اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ (1)

 

ولايت فقيہ كى ابتداء آغاز فقہ سے ہى ہوتى ہے_ فقہ اور اجتہاد كى ابتدائ تاريخ سے ہى فقيہ كى بعض امور ميں ولايت كا اعتقاد پايا جاتا ہے _ اس وجہ سے اسے'' فقہ شيعہ'' كے مسلّمات ميں سے سمجھا جاسكتا ہے_ ولايت فقيہ كے متعلق جو شيعہ علماء ميں اختلاف پاياجاتا ہے_ وہ اس كى حدود وقيود اور اختيارات ميں ہے نہ كہ اصل ولايت فقيہ ميں_

قضاوت اور امور حسبيّہ(1) جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت پر سب متفق ہيں_جبكہ اس سے وسيع تر امورميں اختلاف ہے_ يعنى معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور ميں فقيہ ولايت ركھتا ہے يا نہيں ؟ اسے

--------------------------------------------------------------------------------

1) امور حسبيّہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے چھوڑ دينے پر شارع مقدس كسى صورت ميں بھى راضى نہيں ہے مثلاً بچوں ، ديوانوں اور بے شعور افراد كى سرپرستى _لفظ ''حسبہ' كے معنى اجر اور ثواب كے ہيں _ عام طور پر اس كا اطلاق ان امور پر ہوتا ہے جو اخروى اجر و ثواب كيلئے انجام ديئے جاتے ہيںاور كبھى قربت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _وہ كام امور حسبيّہ ميں شمار ہوتے ہيں جنہيں قربت خدا كيلئے انجام ديا جاتا ہے يا در ہے كہ امور حسبيّہ واجبات كفائي نہيں ہيں _ كيونكہ واجبات كفائي ان امور كو كہتے ہيں جنہيں ہر شخص انجام دے سكتا ہے اور بعض كے انجام دينے سے دوسروں سے ساقط ہوجاتے ہيں جبكہ امور حسبيّہ ميں تصرف كا حق يا تو صرف فقيہ عادل كے ساتھ مخصوص ہے يا پھر كم از كم فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے حق تصرف نہيں ركھتے _

''ولايت عامہ فقيہ'' يا ''معصومين كى نيابت عامہ'' سے بھى تعبير كيا جاتا ہے_ فقيہ كى ولايت عامہ سے مراد يہ ہے كہ فقيہ عادل نہ صرف اجرائے احكام ، قضاوت اور امور حسبيّہ ميں امام معصوم كا نائب ہے بلكہ امام كى تمام قابل نيابت خصوصيات كا بھى حامل ہو تا ہے_

ولايت فقيہ كے بعض مخالفين يہ باور كرانا چاہتے ہيں كہ شيعہ فقہ كى تاريخ ميں ولايت عامہ فقيہ كى بحث ايك نئي بحث ہے جو آخرى دو صديوں ميں منظر عام پر آئي ہے جبكہ شيعہ فقہ كى طويل تاريخ ميں اس سے پہلے اس كا كوئي وجود نہيں ملتا حالانكہ فقاہت تشيع كے تمام ادوار ميں اس نظريہ كے قابل اعتبار قائلين موجود رہے ہيں بلكہ بعض بڑے بڑے شيعہ علماء و فقہاء نے اس كے متعلق فتوے بھى ديئے ہيں اور بعض علماء نے اس كے متعلق اجماع كادعوى بھى كيا ہے_ يہاں ہم صرف تين بزرگ فقہاء كے كلام كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

دسويں صدى كے عظيم شيعہ فقيہ جناب محقق كر كى جامع الشرائط فقيہ كيلئے امام كى نيابت عامہ كو اجماعى اور متفق عليہ سمجھتے ہيں اور كہتے ہيں : اس ولايت كا نہ ہونا شيعوں كے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_(1)

عظيم كتاب ''جواہر الكلام'' كے مصنف اور نامور شيعہ فقيہ شيخ محمد حسن نجفى امر بالمعروف كى بحث كے دوران امام معصوم كے تمام مناصب ميں فقيہ عادل كى نيابت كو شيعہ علماء كے نزديك ايك مسلّم حقيقت سمجھتے ہيں _ ان كا كہنا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ سے انكار شيعوں كے بہت سے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_ اور جنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ كا انكار يا اس ميں شك كيا ہے انہوں نے نہ تو فقہ كے مزہ كو چكھا ہے اور نہ ہى معصومين كے كلام كے رموز كو سمجھا ہے(2)_آپ فرماتے ہيں:

--------------------------------------------------------------------------------

1) رسائل محقق كركى جلد 1 ، صفحہ 142، 143_ رسالة فى صلاة الجمعة_

2) آپ كى آنے والى عبارت كا ترجمہ بھى تقريبا يہى ہے ( مترجم)

ثبوت النيابة لہم فى كثير من المواضع على وجہ يظہر منہ عدم الفرق بين مناصب الامام اجمع ، بل يمكن دعوى المفروغية منہ بين الاصحاب، فانّ كتبھم مملوء ة بالرجوع الى الحاكم ، المراد منہ نائب الغيبة فى سائر المواضع ... لو لا عموم الولاية لبقى كثير من الامور المتعلّقة بشيعتہم معطّلة _ فمن الغريب وسوسة بعض الناس فى ذلك بل كانّہ ما ذاق من طعم الفقہ شيئاً، و لا فہم من لَحن قولہم و رموزہم امراً(1)

فقيہ متبحر آقا رضا ہمدانى فقيہ عادل كيلئے امام كى نيابت اور جانشينى كے مسلّمہ ہونے كے متعلق يوں فرماتے ہيں:

زمانہ غيبت ميں اس قسم كے امور (وہ امور عامہ جن ميں ہر قوم اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتى ہے) ميں جامع الشرائط فقيہ كے امام كے جانشين ہونے ميں شك و ترديد معقول نہيں ہے جبكہ علماء كے اقوال بھى اس بات كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ ان كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہ بات امور مسلّمہ ميں سے ہے اور يہ بات اس قدر واضح تھى كہ بعض علماء نے تو امام كى طرف سے فقيہ كى نيابت عامہ كى دليل ''اجماع'' كو قرار ديا ہے_(2)

ہم اشارہ كر چكے ہيں كہ فقہ شيعہ كے طول تاريخ ميں زمانہ قدماء سے ليكر آج تك علمائ'' فقيہ كى ولايت

--------------------------------------------------------------------------------

1) جواہر الكلام فى شرح شرائع الاسلام جلد 21، صفحہ 396، 397_

2) مصباح الفقيہ جلد 14، صفحہ 291 كتاب الخمس _

عامہ'' كے معتقد رہے ہيں اور عظيم فقہاء نے اسى كے مطابق فتوے ديئے ہيں_ بہتر ہے كہ ہم يہاں مختلف ادوار كے علماء كے اقوال ذكر كر ديں_

محمد ابن نعمان بغدادى متوفى 413ھ جو كہ شيخ مفيدرحمة الله عليہ كے نام سے مشہور ہيں اور شيعوں كے بہت بڑے فقيہ شمار ہوتے ہيں_ مخالفين كے اس ادعا كو نقل كرنے كے بعد كہ اگر امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت اسى طرح جا رى رہى تو حدود الہى كا اجرا كسى پر واجب نہيں ہے_ كہتے ہيں:

فأما إقامة الحدود فہو إلى سلطان الاسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و ہم ائمة الہُدى من آل محمد(ص) و من نصبوہ لذلك من الاُمراء والحكام ، و قد فَوَّضوا النظرَ فيہ إلى فقہاء شيعتہم مع الامكان ...(1)

حدود الہى كا اجرا حاكم شرعى كا كام ہے _ وہ حاكم شرعى جسے خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو اور وہ ائمہ اہلبيت ہيںيا وہ افراد جنہيں ائمہ معصومين حاكم مقرر كرديں اور ممكنہ صورت ميں انہوں نے يہ كام اپنے شيعہ فقہا كے سپرد كر ركھا ہے_

اس عبارت ميں شيخ مفيد حدود الہى كا اجرا اسلام كے حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہيں نہ كہ قاضى كى لہذا ان كا اس بات كى تاكيد كر نا كہ يہ كام جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہے _ كيونكہ صرف حاكم شرع ہى حدود الہى كو جارى كرسكتا ہے_ يہ بات درج ذيل دو روايات كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے_

''عن حفص بن غياث قال : سألت اباعبداللہ (عليہ السلام)

1) المقنعہ صفحہ 810، كتاب الامر بالمعروف و النہى عن المنكر _

--------------------------------------------------------------------------------

قلت: من يقيم الحدود؟ السلطان او القاضي؟ فقال:'' اقامة الحدود الى من اليہ الحكم_'' (1)

حفص ابن غياث كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : حدود الہى كون جارى كرے گا؟ سلطان يا قاضي؟ فرمايا حدود كا اجرا حاكم كا كام ہے_

انّ عليّاً (ع) قال :'' لا يصلح الحكم و لا الحدود و لا الجمعة الا ّ بامام'' (2)

اميرالمؤمنين نے فرمايا حكومت ، حدود اور جمعہ كى ادائيگى امام كے بغير صحيح نہيں ہيں_

