اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کربلا ہے اِک آفتاب اور اُس کي تنويريں بہت!

محرم سے متعلق دو قسم کي باتيں کي جا سکتي ہيں جن ميں سے ايک خود واقعہ کربلا سے متعلق ہے- اگرچہ کہ ہمارے بزرگ علما نے فلسفہ قيام امام حسين (ع) کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اور بہت ہي قيمتي مطا لب اِس ضمن ميں موجود ہيں ليکن اِس درخشاں حقيقت کي عظمتيں بيان کرنے کيلئے ايک طويل عمر بھي نا کا في ہے- ہم واقعہ کربلا اور قيام امام حسين (ع)  کے متعلق جتنا بھي غوروفکر کريں،  متوجہ ہوں گے کہ يہ واقعہ مختلف جہات سے جذابيت،  فکري وسعت کا حامل اور بيان کيے جانے کے قابل ہے- ہم جتني بھي فکر کريں گے تو ممکن ہے کہ اِس واقعہ کے نئے پہلووں،  زاويوں اورحقائق کو ہمارے سامنے آئيں- يہ وہ چيز ہے کہ جو پورے سال بيان کي جاتي ہے ليکن ماہ محرم کي اپني ايک الگ خاص بات ہے اور ايام محرم ميں اِسے زيادہ بيان کيا جانا چاہيے اور کيا جاتا ہے اور ان شائ اللہ بيان کيا جاتا رہے گا-

مکتب تشيع کا ايک وجہ امتياز،  کربلا

واقعہ کربلا کا ايک پہلو جو ماہ محرم کي مناسبت سے قابل بحث ہے اور اِس بارے ميں بہت کم گفتگو کي جاتي ہے،  وہ امام حسين (ع) کي عزاداري اور واقعہ کربلا کو زندہ رکھنے کي برکتوں سے متعلق ہے- حقيقت تو يہ ہے کہ دوسرے مسلمان مکا تب فکر کي بہ نسبت شيعہ مکتبہ فکرکا ايک امتياز اُس کا واقعہ کربلا سے متصل ہونا ہے- جس زمانے سے حضرت امام حسين (ع) کے مصائب کا تذکرہ شروع ہوا تواُسي وقت سے اہل بيت کے محبوں اور چاہنے والوں کے اذہان ميں فيض و برکت اور معنويت کے چشمے جاري ہوئے اور آج تک جاري ہيں اور يونہي جاري رہيں گے-

زندگي ميں پيار و محبت اور مہرباني کا کردار

واقعہ کربلا کا تذکرہ کرنا صرف ايک تاريخي واقعہ کو دہرانا نہيں ہے بلکہ يہ ايک ايسا واقعہ ہے کہ جو بے شمار ابعادوجہات کا حامل ہے- پس اِس واقعہ کا تذکرہ درحقيقت ايسا مقولہ ہے جو بہت سي برکتوں کا باعث ہوسکتا ہے لہٰذا آپ ديکھتے ہيں کہ آئمہ طاہرين کے زمانے ميں امام حسين (ع) پر گريہ کرنا اور دوسروں کو رُلانا ايک خاص اہميت و مقام کا حامل تھا- مبادا کوئي يہ خيال کرے کہ عقل و منطق اور استدلال کي روشني ميں گريہ کرنا اور اِس قسم کي دوسري بحثيں سب قديمي اور پراني ہيں! نہيں،  يہ غلط خيال ہے - ہمدردي کے احساسات کي اہميت اپني جگہ اور منطق و استدلال کي افاديت اپني جگہ اورانساني شخصيت کي تعمير اور ايک اسلامي معاشرے کے قيام ميں دونوںخاص کردارکے حامل ہيں- بہت سے ايسے مسائل ہيں کہ جنہيں پيار ومحبت اور ميٹھي زبان سے ہي حل کيا جا سکتا ہے اور عقل ومنطق اور استدلال اِن احساسات کي جگہ نہيں لے سکتے-

اگر آپ انبيا کي تحريکوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ جب انبيا مبعوث ہوتے تھے تو پہلے مرحلے پر اُن کے گرد جمع ہونے والے افراد استدلال و برہان کي وجہ سے اُن کے پاس نہيں آتے تھے- آپ پيغمبر اکرم (ص)  کو سيرت کے ملاحظہ کيجئے تو آپ کو کہيں نظر نہيں آئے گا کہ آنحضرت (ص) نے قابليت و استعداد رکھنے والے کفار کو اپنے سامنے بٹھا کر دليل و برہان سے بات کي ہو کہ يہ خدا کے وجود کي دليل ہے يا اِس دليل کي روشني ميں خدا،  واحد ہے يا اِس عقلي دليل کي بنياد پر تم جن بتوں کي پرستش کرتے ہو وہ باطل ہے !دليل و برہان کو وہاں استعمال کيا جاتا ہے کہ جب کوئي تحريک زور پکڑ جاتي ہے جبکہ پہلے مرحلے پر تحريک،  ہمدردي کے جذبات و احساسات اور پيار و محبت کي زبان کے ہمراہ ہوتي ہے- پہلے مرحلے پر اُن کے سوئے ہوئے ضميروں کو بيدار کرنے کيلئے کہا جاتا ہے کہ ’’اِن بتوں کو ديکھو کہ يہ کتنے ناتوان اور عاجز ہيں‘‘- پيغمبر اکرم (ص)  اپني دعوت کے پہلے مرحلے پر فرماتے ہيں کہ ’’ديکھو! خداوند متعال،  واحد ہے‘‘، ’’ قُولُوا لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ تُفلِحُوا‘‘؛ ’’کہوکہ نہيں ہے کوئي معبود سوائے اللہ کے اور فلاح پاجاو‘‘- ’’لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ‘‘ کہنا کس دليل کي بنا پر’’ تُفلِحُوا‘‘ (نجات پانے) کا باعث بنتا ہے ؟ حضرت ختمي مرتبت (ص) نے يہاں اِس بات کوکيلئے کون سي عقلي اور فلسفي دليل پيش کي؟ البتہ ہر احساس ميں کہ جو سچا اور صادق ہو،  ايک فلسفي دليل پوشيدہ ہوتي ہے-

ہم يہاں اِس پر بحث کررہے ہيں کہ جب کوئي نبي اپني دعوت کا اعلان کرتا ہے تووہ خدا کي طرف عقلي اور فلسفي دليل وبرہان سے لوگوں کو دعوت نہيں ديتا بلکہ احساسات اور پيار و محبت کي زبان استعمال کرتا ہے البتہ يہ بات ضرور ہے کہ يہ سچے احساسات،  غلط اور بے منطق نہيں ہوتے اور اِن ميں استدلال و برہان پوشيدہ ہوتے ہيں- نبي پہلے مرحلے پر معاشرے ميں موجودلوگوں پر ظلم و ستم ،  طبقاتي نظام اور لوگوں پر جنّ وبشر اور شياطينِ اِنس کے خودساختہ خداوں ’’اَندَادُ اللّٰہ‘‘ کے دباو کواپنا ہدف بناتا ہے ؛يہ ہے احساسات اور مہرباني کي زبان- ليکن جب کوئي تحريک اپني راہ پر چل پڑتي ہے تو اُس کے بعد منطقي استدلال و برہان کي نوبت آتي ہے ،  يعني وہ افراد جو عقل و خِرد اور فکري پيشرفت کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ ترين دليل و برہان تک پہنچ جا تے ہيں ليکن بعض افراد ابتدائي مراحل ميں ہي پھنسے رہ جاتے ہيں-

ليکن يہ بھي نہيں معلوم کہ جو دليل و برہان کے اعليٰ درجات کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ معنوي درجات بھي رکھتے ہيں يا نہيں؟ نہيں! کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ چھوٹي اور ابتدائي سطح کے استدلال رکھنے والے افراد ميں مہرباني اور ہمدردي کے احساسات زيادہ ہوتے ہيں،  عالم غيب سے اُن کا رابطہ زيادہ مستحکم ہوتا ہے اور رسول اکرم (ص)  سے اُن کي محبت کا دريا زيادہ موجيں مارتا ہے اور يہي لوگ ہيں جو عالي و بلند درجات تک پہنچتے ہيں-


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment