اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

ولايت فقيہ، كلامى مسئلہ ہے يا فقہى ؟

'' امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فقہى مسئلہ ہےجبكہ اہل تشيع كے نزديك كلامى مسئلہہے _ اگر اہلسنت كى كلامى كتب ميںيہ مسئلہ مورد بحث قرار پايا ہے تو اس كا سبب يہ ہے كہ شيعوں نے اس مسئلہ كو بہت زيادہ اہميت دى ہے اور اسے كلامى مباحث ميں ذكر كيا ہے_ اس سبق كا اصلى محور اس بات كى تحقيق كرنا ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى ولايت اور امامت كى طرح ''ولايت فقيہ ''بھى ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہى بحث ہے اور اعتقادى و كلامى مباحث سے اس كا كوئي تعلق نہيں ہے؟

ہر قسم كا فيصلہ كرنے سے پہلے ضرورى ہے كہ كلامى مسئلہكى واضح تعريف اورفقہى مسئلہ سے اس كے فرق كى وضاحت كى جائے_ كلامى اور فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟ اسے پہچانا جائے تا كہ ولايت فقيہ كے كلامى يا فقہى مسئلہ ہونے كا نتيجہ اور ثمرہ ظاہر ہوسكے_

كسى مسئلہ كے كلامى يا فقہى ہونے كا معيار :

ابتدائے امر ميں ممكن ہے يہ بات ذہن ميں آئے كہ ايك مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا 

 اثبات عقلى دليل سے ہو_ اور مسئلہ فقہى وہ ہے جس كا اثبات شرعى اور نقلى ادلّہ سے ہو _ اس لئے علم كلام كو علوم عقليہ اور علم فقہ كو علوم نقليہ ميں سے شمار كيا جاتا ہے_

ليكن يہ معيار مكمل طور پر غلط ہے_ كيونكہ علم فقہ ميں بھى ادلّہ عقليہ كو بروئے كار لايا جاتا ہے جس طرح كہ بعض كلامى مباحث ادلّہ نقليہ كى مدد سے آشكار ہوتى ہيں_ دليل عقلي، علم فقہ ميں دو طرح سے فقہى استنباط ميں مدد ديتى ہے_

الف _ مستقلات عقليہ : مثلا اطاعت خدا كا وجوب ايك فقہى مسئلہ ہے_ اور اس كى دليل عقل كا حكم ہے_ اور عقل اس حكم ميں مستقل ہے _ اور كسى نقلى (شرعي)دليل كى دخالت كے بغير يہ حكم لگاتى ہے_

ب _ غير مستقلات عقليہ يا ملازمات عقليہ، غير مستقلات عقليہ سے مراد وہ قضايا عقليہ ہيں جو دو شرعى حكموں كے درميان ملازمہ كے ادراك كى بنياد پر صادر ہوتے ہيں_ عقل ايك شرعى حكم كے معلوم ہونے كے بعد اس حكم اور دوسرے حكم كے درميان ملازمہ كو ديكھتى ہے_ اس طرح ايك شرعى حكم سے دوسرے شرعى حكم كى طرف جاتى ہے_ اوريوں عقل اس شرعى حكمكے استنباط ميں فقيہ كى مدد كرتى ہے_

لہذا يہ دعوى نہيں كيا جاسكتا كہ علم فقہ ايسا علم ہے جس كے مسائل ادلّہ نقليہ سے حل ہوتے ہيں اور اس ميں دليل عقلى كى كوئي مدد شامل نہيں ہوتى _ اسى طرح يہ دعوى بھى نہيں كيا جاسكتا كہ علم كلام ادلّہ نقليہ سے مدد نہيں ليتااور اس كے تمام مسائل ادلّہ عقليہ كى بنياد پر حل ہوتے ہيںكيونكہ بعض كلامى مباحث جو كہ مبدا ومعاد سے مربوط ہيں ميں ادلّہ نقليہ يعنى قرآن اور روايات سے مدد لى جاتى ہے معاد (قيامت) ايك كلامى بحث ہے _ ليكن اس كى بعض تفصيلات صرف عقلى ادلّہ سے قابل شناخت نہيں ہيں بلكہ ان كيلئے ادلّہ نقليہ سے استفادہ كرنا بھى ناگزير ہوتا ہے_