حمزہ ابن عبدالعزير ديلمى (متوفى 448_463)جو كہ سلار كے لقب سے مشہور ہيں كہتے ہيں:

قد فوّضوا إلى الفقہاء إقامة الحدود والاحكام بين الناس بعد أن لا يتعدّوا واجباً و لا يتجاوزوا حداً و امروا عامة الشيعة بمعاونة الفقہاء على ذلك(3)

يہ كام فقہاء كو سونپا گيا ہے كہ وہ حدود الہى كو قائم كريں اور لوگوں كے درميان فيصلہ كريں_ وہ نہ واجب سے آگے بڑھيں اور نہ حد سے تجاوز كريں اور عام شيعوں كو اس سلسلہ ميں فقہاء كى مدد كرنے كا حكم ديا گيا ہے_

اس فتوى كے مطابق حدود اور احكام الہى كا اجرا جو كہ'' سياسى ولايت'' كى خصوصيات ميں سے ہے اور ''ولايت قضائي'' سے وسيع تر ايك امر ہے_ شيعہ فقہا كے سپرد كيا گيا ہے اور ائمہ معصومين لوگوں سے يہ چاہتے ہيں كہ وہ اس سلسلہ ميں فقہاء كى مدد كريں_

--------------------------------------------------------------------------------

1) وسائل الشيعہ جلد 18ص220_

2) المستدرك جلد 3 صفحہ 220_

3) المراسم النبويةص 261_

عظيم فقيہ ابن ادريس حلّى (متوفى 598ھ ق) معتقد ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ كو احكام الہى اور شرعى حدود كے اجرا كى ذمہ دارى لينى چاہيے يہ ولايت ''امر بالمعروف اور نہى عن المنكر'' كى ايك قسم ہے اور يہ ہر ''جامع الشرائط'' كى ذمہ داريہے_ حتى كہ اگر اسے فاسق و فاجر حاكم كى طرف سے بھى مقرر كيا جائےتب بھى وہ در حقيقت'' امام معصوم اور ولى امر ''كى طرف سے مقرر كردہ ہے_ حدود الہى كا اجرا صرف امام معصوم كى ذمہ دارى نہيں ہے بلكہ ہر حاكم كا وظيفہ ہے _پس مختلف شہروں ميں امام كے نائبين بھى اس حكم ميں شامل ہيں(1)_

ابن ادريس حلّي، سيد مرتضى ، شيخ طوسى اور دوسرے بہت سے علماء كو اپنا ہم خيال قرار ديتے ہيں_

''و عليہ ( العالم الجامع للشرائط)متى عرض لذلك ا ن يتولّاہ (الحدود)لكون ہذہ الولاية امراً بمعروف و نہياً عن منكر، تعيّن غرضہما بالتعريض للولاية عليہ و ہو ان كان فى الظاہر من قبل المتغلّب ،فہو فى الحقيقة نائب عن ولى الامر (عج) فى الحكم ... فلا يحلّ لہ القعود عنہ ... و اخوانہ فى الدين مامورون بالتحاكم و حمل حقوق الاموال اليہ و التمكن من انفسہم لحدّ او تاديب تعيّن عليہم ...''

''و ما اخترناہ اوّلا ہو الذى تقتضيہ الادلّة ،و ہو اختيار السيد المرتضى فى انتصارہ و اختيار شيخنا ابوجعفر فى مسائل خلافہ و غيرہما من الجلّة المشيخة ... الشائع المتواتر ان للحكام اقامة الحدود فى البلد الذى كل واحد منہم نائب فيہ من غير توقف فى ذلك''(1)

--------------------------------------------------------------------------------

1) آپكى آنے والى عبارت كا ترجمہ تقريبا يہى ہے ( مترجم)

دسويں صدى كے عظيم فقيہ محقق كركى (متوفى 940ق )فقيہ عادل كے امام معصوم كے تمام قابل نيابت امور ميں امام كے نائب ہونے پر اصرار كرتے ہيں اور اسے تمام علماء كا متفق الرا ے حكم قرار ديتے ہوئے كہتے ہيں:

اتَّفَقَ أصحابنا (رضوان الله عليہم) على أنّ الفقيہ العدل الإمامى الجامع لشرائط الفتوى المعبّر عنہ بالمجتہد فى الأحكام الشرعية نائب من قبَل ائمة الہُدى (صلوات الله عليہم) فى حال الغَيْبة فى جميع ما للنّيابة فيہ مدخل ... والمقصود من ہذا الحديث ہنا أنّ الفقيہ الموصوف بالأوصاف المعيّنة منصوب من قبَل أئمّتنا نائب عنہم فى جميع ما للنّيابة فيہ مدخل بمقتضى قولہ (ع) : '' فإنّى قد جعلتہ عليكم حاكماً'' و ہذہ استنابة على وجہ كلّي''

ہمارے تمام علماء اس بات پر متفق ہيں كہ وہ شيعہ عادل فقيہ جو فتوى دينے كى صلاحيت ركھتا ہو كہ جسے احكام شرعيہ ميں مجتہد سے تعبير كيا جاتا ہے، زمانہ غيبت ميں ان تمام امور ميں ائمہ ہدى كا نائب ہوتا ہے جو نيابت كے قابل ہيں ...

حديث معصوم (كہ ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے) سے مراد يہ ہے كہ وہ فقيہ جو

--------------------------------------------------------------------------------

1) السرائر، جلد 3 ، صفحہ 538، 539و546_

مذكورہ صفات كا حامل ہو _ ائمہ كا مقرر كردہ نائب ہے ان تمام امور ميں جو قابل نيابت ہيں اور يہ نيابت كلى اور عام ہے_(1)

شيخ جعفر كاشف الغطاء كے فرزند شيخ حسن كاشف الغطا (متوفى 1262ھ ق)اپنى كتاب ''انوار الفقاہہ'' (جو كہ خطى نسخہ ہے )ميں فقيہ كى '' ولايت عامہ'' كو صراحتاً ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں : فقيہ كى ولايت صرف قضاوت تك محدود نہيں ہے اور اس بات كى نسبت فقہا كيطرف ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''ولاية الحاكم عامّة لكلّ ما للإمام ولاية فيہ لقولہ (ع) : '' حجّتى عليكم'' و قولہ (ع) : '' فاجعلوہ حاكماً'' حيث فہم الفقہاء منہ انّہ بمعنى الوليّ المتصرّف لا مجرّد أنّہ يحكم فى القضائ''

حاكم ( فقيہ جامع الشرائط) كو ان تمام امور ميں ولايت حاصل ہے جن ميں امام (ع) كو ولايت حاصل ہوتى ہے كيونكہ امام (ع) فرماتے ہيں: ''يہ تم پر ميرى طرف سے حجت ہيں''_ نيز فرمايا: ''اسے ( فقيہ كو )حاكم قرار دو'' _ اس سے فقہا نے يہى سمجھا ہے كہ يہاں مراد'' ولى متصرف ''ہے نہ كہ صرف قضاوت كرنے والا_

انوار الفقاہہ كے مصنف كى ولايت عامہ پر ايك دليل يہ ہے كہ ولايت كے سلسلہ ميں نائب خاص اور نائب عام ميں كوئي فرق نہيں ہے _ يعنى اگر امام معصوم كسى شہر ميں ايك نائب خاص مقرر كرتے ہيں مثلا مالك اشتر كو مصر كيلئے ،يا غيبت صغرى ميں نوّاب اربعہ كو، تو ان كى ولايت صرف قضاوت ميں منحصر نہيں ہوتى بلكہ حدود الہى كا اجراء ،شرعى ماليات كى وصولى ، جھگڑوں كا فيصلہ ، امورحسبيّہ كى سرپرستى ، اور مجرموں كو سزا دينا، سب اس ميں شامل ہيں_ پس غيبت كبرى كے زمانہ ميں بھى امام معصوم كى نيابت عمومى ہوگى اور ان تمام امور كى ذمہ دارى فقيہ عادل پر ہوگى _

--------------------------------------------------------------------------------

1) ر سائل محقق كركي، جلد 1 ،ص 142، 143 (رسالة صلوة الجمعہ)_

خلاصہ:

1) اصل '' ولايت فقيہ'' شيعہ فقہ كے مسلّمات ميں سے ہے اگر چہ اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف ہے _

2)بڑے بڑے شيعہ فقہا نے فقيہ كى ولايت عامہ پر اجماع كا دعوى كيا ہے_ جبكہ بعض مخالفين اسے ايك نيا اور جديد مطلب سمجھتے ہيں_

3) بعض فقہا كا اس پر اصرار كہ حدود الہى كا اجرا فقيہ عادل كا كام ہے_ ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كى دليل ہے_

4)بعض روايات حدود الہى كے اجرا كو سلطان اور حاكم كى خصوصيات قرار ديتى ہيں نہ قاضى كى _

5)بعض فقہا صريحاً كہتے ہيں : نائب عام ( زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل)اور نائب خاص (مثلا مالك اشتر اور محمد ابن ابى بكر) كى ولايت كے دائرہ اختيار ميں كوئي فرق نہيں ہے_

 

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بھشت سے آدم کے ھبوط ( سقوط) کا کیا معنی ھے؟
متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم

 
user comment