اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

مسجد کی تزئین و آرائش

مسلمان اپنی اللہ سے محبت کو مساجد کی تزئین سے نمایاں کرتے ہیں۔ صدیوں سے مساجد قرآنی آیات اور دیگر نقاشی کا شاہکار بنتی رہی ہیں۔ چونکہ اسلام زندہ اشیاء کی تصاویر بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اس لیے مساجد کی آرائش کے دیگر طریقے اختیار کیے گئے۔ مساجد پر نقاشی کے لیے گاڑھے رنگ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں فیروزی، گہرا نیلا، سنہرا اور سرخ رنگ زیادہ ملتے ہیں۔ 

سابقہ مسجد ایا صوفیہ، استنبول، ترکی کے گنبد کا اندرونی حصہ

مساجد میں قرآنی آیات کی خطاطی اور نقاشی درج ذیل صورتوں میں ملتی ہے:

1. بیرونی دروازے پر، جو عموماً بہت بڑا ہوتا ہے اور اس کے ارد گرد

2. گنبد اور چھت کے اندرونی حصوں پر 

3. مسجد کی اندرونی دیواروں پر (عموماً) قرآنی آیات 

4. محراب و منبر کے نزدیک 

5. گنبدوں اور میناروں کے باہر کی طرف 

مساجد میں مثلاً برصغیر میں مغلوں کی تعمیر کردہ مساجد، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا میں منگولوں اور صفویوں کی تعمیر کردہ مساجد ، مراکش، تیونس، مصر وغیرہ میں تعمیر کردہ مساجد اور عراق اور دیگر عرب علاقوں کی مساجد سب ہی کے نقش و نگار ایسے ہیں جو صدیوں سے آب و تاب سے قائم ہیں۔

صحراء کی گرم ریتلی ہوا یا بارش ان رنگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ بگاڑا تو حملہ آور افواج نے خصوصاً صلیبی افواج نے۔ جدید دور میں 1993ء کے لگ بھگ بوسنیا میں سینکڑوں خوبصورت مساجد کو تباہ کیا گیا جن میں سے کئی فنِ تعمیر کا شاہکار تھیں مگر اتنی قدیم مساجد کی تباہی پر مغربی اداروں نے ذرہ برابر بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ حالانکہ یہی اقوام افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی پر بہت سیخ پا ہوئی تھیں۔ ترکی کی کئی مساجد کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے مثلاً سابقہ مسجد ایا صوفیہ کی یہاں جو تصویر دی گئی ہے اس میں بظاہر گنبد کی تعمیرِ نو کی جا رہی ہے مگر حقیقت میں اس میں سے مسلمانوں کے نقاشی اور خطاطی کو ہٹا کر اس کے نیچے پرانے آثار تلاش کیے جا رہے ہیں (مثلاً انجیل سے متعلقہ مصوری) کیونکہ ترکی میں اسلام پھیلنے سے پہلے یہ ایک کلیسا تھی۔ وسطی ایشیا کی بہت سی مساجد روسی قبضہ کے دوران بند کی گئیں اور دنیا نے ان مساجد کو اس وقت آثارِ قدیمہ کا درجہ بھی نہیں دیا اس لیے وہ تباہ ہو گئیں۔ اب ان کی حفاظت پر کچھ کام ہو رہا ہے۔ جدید مساجد پر ایسی خطاطی، نقاشی اور محنت نہیں ملتی۔

مساجد کو استعمال کرنے کے آداب

مسلمانوں کے نزدیک مسجد میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق غیر مسلمین پر بھی ہوتا ہے جو مسجد میں داخل ہوں۔

طہارت

اسلام میں طہارت کی بہت اہمیت ہے اور ایک حدیث کے مطابق یہ نصف ایمان ہے اس لیے مسجد میں آنے کے لیے پاک و صاف ہونا شرط ہے البتہ وضو آپ مسجد میں بھی آ کر کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے اکثر مکاتبِ فکر میں مساجد میں حالتِ جنابت میں ٹھہرنا جائز نہیں اور مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں ایسی حالت میں داخلہ بھی جائز نہیں۔ لباس کے ساتھ ساتھ جسم بھی پاک ہونا چاہئیے۔ ذہن کی طہارت بھی اپنے بس کے مطابق ضروری ہے یعنی برے خیالات سے پرہیز کرنا چاہئیے.

تہذیب و شائستگی

مسلمان مسجد کو اللہ کا گھر سمجھتے ہیں چاہے اس کا تعلق مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ سے ہو۔ مسجد میں خاموشی اور تہذیب و شائستگی کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ نماز اور قرآن پڑھنے والے تنگ نہ ہوں۔ مساجد میں لڑائی جھگڑا کرنا یا بلا ضرورت دنیاوی باتوں سے بھی پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ اجتماعی معاملات پر بحث کی جا سکتی ہے۔ مسجد میں دوڑنا یا زور سے قدم رکھنا اور اونچی آواز میں بات کرنا تہذیب و شائستگی کے خلاف ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ایسا کام کرنا جس سے نمازی تنگ ہوں، اچھا نہیں سمجھا جاتا مثلاً پیاز، لہسن، مولی یا کوئی اور بو دار چیز کھا کر جانے سے بھی منع کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں احادیث مبارکہ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔

لباس

مسجد میں صاف ستھرا لباس پہن کر آنا چاہئیے۔ خواتین ایسا لباس پہن کر آئیں جس سے وہ با پردہ ہوں۔ اسی طرح مرد مناسب لباس پہن کر آئیں۔ عموماً مسلمان علاقائی لباس کے علاوہ عربی لباس بھی پہننا اچھا اور ثواب سمجھتے ہیں مگر اسلام میں لباس پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے مگر لباس اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو۔

مرد و زن مسجد میں

ابتدائے اسلام سے مردوں اور عورتوں دونوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے مگر ان کو علیحدہ علیحدہ جگہ دی جاتی ہے۔ شرعِ اسلام کے مطابق نماز کے دوران عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوتی ہیں تاکہ مردوں کی نظر عورتوں پر نہ پڑے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں مرد و زن دونوں مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اگرچہ عورتوں کے احترام اور حفاظت کے لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گھر ہی میں نماز ادا کریں۔ آج کل اکثر مساجد میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ بنی ہوتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں عورتوں کے مسجد میں آنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ ہندوستانی معاشرت سے ہے۔ عرب ممالک میں اور جدید مغربی مساجد میں عورتیں مساجد میں آتی ہیں، نماز پڑھتی ہیں اور مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment