اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حضرت آدم عليہ السلام

 

خدا كى خواہش يہ تھى كہ روئے زمين پر ايك ايسا موجود خلق فرمائے جواس كا نمائندہ ہو ،اس كے صفات، صفات خداوندى كا پرتوہوں اور اس كا مرتبہ ومقام فرشتوںسے بالا ترہو، خدا كى خواہش اور ارادہ يہ تھا كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں ،تمام قوتيں ،سب خزانے ،تمام كانيں اور سارے وسائل بھى اس كے سپرد كردئےے جا ئيں، ضرورى ہے كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں عقل وشعور ،ادر اك كے و افرحصے اور خصوصى استعداد كاحامل ہو جس كى بناء پر موجودات ارضى كى رہبرى اور پيشوائي كا منصب سنبھال سكے _

يہى وجہ ہے كہ قرآن كہتا ہے :''ياد كريںاس وقت كو جب آپ كے پروردگار نے فرشتوںسے كہا كہ ميں روئے زمين پر جانشين مقرركرنے والا ہوں ''_(1)

بہر حال خدا چاہتا تھا كہ ايسے وجود كو پيدا كرے جو عالم وجود كا گلدستہ ہواور خلافت الہى كے مقام كى اہليت ركھتا ہو اور زمين پراللہ كا نمائندہ ہو مربوط آيات كى تفسير ميں ايك حديث جوامام صادق عليہ السلام سے مروى ہے وہ بھى اسى معنى كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ فرشتے مقام آدم پہچاننے كے بعد سمجھ گئے كہ ادم اور ان كى اولا دزيادہ حقدار ہيں كہ وہ زمين ميں خلفاء الہى ہوں اور مخلوق پر اس كى حجت ہوں _

(1) سورہ بقرہ آيت30

 


source : http://www.maaref-foundation.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ
چہل احادیث
تاریخ آغازِ طِب
توبہ کرنے والوں کے واقعات
خیر و فضیلت کی طرف میلان
قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
نھج البلاغہ خطبہ ۱(خلقت انسان)

 
user comment