اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

رسول اکرم کا طریقہ حکومت – پهلا حصه

موجودہ صدی کے اہم مسائل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکومت کا سیاسی اور اداری نظام کا مسئلہ موضوع بحث رہا ہے .

بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ بنیادی طور پر رسول اکرم (ص) کی حکومت کاکوئی مخصوص اداری اور سیاسی نظام تھا ہی نہیں، اس نظریہ کے مختلف پہلوؤ ں (خصوصا کلامی نکتہ نظر ) سے جوابات دیے گئے ہیں ، البتہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے سیاسی اور اداری نظام کے عینی شواہد پیش کئے گئے ہوں، مقالہ نگار ان لوگوں میں سے ہے، جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ترقی یافتہ اور مکمل اداری نظام کے موجود ہونے پر یقین رکھتا ہے ۔ اس یقین اور عقیدہ کو ثابت کرنے کیلیے پیغمبر اکرم (ص) کے اداری نظام کے طریقہ کار کو ملحوظ رکھا ہے اور آنحضرت (ص) کی سیاسی تاریخ کے صفحات میں غور و خوض اور کدوکاوش کے ذ ریعہ مضبوط اور مستحکم اداری نظام کے نمونہ پیش کئے ہیں ۔ یہ تحریر مختصر طور پر اداری نظام کے ایک مہم ترین رکن، اسلام کی نظر میںرکنیت کی تلاش کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔افرادی قوت کے ذرائع ۔

ہر اداری نظام کے مختلف ارکان ہوتے ہیں ان ہی میں سے ایک رکن عضویت کی تلاش ہے علم مدیریت سے آشنا حضرات اس رکن کی تعریف اس طرح کرتے ہیں: (انسانوں میں کدو کاوش کا کام اور شائستہ اشخاص کی پہچان اور ان کو ادارے میں ذمہ داری سنبھالنے کی تشویق اور ترغیب دلانا)(۱)

سرورکائنات (ص) کی حکومت میں عضو کی تلاش سے ہماری مراد لازمی طور پر ہوبہو مندرجہ بالاتعریف کے مطابق نہیں ہے، اس لیے کہ ممکن ہے اس زمانے کی جو اطلاعات ہم تک پہونچی ہیں ، ان میں اس قسم کا فعل و انفعال اور تاثر ہمارے مشاہدے میں نہ آسکے ، البتہ ہم اسکے وجود سے بھی انکار نہیں کر تے اور چہ بسا اس دور میں مذکورہ مفاہیم پر عمل در آمد کرنے کی صلاحیت ہی نہ پائی جاتی ہو لہذا س بنیاد پر ان انسانی ذرائع سے آشنا کرانا ہماری مراد ہے جن سے رسول اکرم (ص) اپنی حکومت کی ضرورت کو پورا کرتے تھے ۔

اس منبع اور ذراوئع کی شناخت ہمارا تعاون اور مدد کرے گی تاکہ ہم رکن کو تلاش کرنے اور انسانی منبع و مآخذ کے لیے ایک معیار کا انتخاب کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور اسلامی حکومت کے اداروں کے مدیر اور سرپرست حضرات ہر زمانے اور ہر نسل میں ان ہی معیار کے مطابق عضو کی تلاش کریں ۔

ان حالات میں رسول اکرم (ص) کے یہاں افرادی قوت کے کے ذراوئع و ماخذ یہ تھے:

۱۔ عرب اور عجم کے نسلی ذرائع۔

۲۔مقامات جیسے مکہ،مدینہ، اور یمن۔

۳۔ قبیلہ جیسے قریش

۴۔اہمیت اور فوقیت کامنشاء جیسے مہاجرین، انصار، اور تابعین

۵۔ مقامی ہونا۔

۶۔آبادی اور اعتقادی منبع جیسے دارالکفر اور دارالاسلام

۷۔اعتقادی ماخذ جیسے مسلمان ، یہودی اور عیسائی

۱۔ عرب و عجم کے نسلی ذرائع

قران مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، رسول اکرم(ص) عرب ہیں، عرب ہی میں اسلام کا ظہور ہوا ہے ، اسلام کی سب سے پہلی حکومت مدینہ میں وجود میں آئی جو عرب کے شہروں میں سے ایک شہر ہے ۔ اداری اور حکومت کے ڈھانچے میں پیغمبر اکرم (ص) کے اہم اشخاص اور انسانی طاقت کے ذرائع عرب لوگ ہی تھے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے با وجود ، عرب ہونے کو فوقیت کا درجہ حاصل نہیں تھا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ( یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔(۲)

اے لوگوں ہم نے تمہیں مرد و عورت پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں کی شکل میں قرار دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک باعزت شخص وہ ہے جو سب سے بڑا متقی ہے ۔

سرورکائنات (ص) فتح مکہ کے روز ارشاد فرماتے ہیں:

( ان اباکم واحد کلکم لآدم و آدم من تراب ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم و لیس العربی علی العجمی فضل الا بالتقوی) (۳)

تمہارا باپ ایک ہے تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے ہیں بے شک تم لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ با تقوی ہے وہ ہی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ با شرف ہے، عرب کو عجم پر کوئی برتری نہیں مگر تقوی کے ذریعہ ۔

بعض ہم عصر عرب حضرات اسلامی تمدن کو عربی تمدن کے نام سے یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں : (اگر غیر عر ب مسلمانوں نے کوئی ترقی کی ہے تو وہ عربی روح کی وجہ سے ہوئی ہے، جو تمام قوموں میں پھونک دی گئی تھی اور ان تمام قوموں نے عربی ہونے کے عنوان کے تحت ہم آہنگ اور ایک ہو کر تحریک چلائی تھی ۔(۴) واضح طور پر یہ نظریہ تاریخ کی تحریف ہے، حالانکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ مسلمان اقوام نے خود اپنی قومیت کا سہارا لیا تھا ہاں البتہ وہ خود کو مسلمان سمجھتے تھے ۔

عربیت کا محور نہ ہونا ایک اسلامی اقدار کی صورت باقی تھا یہاں تک خلفاء راشدین نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے ، لیکن اموی خلفاء نے عربی فوقیت اور برتری کی سوچ کی داغ بیل ڈال دی ۔ (۵) اور ان کی سیاست عرب کو عجم پر برتری دینے کی بنیاد پر قائم ہوئی ۔ معاویہ نے اپنے تمام عمال اور کارندوں کو حکم دیا کہ عربوں کیلئے حق تقدم کے قائل ہوجائیں ، اس کے اس عمل نے اسلام پر مہلک ضرب لگائی اور یہی بات اسلامی حکومت کے چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم ہونے کا باعث ہوئی ، اس لئے کہ یہ بات بدیہی ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کی برتری کو تسلیم نہیں کرتی ، اسلام اسی وجہ سے سب قوموں کو قبول تھا کہ تمام امتیازات کے علاوہ نسل اور قوم کااس میں رنگ نہیں تھا۔( ۶) آجری اپنی کتاب اربعین میں رسول خدا (ص) سے حدیث نقل کرتے ہیں:بیشک اللہ نے مجھے اختیار کیا اور میرے لیے میرے اصحاب کو اختیار کیا پھر ان میں سے میرے لیے وزیر قرار دیے (۷) کتاب استیعاب میں امام علی (ع) کے قول کے مطابق ان وزیروں کی تعداد چودہ عدد بتائی گئی ہے ۔(حمزہ، جعفر ، ابوبکر ، علی ، حسن ، حسین، عبداللہ بن مسعود ، سلمان ، عماربن یاسر، حذیفہ ، ابوذر ، بلال، اور مصعب ۔(۸) قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اسی جماعت کو ایک کیبینٹ کے طور پر فرض کر یں(اگر چہ حسنین (علیہما السلام) کم سن تھے ) تو اس جماعت میں دو شخص غیر عرب نظر آتے ہیں سلمان فارسی اور بلال حبشی ، یہ بات کاملا عرب نسل کے برتر نہ ہونے کی تائید کرتی ہے ۔ ان حالات میں جبکہ زمین و زمان عربی رجحان کا تقاضا مند تھا ،ان دو حضرات کا ذمہ داریوں کی اعلی سطح پر فائز ہونے کا ایک خاص مطلب ہے ۔ اوریہاں تک کہ جب رسول خدا (ص) سلمان کو لقب دیتے ہیں تو سلمان عربی نہیں کہتے بلکہ فرماتے ہیں( سلمان محمدی )

پیغمبر اکرم (ص)نے ان ہی دو حضرات پر اکتفانہیں فرمایا بلکہ( صہیب بن سنان) جنکا لقب (ابویحی ہے) رومی تھے جو جنگل میں رہتے تھے، ( اور بعد میں بستی میں رہنے لگے تھے ، ان کو بھی ذمہ داریاں دی گئیں) یہ حبشی ہیں اور انہیں شیعہ اور سنی دونوں صحابی جانتے ہیں، ابن ہشام اپنی کتاب سیرة ابن ہشام میں (ابوکبشہ ) کو فارسی اور (زید بن حارثہ ) کو حبشی جانتے ہیں(۹) یہ دونوں جنگ بدر میں موجود تھے ، بعض لوگوں نے (ذومخبر) کو پیغمبر اکرم(ص) کے حبشی اصحاب میں شمار کیا ہے(۱۰) ان کے درمیان سلمان فارسی جو سلمان الخیر اور سلمان السلام اور سلمان محمدی ہیں کاکردار بہت نمایاں کلیدی ہے وہ جنگ خندق میں خندق اور جنگ طائف میں منجنیق بناتے ہیں (۱۱) اور بعد میں عثمان کے دور خلافت میں مدائن کے گورنر مقرر ہوتے ہیں(۱۲)اور مرنے کے بعد امیرامومنین (ع) نے ان کو غسل و کفن دیا اور ان پر نماز جنازہ پڑھی ۔

کتاب فروغ ابدیت میں آیا ہے:عرب کے خوش آب و ہوا علاقے، اسلام سے پہلے کی آخری صدی میں مکمل طور تین بڑی طاقتوں یعنی ایران ،روم اور حبشہ کے ما تحت تھے، اس علاقہ کا مشرقی اور شمال مشرقی حصہ ایران کی حمایت کے تحت شمال مغربی حصہ روم کے تابع اور مرکزی اور جنوب کے حصہ حبشہ کے تحت قرار پاتے تھے ، بعد کے زمانے میں ان تین حکومتوں کے قریب اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے تین عرب حکومتیں حیرہ غسان اور کندہ کے نام سے وجود میں آئیں جن میں سے ہرایک حکومت مذکورہ تین حکومتوں (ایران ، روم اور حبشہ ) میں سے ایک کے تابع تھیں) ۔

جاذب نظر اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے تینوں حکومتوں کو اسلام کی دعوت دی ، خسروپرویز نے کہ جس کو آنحضرت نے اپنے مبار ک خط میں ایران کے عظیم بادشاہ کو یاد فرایا ہے ، اس نے اسلام قبول نہیں کیا (۱۳) لیکن حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اسلام قبول کیا (۱۴) اور روم کا عظیم بادشاہ بھی جو قیصر کے نام سے مشہور ہے اسلام لے آیا (۱۵) یہاں پر جو چیز ہمارے لیے مہم ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ ماخذ کے مطابق آنحضرت (ص) نے کسری اور قیصر روم کو جو خطوط بھیجے ان میں تحریر فرمایا: ( اسلم تسلم ) اسلام لے آو تاکہ تم سالم اور محفوظ رہو) اور بعض خطوط میں مزید تحریر فرماتے ہیں :( اسلم تسلم فاجعل ما تحت یدیک ) (۱۶) یا تحریر فرماتے تھے : ان تومن باللہ وحدہ لا شریک لہ یبقی ملکک (۱۷) ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام لے آو تو تمہاری حکومت باقی رہے گی ۔

اگر حضور اکرم(ص) کی حکومت میں عہدہ داروں کے لیے عرب ہونے کو فوقیت حاصل ہوتی تو غیر عرب حاکموں کو اس قسم کے وعدے نہ دیے جاتے ، یہ وعدے گویا حکومت میں عرب محوری یعنی عرب کو عجم پرفوقیت دینے کی نفی اور انکار ہے اور یہی وہ بات ہے جو اس مقالہ میں ہمارے پیش نظر ہے ، حبشہ کے بادشاہ کا مسلمان ہونا اور رسول خدا(ص) کی تائید سے اس کا حکومت پر باقی رہنا ، نشان دہی کرتا ہے کہ آنحضرت (ص) کی حکومت کا غیر عرب دائرہ حبشی غلام جیسے بلال، اور ذومخبر جیسے حضرات پر ہی منحصر نہیں تھا بلکہ حبش کا بادشاہ بھی اس حلقہ میں داخل تھا اور فقط صہیب رومی ہی نہیں جو غلام ہے بلکہ خود قیصر روم کا بھی رسول خدا (ص) کی عالمی حکومت میں کردار ہے ۔

جو بات ہمارے مطمع نظر کو زیادہ تقویت دیتی ہے وہ یمن کے بادشاہ اور اسکے تمام کارکنان اور عہدہ دار جو سب ایرانی تھے ، سب کا ایک ساتھ ملکر ایمان لانا ہے(۱۸) اس لیے کہ یمن کی زر خیز زمین جو مکہ کے حنوب میں واقع ہے اور وہاں کے حکمراں ہمیشہ ساسانی (ایرانی ) بادشاہوں کے بنائے ہوئے ہوتے تھے ۔

۱۹۔ اور ان تمام عہدے داروں ایران تھے ، اس مبارک خط کے ذریعہ جن میں آنحضرت (ص )نے اس بات پر مشتمل وعدہ کیا تھا کہ ( اگر مسلمان ہو جاؤتو تمہاری حکومت باقی رہے گی) (۲۰) ان کے رسول اکرم اور اسلام کی عوت پر لببیک کہنے کے ساتھ مزید بہت سے ایرانی رسول خدا(ص) کی حکومت کے عہدہ داروں میں داخل ہوگئے .

