اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

عہد عسکرئیں : چند اہم پہلو:

ائمہ اثنا عشری کے ٢٥٠ سالہ دور امامت میں آخری ٤٠ سال یعنی ٢٢٠ھ سے ٢٦٠ھ عہد عسکرئین کہلاتا ہے یہ دو امام یعنی امام علی النقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے عہد امامت پر محیط ہے۔ یہ دور تاریخ کے ایسے موڑ پر واقع ہے جہاں سے اہم واقعات رونما ہوئے ۔چند اہم خصوصیات کاتجزیہ حسب ذیل ہے۔

١۔ یہ دور ایک رواجی سلسلہ ہدایت اور غیبت صغریٰ کے درمیان ایک کڑی ہے۔ اس عرصہ میں ائمہ کی ذمہ داری

بڑھ گئی تھی کہ ایسے اقدامات کریں جو بتدریج امت کو غیبت کبریٰ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ مسلسل قید و بند اور کڑی نگرانی میں یہ کام اور بھی مشکل تھا۔

٢۔ ائمہ اہلبیت سے وابستہ افراد کے لئے یہ زمانہ پریشانی تشویش اور انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔ حکومت کے

مسلسل سخت رویہ کے خلاف مملکت میں علویوں کی شورشیں پھیل رہی تھیں۔

٣۔ دربار خلافت کی ہیبت ختم ہو رہی تھی خلافت چند لوگوں کے ہاتھوں ایک گیند کی طرح تھی۔ اور بار بار حکومت

بدل رہی تھی۔ متوکل نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے شہر سامرہ کو بطور دار الخلافہ چناتاکہ حکومت پر لشکری دباؤ کم کیا جائے۔

٤۔ ائمہ عسکرئین یہ جانتے تھے کہ ١٢ ویں ہادی کی غیبت ایک امر مشیت الہٰی ہے اور اس امر کو اپنے

معتقدین کے افکار کاحصہ بنا نا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے کیونکہ غیبت بطور ضرورت کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں تھی۔ البتہ پیغمبر اکرم اور ائمہ گزشتہ کی روایتوں سے اس امر سے کچھ آشنائی پیدا ہوگئی تھی امام حسن عسکری (ع) کے لئے ''موعود منتظر'' کے والد ہونے کی حیثیت سے یہ کٹھن ذمہ داری تھی کہ عام مسلمانوں کو آگاہ کریں کہ انکا بیٹا ہی ''قائم آل محمد (ص)'' ہے اور اس ضمن میں معلومات کی تحقیق کا وقت آچکا ہے۔ ان تمام دشواریوں کے منجملہ اس زمانہ کے سیاسی حالات اور حکومتی سخت پہرہ میں لوگوں کے اذہان میں اس عقیدہ کی تبلیغ بہت حساس کام تھا۔ ( تاریخ اسلام ۔ گروہ نگارش)

٥۔ اس دور کے سیاسی مضمرات طبری کے الفاظ میں ''بنی عباس کے لئے اس دور کی تاریخ میں بہت کچھ

سبق موجود ہیں نبی عباس نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جس نسلیت اور گروہ بندی سے فائدہ اٹھایا تھا اور جس مرکز گریز قوت نے ١٣٢ھ میں بنو امیہ کی سلطنت کو ختم کیا تھا تو یہی قوت پورے ایک سو سال بعد ٢٣٢ھ میں عباسی خلیفہ جعفر المتوکل کے دور خلافت میں بنی عباس کے بھی ٹکڑے کرسکتی تھی اور بالآخر یہی ہوا'' (تاریخ طبری ۔ باب نہم ) اس زمانہ میں رضائے آل محمد (ص) کے نام حکومت کے ظلم کے خلاف بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ مورخین نے ایسی ١٨ تحریکوں کا ذکر کیا ہے۔

٦۔ اپنے الفاظ میں ارشاد حسین ازہر نے'' تخت و تاج خلافت'' میں بھی سیاسی طور پر اس دور کی اہمیت کا ذکر کیا

ہے ''بنی عباس کی حکومت بنی امیہ کی قبر پر تیار ہوئی تھی اور بنی عباس نے ان جذبات نفرت سے فائدہ اٹھا کر یہ سلطنت حاصل کی تھی جو بنی امیہ کے بے اعتدالیوں اور دشمنی آل رسول(ص) کی وجہ سے مملکت میں جابہ جا موجود تھے۔ لیکن تخت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے آل رسول(ص) کے خلاف اپنے مظالم میں بنی امیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔''

٧۔ تدوین حدیث و فقہ کے حوالہ سے بھی ائمہ عسکرئین کے عہد امامت کی اہمیت ہے۔ اس ضمن میں