حقيقت يہ ہے كہ علم فقہ ،مكلفين كے افعال كے متعلق بحث كرتا ہے_ ان كے اعمال كے احكام كى تحقيق و بررسى كرتا ہے_ علم فقہ بحث كرتا ہے كہ كونسے افعال واجب ہيں اور كونسے حرام ،كونسے اعمال جائز ہيں اور كونسے ناجائز _ ليكن علم كلام، مبدا و معاد كے احوال كے متعلق بحث كرتا ہے_ علم كلام كا مكلفين كے افعال سے كوئي تعلق نہيں ہوتا_ جائز و ناجائز پر بحث نہيں كرتا_ علم كلام ميں افعال خدا كے متعلق بحث كى جاتى ہے مثلا علم كلام ميں يہ بحث كى جاتى ہے كہ كيا خدا پر رسولوں كا بھيجنا واجب ہے؟ كيا خدا سے قبيح افعال سرزد ہو سكتے ہيں؟ كيا نيكى كرنے والوں كو اجر دينا خدا پر واجب ہے؟(1)

بعثت انبياء اور ارسال رُسُل كا وجوب ايك كلامى بحث ہے_ كيونكہ يہ ايك اعتقادى بحث ہے جو خدا كے مبدا اور فعل كے ساتھ مربوط ہے _ ليكن انبياء كى اطاعت كا واجب ہونا اور ان كى دعوت پر لبيك كہنا ايك فقہى بحث ہے _كيونكہ اس حكم كا تعلق مكلف كے عمل سے ہے_ اس كا موضوع فعل انسان ہے _ اور كرنا يا نہ كرنا انسان كے ساتھ مربوط ہے_

اسى معيار كو ديكھتے ہوئے ولايت فقيہ كى بحث كو شروع كرتے ہيں_ بے شك يہ بحث فقہى پہلووں كى بھى حامل ہے_ مسئلہ ولايت فقيہ ميں كچھ ايسى جہات بھى ہيں جن كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہے_ اور ان كا شرعى حكم فقہى تحقيق كے قابل ہے_ مثلا درج ذيل مسائل فقہى مسائل ہيں جو كہ ولايت فقيہ كے ساتھ مربوط ہيں_

مسلمانوں كے اجتماعى اور عمومى امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور حاكميت جائز ہے يا نہيں؟ كيا اجتماعى اور سياسي

--------------------------------------------------------------------------------

1 ) ياد رہے كہ افعال خدا ميں جس'' وجوب'' كاذكر كيا جاتا ہے_ وہ وجوب تكليفى كى قسم سے نہيں ہے_ بلكہ اس كا معنى ''ضرورت ''كے ہيں_ يعنى خدا يہ كام ضرور انجام دے گا_ كوئي فعل اس پر واجب نہيں ہو تا _ وہ تمام ضرورتوں كا سرچشمہ ہے_ دوسرے لفظوں ميں جس وجوب كا ذكر علم كلام ميں ہوتا ہے وہ وجوب عن اللہ ہوتا ہے نہ كہ وجوب على اللہ _

امور ميں فقيہ كے اوامر و نواہى كى اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كے عمومى مسائل ميں ولايت كو عملى كرنے ميں فقيہ كى مدد كرنا واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كيلئے جائز ہے كہ فقيہ عادل كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو اپنے امور ميں حاكم بنا ليں؟ كيا ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت دوسرے فقہا پر بھى واجب ہے؟

لہذا قطعى طور پر مسئلہ ولايت فقيہ فقہى پہلوؤں كا حامل ہے_ اسى لئے علم فقہ ميں اس كى تحقيق ضرورى ہے_ ليكن ديكھنا يہ ہے كہ كيا اس ميں كلامى پہلو بھى ہيں يا نہيں؟

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو:

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو مسئلہ امامت كے ساتھ منسلك ہے_ كيونكہ مسئلہ ولايت فقيہ كو اگر اسى نظر سے ديكھا جائے جس نظر سے مسئلہ امامت كو ديكھا جاتا ہے تو اس كا كلامى پہلو واضح ہوجائے گا اور مسئلہ امامت كى طرح يہ بھى ايك كلامى بحث شمار ہوگا_ شيعہ بحث امامت كو كيوں كلامى مسئلہ سمجھتے ہيں؟ اس كا جواب يہ ہے كہ شيعہ اس پر فقہى نظر نہيں ركھتے_ اور فعل مكلفين كے حكم كے پس منظر ميں اسے نہيں ديكھتے -_شيعہ امامت كے متعلق اس طرح سوال نہيں كرتے كہ '' كيا مسلمانوں پر امام اور حاكم كا مقرر كرنا واجب ہے؟ ''كيا امام كى اطاعت واجب ہے؟ كيا مسلمانوں پر حكومت تشكيل دينا واجب ہے اور يہ كہ رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد كسى كو اپنے حاكم كے طور پر مقرر كريں_

امامت پر اس طرح كى نظر (اہلسنت كى نظر يہى ہے) اسے فقہى مسئلہ قرار ديتى ہے _ كيونكہ اس وقت بات مسلمانوں كے عمل اور ان كے حاكم مقرر كرنے پر ہوگى _ ليكن اگر اسے فعل خدا كے پس منظر ميں ديكھيں اور مسئلہ امامت كو مسئلہ نبوت اور ارسال رسل كى طرح خدا كا فعل قرار ديں _ اور يہ سوال كريں كہ كيا رحلت 

رسول (ص) كے بعد خدا نے كسى كو امت كى ہدايت كيلئے مقرر كيا ہے؟ كيا امام مقرر كرنا خدا پر واجب ہے؟ تو اس وقت كلامى مسئلہ شمار ہوگا_ كيونكہ گذشتہ معيار كے مطابق يہ سوال مبدا و معاد كى بحث كے زمرہ ميں آتا ہے_ اور اس لحاظ سے يہ افعال الہى كى بحث ہے_ جو كہ ايك كلامى بحث ہے_

اور اگر مسئلہ ولايت فقيہ كو ولايت معصومين كا استمرار سمجھتے ہوئے امام معصوم كى انتصابى ولايت و امامت كى طرح فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابى ''پر فعل خدا كے زاويہ سے بحث كريں_تو يہ ايك كلامى بحث كہلائے گى _ آيت اللہ جوادى آملى اس مطلب كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

ولايت فقيہ كے متعلق كلامى بحث يہ ہے كہ خداوند قدوس جو كہ تمام ذرات كائنات كا عالم ہے_ ''لا يعزب عنہ مثقال ذرة''(1) وہ تو جانتا ہے كہ ائمہ معصومين ايك محدود زمانہ تك موجود رہيں گے_ اور آخرى امام عجل الله فرجہ الشريف ايك لمبى مدت تك پردہ غيب ميں رہيں گے_ تو كيا اس زمانہ غيبت كيلئے بھى كچھ دستور مقرر كئے ہيں؟ يا امت كو اس كے حال پر چھوڑ ديا ہے؟ اور اگر دستور بنايا ہے تو كيا وہ دستور جامع الشرائط فقيہ كو رہبرى كيلئے منصوب كرنا ہے_ اور لوگوں كيلئے اس مقرر كردہ رہبر كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے؟ ايسے مسئلہ كا موضوع ''فعل خدا ''ہے _ لہذا ولايت فقيہ كا اثبات اور اس پر جودليل قائم ہوگى اس كا تعلق علم كلام سے ہوگا_(2)

امام خمينى بھى ان فقہاء ميں شامل ہيں جو مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى پس منظر ميں ديكھتے ہيں_ اور اس نكتہ پر مصرّ ہيں كہ جو ادلّہ امام معصوم كے تقرر كا تقاضا كرتى ہيں اور امامت كے سلسلہ ميں ان سے استدلال كيا جاتا ہے_ وہى ادلّہ زمانہ غيبت ميں حاكم كے تقرر اور حكومت كى تشكيل كا تقاضا كرتى ہيں_

--------------------------------------------------------------------------------

1) اس سے كوئي معمولى سا ذرہ پوشيدہ نہيں ہے _ سورہ سبأ آيت نمبر3_

2) ولايت فقيہ صفحہ 143_

'' حفظ النظام من الواجبات الا كيدة، و اختلال اُمور المسلمين من الا ُمور المبغوضة، و لا يقوم ذا و لا يسدّ عن ہذا الاّ بوال: و حكومة مضافاً الى ا نّ حفظ ثغور المسلمين عن التّہاجم و بلادہم عن غلبة المعتدين واجب عقلاً و شرعاً; و لا يمكن دلك الاّ بتشكيل الحكومة و كلّ ذلك من ا وضح ما يحتاج اليہ المسلمون، و لا يعقل ترك ذلك من الحكيم الصانع ، فما ہو دليل الامامة بعينہ دليل على لزوم الحكومة بعد غيبة ولى الا مر (عج) ... فہل يعقل من حكمة الباري الحكيم اہمال الملّة الاسلاميّة و عدم تعيين تكليف لہم؟ ا و رضى الحكيم بالہرج والمرج واختلال النظام''؟(1)

نظام كى حفاظت واجبات مؤكدة ميں سے ہے اور مسلمانوں كے امور كا مختل ہونا ناپسنديدہ امور ميں سے ہے_ ان كى سرپرستى اور حفاظت سوائے حاكم اور حكومت كے كوئي نہيں كرسكتا_ علاوہ بريں مسلمانوں كى سرحدوں كى حفاظت اور دشمن سے ان كے شہروں كو محفوظ ركھنا عقلاً اور شرعاً واجب ہے اور يہ حكومت تشكيل ديئے بغير ممكن نہيں ہے_ ان تمام امور كى مسلمانوں كو احتياج ہے_ اور حكيم صانع (اللہ تعالى ) كا انہيں ايسے ہى چھوڑ دينا معقول نہيں ہے _ جو امامت كى دليل ہے بعينہ وہى دليل امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت كے زمانہ ميں لزوم حكومت كى دليل ہے_ كيا خداوند حكيم كى حكمت سے معقول ہے كہ وہ ملت اسلاميہ كو