یہ جذبہ یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت میں بھی مشاہدہ ہوتا ہے اس لیے کہ آپ نے بھی ( شنسب ) نامی شخص کو ہرات کے علاقہ کا گورنر مقرر فرمایا تھا، جو ایرانی اور غوری نسل سے تعلق رکھتا تھا۔(۲۱) خلیفہ دوم اور خلیفہ سوم نے بھی سلمان فارسی کو مدائن کا گورنر مقر کیا تھا، جس کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے ، ان سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن ، سنت ، اور سیرت سے عرب محوری یعنی عرب کو عجم پر فوقیت دینے کی نفی ہونا مسلم ہے اور پیغمبر اکرم ( ص) نے ارکان حکومت کے انتخاب کرنے میں کبھی بھی عرب لوگوں کو ایک انسانی قوت کا ماخذ اور ذریعہ ہونے کی حیثیت سے فوقیت کا درجہ نہیں دیاہے ۔

۲۔ جگہ اور مقام

مکہ اپنی تمام اہمیتوں کے باوجود کبھی بھی اسلامی حکومت کے لیے ایک فوقیت رکھنے والے مقام میں تبدیل نہیں ہوا، اس لیے کہ مکہ معظمہ کی قدر و قیمت وہاں پر بسنے والوں سے ہی مخصوص نہیں ہے ، وہ ایک عام مقام ہے اور سب مسلمانوں سے مربوط ہے

یہاں تک کہ جب مکہ فتح ہو گیا اور رسول اکرم(ص) اپنے اصلی وطن واپس پہونچے تب بھی آنحضرت نے اس کو دار الحکومت قرار نہیں دیا ، بلکہ واپس مدینہ تشریف لے گئے ، اسلامی حکومتوں کی تاریخ میں مکہ معظمہ کبھی بھی دار الحکومت نہیں ہوا ہے اسکی وجہ ہمارے لیے مجہول ہے ۔

ہاں مکہ معظمہ نہ فقط یہ کہ حکومت کا پائتخت نہیں ہوا بلکہ رسول اکرم(ص) کے اس عمل سے (شہر پرستی ) ( اور وطن پرستی ) کے رجحان کا بھی عملی طور پر خاتمہ ہو گیا رسول مقبول (ص) کے بہت سے اصحاب جو پے در پے اذیت و آزار کا نشانہ بنتے تھے جیسے بلال ، عمار ، صہیب ، سلمان ، اویس قرنی ، معاذبن جبل ، ابوذر غفاری ،مقداد ، عدی بن حاتم اور عبداللہ بن مسعود حقیقت میں مکہ کے رہنے والے نہیں تھے اور وزیروں میں بھی جو پہلے شمار کیئے ہیں چھ اشخاص غیرمکی ہیں اور اگر امام حسن (ع) و حسین (ع) کو شمار نہ کیا جائے تو مکی اور غیر مکی وزیروں کا پلہ برابر ہے ۔

اور سترہ گورنروں میں دس یمن کے، ایک مدینہ سے، اور چھ شخص مکی ہیں ،جن میں سے ایک شخص (عتاب بن اسید) ہے جو رسول اکرم (ص) کی جانب سے والی مکہ رہا ہے(۲۳) اس شخص کو اس لیے مکہ کا والی نہیں بنایا کہ وہ مکی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ مقامی ہے اور باقی پانچ شخص جو قریشی ہیں ان میں ایک (ابو سفیان) ہے جسے (مئولفة قلوبہم ) کے عنوان سے نجران پر نصب کیا ، (۲۳) یہ بھی مکہ کے عنوان سے نہیں اور باقی حضرات کو ان کی صلاحیت اور لیاقت کی وجہ سے نصب فرمایا، جبکہ مکی ہونے کو کوئی مداخلت نہیں تھی ۔

لہذا رسول اکرم (ص) کی حکومت میں وزیروں اور گورنروں نیز عہدہ داروں کی تعداد کے مطابق مکی ہونے کو کوئی برتری یا فوقیت حاصل نہیں تھی ، اب رہا یہ سوال کہ خصوصا(عثمان بن طلحہ بن شیبہ ) جو وراثت کے طور پر کلید بردار ہوتے تھے اور پیغمبرنے ان کو اسی منصب پر باقی رکھا(۲۴) تو وہ اس لیے نہیں کہ وہ مکہ کے رہنے والے تھے بلکہ امانت واپس لوٹانے کے عنوان سے ان کو اس منصب پر باقی رکھا کیونکہ یہ آیت نازل ہوئی کہ ( (ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا) (۲۵) خداوند عالم تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کو لوٹا دو ) ۔

گورنروں کے درمیان اہل یمن کا کثیر تعداد میں موجود ہونا اور ایک شخص (حذیفہ ) کا وزیروں میں شامل ہونا اس بات کی حکایت کرتاہے کہ مکی ہونے کو کوئی برتری یا فوقیت حاصل نہیں ہے 

ب۔ مدینہ یعنی دارالحکومت کی طرف رجحان

بمدینةالرسول (ص) ہجرت سے پہلے جس کانام (یثرب ) تھا اسلام اور اسلامی حکومت کا مرکزرہا ہے نیز یہ شہر بہت سے نیک اور پاک و پاکیزہ لوگوں کا مدفن ہے ،رسول اکرم (ص)نے اس شہر کو دار الحکومت بنانے کیلیے مکہ معظمہ کے اوپر بھی ترجیح دی یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد بھی دار الحکومت کو نہیں بدلا۔

لیکن کیا مدینہ کو کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ یعنی اہل مدینہ کیونکہ مدینہ میں رہتے ہیں اس وجہ سے انہیں کوئی امتیاز یا دوسرے لوگوں کے اوپر فوقیت حاصل ہے ، نیز دارالحکومت کی طرف رجحان جو رسول خدا (ص) کے زمانے میں مدینہ کی جانب رجحان کے عنوان سے ظاہر تھا ،کیا حکومت اسلامی میں اعضاء حکومت کے انتخاب کیلیے یہ کوئی معیار ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کا حواب بھی منفی ہے اس لیے کہ وزیروں کی فہرست میں جو دیکھا گیا ہے فقط ایک شخص مدنی ہے اور وہ (زیاد بن لبید انصاری ) ہیں ۔ اور ہل یمن حضرات جو نہ مکی ہیں اور نہ مدنی رسول خدا (ص) کی حکومت کے گورنروں میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے مہاجرین بھی جن میں مکی اور غیر مکی دونوں حضرات موجود تھے، حکومت کے منصبوں پر فائز تھے ۔

خلاصہ کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ : جگہ اور مقام معیار نہیں ہے یہاں تک مکہ مدینہ اوریمن بھی معیار نہیں ہو سکتا اور کسی حاکم اسلامی کو حق نہیں کہ کسی شخص کو اس وجہ سے کہ اس شہر کے رہنے والا ہے یا دارالحکومت میں مقیم ہے یا کسی مہم شہر یا صوبہ جیسے یمن میں مقیم ہے دوسرے پر فوقیت دے ۔

۳۔ قبیلہ (قریش وغیرہ)

قریش ایک قبیلہ کا نام ہے اس قبیلہ کے جد (نضربن کنانہ) اس قبیلہ کا نام اس لیے قریش رکھا گیا چونکہ یہ قبیلہ حرم( خانہ کعبہ) کے اطراف میں آباد ہو گیا تھا ۔

اموی ، علوی اور عباسی قبیلہ قریش سے ہیں رسول خدا محمد مصطفی (ص) بھی قریشی ہیں اور سب سے بڑا افقخار کسی شخص کے لیے یہ تھا کہ وہ اس قبیلہ کی کسی شاخ میں شمار یا اس سے منسوب ہوجائے ، یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ عرب معاشرہ ایک مورثی بیماری میں مبتلاء تھا اور وہ یہ کہ عرب معاشرہ گھرانہ، خاندان اور قبیلہ کے نام پرفخر کرتا تھا ، لہذا ای ممتاز قبیلہ (قریش ) کی برتری کیلیے زمینہ فراہم تھا۔

پیغمبر اکرم (ص) نے جو بذات خود قریشی تھے مذکورہ بیماری کو پہچان کر اس کے مزید خطرناک ہونے سے پہلے ہی اس کا علاج کیا اور ان سے پہلے خود قرآن مجید نے ، شعوب اور قبائل کو ایک دوسرے کی شناخت اور پہچان کا سبب قرار دیا یعنی ایک دوسرے پرفخر کا باعث قرار نہیں دیا : ( جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا)

رسول خدا (ص) نے جس وقت مکہ کو فتح کیا تو قریش کی بیماری سے روک تھام کے لیے بھر پور قدرت کے ساتھ ارشاد فرمایا ( یاایھا الناس ان اللہ قد ذھبت عنکم نخوة الجاھلیة و تفاخروھا بآبائھا الاوانکم من آدم وآدم من طین الا خیر عباداللہ عبدا تقاة ) (۲۷)

اور دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ( اشراف امتی حملة القرآن و اصحاب اللیل (۲۸)

میری قوم کے افضل اشخاص ، حاملان قرآن اور شب زندہ دار حضرات ہیں ۔ یا اس مقام پر جہاں کفار کے مقتول من جملہ ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ ، اور امیہ ، جو گڑھے میںپڑے تھے ، آنحضرت (ص) نے ا ن سے خطاب کے دوران ارشاد فرمایا:(دوسروں نے میری تصدیق کی ۔۔۔۔۔دوسروں نے مجھے پناہ دی اور دوسروں نے میری مدد کی ) (۲۹)

