور مجھے گھر میں واپس بلا لیا ۔

مونیکا ہانگسلم نے اس سوال کے جواب میں کہ بعض لوگ اس طرح کے شکوک و شبھات کا اظہار کرتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات میں عورتوں کے موجودہ امور کے بارے میں کوئی ھدایت نہیں ھے کہا ناروے کے زرائع ابلاغ اسلام کی صحیح  تعلیمات اورحقیقی شناخت سے محروم ہیں ۔ وہ اسلام کی حقیقت کو لوگوں کو بتانے سے قاصر ہیں ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ  دین اسلام سے ذیادہ کوئي دین عورت کی عظمت اور احترام کا قائل  نہیں ھے اسلام عورت کی آزادی اور اکرام پر خصوصی توجہ دیتا ھے ۔

مغرب کی نظر میں عورت کی آزادی کا یہ مطلب ھے کہ وہ کپڑے اتارکر یا نیم برہنہ ہو کر سڑکوں پر گھومے پھرے آزادی کا حقیقی مفہوم یہ نہیں ھے میرا یہ عقیدہ ھے کہ اسلام نے عورت کو مکمل آزادی عطا کی ھے اور میں نہ صرف یہ کہ اسلامی پردے کو عورت کی توھین نہیں سمجھتی بلکہ حجاب اور پردے کو عورت کی سہولت اور آسانی کے لیۓ ضروری سمجھتی ہوں ۔

مونیکا اپنی روز مرہ کی مصروفیات کی تفصیلات بتاتے ہوے کہتی ہیں میں آجکل ناروے کی بعض مسلمان خواتین کے ساتھ مل کر اسلامی تعلیمات کی تعلیم و تربیت کا پروگرام چلا رہی ہوں ۔ ناروے کے مسلمان اسلام کی وجہ سے گونا گوں مشکلات کا شکار ہیں ۔ یہاں کے مسلمان بچے مسلمان اساتذہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسلامی تعلیمات سے دور ہیں لہذا مسلمان آبادی میں ایک مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا گیا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ  سے یہ منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا ھے۔ مونیکا مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی زیارت کے بارے میں کہتی ہیں میں جب مکہ مکرمہ پہنچی تو تو میرے اوپر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور مسجد الحرام کی زیارت کے وقت تو مجھے ایسے محسوس ہواجیسے میں خدا کے بہت ہی قریب آ گئی ہوں ۔ میری آرزو ھے کہ یہ زیارت مجھے بار بار نصیب ہو اور اسلام پوری دنیا میں پھیل جاۓ ۔ مونیکا ایک شادی شدہ خاتون ہیں اور اس کے تین بچے ہیں جو قرآن پاک کو صحیح عربی لہجے میں تلاوت کرتے ہیں یہ پورا خاندان اسلام کے سا ۓ میں خدا پر ایمان رکھتے ہوۓ مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔

ان دو مغربی خواتین کے اسلام کے نظریہ حقوق نسواں کے حوالے سے آرا دیکھ کر اور امام خمینیؒ جیسے عظیم شخصیت نے انقلاب اسلامی برپا کرنے کے بعد بیس جمادی الثانی یوم ظہور پرنور خاتون جنت سیدہ النسا العالمین کو عالمی یوم خواتین قرار دے کر ثابت کردیا کہ اسلام ذندہ دین اور تمام مسائل کا حل دینے والا مکمل ضابطئہ حیات قرار دینے کے لئے کیا پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وم مغرب کی اندھی تقلید آٹھ مارچ یوم خواتین منانے کی بجائےبیس جمادی الثانی یوم ظہور پرنور خاتون جنت سیدہ النسا العالمین کو عالمی یوم خواتین قرار دے کر اسلام کی آفاقیت کو ذندہ کردیں۔

بیس جمادی الثانی  بحثیت عالمی یوم خواتین، روز یوم ظہور پرنور خاتون جنت سیدہ النسا العالمین اہمیت و تقاضے:۔

نام، القاب

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

کنیت

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔

پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے  رشد  پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔

والدین

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ  باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے  اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں :" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن  پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ کہتی ھیں : میں یہ  بات کہہ کر بہت شرمندہ  ھوئی اور  میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔

حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ  اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔

ولادت

حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختیاف ہے۔  لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی  ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔

بچپن اور تربیت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں .

جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے   بچپن میں بہت سے  ناگوار  حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں  سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو  اسلام کے  دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔  مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

حضرت فاطمہ(س) کی شادی

یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے  ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔

مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔

آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف  میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔

مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟

حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔  چونکہ مشیت الٰھی بھی  یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی  رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ  زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ  میرے نزدیک ھیں ۔  علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟

حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا  مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے  ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔

شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی  اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے  بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔

حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار

حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا   کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت،  اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی  اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے  ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا  اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔  وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔

حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔  آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا،  چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔  ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے  ۳۴ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔  جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں  کرتی تھیں بلکہ  اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔  اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔  گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ  کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت  پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا .

"کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

حضرت زہرا(س) اور جہاد

اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں  رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب  علی علیہ السّلام خون  آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح  سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا  میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئ دن تک  ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کی یہ  آیت نازل ہوئی کہ" اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور الله کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے الله کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں .» "

عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول الله اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی  علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے .

فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔   محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے  کے لئے جاتے تھے.

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س)  ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے  ساتھ نہ تھا .

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں

سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً

" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "

" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."

" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "

" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "

" جس نے آپ کو ایذا دی  اس نے رسول کو ایذا دی"

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .

فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں

افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے رسول کے جانے کے بعد اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا ۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔ . انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کر دیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں  اور وہی آپ کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم  کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ

صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا  صبّت علی الایّام صرن لیالیا

یعنی "مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات

میں تبدیل ہو جاتے"۔سیدہ عالم  کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک،  فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چلا جانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ اپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا .

حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیتیں

حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے . اسما(رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں

اور پیغمبر کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا کی تھی۔ ا سکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے  میرے دل میں زخم  پیدا کر دئے ہیں ۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

شہادت

سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3 مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی(رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ  پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا . آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ اپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول کا جزو بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو   8 شوال سن ۱۳۴۴ھجری قمری میں ابن سعود  نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہ السّلام کے ساتھ منہدم کرا دیا۔

اولاد

حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں ۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام . پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت امِ کلثوم ۔ نویں سال جناب محسن علیہ السلام  بطن میں تھے جب ھی وہ  ناگوار مصائب پیش آئے جن کے سبب سے وہ دنیا میں تشریف نہ لا سکے اور بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے  حضرت سیّدہ بھی جانبر نہ ہوسکیں .لہذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السّلام اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و امِ کلثوم  کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں .

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کي مختصر ليکن برکتوں سے سرشار عمر

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھا ہے۔ اٹھارہ سال کی مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار عمر، اس قدر زیبا، پر شکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے محققین قلمبند کرچکے ہیں پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدۃ النساء العالمین کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہوسکا ہے۔  آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہا ہے ۔ پھر بھی علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی چھٹی جلد میں معصومۂ عالم کی ولادت سے متعلق احادیث و روایات میں نقل شدہ جن تمہیدوں اور تذکروں کو قلمبند کیا ہے وہ خود ایک مبارک و مسعود وجود اور غیر معمولی انسان کے ظہور پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح کی روایات حتی اہلبیت پیغمبر(س)میں بھی کسی اور کے لئے نقل نہیں ہوئی ہیں ۔ خانۂ وحی و رسالت میں جس وقت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں، حضور اکرم(ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم(ص) کو خدا نے کوئی بیٹا طول عمر کے ساتھ کیوں عطا نہیں فرمایا جو بھی بیٹے دیئے بچپنے میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے ۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو «ابتر» اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے آپ تو  «بے جانشین»  اور «بے چراغ»  ہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا(س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام(ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورۂ  کوثر نازل کردی ۔

"اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے"

سورۂ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھا ہے سورۂ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک دن ہم مسجدالنبی میں بیٹھے تھے ایک قاری نے آیت فی بیوت اذن اللہ ۔۔۔ کی تلاوت کی میں نے سوال کیا : اے خدا کے رسول یہ گھر کون سے گھر ہیں ؟ حضرت نے جواب میں  فرمایا : " انبیا(ع) کے گھر ہیں پھر اپنے ہاتھ سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف اشارہ فرمایا ۔" مورخین نے جیسا کہ لکھا ہے : جناب فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی، سخت ترین مصیبتوں سے روبرو رہی ہے اور آپ نے ہمیشہ اپنی بے مثال معنوی قوتوں اور جذبوں سے کام لیکر نہ صرف یہ کہ مشکلات کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ہر مرحلے میں اپنے مدبرانہ عمل و رفتار اور محکم و استوار عزم سے بڑے بڑے فتنوں اور سازشوں کا سدباب کیا ہے ۔ گویا ان آزمائشوں سے گزرنے کے لئے قدرت نے ان کا انتخاب کیا تھا کیونکہ کوئی اور ان کو تحمل نہیں کرسکتا تھا اور یہ وہ حقیقت ہے جو صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر محقق جانتا اور تائید کرتا ہے ۔

معصومۂ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام(ص) نے کہ جن کی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ(س) کی حیات کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیا ہے ۔ ام المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ(س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے سفر سے جب بھی پلٹٹے بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ(س)کی احوال پرسی کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا : خدا نے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا، کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟! تو رسول اکرم(ص) نے جواب دیا :«فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں»

امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت ہے کہ پيغمبر اسلام(ص)نے جناب فاطمہ(س) کي تعريف کرتے ہوئے ايک موقع پر فرمايا :خدا نے فاطمہ کا نور زمين و آسمان کي خلقت سے بھي پہلے خلق کيا،

کسي نے سوال کيا : پس فاطمہ انسان کي جنس سے نہيں ہيں ؟!

تو رسول اکرم(ص) نے جواب ديا :«فاطمہ انساني لبادہ ميں ايک حور ہيں


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق
اسلامی بیداری كے تین مرحلے
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
بیت المقدس خطرے میں ہے/ فلسطین کی آزادی صرف ...
اعمال مشترکہ ماہ رجب
اسلامی قوانین کا امتیاز
رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو
اسلام قبول کرنے والی ناورے کی ایک خاتون کی یادیں

 
user comment