--------------------------------------------------------------------------------

1) كتاب البيع ، امام خمينى ، جلد 2 ، صفحہ 461، 62 4_

بے مہار چھوڑ دے _ اور ان كيلئے كوئي شرعى فريضہ متعين نہ كرے _ يا حكيم مطلق اختلال نظام پر راضى ہوگا _

گذشتہ مطالب سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں حكومت اور ولايت فقيہ كى بحث فقہى بھى ہوسكتى ہے اور كلامى بھى _ اور اس مسئلہ كا كلامى ہونا اس كے فقہى ابعاد سے مانع نہيں ہے_ زمانہ غيبت ميں حكومت كے متعلق شرعى نقطہ نظر كے اظہار كے ضرورى ہونے كے لحاظ سے ايك كلامى مسئلہ ہے_ اور جب مسلمانوں كے حاكم كى شرائط اور فرائض اور دوسرى طرف اس سلسلہ ميں عوام كى ذمہ داريوں پر بحث كريں گے تو يہ ايك فقہى مسئلہ كہلائے گا_ جس طرح امامت كى عقلى ادلّہ سے نصب امام كا وجوب ثابت ہے_ اسى طرح نقلى ادلّہ مثلا واقعہ غدير خم سے اس كے مصاديق معين ہوتے ہيں_ ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ شرعى اعتبار سے والى اور حاكم كا مقرر كرنا ضرورى ہے اور روائي ادلّہ سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ زمانہ غيبت ميں وہ حاكم ''فقيہ عادل'' ہے_

آخرى نكتہ يہ ہے كہ تمام كلامى بحثيں اہميت كے لحاظ سے برابر نہيں ہيں_ بعض كلامى بحثيں اصول دين كى ابحاث كا جز ہيںمثلا نبوت اور معاد كى بحث _ جبكہ امامت كى بحث اصول مذہب كى ابحاث كا حصہ ہے_

اصل معاد اصول دين ميں سے ہے ليكن اس كے مسائل كى تفصيلات اور جزئيات كلامى ہونے كے باوجود اہميت كے لحاظ سے اصل معاد كى طرح نہيں ہيں_ بنابريں زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ اور حكومت كا مسئلہ كلامى ہونے كے باوجود رتبہ كے لحاظ سے مسئلہ امامت سے كمتر ہے_ اسى لئے اصول مذہب ميں سے نہيں ہے_

خلاصہ:

1) يہ بات واضح ہونى چاہيے كہ كيا ولايت فقيہ ايك فقہى مسئلہ ہے يا كلامي؟

2)بعض كو يہ غلط فہمى ہوئي ہے كہ كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس پر عقلى دليل كا قائم كرنا ممكن ہو_

3) كسى مسئلہ كے فقہى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہو _

4)مسئلہ كلامى مبدا و معاد كے احوال سے بحث كرتا ہے_ لہذا اگر فعل خدا كے بارئے ميں بحث ہو ، تو وہ مسئلہ كلامى ہوگا_ اور اگر فعل مكلف كے متعلق ہو تو فقہى مسئلہ كہلائے گا_

5)مسئلہ ولايت فقيہ فقہى اور كلامى دنوں پہلوؤں كا حامل ہے_ اور دونوں جہات سے قابل بحث و تحقيق ہے_

6) اگر كوئي ولايت فقيہ كو اس لحاظ سے ديكھے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ كا مقرر كرنا اسى طرح خداوند عالم پر واجب ہے جس طرح رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد امام معصوم كا مقرر كرنا واجب ہے_تو يہ ولايت فقيہ كا كلامى پہلو ہے_

7) امام خمينى نے ولايت فقيہ كے كلامى پہلو سے بھى بحث كى ہے _ اور معتقد ہيں كہ وہ عقلى ادلّہ جو ائمہ كى امامت پر قائم كى گئي ہيں ، زمانہ غيبت ميں ولايت اور حكومت كے ضرورى ہونے پر دلالت كرتى ہيں_

8) اہميت كے لحاظ سے تمام كلامى بحثيں مساوى نہيں ہيں _ لہذا ولايت فقيہ كى اہميت بحث امامت و نبوت كى اہميت سے كمتر ہے_

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
دعا كی حقیقت كیا ہے اور یہ اسلام میں مرتبہ كیا ...
اگر خون کا ماتم نادرست ہے تو کیا پاکستان میں اتنے ...
کیا اوصیاء خود انبیاء کی نسل سے تھے؟
کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں ...
حضرت امام مہدی (عج)کے اخلاق اور اوصاف کیا ہے ، اور ...
حقوق العباد کيا ہيں ؟
مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟

 
user comment