یہ دوسرے کون لوگ ہیں کہ اسقدر رسول خدا (ص) کے کلام میں باربار آرہا ہے ، یعنی غیر قریش کہ جو مہاجر ، انصار اور مکی مدنی سب ملے جلے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ اکثر قریش راستہ کے مانع پتھر تھے رسول اکرم(ص) اسقدر اہل بدر سے کلام کرتے ہیں ، البتہ بغض قریش نے بھی رسول اکرم کی مدد کی ہے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ سترہ گورنروں میں سے چھ شخص قریشی تھے ، اس طرح آنحضرت(ص) کے وزیروں میں بھی آٹھ شخص قریشی ہیں ۔پانچ شخص بنی ہاشم سے اور دوسرے تین شخص یعنی ابوبکر ، عمر ، اور مصعب ، قریش ، سے ہیں بنی قریش، قاضیوں اور دیگر ارکان حکومت کے درمیان میں موجو د تھے ۔ لیکن اس وجہ سے نہیں کہ وہ قریشی تھے ، بلکہ دیگر وجوہات ملحوظ نظر تھیں ۔

البتہ ایک روایت میں رسول اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : قدموا قریشا ولا تقدموھا و تعلموا من قریش ولا تعلموھا لولا ان تبطرقریش لاخبرتھا عنداللہ تعالی) (۳۰) نیز دوسری روایت میں امیرالمومنین سے وارد ہوا ہے : قدموا قریشا ولا تقدموھا ولولا ان تبطر قریش لاخبرتھا بمالھا عنداللہ تعالی) (۳۱) اور تیسری روایت میں آیا ہے : قدموا قریشا ولا تقدموھا و تعلموا ھا منھا ولا تعلموھا ) (۳۲) یہ روایت اہل سنت کے سلسلہ سند سے وارد ہوئی ہیں اور( شرح جامع صغری) میں مناوی کے بقول بعض لوگوں نے شافعی کے قول کو دوسروں پر مقدم کرنے کے لیے انہی روایات سے استناد کیا ہے (۳۳) اس لیے کہ شافعی ا پنا سلسلہ نسب (مطلب )تک پہنچاتے ہیں( یعنی ان کا نسب جناب عبد المطلب تک پہونچتا ہے جوقریشی ہیں) جو ہاشم کے فرزند ہیں اور قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے بھی بہت سے مجتہدین اس بارے میں کہ کوئی مطلب بنی ہاشم کے احکام میں داخل کریں تو اس میں شک کرتے ہیں ۔

کتاب (ذکری) میں آیا ہے کہ بعض فقیہ جیسے شیخ مفید رحمة اللہ علیہ شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ اور ان کے والد بزرگوار وغیرہ میت کی بحث میں ہاشمیوں کو فوقیت دی انکو انہی روایات سے استفادہ کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا ہے حالانکہ ہماری روایات میں ان روایات کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا (۳۴) ہم کہیں گے پہلی بات تو یہ کہ یہ روایتیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں ، اس لیے کہ شیعہ سلسلہ سند میں ان کی کوئی سند نہیں ہے ۔ دوسرے : یہ کہ اگر اسی اہلسنت کے سلسلہ سند سے ان روایات کو قبول کر بھی لیں تو پیغمبر اکرم (ص) کی جانب سے حذیفہ یمانی کو جو قریشی نہیں ہیں ایک نماز میں مقدم کرنے سے یہ روایات نقض ہو جاتی ہیں ، جبکہ ان ( حذیفہ یمانی ) کے پیچھے نماز پڑھنے والے مامومین قریشی تھے ، یعنی پیغمبر اکرم (ص) نے ان کو قریشیوں کا امام قرار دیا اور ان پر مقدم کیا ، لہذا بعض حضرات جیسے (عیاض ) اس تناقض کو حل کرنے کے لیے جلدی سے یہ توجیہ پیش کردیتے ہیں کہ قریش کو غیر قریش پر مقدم کرنے سے مراد خلافت و حکومت میں مقدم کرنا ہے نہ کہ نماز جماعت یا نماز میت میں مقدم کرنا(۳۵) تیسرے یہ کہ اگر قریش کو مقدم ہونا چاہیے تو فقط بنی ہاشم مراد ہیں کہ اس بات کو ہم بھی قبول کرتے ہیں ، چونکہ قریش نے رسول خدا (ص) کو اذیت دی انہیں مکہ سے باہر نکال دیا ان کے ساتھ جنگ کی ، پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں مقدم کیا جائے وہ سب کے معلم ہو جائیں اور کوئی دوسرا انکا معلم نہ ہوسکے ؟

چوتھے : اگر ان سب سے چشم پوشی کر لیں تب بھی ان روایات کی دلالت رسول خدا(ص) کے قول سے ٹکرارہی ہے یعنی حدیث رسول (ص) کے مد مقابل قرار پارہی ہے ، جیسا کہ آنحضرت (ص) ارشاد فرماتے ہیں:لا حسب لقرشی ولا عربی الابالتواضع۔ نیز سورة حجرات کی تیرہویں آیت سے اور مکہ میں پیغمبر اکرم (ص) کے خطبہ ( جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ) سے تعارض رکھتی ہیں ۔

کلی طور پر اس قسم کی روایات قریش کی فوقیت کو ثابت کرنے سے عاجز ہیں مگر بنی ہاشم کیلے(یعنی فقط بنی ہاشم کے مقدم کرنے کو ثابت کرتی ہیں ۔ اب رہیں وہ روایات جو ہماری فقہی کتابوں میں حیض کی بحث میں وارد ہوئی ہیں کہ قریشی خواتین دس سال دیر سے یائسہ ہوتی ہیں ( ۳۶) تو یہ ایک تکوینی اورتعبدی امر ہے اور بعید ہے کہ کوئی شخص اس بات کو قریش کے لیے امتیاز شمار کرے ۔اس لیے کہ اس صورت میں اس کو نبطیہ خواتین کے لیے بھی امتیاز کا قائل ہونا ہوگا ، چونکہ نبطیہ خواتین روایات میں قریشی خواتین کے برابر ہیں ۔

شیخ مفید کتاب مقنع میں کہتے ہیں : ( قدر وی ان القرشیہ من النساء والنبطیہ تریان الدم الی ستین سنة ) (۳۷) جبکہ نبطیہ کے بارے میں شک و تردید پائی جاتی ہے کہ وہ عرب ہیں جو عجمی ہوگئے یا عجمی ہیں جو عرب ہوگئے ۳۸ اگر چہ ابن عباس سے منقول ہے کہ (نحن معاشر قریش حتی من النبط)( ۳۹) لیکن واضح نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں نبطی نسل کی کوئی شناخت نہیں ہے اور قبیلہ قریش سے بھی بنی ہاشم کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہیں ، اگر چہ صاحب جواہر موجودہ زمانے میں قریش کے معروف قبیلہ کے نام شمار کرتے ہیں (۴۰) جو ہمارے لیے شناختہ شدہ نہیں ہے ۔

لہذا نہ اہل سنت کی ان روایات میں اور نہ قریشی خواتین کے یائسہ ہونے کے مسئلہ میں کوئی طریقہ، قریش کی برتری کا نظر نہیں آتانیز اس طرح کے امور قریش کو فوقیت دینے پر قادر نہیں ہیں اور قریش کو محور قرار دینا قرآن و سنت کی رو سے مناسب نہیں ہے ۔

لیکن جو چیز ہماری اس بحث کے لئے مفید ہے وہ یہ ہے کہ کنبہ پروری جو خصوصاً رسول خدا کے بارے میں قریش کی جانب مائل ہونے کی شکل میں ظاہر تھا ایک منفی معیار ہے،یعنی ایک اسلامی حاکم یا مدیر ارکان کے انتخاب میں اپنے قبیلہ و خاندان کو فوقیت دینے کے عنوان سے مد نظر قرار نہیں دے سکتا ،البتہ صدر اسلام میں قبیلوں اور خاندانوں کی تشخیص بہت آسان تھی اس لئے کہ قبائلی نظام اس قدر دقیق طور پر حاکم تھا کہ قرآن کے مطابق قبیلوں کے تعارف اور شناخت کا باعث تھا ،(۴۱) اور ہر شخص اس کے قبیلہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور امام جعفر صادق (علیه السلام) سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ قبیلہ میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو باپ دادا کی طرف منسوب ہوں ،(۴۲) ہمارے زمانے میں اس قسم کی نسبت ایک خاندان یا ایک نسل میں پایا جانا ممکن ہے یا جو کچھ آل کے نام سے مشہور ہے بالکل اس کے مشابہ جو خلیج فارس کے ممالک میں رائج ہے جیسے آل سعود ،آل نھیان ،آل صباح و ․․․اگر چہ قرآنی اصطلاح کے مطابق آل ابراہیم اور آل عمران کا مفہوم اور مطلب اس سے زیادہ وسیع ہے ، اس لئے کہ آل ابراہیم بنی اسحاق اور بنی اسماعیل میں تقسیم ہو جاتے ہیں جن میں سے پہلی قسم بنی اسحاق یہودیوں اور دوسری قسم بنی اسماعیل ،عرب کو تشکیل دیتی ہے ،(۴۳) ۔لہذا ”آل“ یہاں تک نسل سے بھی وسیع معنی اختیار کر لیتی ہے ،البتہ ہمارے زمانے میں آل کے جو معنی سمجھے جاتے ہیں وہ بہت ہی محدود ہیں اور شاید اس کا بہترین ترجمان لفظ خاندان یا کنبہ ہو ورنہ قبیلہ کا کوئی مصداق ہمیں نہیں ملے گا ۔