علامہ ترابی کے الفاظ میں '' ائمہ عسکرئین طویل قید تنہائی میں وطن سے بہت دور رہے۔ ان سے متعلق معلومات نسبتاً کم ہیں اس کے باوجود تفسیر حدیث ، نقل حدیث، سفرروایت میں اور تدوین آثار رسولؐ میں جو کام اس زمانہ میں ہوا وہ ایک اعجاز ہے۔ عسکرئین کا زمانہ وہ ہے جو بغداد میں جنید بغدادی،با یزید بسطامی اور دیگر علماء محدثین تصوف کے کمال پر خانقا ہوں کی تعمیر میں مصروف تھے اور آبادی کا بڑا حصہ تصوف کی طرف راغب ہو رہا تھا۔ اس زمانہ میں واقفیہ ، اسمعیلیہ اور زیدیہ اور دیگر فرقے اپنی پوری قوت سے کام کر رہے تھے ان حالات میں اگر یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے کہ ہمارے ائمہ نے دنیا سے دور سرہ من را کے گوشہ میں کڑی نگرانی میں بیٹھ کر قول معصوم کو اغیار کی دست برد سے بچا کر ہم تک پہنچایا۔ ٧ لاکھ سے زائد حدیثوں پرمشتمل یہ وہ علمی ذخیرہ ہے جن کو ہمارے محدثین نے جمع کر کے ان نصوص کا انتظام کیا ہے جن پر قیامت تک ہمارے علماء اجتہاد کرتے رہیں گے۔'' (علامہ ترابی۔ تقریر عسکرئین )

٨۔ ایک اور لیکن عجیب و غریب حوالہ سے بھی یہ دور اہم ہے ۔ یہ ہے ظلم کی حد۔ اس دور میں بنی عباس

کے مظالم نے ایک نیا رخ اختیار کیا بنی امیہ اور بنی عباس میں دشمنی اہلبیت ایک قدر مشترک ہے دونوں ظالم تھے۔ لیکن خلفائے بنی عباس میں اہلبیت سے بیحد دشمنی کی بنا ء پر متوکل کو یزید ثانی کہتے ہیں۔ اس کی حکومت کے ١٤ سال ائمہ عسکرئین کے لئے سخت ترین زمانہ تھا۔ تقابلی طور پر کربلا ایک منزل ہے جہاں ظلم زندوں اور بے جان لاشوں تک محدود رہا۔ لیکن متوکل کے ظلم نے کربلا کے مصائب بھلا دیئے ۔ ظلم کے نت نئے طریقے اختیار کئے گئے اور قبر حسین کے انہدام کا منصوبہ بنایا گیا۔ (شاید جنت البقیع کا سانحہ بھی اس جرم کا تسلسل ہے) قبر حسینی کے اطراف کی زمین پر ہل چلادیئے گئے اور چاہتے تھے کہ قبر حسین کو منہدم کر دیں لیکن ہل چلانے والے جانوروں نے قبر کا رخ نہیں کیا اور نگرانوں کی سختی کے باوجود اپنی جگہ اڑ گئے۔ شائد جانوروں کا شعور بھی عصمت کا عارف ہوتا ہے چاہے بدبخت انسان نہ جانے۔ متوکل اپنی فطری شرارت کی بناء پر نئے مظالم سوچتا رہتا تھا انہدام کے منصوبہ میں ناکام ہونے پر ٢٤٤ھ میں قبر حسین کو دریا برد کرنے کےلئے نہر علقمہ کا رخ موڑ دیا لیکن پانی مزار کے اطراف حلقہ بنا کر رک گیا زائرین جانتے ہیں کہ قبر کے اطراف کا علاقہ نسبتا اونچا ہے اور اصل قبر نشیب میں ہے لیکن پانی نے فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور حلقہ بنا کر ٹہر گیا اور لوگوں کو متحر کر دیا یہ رقبہ آج تک حائر کہلا تا ہے شاید میر تقی میر کا اس طرف اشارہ ہے۔

اے سیل رواں رکھیو قدم دیکھ بھال کے

ہر جا یہاں دفن میری تشنہ لبی ہے

مسلسل ناکامیوں کے بعد اب مظالم کا رخ زائرین کی طرف موڑ دیا گیا زائرین پرنت نئی پابندیاں عائدکی گئیں جن میں نقد ٹکس مال متاع کا نقصان ، دست و پیر کا ٹنا اور حتی کہ سزائے موت بھی شامل تھی۔لیکن زیارت حسین کا جوش اور ولولہ کم نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا۔ اور لوگوں نے اپنے نفرت و غصہ کو نعروں اوراشعار کی شکل میں بغداد کے شہر اور مسجد کی دیواروں پر لکھ کر ظاہر کیا۔ ان تمام نا مساعد حالات میں امام علی نقی علیہ السلام ایک ستون کی طرح ڈٹے رہے اور اپنے محبوں کو یہ بتلاتے جاتے تھے کہ متوکل مصیبت پر مصیبت، ڈھا دے تم پر واہ نہ کرو، اگر حسین یاد آئیں تو زیارت جامعہ پڑھو۔ آپ نے خود اس زیارت کو تحریر کروایا۔ ( تفصیل آگے ہے) المختصر یہ کہ یہ دور تاریخی، علمی اور سیاسی اعتبار سے اہم خصویصات کا حاصل رہا ہے۔


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

 
user comment