اس بنیاد پر جب رسول خدا کے زمانے میں قریش کی محوریت اورخاندان اور کنبہ پروری کا عنصر ختم ہو گیا تو ہر زمانے کے لئے مناسب معیار حاصل ہو جاتا ہے یعنی خاندان پرستی ممنوع اور کنبہ پروری ناقابل قبول ہے ،دوسرے الفاظ میں ،خاندان اور قبیلہ کو کار کنیت کے عنوان سے دوسروں کے اوپر کوئی کسی قسم کی فوقیت نہیں ہے ۔

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-qformat:yes; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt; mso-para-margin:0in; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:11.0pt; font-family:"Calibri","sans-serif"; mso-ascii-font-family:Calibri; mso-ascii-theme-font:minor-latin; mso-fareast-font-family:"Times New Roman"; mso-fareast-theme-font:minor-fareast; mso-hansi-font-family:Calibri; mso-hansi-theme-font:minor-latin; mso-bidi-font-family:Arial; mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}

مآخذ:

۱۔ حسن ستاری، مدیریت منابع انسانی،ص۹۱۔

۲۔حجرات(49) آیہ13.۔

۳۔ بحارالانوار،ج76،ص350.

۴۔مرتضی مطہری،خدمات متقابل اسلام و ایران،ص288 289.

۵۔گذشتہ حوالہ،ص406.

۶۔گذشتہ حوالہ،ص412.

۷۔ تراتیب الاداریہ،ج1،ص17.

۸۔ گذشتہ حوالہ،ج1،ص17.

۹۔سیرہ ابن ہشام،ج2،ص333.

۱۰۔ صحاح ستہ.

۱۱۔ فروغ ابدیت،ص360 و 126.

۱۲۔ شیخ عباس قمی،منتہ الآمال.

۱۳۔بحارالانوار،ج20،ص389، طبقات کبری،ج1،ص260، تاریخ طبری،ج2،ص295، کامل ابن اثیر،ج2،ص81، فروغ ابدیت،ج2،ص218.

۱۴۔سیرہ حلبی،ج3،ص279، طبقات کبری،ج1،ص259، فروغ ابدیت،ج2،ص229.

۱۵۔طبقات کبری،ج1،ص259، سیرہ حلبی،ج2،ص277، بحارالانوار،ج20،ص379.

۱۶۔ گذشتہ حوالہ،ج2،ص235.

۱۷۔ گذشتہ حوالہ،ج2،ص222.

۱۸۔ فروغ ابدیت،ج2،ص222

۱۹۔ گذشتہ حوالہ،ص220.

۲۰۔ گذشتہ حوالہ،ص222.

۲۱۔ مرتضی مطہری،خدمات متقابل اسلام و ایران،ج2،ص393.

۲۲۔ جعفر سبحانی،فروغ ابدیت،ص352.

۲۳۔ اسد الغابہ.

۲۴۔ فروغ ابدیت،ص338.

۲۵۔ نسا(4) آیہ58.

۲۶۔حجرات(49) آیہ13.

۲۷۔ جعفر سبحانی ،گذشتہ حوالہ،ج2،ص472 473.

۲۸۔بحارالانوار.

۲۹۔ فروغ ابدیت،ص512، سیرہ ابن ہشام،ج1،ص639، صحیح بخاری،ص98، بحارالانوار،ج19،ص346.

۳۰۔ حدائق،ج10،ص396، سیوطی،جامع صغیر،ج2،ص85.

۳۱۔گذشتہ حوالہ.

۳۲۔گذشتہ حوالہ و کنزالعمال،ج6،ص195.

۳۳۔سیوطی،شرح جامع صغیر،ج4،ص512 ، حدائق سے منقول ،ج10،ص395.

۳۴۔حدائق،ج1،ص395، جواہر،ج13،ص353.

۳۵۔حدائق،ج10،ص395، سیوطی،شرح جامع(مناوی)،ج4،ص512.

۳۶۔جواہرالکلام،ج3،ص161.

۳۷۔وسائل الشیعہ،باب31 من ابواب الحیض،ح9.

۳۸۔ جواہرالکلام،ج3،ص161.

۳۹۔ جواہر الکلام

۴۰. گذشتہ حوالہ.

۴۱۔سورہ حجرات(49) آیہ13.

۴۲۔منہج الصادقین،ج8،ص429.

۴۳۔وسائل الشیعہ،ج4،باب39، جواہرالکلام،ج21،ص215 216.

 

 

 


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment